محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 789
- ری ایکشن اسکور
- 26
- پوائنٹ
- 69
اس مسئلہ کے بارے میں علماء کرام کےدوقول ہیں:
1- جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نماز کی قضائی دینا واجب ہے، یہ ائمہ اربعہ و دیگر کا قول ہے۔
2- جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نماز کی قضائی نہیں ہے ۔
پہلے قول کی دلیل:
1- سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص نماز کو بھول جائے تو وہ اسے اسی وقت ادا کرے جب یاد آ جائے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔“ (سنن ابی داود: 442)
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھول کر نماز چھوٹ جانے سے قضائی دینا ضروری ہے تو جس شخص نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی ہو اس پر قضائی دینا زیادہ ضروری ہو گا۔
2- جس شخص نے رمضان میں جان بوجھ کر روزہ توڑ دیا ہو اس پر قضائی دینا لازمی ہے ایسے ہی جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑے گا وہ بھی قضائی دے گا۔
دوسرے قول کی دلیل:
ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (النساء: 103)
مندرجہ بالا آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز اپنے مقررہ وقت پر ہی ادا کی جائے گی ، جیسے وقت سے پہلے نماز کرنا جائز نہیں ہے ایسے ہی اگر مقررہ وقت کے بعد نماز ادا کی جائے گی تو درست نہیں ہو گی۔
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص نماز کو بھول جائے تو وہ اسے اسی وقت ادا کرے جب یاد آ جائے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔“ (سنن ابی داود: 442)
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کے مفہوم مخالف سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑے گا وہ نماز کی قضائی نہیں دے گا، کیونکہ حدیث میں (من نسی) کے الفاظ شرط ہیں (یعنی جو بھول جائے) جب شرط نہیں پائی جائے گی تو مشروط بھی نہیں ہوگا۔
کسی شخص پر قضائی لازم کرنے کے لیےالگ سے شرعی دلیل چاہیے جو کہ موجود نہیں ہے، اگر جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر نماز کی قضائی واجب ہوتی تو اللہ تعالی اور اس کا رسول اس حوالہ سے ضرور کوئی حکم فرماتے۔
1- جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نماز کی قضائی دینا واجب ہے، یہ ائمہ اربعہ و دیگر کا قول ہے۔
2- جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نماز کی قضائی نہیں ہے ۔
پہلے قول کی دلیل:
1- سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص نماز کو بھول جائے تو وہ اسے اسی وقت ادا کرے جب یاد آ جائے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔“ (سنن ابی داود: 442)
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھول کر نماز چھوٹ جانے سے قضائی دینا ضروری ہے تو جس شخص نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی ہو اس پر قضائی دینا زیادہ ضروری ہو گا۔
2- جس شخص نے رمضان میں جان بوجھ کر روزہ توڑ دیا ہو اس پر قضائی دینا لازمی ہے ایسے ہی جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑے گا وہ بھی قضائی دے گا۔
دوسرے قول کی دلیل:
ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا (النساء: 103)
مندرجہ بالا آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز اپنے مقررہ وقت پر ہی ادا کی جائے گی ، جیسے وقت سے پہلے نماز کرنا جائز نہیں ہے ایسے ہی اگر مقررہ وقت کے بعد نماز ادا کی جائے گی تو درست نہیں ہو گی۔
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص نماز کو بھول جائے تو وہ اسے اسی وقت ادا کرے جب یاد آ جائے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔“ (سنن ابی داود: 442)
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کے مفہوم مخالف سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑے گا وہ نماز کی قضائی نہیں دے گا، کیونکہ حدیث میں (من نسی) کے الفاظ شرط ہیں (یعنی جو بھول جائے) جب شرط نہیں پائی جائے گی تو مشروط بھی نہیں ہوگا۔
کسی شخص پر قضائی لازم کرنے کے لیےالگ سے شرعی دلیل چاہیے جو کہ موجود نہیں ہے، اگر جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر نماز کی قضائی واجب ہوتی تو اللہ تعالی اور اس کا رسول اس حوالہ سے ضرور کوئی حکم فرماتے۔