حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
جناب امام ابو حنیفہ کا جورابوں پر مسح کے بارے قدیم موقف یہ تھا جسے احناف نے اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے :
یعنی امام صاحب نے تجلید، تنعیل اور تثخین کی شرط کو ساقط کر دیا لیکن احناف صاحبان کہتے ہیں کہ جورابوں پر مسح کے لیے ان کا اتنا موٹا ہو ضروری ہے کہ ان کے ساتھ ایک فرسخ یعنی ۵۵۶۵ میٹر چلنا ممکن ہو ، باوجود اس کے جورابوں مسح کے بارے میں نو صحابہ کرام جن میں خلفائے راشدین اور عبادلہ اربعہ جیسے فقیہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم شامل ہیں صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ انھوں نے چمڑہ لگی ہوئی جوراب کی شرط لگائی ہو،صحابہ میں سے کسی نے بھی ۵۵۶۵ میٹر کی شرط بھی نہیں لگائی ہے، اسی لیے متعدد حنفی علماء نے مطلقا جوراب پر مسح کو جائز قرار دیا ہے ۔
لیکن امام صاحب کا جدید موقف اس کے برعکس تھا چناچہ امام ترمذی ان کا جدید موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:يقول الإمام أبو حنيف لايجوز المسح على الجوربين، إلا أن يكونا مجلَّدين أو منعلين، ) "الدر المختار" لابن عابدين [ج1/ص: 248]؛ وفي "بدائع الصنائع" للكاساني [ج1/ص: 10]؛ وفي "فتح القدير" لابن همام [ج1/ص: 108)
’’امام ابو حنیفہ صاحب فرماتے ہیں کہ جرابوں پر مسح جائز نہیں الا کہ ان کے اوپر نیچے یا صرف نیچے چمڑا لگا ہوا ہو ‘‘
’’میں نے صالح بن محمد سنا وہ کہتے ہیں میں نے میں ابو مقاتل سمرقندی سے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں جس بیماری میں امام صاحب کی وفات ہوئی تھی اس بیماری کے ایام میں میرا امام صاحب کے میں جانا ہوا تو انھوں نے پانی منگوایا اور انھوں نے جرابیں پہنے ہوئے وضو کیا پس آپ ان پر مسح کیا پھر فرمایا: میں نے آج ایسا کام کیا ہے جو میں اس سے پہلے نہیں کرتا تھا یعنی میں نے جورابوں پر مسح کیا ہے حالاں کہ جورابوں کے نیچے چمڑا نہیں لگا تھا‘‘سَمِعْت صَالِحَ بْنَ مُحَمَّدٍ التِّرْمِذِيَّ قَال: سَمِعْتُ أَبَا مُقَاتِلٍ السَّمَرْقَنْدِيَّ، يَقُولُ: ( دَخَلْتُ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ وَعَلَيْهِ جَوْرَبَانِ، فَمَسْحَ عَلَيْهِمَا، ثُمَّ قَالَ: (( فَعَلْتُ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ أَكُنْ أَفْعَلُهُ، مَسَحْتُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَهُمَا غَيْرُ مُنَعَّلَيْنِ )) )؛ ("الجامع" للترمذي [ج1/ص: 167)
یعنی امام صاحب نے تجلید، تنعیل اور تثخین کی شرط کو ساقط کر دیا لیکن احناف صاحبان کہتے ہیں کہ جورابوں پر مسح کے لیے ان کا اتنا موٹا ہو ضروری ہے کہ ان کے ساتھ ایک فرسخ یعنی ۵۵۶۵ میٹر چلنا ممکن ہو ، باوجود اس کے جورابوں مسح کے بارے میں نو صحابہ کرام جن میں خلفائے راشدین اور عبادلہ اربعہ جیسے فقیہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم شامل ہیں صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ انھوں نے چمڑہ لگی ہوئی جوراب کی شرط لگائی ہو،صحابہ میں سے کسی نے بھی ۵۵۶۵ میٹر کی شرط بھی نہیں لگائی ہے، اسی لیے متعدد حنفی علماء نے مطلقا جوراب پر مسح کو جائز قرار دیا ہے ۔
مفتی تقی عثمانی دیوبندی صاحب نے لکھا ہے: ’’جورب سوت یا اون کے موزوں کو کہتے ہیں‘‘(درس ترمذی:۱/۳۳۴
جناب خادم حسین شجاع آبادی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
موٹے کپڑے کی جورابیں بھی موزے کے حکم ہیں کیوں کہ موزے کے لیے چمڑا شرط نہیں ہے اور موزے پر مسح کی روایات حد تواتر کو پہنچتی ہیں‘‘ ( فضل الودود تقریر سنن ابی داود:۱۱۹)
جورابوں پر مسح کرنے کے بارے میں ابو الاعلیٰ مودودی صاحب لکھتے ہیں:عبد الحق حقانی دہلوی دیوبندی لکھتے ہیں:
’’اگر کوئی (خواہ سفر میں ہو یا حضر میں) پاؤں نہ دھوئے بلکہ جرابوں پر مسح کر لے تو یہ کافی ہے کیوں کہ اس کا ثبوت نبی اکرم سے بخوبی پہنچ گیا ہے بلکہ اکثر محدثین نے حدیث مسح کو متواتر گنا ہے۔‘‘ (حقانی عقائد الاسلام ص۲۶)
”ہر وہ چیز جو سردی سے یا راستے کے گرد و غبار سے بچنے کے لیے یا پاؤں کے کسی زخم کی حفاظت کے لیے آدمی پہنے اور جس کے بار بار اتارنے اور پھر پہننے میں آدمی کو زحمت ہو اس پر مسح کیا جا سکتا ہے، خواہ وہ اونی جراب ہو یا سوتی، چمڑے کا جوتا ہو یاکِرمَچ کا، یا کوئی کپڑا ہی ہو جو پاؤں پر لپیٹ کر باندھ لیا گیا ہو(رسائل و مسائل:ج 2 ص184، 185)
میں نے اپنی زندگی کسی حنفی کو جورابوں پر مسح کرتے نہیں دیکھا یعنی جب موٹی جرابوں پر مسح نہیں ہو سکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ کم از کم موٹی جرابوں پر مسح کر ہی سکتے ہیں لیکن پھر بھی نہیں کرتے حالاں کہ امام صاحب نے جرابوں پر مسح کیا ہے
Last edited: