ناصر نواز خان
رکن
- شمولیت
- ستمبر 07، 2020
- پیغامات
- 130
- ری ایکشن اسکور
- 14
- پوائنٹ
- 54
«من كنت مولاه فعلي مولاه» کی تفصیل اھل بیت کی زبانی:
امام محمد بن عاصم الثقفي رحمه الله نے کہا:
حدثنا محمد بن عاصم، حدثنا شبابة حدثنا الفضيل بن مرزوق، قال: سمعت الحسن بن الحسن أخا عبد الله بن الحسن وهو يقول لرجل ممن يغلو فيهم: ويحكم أحبونا لله، فإن أطعنا الله فأحبونا وإن عصينا الله فأبغضونا. قال: فقال له رجل: إنكم ذو قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأهل ⦗١٢٦⦘ بيته فقال: ويحكم لو كان الله عز وجل نافعا بقرابة من رسوله بغير عمل بطاعته لنفع بذلك من هو أقرب إليه منا أباه وأمه، والله إني لأخاف أن يضاعف للعاصي منا العذاب ضعفين، والله إني لأرجو أن يؤتى المحسن منا أجره مرتين. قال: ثم قال: لقد أساء بنا آباؤنا وأمهاتنا إن كان آباؤنا ما تقولون في دين الله، ثم لم يخبرونا به ولم يطلعونا عليه، ولم يرغبونا فيه، فنحن والله كنا أقرب منهم قرابة منكم وأوجب عليهم حقا وأحق بأن يرغبونا فيه منكم، ولو كان الأمر - كما تقولون - أن الله ورسوله اختارا عليا لهذا الأمر والقيام على الناس بعده، إن كان علي لأعظم الناس في ذلك خطيئة وجرما؛ إذ ترك أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يقوم فيه كما أمره أو يعذر فيه إلى الناس. قال: فقال له الرافضي: ألم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي: «من كنت مولاه فعلي مولاه» قال: أما والله أن لو يعني رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك الإمرة والسلطان والقيام على الناس لأفصح لهم بذلك كما أفصح لهم بالصلاة والزكاة وصيام رمضان وحج البيت، ولقال لهم: أيها الناس إن هذا ولي أمركم من بعدي، فاسمعوا له وأطيعوا، فما كان من وراء هذا شيء، فإن أنصح الناس كان للمسلمين رسول الله صلى الله عليه وسلم
ترجمه
فضیل بن مرزوق رحمه الله نے بیان کیا، کہا: میں نے حسن بن حسن (عبدالله بن حسن کے بھائی، یعنی حسن بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب) رحمھم الله کو سنا، وہ ایک ایسے شخص سے کہہ رہے تھے جو اھل بیت کی محبت میں غلو کرتا تھا:
"تمہارے لیے افسوس! ہم سے الله کے لیے محبت رکھو، اگر ہم الله کی اطاعت کریں تو ہم سے محبت رکھو، اور اگر ہم الله کی نافرمانی کریں تو ہمیں ناپسند کرو۔"
اس شخص نے ان سے کہا: "بے شک آپ رسول الله صلی الله علیه وسلم کے قریبی ہیں، اور آپ اہل بیت میں سے ہیں۔"
حسن بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب نے کہا:
تمہارے لیے افسوس! اگر الله عزوجل اپنے رسول کی قرابت داری سے بغیر عمل اور اطاعت کے فائدہ پہنچاتا، تو وہ اس سے زیادہ فائدہ ان کو پہنچاتا جو مجھ سے بھی زیادہ رسول الله صلی الله عليه وسلم کے قریب ہے، یعنی میرے ماں باپ۔"
خدا کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ ہم (اھل بیت) میں سے نافرمان کے لیے عذاب دوگنا کردیا جائے گا، اور خدا کی قسم! مجھے امید ہے کہ ہم میں سے نیک عمل کرنے والے کو اس کا اجر دوگنا دیا جائے گا۔
پھر انہوں نے کہا: "اگر بات ایسی ھی ہے جیسا تم کہتے ہو، تو اس حساب سے ہمارے آباؤ اجداد اور ہماری ماؤں نے ہمارے ساتھ برا کیا، انہوں نے ہمیں دین کے بارے میں (یہ سب) نہ بتایا (جو بکواس تم لوگ کر رھے ھو)، نہ ہمیں اس کی خبر دی، اور نہ ہی ہمیں اس کی طرف راغب کیا۔
اور اگر معاملہ ایسا ہی ہوتا جیسا تم کہتے ہو کہ الله اور اس کے رسول نے علی کو اس خلافت کے لیے منتخب کیا اور لوگوں پر ان کے بعد قیام کرنے کے لیے، تو علی رضي الله عنه اس معاملے میں سب سے بڑے مجرم اور گنہگار ہوتے؛ کیونکه انہوں نے رسول الله صلی الله علیه وسلم کے حکم کو چھوڑ دیا (یعنی ابو بکر کو خلیفه بننے دے دیا. اور خلافت کے لیے قیام ہی نہیں کیا) کہ جیسا انہیں حکم دیا گیا تھا (بقول تمہارے) ویسا قیام کرتے . یا کم سے کم خلیفہ نہ بن پانے کا اپنا کوئی عذر لوگوں کو ضرور بتاتے.
اس رافضی نے ان سے کہا: "کیا رسول الله صلی الله علیه وسلم نے علی سے یہ نہیں کہا تھا: 'جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی مولا ہیں؟
انہوں نے کہا: "خدا کی قسم! اگر رسول الله صلی الله علیه وسلم کا اس سے حکومت اور سلطنت اور لوگوں پر قیام کروانے کا مقصد ہوتا، تو وہ اسے اسی طرح واضح کرتے جیسے انہوں نے نماز، زکواۃ، رمضان کے روزے اور حج کو واضح کیا تھا۔ اور پھر لوگوں سے کہتے: 'اے لوگو! یہ (علی بن ابی طالب) تمہارے معاملات کے ولی ہیں میرے بعد، لہٰذا ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔'
لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ بے شک رسول الله صلی الله علیه وسلم مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ خیر خواہ تھے۔
[جزء محمد بن عاصم الثقفي: صفحه 125، طبقات ابن سعد: جزء5/صفحه324، أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة اللالکائي: جزء8/صفحه1485]-اسنادہ حسن
__________________________________________________
__________________________________________________
امام احمد بن زھیر بن حرب رحمه الله نے کہا:
٣٨٩٨- أخبرنا مصعب؛ قال: قيل لعمر بن علي بن حسين: هل فيكم أهل البيت إنسان مفترضة طاعته؟ فقال: لا والله ما هذا فينا، من قال هذا فهو كذاب، وذكرت له الوصية؟ فقال: والله لمات أبي وما أوصى بحرفين، قاتلهم الله؛ إن كانوا إلا يتأكلون بنا.
ترجمه:
مصعب بن عبد الله الزبيري (المتوفي 156ھ-236ھ) نے بیان کیا کہ عمر بن علی بن حسین (الأصغر) سے پوچھا گیا:
کیا آپ اھل بیت میں سے کسی کی اطاعت فرض ہے؟
انہوں نے کہا: نہیں، خدا کی قسم! ہم میں ایسا کوئی نہیں ہے۔ جو کوئی یہ کہے وہ جھوٹا ہے۔
پھر ان سے وصیت کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا:
خدا کی قسم! میرے والد فوت ہوئے اور انہوں نے دو حروف بھی ہمیں وصیت نہیں کیے۔ الله انہیں (جھوٹوں کو) ھلاک کرے، یہ لوگ تو صرف ہم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔"
[تاریخ الکبیر لابن أبي خيثمة :جزء 2/صفحه916]-صحیح
امام محمد بن عاصم الثقفي رحمه الله نے کہا:
حدثنا محمد بن عاصم، حدثنا شبابة حدثنا الفضيل بن مرزوق، قال: سمعت الحسن بن الحسن أخا عبد الله بن الحسن وهو يقول لرجل ممن يغلو فيهم: ويحكم أحبونا لله، فإن أطعنا الله فأحبونا وإن عصينا الله فأبغضونا. قال: فقال له رجل: إنكم ذو قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأهل ⦗١٢٦⦘ بيته فقال: ويحكم لو كان الله عز وجل نافعا بقرابة من رسوله بغير عمل بطاعته لنفع بذلك من هو أقرب إليه منا أباه وأمه، والله إني لأخاف أن يضاعف للعاصي منا العذاب ضعفين، والله إني لأرجو أن يؤتى المحسن منا أجره مرتين. قال: ثم قال: لقد أساء بنا آباؤنا وأمهاتنا إن كان آباؤنا ما تقولون في دين الله، ثم لم يخبرونا به ولم يطلعونا عليه، ولم يرغبونا فيه، فنحن والله كنا أقرب منهم قرابة منكم وأوجب عليهم حقا وأحق بأن يرغبونا فيه منكم، ولو كان الأمر - كما تقولون - أن الله ورسوله اختارا عليا لهذا الأمر والقيام على الناس بعده، إن كان علي لأعظم الناس في ذلك خطيئة وجرما؛ إذ ترك أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يقوم فيه كما أمره أو يعذر فيه إلى الناس. قال: فقال له الرافضي: ألم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي: «من كنت مولاه فعلي مولاه» قال: أما والله أن لو يعني رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك الإمرة والسلطان والقيام على الناس لأفصح لهم بذلك كما أفصح لهم بالصلاة والزكاة وصيام رمضان وحج البيت، ولقال لهم: أيها الناس إن هذا ولي أمركم من بعدي، فاسمعوا له وأطيعوا، فما كان من وراء هذا شيء، فإن أنصح الناس كان للمسلمين رسول الله صلى الله عليه وسلم
ترجمه
فضیل بن مرزوق رحمه الله نے بیان کیا، کہا: میں نے حسن بن حسن (عبدالله بن حسن کے بھائی، یعنی حسن بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب) رحمھم الله کو سنا، وہ ایک ایسے شخص سے کہہ رہے تھے جو اھل بیت کی محبت میں غلو کرتا تھا:
"تمہارے لیے افسوس! ہم سے الله کے لیے محبت رکھو، اگر ہم الله کی اطاعت کریں تو ہم سے محبت رکھو، اور اگر ہم الله کی نافرمانی کریں تو ہمیں ناپسند کرو۔"
اس شخص نے ان سے کہا: "بے شک آپ رسول الله صلی الله علیه وسلم کے قریبی ہیں، اور آپ اہل بیت میں سے ہیں۔"
حسن بن الحسن بن الحسن بن علي بن أبي طالب نے کہا:
تمہارے لیے افسوس! اگر الله عزوجل اپنے رسول کی قرابت داری سے بغیر عمل اور اطاعت کے فائدہ پہنچاتا، تو وہ اس سے زیادہ فائدہ ان کو پہنچاتا جو مجھ سے بھی زیادہ رسول الله صلی الله عليه وسلم کے قریب ہے، یعنی میرے ماں باپ۔"
خدا کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ ہم (اھل بیت) میں سے نافرمان کے لیے عذاب دوگنا کردیا جائے گا، اور خدا کی قسم! مجھے امید ہے کہ ہم میں سے نیک عمل کرنے والے کو اس کا اجر دوگنا دیا جائے گا۔
پھر انہوں نے کہا: "اگر بات ایسی ھی ہے جیسا تم کہتے ہو، تو اس حساب سے ہمارے آباؤ اجداد اور ہماری ماؤں نے ہمارے ساتھ برا کیا، انہوں نے ہمیں دین کے بارے میں (یہ سب) نہ بتایا (جو بکواس تم لوگ کر رھے ھو)، نہ ہمیں اس کی خبر دی، اور نہ ہی ہمیں اس کی طرف راغب کیا۔
اور اگر معاملہ ایسا ہی ہوتا جیسا تم کہتے ہو کہ الله اور اس کے رسول نے علی کو اس خلافت کے لیے منتخب کیا اور لوگوں پر ان کے بعد قیام کرنے کے لیے، تو علی رضي الله عنه اس معاملے میں سب سے بڑے مجرم اور گنہگار ہوتے؛ کیونکه انہوں نے رسول الله صلی الله علیه وسلم کے حکم کو چھوڑ دیا (یعنی ابو بکر کو خلیفه بننے دے دیا. اور خلافت کے لیے قیام ہی نہیں کیا) کہ جیسا انہیں حکم دیا گیا تھا (بقول تمہارے) ویسا قیام کرتے . یا کم سے کم خلیفہ نہ بن پانے کا اپنا کوئی عذر لوگوں کو ضرور بتاتے.
اس رافضی نے ان سے کہا: "کیا رسول الله صلی الله علیه وسلم نے علی سے یہ نہیں کہا تھا: 'جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی مولا ہیں؟
انہوں نے کہا: "خدا کی قسم! اگر رسول الله صلی الله علیه وسلم کا اس سے حکومت اور سلطنت اور لوگوں پر قیام کروانے کا مقصد ہوتا، تو وہ اسے اسی طرح واضح کرتے جیسے انہوں نے نماز، زکواۃ، رمضان کے روزے اور حج کو واضح کیا تھا۔ اور پھر لوگوں سے کہتے: 'اے لوگو! یہ (علی بن ابی طالب) تمہارے معاملات کے ولی ہیں میرے بعد، لہٰذا ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔'
لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ بے شک رسول الله صلی الله علیه وسلم مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ خیر خواہ تھے۔
[جزء محمد بن عاصم الثقفي: صفحه 125، طبقات ابن سعد: جزء5/صفحه324، أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة اللالکائي: جزء8/صفحه1485]-اسنادہ حسن
__________________________________________________
__________________________________________________
امام احمد بن زھیر بن حرب رحمه الله نے کہا:
٣٨٩٨- أخبرنا مصعب؛ قال: قيل لعمر بن علي بن حسين: هل فيكم أهل البيت إنسان مفترضة طاعته؟ فقال: لا والله ما هذا فينا، من قال هذا فهو كذاب، وذكرت له الوصية؟ فقال: والله لمات أبي وما أوصى بحرفين، قاتلهم الله؛ إن كانوا إلا يتأكلون بنا.
ترجمه:
مصعب بن عبد الله الزبيري (المتوفي 156ھ-236ھ) نے بیان کیا کہ عمر بن علی بن حسین (الأصغر) سے پوچھا گیا:
کیا آپ اھل بیت میں سے کسی کی اطاعت فرض ہے؟
انہوں نے کہا: نہیں، خدا کی قسم! ہم میں ایسا کوئی نہیں ہے۔ جو کوئی یہ کہے وہ جھوٹا ہے۔
پھر ان سے وصیت کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا:
خدا کی قسم! میرے والد فوت ہوئے اور انہوں نے دو حروف بھی ہمیں وصیت نہیں کیے۔ الله انہیں (جھوٹوں کو) ھلاک کرے، یہ لوگ تو صرف ہم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔"
[تاریخ الکبیر لابن أبي خيثمة :جزء 2/صفحه916]-صحیح