کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
جعلی ادویات کا خوفناک دھندا
پاکستان کی ایلوپیتھک انڈسٹری میں 50,000 کے لگ بھگ رجسٹرڈ ناموں کی مختلف ادویات بنائی جاتی ہیں جنہیں بنانے والی 600 سے زائد کمپنیوں میں سے اکثر کا معیار اتنا خراب ہے کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ ہر دوامیں کچھ متحرک اور کچھ غیر متحرک اجزا ہوتے ہیں،
غیرمتحرک اجزا کا کام متحرک اجزا کو قابلِ قبول اور کارآمد بنانا ہوتا ہے۔ مثلاً 1000 ملی گرام پیراسیٹامول کی گولی میں پیراسیٹامول کی مقدار صرف 500 ملی گرام ہوتی ہے، یہی اس دوا کا متحرک جز ہے جبکہ باقی 500 ملی گرام غیر متحرک اجزا ہوتے ہیں جو دوا کے رنگ اوراسکی شکل سے لے کر اس بات تک کے ذمہ دار ہیں کہ اسے انسانی جسم کے اندر کب، کہاں اور کتنی دیر میں حل ہونا ہے۔
متحرک یا غیرمتحرک اجزا کی مقدار معیار سے کم یا زیادہ ہو یا انہیں بنانے کے صحیح عمل سے نہ گزارا گیا ہو تو دوا غیرمعیاری کہلائے گی اور اسے کھانے سے یا تو فائدہ نہیں ہو گا یا الٹا نقصان ہو گا، وہ اس طرح کہ جو دوا چھوٹی آنت یا بڑی آنت میں حل ہونے کے لیے بنائی گئی ہو گی وہ معدے میں حل ہو جائے گی یا معدے والی چھوٹی یا بڑی آنت میں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوا پوری طرح حل ہی نہ ہو۔
ادویات سازی میں اوزان و پیمائش کا معاملہ اتنا نازک ہوتا ہے کہ اس میں معمولی ہیر پھیر یا کمی بیشی بھی بڑے خطرناک نتائج کا سبب بن سکتی ہے، سو اس امر کی یقین دہانی کے لیے کہ کسی دوا کے ہر جز کا وزن اتنا ہی ہو جتنا ہونا چاہیے، ”پاکستان نیشنل اکریڈیٹیشن کونسل“ (پی این اے سی) قائم کی گئی اور تمام ”کیلبریشن کمپنیوں“ کو (جن سے ادویات ساز کمپنیاں اپنے اوزان و پیمائش کے سازوسامان کی جانچ پڑتال کرواتی ہیں) یہ ہدایت کی گئی کہ وہ ”پی این اے سی“ سے اس بات کی تصدیق حاصل کریں کہ ان کا معیار بین الاقوامی معیار کے عین مطابق ہے، لیکن کتنی حیرت کی بات ہے کہ میرے علم میں پاکستان کی کوئی ایک ”کیلبریشن کمپنی“ بھی ایسی نہیں جو ”پی این اے سی“ سے ”ایکریڈیٹیٹڈ“ ہو۔ تو کیا کسی ایک کمپنی کے متعلق بھی وثوق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی ادویات میں مختلف اجزا کی مقدار اتنی ہی ہو گی جتنی ہونی چاہیے؟
ادویات سازی میں صاف ماحول کی اہمیت بھی بڑی بنیادی ہوتی ہے ورنہ کسی مخصوص دوا کو بناتے وقت اس میں جراثیم شامل ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور یہ آپ کو اس بیماری سے تو نجات دلا دے گی جس کے لیے آپ اسے استعمال کریں گے لیکن کسی دوسری بیماری میں مبتلا کر دے گی، بالکل ویسے ہی جیسے ڈینٹسٹ کے اوزار دانت کی تکلیف سے تو نجات دلا دیتے ہیں لیکن کئی مرتبہ ہیپاٹائٹس بی یا سی جیسے جان لیوا امراض میں مبتلا کر دیتے ہیں کیونکہ یہ اوزار پہلے کسی ایسے مریض پر استعمال ہو چکے ہوتے ہیں جو ان امراض کا شکار ہوتا ہے اور اس پر استعمال ہونے کے بعد انہیں اس ماحول (آٹو کلےو) میں نہیں رکھا گیا ہوتا جو جراثیم کا خاتمہ مکمل طور پر کرتا ہے۔ اس بات کو اس مثال سے بھی باآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ جس ہانڈی میں کڑاہی گوشت پکایا گیا ہو اسے اچھی طرح صاف کیے بغیر اس میں سبزی یا دال یا کوئی بھی دوسری چیز پکائی جائے گی تو اس چیز میں بھی کڑاہی کا ذائقہ آ جائے گا، اسی طرح جس جگہ پنسلین بنائی جا رہی ہو اگر اسے اچھی طرح صاف کیے بغیر پیراسیٹامول بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا تو پیرا سیٹامول میں بھی پنسلین کی آمیزش ہو جائے گی جس سے مرض ٹھیک ہونے کے بجائے خراب ہو جائے گا۔
دواسازی کے ماحول کو ہر قسم کے ذرات اور جراثیم سے پاک کرنے کے لیے جو پلانٹ لگایا جاتا ہے اسے” ہیٹنگ وینٹیلیشن ائر کنڈیشننگ سسٹم“ (HVAC) کہتے ہیں اوریہ دیکھنے کے لیے کہ سسٹم صحیح کام کر رہا ہے یا نہیں، مخصوص قسم کے سازوسامان کی ضرورت ہوتی ہے جسے ”انوائرمنٹ مانیٹرنگ اکوپمنٹ“ کہتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے وزن کم کرنے کے لیے مختلف قسم کی جسمانی مشقیں اور ڈائٹ پلان اپنائے جاتے ہیں لیکن یہ دیکھنے کے لیے کہ وزن کم ہو بھی رہا ہے یا نہیں، وزن کرنے والی مشین کی ضرورت ہوتی ہے۔ انوائرمنٹ مانیٹرنگ اکوپمنٹ میں ایسے آلات شامل ہوتے ہیں جو فضا میں موجود ذرات و جراثیم کو شمار کرتے ہیں، ہوا کا حجم اور اس کی رفتاربتاتے ہیں، درجہ حرارت اور نمی کی پیمائش کر کے اس کا پرنٹ بھی دیتے ہیں۔ اس اکوپمنٹ کی مالیت 30 سے 40 لاکھ روپئے کے لگ بھگ ہے جس پر 20 کروڑ پاکستانیوں کی صحت کا دورومدار ہے لیکن یہ حقیقت بھی کسی اچنبھے سے کم نہیں کہ کسی ایک ڈرگ انسپکشن ٹیم کے پاس بھی یہ سازوسامان موجود نہیں البتہ افسرانِ کرام کے پاس اس سے کہیں زیادہ مالیت کی گاڑیاں ضرور موجود ہیں۔ جو کمپنیاں ”کلین انوائرنمنٹ“ کا خیال نہیں رکھتیں، انکے یہاں اور تو اور فرش، دیواروں اور چھت پر اس ”کیمیکل رزسٹنٹ شیٹ“ تک کا استعمال نہیں کیا جاتا جو لازمی ہوتی ہے اوراس کی جگہ ٹائلیں یا پلستر لگا دیا جاتا ہے۔
ادویات سازی میں ایک اور اہم نکتہ خام مال کی سٹوریج سے لے کرادویات کی ترسیل اور میڈیکل سٹوروں سے ان کے فروخت ہونے تک اس ٹھنڈے ماحول کو یقینی بنانا ہے جو انہیں ذوداثر رکھنے کے لئے ناگزیر ہوتا ہے۔ مثلاً کسی دوا کو اگر 15 سے 30 ڈگری سینٹی گریڈ کی ضرورت ہے تو جس گاڑی میں اسے میڈیکل سٹور تک پہنچایا گیا یا جس شلف میں وہ پڑی ہے کیا وہاں یہ درجہ حرارت موجود ہے؟ یا جس ویکسین کو 4 سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھنا ہے کیا اس کے لیے وہ مخصوص فرج استعمال کیا جا رہا ہے جو درجہ حرارت کو دو مخصوص حدوں کے درمیان رکھنے کی سہولت سے آراستہ ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے یہاں درجہء حرارت کے زیرِ بحث تسلسل کو برقرار رکھنے کا مناسب انتظام بھی بالعموم ناپید ہے جس کی گواہی ہمارے آس پاس موجود اکثر دواساز کمپنیاں اور میڈیکل سٹور سرِ عام دے رہے ہیں ۔
ادویات سازی میں استعمال کیا جانے والا پانی بھی بڑی اہم نوعیت کا حامل ہوتا ہے جسے جراثیم سے پاک کرنے کے لیے بہت ہی اعلی کوالٹی کے فلٹرز کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے یہاں بالعموم استعمال نہیں کئے جاتے۔ ڈرگ ایکٹ کو سخت تر سے سخت ترین بنانا چاہیے، یہ الگ بات ہے کہ غیرمعیاری یا جعلی ادویات کا کالا کاروبار کرنے والوں کو سرِ عام پھانسی لگا کر بھی اس نقصان کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا جو ان کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
تحریر: اسرار ایوب
23 مارچ 2017
٭….٭….٭