یہ روایت منقطع ہے۔
نافع کا عمر رضی اللہ عنہ سماع ثابت نہیں ۔
لیکن صحیح بخاری کی حدیث ہے:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا محمود، حدثنا عبيد الله، عن إسرائيل، عن طارق بن عبد الرحمن، قال: انطلقت حاجا، فمررت بقوم يصلون، قلت: ما هذا المسجد؟ قالوا: هذه الشجرة، حيث بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم بيعة الرضوان، فأتيت سعيد بن المسيب فأخبرته، فقال سعيد، حدثني أبي " أنه كان فيمن بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت الشجرة، قال: فلما خرجنا من العام المقبل نسيناها، فلم نقدر عليها "، فقال سعيد: «إن أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم لم يعلموها وعلمتموها أنتم فأنتم أعلم»
طارق بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ حج کے ارادے سے جاتے ہوئے میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جو نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون سی مسجد ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ وہی درخت ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت رضوان لی تھی۔ پھر میں سعید بن مسیب کے پاس آیا اور میں نے انہیں اس کی خبر دی ‘ انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد مسیب بن حزن نے بیان کیا ‘ وہ ان لوگوں میں تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس درخت کے تلے بیعت کی تھی۔ کہتے تھے جب میں دوسرے سال وہاں گیا تو اس درخت کی جگہ کو بھول گیا۔ سعید نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تو اس درخت کو پہچان نہ سکے۔ تم لوگوں نے کیسے پہچان لیا (اس کے تلے مسجد بنا لی) تم ان سے زیادہ علم والے ٹھہرے۔[صحيح البخاري 5/ 124]
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اصل درخت جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی لوگ اسے بھول چکے تھے ۔بعض اہل علم کا کہنا ہے سیلاب وغیرہ کی زد میں آخر خود بخود اس درخت کے نام ونشان مٹ گئے تھے۔
امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
وكانت الشجرة بالقرب من البئر ثم إن الشجرة فقدت بعد ذلك فلم توجد وقالوا إن السيول ذهب بها فقال سعيد بن المسيب سمعت أبي وكان من أصحاب الشجرة يقول : قد طلبناها غير مرة فلم نجدها[معرفة علوم الحديث للحاكم: ص: 64]
لیکن بخاری کی اسی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے علاوہ ایک دوسرے درخت کے بارے میں کچھ لوگ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہی وہ درخت ہے جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی ۔ممکن ہے اسی درخت کو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کٹوادیا ہو۔
شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728)نے کہا:
وأمر عمر رضي الله عنه بقطع الشجرة التي توهموا أنها الشجرة التي بويع الصحابة تحتها بيعة الرضوان. لما رأى الناس ينتابونها ويصلون عندها، كأنها المسجد الحرام، أو مسجد المدينة[اقتضاء الصراط المستقيم 17/ 26]
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس قول میں بھی یہی وضاحت ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے جس درخت کو کاٹا تھا وہ بیعت رضوان والا درخت نہیں تھا بلکہ کوئی اور درخت تھا جسے لوگوں نے بیعت رضوان کا درخت باور کرلیا تھا اوراس سے عقیدتیں وابستہ ہوگئی تھیں اس لئے عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اسے کٹوادیا۔واللہ اعلم