• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جاوید چوہدری کو کون سمجائے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
غلام جیلانی برق صاحب کی دو اسلام کا جواب مسعود احمد بی ایس سی بہت خوب دیا
تفہم اسلام بجواب دو اسلام کتاب کا نام شائد یہی ہے
سنا ہے برق صاحب بعد میں تائب ہو گئے تھے

یہ فتنہ انکار حدیث پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے جاوید چوہدری کی جانب سے اللہ اس فتنے سے سب کو بچائے آمین
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تفہم اسلام بجواب دو اسلام کتاب کا نام شائد یہی ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ ،مذکورہ کتاب فورم پر یونی کوڈ میں موجود ہے۔
تفہیم اسلام بجواب ''دو اسلام''
یعنی
احادیث رسول ﷺ کے متعلق پیدا کردہ مغالطوں کا کامیاب ازالہ
از
مولانا مسعود احمد صاحب بی۔ ایس۔ سی (کراچی)
ناشر
اہل حدیث اکادمی۔ کشمیری بازار۔ لاہور
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جیلانی صاحب جیسے جتنے لوگ ہیں ، ان کا مغربی علوم و فنون پڑھ کے ہی افق وسیع کیوں ہوتا ہے ؟
عرفت ہواہ قبل ان اعرف الہوی
فصادف قلبا صافیا فتمکنا
مجھے تو لگتا ہے ، اسلامی علوم و فنون میں پختگی نہیں ہوتی ، جس کی وجہ سے ملاحدہ اور لادین لوگوں سے متاثر ہو جاتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
السلام علیکم
میں نے غلام جیلانی صاحب کو تو نہیں سنا البتہ اس بات میں کسی حد تک سچائی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے قرآن کریم کو صرف ثواب کے لئے پڑہنے تک محدود کردیا ہے اور قرآن کریم جس عمل کا تقاضا کرتا ہے مسلمان اس پر پورہ نہیں اترتے یہ آغاز 4 صدی ہجری سے ہوا اور اب تک جاری وساری ہے اور عملن مسلمانوں کی خلافت کا زوال بھی اسی صدی سے شروع ہوا۔۔۔ واللہ اعلم
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بے شک غلام جیلانی برق کی کتاب دو اسلام ایک گمراہ کن کتاب ہے لیکن جاوید چوہدری نے اس کتاب سے جو اقتباس نقل کیا ہے وہ درست ہے۔ مجھے کہیں بھی اس میں انکار حدیث کا شائبہ نظر نہیں آیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
آغاز ازالہ
اس مختصر تمہید کے بعد اب میں ڈاکٹر صاحب کی غلط فہمیوں کی طرف متوجہ ہوتاہوں ۔ڈاکٹر صاحب دواسلام کے دیباچہ میں تحریر فرماتے ہیں :یہ1918ء کاذکر ہے میں قبلہ والد صاحب کے ہمرا ہ امرتسر گیامیں ایک چھوٹے سے گاؤں کارہنے والا جہاں نہ بلند عمارات نہ مصفا سڑکیں نہ کاریں نہ بجلی کے قمقمے اور نہ اس وضع کی دکانیں دیکھ کر دنگ رہ گیا لاکھوں کے سامان سے سجی ہوئی دکانیں اور بورڈ پرکہیں رام بھیجا سنت رام لکھا ہے کہیں دنی چند اگروال ......ہال بازار کے اس سرے سے اس سرے تک کسی مسلمان کی کوئی دکان نظر نہیں آئی ہاں مسلمان ضرور نظر آئے کوئی بوجھ اٹھا رہاتھا کوئی گدھے لاد رہا تھا ۔۔غیرمسلم کاروں اور لفٹوں پہ جارہے تھے ،اور مسلمان اڑہائی من بوجھ کے نیچے دبا ہوا مشکل سے قدم اٹھارہا تھا ......''(دواسلام ص 13)
خلاصہ ا سکایہ ہے کہ ہندوؤں کے پاس مال ودولت کی فراوانی اور مسلمانوں کومفلوک الحال دیکھ کرڈاکٹر صاحب کو حیرت ہوئی کہ آخر اس کی کیاوجہ ہے ،دریافت کرنے پرمعلوم ہواکہ اس کاسبب مندرجہ ذیل احادیث ہے ۔''الدنیا جیفۃ و طلابھا کلاب '' یہ دنیاایک مردار ہے اور ا س کے متلاشی کتے ہیں (دواسلام ص 15) برق صاحب نے اس حدیث کامطلب بھی بعض ملاؤں سے دریافت کیالیکن تسلی نہیں ہوئی ،اور اس طرح احادیث کے متعلق ان کی غلط فہمیوں کاآغاز ہوا غلط فہمی سے برق صاحب کاسب سے زیادہ اعتراض اسی روایت پر ہے لہذا اس غلط فہمی کاازالہ تفصیل کے ساتھ درج ذیل ہے
جملہ معترضہ
برق صاحب نے صرف امرتسرہی کودیکھا ار کہیں وہ دہلی بمبئی کلکتہ حیدرآباد وغیرہ مشہور شہر دیکھتے توانہیں ہندوؤں کے دوش بدوش اور ان کے ہم پلہ مسلمانوں کی بھی دکانیں نظر آتیں بلکہ اگر وہ اس وقت پاکستان کے کسی بھی چھوٹے یابڑے شہر کودیکھیں تومسلمانوں کی لاتعداد پررونق دکانیں جگمگاتی نظر آئیں گی حالانکہ ان مسلمانوں کااسلام وہی اسلام ہے جوامرتسر کے ان مسلمانوں کاتھاجن کاذکر برق صاحب نے کیاہے۔
حق و باطل کا غلط معیار
قبل اس کے کہ میں حدیث مذکور کے صحیح مطلب کی وضاحت کروں بہتر سمجھتا ہوں کہ امرتسر میں ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ مشاہدہ کیا، اس سلسلہ میں انہیں قرآن مجید کی چند آیات کی سیر کراؤں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
فَخَرَ‌جَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِينَ يُرِ‌يدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُ‌ونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴿٧٩﴾ (القصص)
ایک دن قارون اپنے ساز و سامان اور کروفر کے ساتھ نکلا تو ان لوگوں نے جو دنیا کے طالب تھے کہا: اے کاش جو مال و اسباب قارون کو دیا گیا ہے ہمیں بھی ملتا۔ واقعی یہ بڑا خوش قسمت ہے۔
وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّـهِ خَيْرٌ‌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُ‌ونَ ﴿٨٠﴾ (القصص)
اور جو اہل علم تھے، انہوں نے کہا: تم پر افسوس ہے اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لئے جس نے ایمان قبول کیا اور نیک عمل کئے اور یہ چیز ان ہی کو ملتی ہے جو صابر ہیں۔
نتیجہ: اللہ تعالی نے ان لوگوں کا ذکر برائی کے ساتھ کیا جو دنیا کے طالب تھے اور ان لوگوں کو علماء کا خطاب دیا جن لوگوں نے اس کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔ بلکہ وہ صرف ایمان اور عمل صالح کے ثواب کے خواہاں رہے۔ آیت نمبر ۲ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ کا ثواب ان ہی لوگوں کے پیش نظر ہوتا ہے جو صابر و قانع ہوتے ہیں اور دنیا کے حریص نہیں ہوتے۔ بہرحال آیات مذکورہ سے ثابت ہوا کہ دنیا اچھی نہیں اور اس کے طالب بھی اچھے نہیں۔
فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِ‌هِ الْأَرْ‌ضَ ۔۔۔﴿٨١﴾ (القصص)
پھر ہم نے قارون کو مع اس کے محل کے زمین میں دھنسا دیا۔
وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللَّـهَ يَبْسُطُ الرِّ‌زْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ‌ ۖ لَوْلَا أَن مَّنَّ اللَّـهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا ۖ وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُ‌ونَ ﴿٨٢﴾(القصص)
پھر شام کو جو لوگ قارون کے مثل بننے کی تمنا کرتے تھے صبح کو کہنے لگے افسوس یہ رزق و ساماں کی فراوانی تو اللہ جس بندے کو چاہے دے دیتا ہے اور جس سے چاہے روک لیتا ہے، اگر اللہ کا احسان نہ ہوتا تو ہم بھی دھنسا دیئے جاتے، افسوس کہ کافروں کے لئے فلاح نہیں ہے۔
نتیجہ: دنیاوی مال و دولت کے حریص کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ دنیاوی مال و دولت اگر کسی کے پاس زیادہ ہو اور مومنین کے پاس اس کی قلت ہو تو یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالی اس مالدار سے خوش ہے۔ اور فقراءمومنین سے ناراض ہے۔ قارون بہت مالدار تھا۔ اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے اصحاب اس کے مقابلہ میں تنگ حال تھے۔ اور اللہ ان تنگ حال مسلمانوں ہی سے خوش تھا کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ضرور کوئی نہ کوئی خامی تھی جس نے انہیں اس درجہ پر پہنچایا تھا؟
برق صاحب امرتسر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مختلف حالات میں دیکھ کر آپ متعجب نہ ہوں، موسیٰ علیہ السلام اور قارون بھی ایسے ہی مختلف حالات میں تھے، اس میں حیرت و استعجاب کا کون سا مقام ہے؟
برق صاحب اب ذرا اوپر چلئے۔ نوح علیہ السلام اور ان کے صحابہ کرام کی حالت ملاحظہ فرمائیے:
فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَ‌اكَ إِلَّا بَشَرً‌ا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَ‌اكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَ‌اذِلُنَا بَادِيَ الرَّ‌أْيِ وَمَا نَرَ‌ىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ ﴿٢٧﴾(ھود)
کافروں کے سرداروں نے نوح علیہ السلام سے کہا: ہم تو تجھ کو اپنے ہی جیسا آدمی سمجھتے ہیں اور ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ تیرے متبعین صرف وہی لوگ ہیں جو ہم میں سب سے زیادہ رذیل اور کم عقل ہیں۔ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تم کو ہم پر کسی قسم کی فوقیت حاصل نہیں بس ہم تو یہی خیال کرتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو۔
نتیجہ: برق صاحب مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھ کر جو نتیجہ آپ نے نکالا ہے بالکل وہی نتیجہ سرداران قومِ نوح نے نکالا تھا، یہ کافر سردار تھے، صاحب فضل تھے اور نوح علیہ السلام کے صحابہ کرام فاقہ کش اور کافروں کی نگاہ میں بے عقل سمجھے جاتے تھے۔ لہٰذا کافروں نے ان کو ناحق سمجھا اور اپنے کو حق پر۔
خیر الامم کی حالت
برق صاحب اب ان مسلمانوں کی حالت ملاحظہ فرمایئے جو خلاصہ اُمم تھے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ ﴿٩٢﴾ (التوبہ)
جہا دمیں نہ جانے کا ان لوگوں پر کوئی گناہ نہیں جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ ان کو سواری دے دیں۔ آپ کہہ دیتے ہیں کہ میرے پاس تو کچھ نہیں جس پر تمہیں سوار کر سکو، وہ لوگ واپس ہو جاتے ہیں۔ اور اس غم سے کہ ان کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں، ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔
إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ وَهُمْ أَغْنِيَاءُ ۚ رَ‌ضُوا بِأَن يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطَبَعَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٩٣﴾
گناہ تو ان لوگوں پر ہے جو باوجود مالدار ہونے کے جہاد پر نہ جانے کی اجازت مانگتے ہیں، یہ اس پر راضی ہیں کہ زنان پس ماندہ کے ساتھ بیٹھے رہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے قلوب پر مہر لگا دی ہے۔ وہ کچھ نہیں سمجھتے۔
نتیجہ: نہ صحابہ کرام کے پاس خرچ کرنے کو مال تھا نہ اللہ کی زمین پر قائم ہونے والی سب سے بہتر حکومت کے پاس کچھ تھا کہ مسلمانوں کے لئے سامانِ جہاد مہیا کرتی، دنیا کی آنکھوں نے جس سے بہتر انسان نہ دیکھا ہو، وہ انسان، وہ مقدس ترین اللہ کا رسول اور مومن کامل یہ کہہ رہا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں، یہ کونسا اسلام تھا جس کے باعث وہ مقدس ترین انسان تنگ حال تھا؟ آج کل کے مسلمان تو حدیثی اسلام کی وجہ سے تنگ حال ہیں، مگر آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کے متعلق کیا کہا جائے، پورا عرب فتح ہو چکا ہے لیکن تنگ حالی موجود ہے، برخلاف اس کے منافق مالدار تھے، اور جہاد سے گریز کرتے تھے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ دنیاوی عیش و راحت کی فراوانی سے حق و باطل کا امتیاز نہیں ہوتا۔
ہر رسول کے زمانہ میں کافر خوش حال تھے
مندرجہ ذیل آیات کو ملاحظہ فرمایئے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَمَا أَرْ‌سَلْنَا فِي قَرْ‌يَةٍ مِّن نَّذِيرٍ‌ إِلَّا قَالَ مُتْرَ‌فُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْ‌سِلْتُم بِهِ كَافِرُ‌ونَ ﴿٣٤﴾ (سورہ سبا)
ہم نے جس بستی میں بھی کوئی نبی بھیجا تو اس بستی کے خوشحال لوگوں نے کہا کہ ہم تو اس چیز کے منکر ہیں جس کے ساتھ تم کو بھیجا گیا ہے
وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ‌ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ ﴿٣٥﴾ (سورہ سبا)
اور کہا کہ ہمارے پاس مال و اولاد کی کثرت ہے اور ہم کو عذاب نہیں دیا جائے گا۔
قُلْ إِنَّ رَ‌بِّي يَبْسُطُ الرِّ‌زْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ‌ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٦﴾ (سورہ سبا)
اے رسول کہہ دو کہ میرا رب جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
یہاں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا آیات میں مسلمانوں کی جو حالت بیان کی گئی ہے وہ ابتدائی دور کی ہے لیکن جب انہوں نے اللہ کے راستہ میں قدم رکھا اور صبر و استقامت کو ملحوظ رکھا تو پھر مالدار ہو گئے۔ یہ شبہ حقیقت پر مبنی نہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مسلمانوں کو مال و دولت کی فراوانی بخشی گئی پھر بھی یہ ثابت کرنا ناممکن ہے کہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے اصحاب میں سے ہر شخص کو اتنا ہی مال مل گیا تھا جتنا قارون کو، بلکہ مومن ہونے کی وجہ سے اور بھی زیادہ۔ یا رسول اللہ ﷺ اور ان کے اصحاب میں سے ہر شخص اتنا ہی مالدار ہو گیا تھا جتنا اس زمانہ کے یہودی تھے، یا اسلامی حکومت اسی جاہ و حشمت کی مالک ہو گئی تھی جو سلاطین روما اور ایران کے ہاں تھی۔ اگر یہ حقیقت تسلیم کر لی جائے کہ مومن کی آخرت بھی اچھی ہونی چاہیے تھی اور آپ کے پاس عیش و راحت، ساز و سامان کی اتنی فراوانی ہونی چاہیے تھی کہ کسی انسان کو اتنی میسر نہ ہوتی لیکن حقیقت اس کے خلاف ہے۔ آنحضرت ﷺ کی عسرت کا جو نقشہ آیت بالا میں کھینچا گیا ہے، یہ ابتدا کی بات نہیں ہے بلکہ اس زمانہ کی بات ہے جب پورا عرب فتح ہو چکا تھا اور اسلامی فوجیں حدودِ عرب کو عبور کر کے تبوک پر یلغار کر رہی تھیں اور آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ میں سے صرف ڈیڑھ سال باقی رہ گیا تھا۔ اب اگر کوئی شخص اس معیار پر کہ مسلمانوں کے پاس دنیاوی سامان کی کمی ہے، مسلمانوں کو گمراہ سمجھ بیٹھتا اور عہد رسالت ہی میں اس کا انتقال ہو جاتا تو بتایئے کیا آپ کہہ سکتے تھے کہ اس کا معیارِ حق و باطل صحیح تھا؟ ہرگز نہیں۔ نوح علیہ السلام کی قوم کی گمراہی کا ہی سبب اوپر بیان ہو چکا ہے لیکن کیا وہ قوم اس معاملہ میں حق بجانب تھی؟ ہر زمانہ میں مسلمانوں کی اکثریت کافروں کی طرح مالدار نہ ہو سکی۔ نہ یہ حدیث کو ماننے کا نتیجہ اس وقت تھا نہ اب ہے۔
دنیا کی مذمت اور قرآن:
کیونکہ برق صاحب کی غلط فہمی کی سب سے بڑی وجہ حدیث زیر بحث ہی ہے لہذا میں نے بھی قدرے تفصیل سے روشنی ڈال رہاہوں۔ حدیث کا اصل مطلب تو آگے بیان ہو گا۔ آیاتِ بالا سے اتنا تو ثابت ہو گیا کہ دنیا ایک بے حقیقت شے ہے۔ انبیاءکے پاس نہ ابتدائی دور میں اس کی فراوانی ہوئی، نہ آخری دور میں بلکہ بعض انبیاءتو ابتدائی دور ہی میں بے نیل مرام دنیا سے رُخصت ہو گئے اور بہت سے شہید بھی کر دیئے گئے اور اس پر قرآن شاہد ہے:
فَفَرِ‌يقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِ‌يقًا تَقْتُلُونَ ﴿٨٧﴾ (البقرۃ)
قارون کے قصہ میں اللہ تعالی نے دنیا کے طالبین کو اہل علم میں شمار نہیں کیا بلکہ دنیا کو حقیر سمجھنے والوں کے لئے اہل علم کا لقب استعمال کیا۔ اس سے کم از کم اتنا ضرور ثابت ہوا کہ دنیا اچھی چیز نہیں اس کی مزید برائی کے لئے چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
لَا يَغُرَّ‌نَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فِي الْبِلَادِ ﴿١٩٦﴾ مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴿١٩٧﴾(آل عمران)
شہروں میں کافروں کی آمد و رفت سے آپ دھوکہ میں نہ آجائیں یہ ساز و سامان بہت تھوڑا ہے پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
وَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ أَن يُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُ‌ونَ ﴿٨٥﴾ (التوبہ)
اور کافروں کے اموال اور کافروں کی اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالے بلکہ ان کے ذریعہ اللہ تعالی ان کو دنیاوی عذاب دینا چاہتا ہے اور یہ کہ ان کی جانیں ایسی حالت میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔
نتیجہ: شہروں میں کافروں کا تجارت کی غرض سے آنا جانا اور ان کی تاجرانہ چہل پہل ان کی فوجوں کا شہر در شہر مظاہرہ و جلوس۔ مال اور اولاد کی کثرت ایک بےحقیقت شے ہے اس سے دھوکہ نہ کھانا چاہیے۔ حق اور ہی چیز ہے جس کا معیار اس دنیا کی زیب و زینت نہیں۔
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَ‌ةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِ‌زْقُ رَ‌بِّكَ خَيْرٌ‌ وَأَبْقَىٰ ﴿١٣١﴾ (طہ)
کافروں کو جو مال ہم نے دے رکھا ہے، اس کو نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھو یہ محض دنیاوی جاہ و حشمت ہے تاکہ اس میں ان کی آزمائش کرے اور تمہارے رب کا رزق بہتر ہے اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔
نتیجہ: آیت سے ظاہر ہے کہ دنیا کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا بھی اللہ کو پسند نہیں۔ اگر یہ دنیا اچھی چیز ہوتی تو اللہ تعالی اس کی طمع سے کیوں روکتا اور مسلمان کیوں کافروں کے مقابلہ میں دنیا سے محروم ہوتے، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کی ایمانی قوت کی مناسبت سے ان کی دنیا بھی اتنی ہی اچھی ہونی چاہیے تھی کافروں کے مقابلہ میں پسماندہ تھے تو آج پسماندگی کا سبب حدیث کو قرار دینا کہاں تک صحیح ہے۔ اگر کوئی یہ کہہ دے کہ صحابہ کرام کی محرومی کا سبب قرآن تھا، جس نے ان کو دنیا کی طرف نظر اٹھانے کی بھی ممانعت کر رکھی تھی تو آخر اس الزام کا کیا جواب ہو گا کیا آپ انصاف سے کہہ سکتے ہیں کہ جو جواب قرآن کی طرف سے دیا جائے گا وہی جواب حدیث کی طرف سے نہیں دیا جا سکتا۔
جنگ اُحد میں مسلمانوں کی عارضی شکست کے اسباب بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا اصل سبب یہ تھا کہ تم دنیا کی طرف مائل ہو گئے۔ ارشادِ باری ہے:
وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّـهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ‌ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَ‌اكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِ‌يدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِ‌يدُ الْآخِرَ‌ةَ ۚ ثُمَّ صَرَ‌فَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ ۔۔۔۔ ﴿١٥٢﴾ (سورہ آل عمران )
اللہ تعالیٰ نے تو البتہ اپنا وعدہ سچا کر دکھایا کہ تم کافروں کو اس کے حکم سے قلع قمع کر رہے تھے اسی اثنا میں تم نے بددلی کا مظاہرہ کیا اور حکم کی تعمیل میں اختلاف کیا اور حسب دالخواہ فتح آجانے کے بعد نافرمانی کی ۔ بات یہ ہے کہ بعض تم میں سے دنیا کے طالب ہیں اور بعض تم میں آخرت کے طالب ہیں۔ پھر اللہ نے تم کو کافروں سے روک لیا تاکہ تم کو مبتلائے مصیبت کرے۔
۔۔۔۔فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ۔۔۔ (سورۃ آل عمران:۱۵۳)
پھر تم کو غم پر غم پہنچا
نتیجہ: آیت بالا میں دنیا کے طالبین کی کتنی سخت مذمت ہے۔ کیا اب بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی طلب اچھی چیز ہے۔ ازواج مطہرات کے متعلق ارشادِ باری ہے:
لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ (الاحزاب:32)
یعنی ہر عورت سے تمہارا مرتبہ بالا ہے۔
یہ آیت ازواجِ مطہرات کی فضیلت کے لئے نص قاطع ہے مگر یہ فضیلت ہے کس سبب سے؟ دینی شغل اور انہماک، تقوی اور پاکیزگی کی وجہ سے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسی نسبت سے ان کی دنیا بھی دنیا کی ہر عورت سے بہتر ہوتی لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ان کو دنیا ملتا تو کجا، دنیا کی طلب سے بھی روکا جا رہا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِ‌دْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّ‌حْكُنَّ سَرَ‌احًا جَمِيلًا ﴿٢٨﴾ (سورۃ الاحزاب)
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی بہار کی طالب ہو تو آؤ میں تم کو مال و متاع دے کر اچھی طرح سے رُخصت کر دوں۔
وَإِن كُنتُنَّ تُرِ‌دْنَ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ وَالدَّارَ‌ الْآخِرَ‌ةَ فَإِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿٢٩﴾ (سورۃ الاحزاب)
اور اگر تم کو اللہ تعالی اور اس کا رسول اور دارِ آخرت مطلوب ہے تو پھر تم میں سے نیک کرداروں کے لئے اللہ نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔
نتیجہ: دنیا اگر اچھی چیز ہوتی تو ازواجِ مطہرات کو اس سے کیوں روکا جاتا۔ ظاہر اور بالکل ظاہر ہے کہ دنیا میں کچھ نہ کچھ خرابی ضرور ہے کہ اللہ تعالی اس چیز کو ازاواجِ مطہرات کے لئے ناپسند فرماتا ہے اور ان سے صاف کہہ دیا جاتا ہے کہ یا تو دنیا لے لو اور رسول ﷺ سے علیحدہ ہو جاؤ یا اللہ ، رسول اور آخرت چاہیے تو پھر دنیا سے کوئی واسطہ نہ رکھو۔

برق صاحب حدیث ہی کو الزام نہ دیجیے، قرآن کو غور سے پڑھیے جو بات وہاں ہے وہی یہاں ہے۔ کیا یہ آیت اس بات کی ترجمانی نہیں کرتی کہ مسلمانوں کے لئے آخرت اور کافروں کے لئے دنیا۔ مسلمانوں کو آخرت کی طرف نظر رکھنی چاہیے اور دنیا کی طلب سے کنارہ کش ہو جانا چاہیے اللہ والوں کے لئے یہ جگہ عیش و راحت کی نہیں۔
مَن كَانَ يُرِ‌يدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ﴿١٥﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَ‌ةِ إِلَّا النَّارُ‌ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٦﴾ (سورہ ھود)
جو شخص دنیاوی زندگی اور اس کی عیش و راحت کا طالب ہے ہم ایسے لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں پورا پورا دے دیتے ہیں۔ اور ان کے لئے دنیا میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ ایسے لوگوں کے لئے آخرت میں کچھ نہیں سوائے آگ کے جو کچھ عمل انہوں نے کئے تھے وہ سب ناکارہ کر دیئے گئے اور جو کچھ وہ کرتے تھے وہ باطل تھا۔
مَن كَانَ يُرِ‌يدُ حَرْ‌ثَ الْآخِرَ‌ةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْ‌ثِهِ ۖ وَمَن كَانَ يُرِ‌يدُ حَرْ‌ثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِن نَّصِيبٍ ﴿٢٠﴾ (سورۃ الشوری)
جو شخص آخرت کی کھیتی کا طالب ہو ہم اس کو اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے اور جو دنیا کی کھیتی کا طالب ہو ہم اس کو اس میں سے دے دیں گے لیکن آخرت میں اس کا کچھ بھی حصہ نہیں۔
نتیجہ: آیات بالا سے ثابت ہوا کہ ہر شخص کے لئے دنیا کی طلب مذموم ہے برخلاف اس کے آخرت کی طلب محمود ہے۔ طالب دنیا کے لئے سوائے دوزخ کے کچھ بھی نہیں۔ پھر بھی اگر دنیا مردار نہیں تو اور کیا ہے۔ اور اس کا طالب کتا نہیں تو پھر کیا ہے۔ کہ آخرت میں اس کے لئے سوائے آگ کے کچھ نہیں۔ ایسا شخص تو کتے سے بھی بدتر ہے کہ آگ کی خاطر دنیا کی طلب میں لگا ہوا ہے جس کا نتیجہ سوائے دوزخ کے اور کچھ نہیں۔ کیا یہ آیتیں حدیث زیر بحث کی تائید نہیں کرتیں۔ کیا مسلمانوں کی زبوں حالی کی ذمہ دار یہ آیتیں تو نہیں؟ اگر نہیں تو حدیث نے کیا قصور کیا ہے؟
برق صاحب انصاف کیجیے
ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔
دنیا کسے کہتے ہیں؟
اب سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیاوی عیش و راحت کے سامان مومن کے لئے پیدا ہی نہیں کئے گئے تو پھر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان دنیاوی نعمتوں کا احسان کیوں جتایا ہے اور مال و دولت کو اپنا فضل کیوں قرار دیا ہے؟ یہ سوال صرف اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے دنیا کی صرف ایک قسم سمجھ رکھی ہے حالانکہ دنیا کی دو قسمیں ہیں۔ مومن کی دنیا اور کافر کی دُنیا۔ جہاں کہیں قرآن و حدیث میں لفظ دنیا کا لفظ آیا ہے اس سے کافر کی دنیا مراد ہے۔ قرآن نے کافر کی دنیا کی چند خصوصیات بیان کی ہیں جو مندرجہ ذیل آیات مبارکات میں ملاحظہ فرمایئے
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ‌ ۚ وَمَا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ ﴿٢٤﴾ (الجاثیۃ)
کافر کہتے ہیں بجز اس دنیا کی زندگی کے اور کوئی زندگی نہیں۔ ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہم کو صرف زمانہ کی گردش سے موت آتی ہے۔ اس کے متعلق ان کے پاس کوئی علم نہیں وہ محض گمان کرتے ہیں۔
نتیجہ: منکر قیامت کی دنیا حساب و کتاب سے بے خوفی کی دنیا ہے۔ اور جب حساب و کتاب نہیں تو پھر ڈر ہی کس بات کا؟ خوب مزے اڑاؤ۔ ایسے آدمی کی دنیا اس مصرع کا مصداق ہوتی ہے۔
؎ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
۔۔وَوَيْلٌ لِّلْكَافِرِ‌ينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَ‌ةِ ۔۔۔۔ ﴿٣﴾(سورۃ ابراہیم)
ان منکروں کے لئے بڑا سخت عذاب ہے جو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی سے محبت کرتے ہیں۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے:
بَلْ تُؤْثِرُ‌ونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿١٦﴾ وَالْآخِرَ‌ةُ خَيْرٌ‌ وَأَبْقَىٰ ﴿١٧﴾ (سورۃ الاعلی)
بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی۔
وَالَّذِينَ كَفَرُ‌وا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ‌ مَثْوًى لَّهُمْ ﴿١٢﴾ (سورۃ محمد)
اور کافر جو مزے اڑا رہے ہیں اور اس طرح کھا رہے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
نتیجہ: جانور ہر جگہ منہ مارتے ہیں۔ ان کو حلا ل و حرام کی کوئی تمیز نہیں ہوتی نہ حساب و کتاب کا خوف ہوتا ہے اور یہی حالت کافر کی ہے کہ وہ حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں کرتا جو کچھ مل جائے اور جس طرح مل جائے، سب ہضم کر لیتا ہے، آخرت سے بالکل بے خوف ہوتا ہے۔
وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ‌ الْآخِرَ‌ةُ خَيْرٌ‌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٣٢﴾ (سورۃ الانعام)
دنیا کی زندگی کچھ نہیں بجز لہو و لعب کے اور آخرت تو انہی کے لئے ہے جو پرہیزگاری کرتے ہیں۔ کیا اب بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گا۔
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ‌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ‌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ‌ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَ‌اهُ مُصْفَرًّ‌ا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَ‌ةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَ‌ةٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرِ‌ضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُ‌ورِ‌ ﴿٢٠﴾ (سورۃ الحدید)
جان لو کہ دنیاوی زندگی لہو و لعب، زینت اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال و اولاد میں کثرت کی خواہش کا نام ہے اس دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے پانی برسا، فصل اچھی ہوئی اور کسان اس کو دیکھ کر خوش ہوئے لیکن پھر خشک ہو کر زرد نظر آنے لگی اور پھر ریزہ ریزہ ہو گئی۔ اور آخرت میں سب عذاب اور مغفرت اور رضوان بھی ہے اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سرمایہ ہے۔
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ‌ ﴿١﴾ حَتَّىٰ زُرْ‌تُمُ الْمَقَابِرَ‌ ﴿٢﴾(سورۃ التکاثر)
زیادتی کی خواہش نے تم کو غافل رکھا یہاں تک کہ تم قبرستان پہنچ گئے۔
وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ ﴿١﴾ الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ ﴿٢﴾ يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ ﴿٣﴾ كَلَّا ۖ لَيُنبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ ﴿٤﴾(سورۃ ھمزہ)
ہر عیب کنندہ اور غیبت گو بندہ کی خرابی ہے جس نے مال کو جمع کیا اور گن گن کر رکھا وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ مال ہمیشہ رہے گا ہرگز نہیں بلکہ (ایک وقت آنے والا ہے جب) وہ دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔
وَاصْبِرْ‌ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَ‌بَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِ‌يدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِ‌يدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ۔۔۔۔ ﴿٢٨﴾(سورۃ الکہف)
اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ مقید رکھ جو صبح و شام اپنے رب کی عبادت کرتے رہتے ہیں اور اللہ کی رضا کے طالب ہیں۔ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیاوی زندگی کی زینت کی طلب میں تو ان سے کنارہ کشی کر لے۔
خلاصہ
مندرجہ بالا آیات سے واضح ہوا کہ قرآن کی اصطلاح میں دنیا کہتے ہیں لعب و لہو، نام و نمود، فخر و ریا، تکبر اور اِترانے کو، مال و دولت کی فراوانی کی حرص کو، مال جمع کرنے، ننانوے کے پھیر میں رہنے کو، مال کو اس طرح ہڑپ کر جانے کو جس طرح جانور ہڑپ کر جاتے ہیں۔ دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینے کو، بلکہ آخرت و حساب و کتاب کے انکار کو۔ حلا ل و حرام کی تمیز کے اُٹھ جانے کو۔ مال و دولت کے حصول میں اس قدر انہماک کو کہ اللہ اور اس کے احکام سے غفلت ہو جائے۔ اللہ والوں کو چھوڑ کر مال اور مالداروں کی طرف رغبت کرنے کو۔ فرائض کے ترک کو۔ وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ دنیا مردار نہیں تو اور کیا ہے۔ اور اس کے طالب کتے نہیں تو اور کیا ہیں۔ یہی وہ دنیا ہے جس کو حدیث میں مردار کہا گیا ہے اور اس کے طالب کو کتا۔ قرآن و حدیث کی اصطلاح ایک ہے، کاش برق صاحب دنیا کے اصطلاح معنوں پر جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں غور کرتے تو کبھی غلط فہمی نہ پیدا ہوتی۔ اس مشہور مصرع میں کس خوبی سے ان اصطلاحی معنوں کو ادا کیا گیا ہے:
؎ چیست دنیا؟ از خدا غافل بدن
یعنی دنیا کیا چیز ہے؟ دنیا نام ہے اللہ سے غافل ہونے کا۔ اور اگر اللہ سے غافل نہ ہو تو پھر یہ دنیا مومن کی دنیا ہے اور یہ اصطلاحی دنیا سے علیحدہ ایک چیز ہے۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو اس اصطلاحی دنیا سے علیحدہ رہنے کی بار بار تاکید فرماتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ‌ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُ‌ونَ ﴿٩﴾(سورۃ المنافقون)
اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تم کو اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دے اور جو ایسا کرے گا وہ آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔
إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ وَاللَّـهُ عِندَهُ أَجْرٌ‌ عَظِيمٌ ﴿١٥﴾(سورۃ التغابن)
اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش کی چیزیں ہیں اور اللہ کے پاس اجر عظیم ہے
یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ مال و اولاد کی حرص میں تم اللہ کو بھول جاؤ، اور اجر اعظیم سے محروم ہو جاؤ۔ پھر فرمایا:
وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿١٦﴾(سورۃ التغابن)
جو شخص نفسانی حرص و طمع سے محفوظ رہا پس ایسے ہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔
غرض یہ کہ مومن کی دنیا وہ ہے کہ نہ دنیا کی فراوانی اور اس کے حصول میں انہماک اس کو اللہ سے غافل کرتا ہے اورنہ وہ اس کی حرص میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ وہ دنیاوی ساز و سامان کو آزمائش کی چیزیں سمجھتا ہے اور ان کو اس ہی طریقہ سے استعمال کرتا ہے جس طریقہ سے اللہ نے حکم دیا ہے ایسے لوگوں کے متعلق ارشاد ہے:
رِ‌جَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَ‌ةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ‌ اللَّـهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ‌ ﴿٣٧﴾(سورۃ نور)

یہ ایسے لوگ ہیں کہ تجارت اور خرید و فروخت ان کو اللہ کے ذکر اور نماز ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتی وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس دن دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔
مندرجب بالا آیات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیا کا لفظ جہاں کہیں قرآن و حدیث میں آتا ہے وہاں اس سے مراد وہی دنیا ہوتی ہے جس میں پھنس کر انسان اللہ کو بھول جاتا ہے اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ایسی دنیا یقیناً مردار ہے اور اس کے طالب کا ٹھکانہ سوائے آگ کے اور کہیں نہیں۔
اب میں اس آیت کو پیش کرتا ہوں جو حدیث زیر بحث کے بالکل متوافق اور لفظاً مطابق ہے اور گویا حدیث مذکور اس ہی آیت کی تفسیر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴿١٧٥﴾ وَلَوْ شِئْنَا لَرَ‌فَعْنَاهُ بِهَا وَلَـٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْ‌ضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُ‌كْهُ يَلْهَث ۚ ۔۔۔﴿١٧٦﴾(سورۃ الاعراف:۱۷۶)

ان لوگوں کو اس شخص کا حال سنائیے جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں لیکن اس نے رُوگردانی کی اور شیطان کا اتباع کیا اور گمراہوں کی جماعت میں داخل ہو گیا اور اگر ہم چاہتے تو ان آیات کی بدولت اس کا مرتبہ بلند کر دیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی خواہش کی پیروی کی پس اس کی مثال کتے کے مانند ہے اگر اس پر بوجھ رکھا جائے تو ہانپے اور چھوڑ دیا جائے تو ہانپے۔
کتا ہر حال میں ہانپتا رہتا ہے۔ خواہ راحت ہو یا تکلیف اور کہیں کوئی کھانے کی چیز مل جائے تو پھر دوسرے کتے کی شرکت اس کو گوارا نہیں ہوتی چاہتا ہے کہ بلاشرکت غیرے میں ہی اس کو کھا جاؤں۔ اپنے ہم جنس کو دیکھ کر بھونکنے اور بھنبوڑنے لگتا ہے، جب انسان کی بھی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ احکام الٰہی کو چھوڑ کر اپنی خواہش پر چلتا ہے دنیا کی فراوانی ہو تو اور زیادہ ملنے کی حرص باقی۔ تنگ دستی ہو تو اس کی تڑپ موجود۔ چاہتا ہے کہ دنیا صرف میرے لئے ہو۔ تو اس کی یہ دنیا بمنزلہ مردار کے ہوتی ہے۔ اور وہ مثل کتے کے ہوتا ہے۔ اور یہ حدیث اس پر صادق آتی ہے کہ:
دنیا مردار ہے اور اس کے طالب کتے ہیں۔
نتیجہ: آیت بالا سے ثابت ہوا کہ احکام الٰہی کو چھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی کرنا ''دنیا'' ہے اور یہ دنیا ایسی ہی حرام ہے جیسے مردار اور اس کے چاہنے والے مثل کتوں کے ہیں۔
آخری گذارش:
غالبا اب حدیث کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آگیا ہو گا۔ ان تمام مباحث میں میں نے دنیا کے اصطلاحی معنوں کے لئے قرآن مجید کا حوالہ دیا ہے اب ان اصطلاحی معنوں کے ثبوت کے لئے حدیث کا حوالہ دے کر اس بحث کو ختم کرتا ہوں۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ایک دن آنحضرت ﷺ منبر پر بیٹھ گئے اور ہم لوگ آپ کے گرد بیٹھ گئے۔ آپ نے فرمایا: مجھے اپنے بعد جن باتوں کا تم پر خوف ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ تم پر دنیا کی زیبائش اور مال و دولت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ کیا اچھی چیز بھی برائی پیدا کرتی ہے؟ آنحضرت ﷺ خاموش ہو گئے۔ اس شخص سے کہا گیا کہ تجھے کیا ہو گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کلام کرتا ہے حالانکہ وہ تجھ سے کلام نہیں فرماتے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے پسینہ پوچھا اور فرمایا: سائل کہاں ہے؟ گویا آپ نے اس کے سوال کو پسند فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک اچھی چیز برائی پیدا نہیں کرتی مگر فصل ربیع ایسی گھاس بھی پیدا کرتی ہے جو مار ڈالتی ہے یا بیمار کر دیتی ہے مگر اس سبزی چرنے والے کو نقصان نہیں پہنچاتی جو چرے۔ پھر جب اس کے دونوں کوکھ بھر جائیں تو وہ سورج کے سامنے آجائے۔ پھر لید کرے اور پیشاب کرے اور اس کے بعد پھر چرنے لگے اور بےشک یہ مال ایک میٹھی سبزی ہے پس اس مسلمان کا مال کتنا اچھا ہے جو اپنے مال سے مسکین یتیم اور مسافر کو دیتا رہتا ہے اور بیشک جو شخص اس مال کو ناجائز طریقہ سے لے گا وہ اس جانور کی طرح ہے کہ کھائے اور سیر نہ ہو اور وہ مال اس پر قیامت کے دن گواہ ہو گا۔
حدیث بالا سے ثابت ہوا کہ دنیا سے مراد مسلم کی دنیا نہیں جس کو وہ حلال طریقہ سے حاصل کرتا ہے اس کا حریص نہیں ہوتا اور پھر اس کے خرچ کرنے میں بخل نہیں کرتا۔ ہاں دنیا سے مراد وہ دنیا ہے جس کو حرص اور طمع کے ساتھ ناجائز طریقہ سے حاصل کیا جائے۔ اور اللہ کے راستہ میں خرچ نہ کیا جائے۔ یہ ہے وہ دنیا جو مردار بے۔ اور بےشک اس کے طالب کتے ہیں۔ غرض یہ کہ حدیث میں خود اس بات کی وضاحت ہے کہ لفظ دنیا کا اطلاق کس دنیا پر ہوتا ہے۔ قرآن اور حدیث میں یہ لفظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوا ہے اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں کا سرچشمہ ایک ہے۔ کاش برق صاحب قرآن و حدیث کا عمیق مطالعہ فرماتے تو یہ غلط فہمی نہ ہوتی۔
برق صاحب تحریر فرماتے ہیں:
میں مسلسل چودہ برس تک حصول علم کے لئے مختلف علماء و صوفیہ کے ہاں رہا، دروس نظامی کی تکمیل کی۔ سینکڑوں واعظین کے وعظ سےنے۔ بیسیوں دینی کتابیں پڑھیں اور بالآخر مجھے یقین ہو گیا کہ اسلامی تعلیمات کا ماحصل یہ ہے''۔ (دو اسلام صفحہ ۱۵)
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم
میں نے غلام جیلانی صاحب کو تو نہیں سنا البتہ اس بات میں کسی حد تک سچائی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے قرآن کریم کو صرف ثواب کے لئے پڑہنے تک محدود کردیا ہے اور قرآن کریم جس عمل کا تقاضا کرتا ہے مسلمان اس پر پورہ نہیں اترتے یہ آغاز 4 صدی ہجری سے ہوا اور اب تک جاری وساری ہے اور عملن مسلمانوں کی خلافت کا زوال بھی اسی صدی سے شروع ہوا۔۔۔ واللہ اعلم
متفق
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top