حسن شبیر
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 18، 2013
- پیغامات
- 802
- ری ایکشن اسکور
- 1,834
- پوائنٹ
- 196
ملالہ ڈرامے پر زمین آسمان ایک کرنے والے کہاں ہیں؟
علی عمران شاہین کے قلم سے ایک ایسی واقعاتی تحریر جو دل دہلا دے
بھارت سے پیار کی باتیں کرنے والے ان کوکیا جواب دیں گے؟
اس کا نام سپنا اور عمر 7سال تھی.... ہنستی مسکراتی پیاری سی بچی .... جب ہندو اپنا مقدس تہوار دسہرہ منا رہے تھے، وہ اچانک لاپتہ ہو گئی۔ اس کے والدین نے تلاش شرع کر دی لیکن جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو پولیس کے ہاں مقدمہ درج کرا دیا۔ ان دنوں بھارت میں معصوم بچیوں کے حوالے سے کافی ہنگامہ تو پہلے سے ہی چل رہا تھا جس میں ایک اور اضافہ ہو گیا۔ حکومت پر دباﺅ بڑھا تو پولیس کی شامت آئی۔ یوں پولیس کئی ماہ تک دھکے کھاتی، ٹکریں مارتی رہی لیکن بچی کا پتہ نہ لگنا تھا، سو نہ لگا۔
20 مئی کو بھارت کے ضلع ایوت محل کا وہ گاﺅں جس کا نام چورمبا ہے اور جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا، کے قریب جھاڑیوں سے کسی بچے کی ہڈیاں ملیں۔ اس پر پولیس مزید متحرک ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی ایس پی ایوت محل راجیش کمار شرما نے خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی جس کی سربراہی سب انسپکٹر سارنگ نولکر کو دی گئی۔ یہ ٹیم علاقے میں پہنچی اور پھر ایک ایک شخص سے پوچھ گچھ کا آغاز کیا۔ پولیس افسران ہفتہ بھر کی جان توڑ تفتیشی کوششوں کے بعد بھی کسی نتیجے پر پہنچ نہیں پا رہے تھے اور سب کے دماغ چکرائے ہوئے تھے کہ وہ اس خوفناک اور جان توڑ واردات کا سراغ کہاں سے لگائیں۔ اچانک انہیں کہیں سے یہ بات ہاتھ لگی کہ لاپتہ ہونے کے روز سپنا کو کسی مقامی شخص کی جانب سے10روپے دیئے اور بسکٹ لانے کو کہا گیا تھا اور یہ کرنے والا شخص مقامی مستری میشرام تھا جس نے عین اس روز پورے گاﺅں کی بجلی بند کرا دی تھی۔ اسی دوران سپنا کا اغوا ہوا تھا۔
اصل معاملہ یوں ہوا کہ مستری میشرام اور اس کے کئی دوستوں نے اس مقدس ہندو دن اپنی دیوی ”درگاہ پوجا“ سے خاص مراد پوری کرانا تھی اس کیلئے انہوں نے دیوی کو خوش کرنا تھا اور اس کیلئے ایک بچی کا خون درکار تھا۔ میشرام نے اپنے ساتھیوں سے بچی کے حوالے سے بات کی تو انہوں نے سپنا کا نام لیا۔ سپنا کا نام لینے والوں میں سپنا کا نانا پونا جی آشرام، ماموں دیوی راس پونا جی آشرم بھی شامل تھے۔ یوں کل 9افراد نے مل کر سپنا کو اٹھایا اور پھر 48سالہ ہندو شخص درگاہ شربھانے کے گھر پوجا شروع کی۔ انہوں نے اس موقع پر ننھی سپنا کو پوری قوت اور سختی سے پکڑ کر دیوی کے قدموں میں لٹایا اور پھر اس کا منہ زور سے بند کر کے اس کے ہاتھ پاﺅں بھی دبا کر پکڑ لئے۔ اس کے ساتھ ہی ایک ہندو نے تیز دھار چھری سے اس کی شہہ رگ کاٹ ڈالی۔ ننھی سپنا تڑپی، پھڑکی اور پھر ٹھنڈی پڑ گئی۔ سفاک اغوا کاروں نے اس کے بعد سپنا کا خون دیوی کے قدموں میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ خود بھی پینا شروع کر دیا تاکہ ان کی مراد جلد پوری ہو۔
تمام ہندو اس پوجا پر انتہائی خوش تھے کہ اب ان سب کے من کی مرادیں پوری ہو جائیں گی۔ انہوں نے ایک دوسرے کو مل مل کر مبارکبادیں دیں اور پھر وہاں سے باقی خون صاف کر کے سپنا کی لاش کو اندھیرے میں ہی گاﺅں سے باہر گھنی جھاڑیوں میں لے جا کر ریت میں دبا دیا۔
مراد کیا پوری ہونا تھی؟ ہر طرف ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ جب کئی ماہ تک سپنا کا کچھ پتہ نہ چلا تو قاتل بھی بڑے خوش تھے کہ ان کی دیوی اس قدر خوش ہے کہ اس نے ان کے سارے جرم پر بھی پردہ ڈال دیا ہے۔
لیکن اس وقت جب یہ ساری داستان منظر عام پر آ چکی ہے، ساری دنیا سارا عالم خاموش اور مکمل ساکت و جامد ہے۔ ملالہ پر حملے کا ڈرامہ رچانے والے بھی خاموش ہیں۔ اب نہ کوئی بان کی مون بیان دیتا ہے، نہ واشنگٹن، لندن یا برسلز کا دل کانپتا ہے۔ اوباما کو تو کبھی اس کی خبر ہو ہی نہیں سکتی، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت سب کے سب اندھے، گونگے اور بہرے ہیں....کیوں....؟ صرف اس لئے یہ انسانی تاریخ کو مات دینے والی داستان بھارت میں ہندوﺅں کے ہاتھوں انجام پائی ہے.... اور اگر یہی کچھ پاکستان یا کسی دوسرے مسلم ملک میں ہوتا تو ذرا سوچئے! کہ کیا کچھ نہ ہو جاتا؟ بلکہ یہاں تو جھوٹی داستانوں، سوات میں کوڑے مارنے والی جعلی وڈیو، کوہستان میں لڑکیوں کے قتل کی افواہ یا ملالہ پر ڈرامہ حملے کو بھی ہاتھ سے ذرا بھر جانے نہیں دیتے اور کمال دیکھئے کہ 10 نومبر کو اب ہر سال عالمی سطح پر ”یوم ملالہ“ منانے کا اعلان ہو چکا ہے۔
انہی خیالوں میں گم تھا کہ معاً 30مئی کا خیال ذہن میں عود کر آیا۔ 2009ءیہ وہ دن تھا جب مقبوضہ کشمیر کے قصبہ شوپیاں میں بھارتی فورسز نے دو کشمیری خواتین 24سالہ نیلوفر اور اس کی 17سالہ نند آسیہ کو اغوا کر لیا۔ دونوں اپنے گھر سے تھوڑے فاصلے پر واقع اپنے پھلوں کے باغات کی جانب حسب معمول جارہی تھیں کہ سی آر پی ایف اہلکاروں نے انہیں اٹھا لیا۔ کئی گھنٹے بعد بھی جب وہ لوٹ کر واپس نہ آئیں تو گھر والوں نے تلاش شروع کر دی۔ تھک ہار کر پولیس رپورٹ درج کرائی اور پھر ساری رات ہاتھوں میں لالٹین اٹھائے، ندیوں، نالوں اور کھائیوں میں ان کی تلاش میں گزار دی۔
سوچنے کی دعوت دینے والو! ذرا آپ بھی سوچئے کہ دو جواں سال خواتین کے یوں لاپتہ ہو جانے کے بعد ان کے گھر والوں کی یہ رات کیسے گزری ہو گی؟ ابھی صبح طلوع ہی ہوئی تھی کہ گھر والے ایک بار پھر ان کی تلاش میں نکل پڑے۔ پولیس بھی ہمراہ تھی، انہیں تھوڑی ہی دور دونوں کی لاشیں قریبی ندی رمبی آرہ کے ایک کنارے پر پڑی مل گئیں۔
لاشیں اٹھانے والے آسیہ کے بھائی ظہور احمد آہنگر نے بتایا کہ دونوں کی لاشیں تشدد زدہ تھیں اور صاف نظر آ رہا تھا کہ انہیں گلے میں دوپٹے ڈال کر مارا گیا ہے۔ دونوں کے کپڑے پھٹے ہوئے اور جسم شدید زخمی تھے۔
دونوں لاشیں ہسپتال پہنچیں تو سارے شوپیاں میں کہرام مچ گیا۔ ڈاکٹروں نے پہلی رپورٹ اور پھر دو دن بعد جاری ہونے والی رپورٹوں میں بتایا کہ دونوں خواتین کی قتل سے پہلے عصمت ریزی میں کی گئی ہے۔ اس واقعہ کے بعد 47 دن تک شوپیاں میں مکمل ہڑتال رہی۔ مظاہروں، جلوسوں اور ہڑتالوں کے دوران سینکڑوں کشمیری زخمی، متعدد شہید اور درجنوں معذور ہوئے۔ اربوں کا مالی و معاشی نقصان ہوا۔ تحریک کشمیر بھر میں پھیلی تو ایک ماہ بعد نئی دہلی سرکار نے حکم نامہ جاری کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات سی بی آئی کرے گی۔ سو اس پر عمل ہوا تو قبریں دوبارہ کھولی گئیں۔ نئی دہلی سے آنے والی ٹیم نے اپنا کام کیا اور پھر جو رپورٹ جاری کی اس میں بتایا گیا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، دونوں خواتین ندی میں گر کر اور پھر اس میں ڈوب کر ”ہلاک“ ہو گئی تھیں۔ اس پر ایک بار پھر تشدد بھڑک اٹھا، احتجاجی تحریک چلتی اور ٹھنڈی پڑتی رہی، کتنے کمیشن بنے، کتنے نگران مقرر ہوئے۔ سارے کشمیری لوگوں بشمول قانون دانوں اور ڈاکٹروں کے یہی کہتے رہے کہ یہ واقعہ سراسر عصمت ریزی اور پھر قتل کا ہے اور اس کے بالکل صاف اور واضح شواہد موجود تھے لیکن بھارت ایسی کسی بات کو ماننے کے لئے ہمیشہ کی طرح قطعاً تیار نہیں ہوا۔ آج چار سال گزرے ان خواتین کے خون کا کہیں کچھ پتہ نہ چل سکا کہ ان کے ساتھ بھارتی فورسز نے کیا کیا حشر کیا تھا۔
نیلوفر شہادت کے وقت حاملہ تھی اور اس کا ڈیڑھ سالہ بیٹا بھی پیچھے رہ گیا تھا، جو آج بھی ماں کو یاد کرتا ہے۔ نیلوفر کی شادی شکیل احمد آہنگر سے ہوئی تھی جسے بعد میں بھارتی فورسز نے بار بار اس وجہ سے مارا کہ اس نے اس سارے معاملے پر ہنگامہ کیوں کیا اور ”انصاف، انصاف“ کیوں پکارتا رہا۔4سال گزرے دونوں واقعات اور ان کی یادیں آنکھوں کے سامنے آئیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ایک بار پھر بھارت کے لئے ”پسندیدہ“ ”پسندیدہ“ کی پکار سنائی دی تو دل سے ایک آہ ہی نکلی کہ پسندیدہ کہنے والے یہ لوگ کون ہیں؟ یہ کیسے ہیں....؟ کیا تاریخ کے بدترین بھیڑیا صفت بھارت کے یہ سب ظلم و انسانیت سوزی ان کی نظروں سے اوجھل ہے....؟
بھارت سے دوستی، پیار اور تجارت کی باتیں کرتے ان چہروں نے کیا کبھی اس جگہ نہیں پہنچنا کہ جہاں نیلوفر، آسیہ اور سپنا پہنچ چکی ہیں۔ یہ بھی ذرا سوچیں کہ اگر انہیں ان معصوم جانوںکا سامنا ہو تو وہ انہیں بھارت سے پیارکے نعرے کاکیا جواب دیں گے۔
علی عمران شاہین کے قلم سے ایک ایسی واقعاتی تحریر جو دل دہلا دے
بھارت سے پیار کی باتیں کرنے والے ان کوکیا جواب دیں گے؟
اس کا نام سپنا اور عمر 7سال تھی.... ہنستی مسکراتی پیاری سی بچی .... جب ہندو اپنا مقدس تہوار دسہرہ منا رہے تھے، وہ اچانک لاپتہ ہو گئی۔ اس کے والدین نے تلاش شرع کر دی لیکن جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو پولیس کے ہاں مقدمہ درج کرا دیا۔ ان دنوں بھارت میں معصوم بچیوں کے حوالے سے کافی ہنگامہ تو پہلے سے ہی چل رہا تھا جس میں ایک اور اضافہ ہو گیا۔ حکومت پر دباﺅ بڑھا تو پولیس کی شامت آئی۔ یوں پولیس کئی ماہ تک دھکے کھاتی، ٹکریں مارتی رہی لیکن بچی کا پتہ نہ لگنا تھا، سو نہ لگا۔
20 مئی کو بھارت کے ضلع ایوت محل کا وہ گاﺅں جس کا نام چورمبا ہے اور جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا، کے قریب جھاڑیوں سے کسی بچے کی ہڈیاں ملیں۔ اس پر پولیس مزید متحرک ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی ایس پی ایوت محل راجیش کمار شرما نے خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی جس کی سربراہی سب انسپکٹر سارنگ نولکر کو دی گئی۔ یہ ٹیم علاقے میں پہنچی اور پھر ایک ایک شخص سے پوچھ گچھ کا آغاز کیا۔ پولیس افسران ہفتہ بھر کی جان توڑ تفتیشی کوششوں کے بعد بھی کسی نتیجے پر پہنچ نہیں پا رہے تھے اور سب کے دماغ چکرائے ہوئے تھے کہ وہ اس خوفناک اور جان توڑ واردات کا سراغ کہاں سے لگائیں۔ اچانک انہیں کہیں سے یہ بات ہاتھ لگی کہ لاپتہ ہونے کے روز سپنا کو کسی مقامی شخص کی جانب سے10روپے دیئے اور بسکٹ لانے کو کہا گیا تھا اور یہ کرنے والا شخص مقامی مستری میشرام تھا جس نے عین اس روز پورے گاﺅں کی بجلی بند کرا دی تھی۔ اسی دوران سپنا کا اغوا ہوا تھا۔
اصل معاملہ یوں ہوا کہ مستری میشرام اور اس کے کئی دوستوں نے اس مقدس ہندو دن اپنی دیوی ”درگاہ پوجا“ سے خاص مراد پوری کرانا تھی اس کیلئے انہوں نے دیوی کو خوش کرنا تھا اور اس کیلئے ایک بچی کا خون درکار تھا۔ میشرام نے اپنے ساتھیوں سے بچی کے حوالے سے بات کی تو انہوں نے سپنا کا نام لیا۔ سپنا کا نام لینے والوں میں سپنا کا نانا پونا جی آشرام، ماموں دیوی راس پونا جی آشرم بھی شامل تھے۔ یوں کل 9افراد نے مل کر سپنا کو اٹھایا اور پھر 48سالہ ہندو شخص درگاہ شربھانے کے گھر پوجا شروع کی۔ انہوں نے اس موقع پر ننھی سپنا کو پوری قوت اور سختی سے پکڑ کر دیوی کے قدموں میں لٹایا اور پھر اس کا منہ زور سے بند کر کے اس کے ہاتھ پاﺅں بھی دبا کر پکڑ لئے۔ اس کے ساتھ ہی ایک ہندو نے تیز دھار چھری سے اس کی شہہ رگ کاٹ ڈالی۔ ننھی سپنا تڑپی، پھڑکی اور پھر ٹھنڈی پڑ گئی۔ سفاک اغوا کاروں نے اس کے بعد سپنا کا خون دیوی کے قدموں میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ خود بھی پینا شروع کر دیا تاکہ ان کی مراد جلد پوری ہو۔
تمام ہندو اس پوجا پر انتہائی خوش تھے کہ اب ان سب کے من کی مرادیں پوری ہو جائیں گی۔ انہوں نے ایک دوسرے کو مل مل کر مبارکبادیں دیں اور پھر وہاں سے باقی خون صاف کر کے سپنا کی لاش کو اندھیرے میں ہی گاﺅں سے باہر گھنی جھاڑیوں میں لے جا کر ریت میں دبا دیا۔
مراد کیا پوری ہونا تھی؟ ہر طرف ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ جب کئی ماہ تک سپنا کا کچھ پتہ نہ چلا تو قاتل بھی بڑے خوش تھے کہ ان کی دیوی اس قدر خوش ہے کہ اس نے ان کے سارے جرم پر بھی پردہ ڈال دیا ہے۔
لیکن اس وقت جب یہ ساری داستان منظر عام پر آ چکی ہے، ساری دنیا سارا عالم خاموش اور مکمل ساکت و جامد ہے۔ ملالہ پر حملے کا ڈرامہ رچانے والے بھی خاموش ہیں۔ اب نہ کوئی بان کی مون بیان دیتا ہے، نہ واشنگٹن، لندن یا برسلز کا دل کانپتا ہے۔ اوباما کو تو کبھی اس کی خبر ہو ہی نہیں سکتی، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت سب کے سب اندھے، گونگے اور بہرے ہیں....کیوں....؟ صرف اس لئے یہ انسانی تاریخ کو مات دینے والی داستان بھارت میں ہندوﺅں کے ہاتھوں انجام پائی ہے.... اور اگر یہی کچھ پاکستان یا کسی دوسرے مسلم ملک میں ہوتا تو ذرا سوچئے! کہ کیا کچھ نہ ہو جاتا؟ بلکہ یہاں تو جھوٹی داستانوں، سوات میں کوڑے مارنے والی جعلی وڈیو، کوہستان میں لڑکیوں کے قتل کی افواہ یا ملالہ پر ڈرامہ حملے کو بھی ہاتھ سے ذرا بھر جانے نہیں دیتے اور کمال دیکھئے کہ 10 نومبر کو اب ہر سال عالمی سطح پر ”یوم ملالہ“ منانے کا اعلان ہو چکا ہے۔
انہی خیالوں میں گم تھا کہ معاً 30مئی کا خیال ذہن میں عود کر آیا۔ 2009ءیہ وہ دن تھا جب مقبوضہ کشمیر کے قصبہ شوپیاں میں بھارتی فورسز نے دو کشمیری خواتین 24سالہ نیلوفر اور اس کی 17سالہ نند آسیہ کو اغوا کر لیا۔ دونوں اپنے گھر سے تھوڑے فاصلے پر واقع اپنے پھلوں کے باغات کی جانب حسب معمول جارہی تھیں کہ سی آر پی ایف اہلکاروں نے انہیں اٹھا لیا۔ کئی گھنٹے بعد بھی جب وہ لوٹ کر واپس نہ آئیں تو گھر والوں نے تلاش شروع کر دی۔ تھک ہار کر پولیس رپورٹ درج کرائی اور پھر ساری رات ہاتھوں میں لالٹین اٹھائے، ندیوں، نالوں اور کھائیوں میں ان کی تلاش میں گزار دی۔
سوچنے کی دعوت دینے والو! ذرا آپ بھی سوچئے کہ دو جواں سال خواتین کے یوں لاپتہ ہو جانے کے بعد ان کے گھر والوں کی یہ رات کیسے گزری ہو گی؟ ابھی صبح طلوع ہی ہوئی تھی کہ گھر والے ایک بار پھر ان کی تلاش میں نکل پڑے۔ پولیس بھی ہمراہ تھی، انہیں تھوڑی ہی دور دونوں کی لاشیں قریبی ندی رمبی آرہ کے ایک کنارے پر پڑی مل گئیں۔
لاشیں اٹھانے والے آسیہ کے بھائی ظہور احمد آہنگر نے بتایا کہ دونوں کی لاشیں تشدد زدہ تھیں اور صاف نظر آ رہا تھا کہ انہیں گلے میں دوپٹے ڈال کر مارا گیا ہے۔ دونوں کے کپڑے پھٹے ہوئے اور جسم شدید زخمی تھے۔
دونوں لاشیں ہسپتال پہنچیں تو سارے شوپیاں میں کہرام مچ گیا۔ ڈاکٹروں نے پہلی رپورٹ اور پھر دو دن بعد جاری ہونے والی رپورٹوں میں بتایا کہ دونوں خواتین کی قتل سے پہلے عصمت ریزی میں کی گئی ہے۔ اس واقعہ کے بعد 47 دن تک شوپیاں میں مکمل ہڑتال رہی۔ مظاہروں، جلوسوں اور ہڑتالوں کے دوران سینکڑوں کشمیری زخمی، متعدد شہید اور درجنوں معذور ہوئے۔ اربوں کا مالی و معاشی نقصان ہوا۔ تحریک کشمیر بھر میں پھیلی تو ایک ماہ بعد نئی دہلی سرکار نے حکم نامہ جاری کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات سی بی آئی کرے گی۔ سو اس پر عمل ہوا تو قبریں دوبارہ کھولی گئیں۔ نئی دہلی سے آنے والی ٹیم نے اپنا کام کیا اور پھر جو رپورٹ جاری کی اس میں بتایا گیا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، دونوں خواتین ندی میں گر کر اور پھر اس میں ڈوب کر ”ہلاک“ ہو گئی تھیں۔ اس پر ایک بار پھر تشدد بھڑک اٹھا، احتجاجی تحریک چلتی اور ٹھنڈی پڑتی رہی، کتنے کمیشن بنے، کتنے نگران مقرر ہوئے۔ سارے کشمیری لوگوں بشمول قانون دانوں اور ڈاکٹروں کے یہی کہتے رہے کہ یہ واقعہ سراسر عصمت ریزی اور پھر قتل کا ہے اور اس کے بالکل صاف اور واضح شواہد موجود تھے لیکن بھارت ایسی کسی بات کو ماننے کے لئے ہمیشہ کی طرح قطعاً تیار نہیں ہوا۔ آج چار سال گزرے ان خواتین کے خون کا کہیں کچھ پتہ نہ چل سکا کہ ان کے ساتھ بھارتی فورسز نے کیا کیا حشر کیا تھا۔
نیلوفر شہادت کے وقت حاملہ تھی اور اس کا ڈیڑھ سالہ بیٹا بھی پیچھے رہ گیا تھا، جو آج بھی ماں کو یاد کرتا ہے۔ نیلوفر کی شادی شکیل احمد آہنگر سے ہوئی تھی جسے بعد میں بھارتی فورسز نے بار بار اس وجہ سے مارا کہ اس نے اس سارے معاملے پر ہنگامہ کیوں کیا اور ”انصاف، انصاف“ کیوں پکارتا رہا۔4سال گزرے دونوں واقعات اور ان کی یادیں آنکھوں کے سامنے آئیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ایک بار پھر بھارت کے لئے ”پسندیدہ“ ”پسندیدہ“ کی پکار سنائی دی تو دل سے ایک آہ ہی نکلی کہ پسندیدہ کہنے والے یہ لوگ کون ہیں؟ یہ کیسے ہیں....؟ کیا تاریخ کے بدترین بھیڑیا صفت بھارت کے یہ سب ظلم و انسانیت سوزی ان کی نظروں سے اوجھل ہے....؟
بھارت سے دوستی، پیار اور تجارت کی باتیں کرتے ان چہروں نے کیا کبھی اس جگہ نہیں پہنچنا کہ جہاں نیلوفر، آسیہ اور سپنا پہنچ چکی ہیں۔ یہ بھی ذرا سوچیں کہ اگر انہیں ان معصوم جانوںکا سامنا ہو تو وہ انہیں بھارت سے پیارکے نعرے کاکیا جواب دیں گے۔