باطل شکن
رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 122
- ری ایکشن اسکور
- 422
- پوائنٹ
- 76
زیر نظر مضمون حافظ عبدالرحمٰن مکی کی ایک تقریر کا خلاصہ ہے جس کا عنوان تھا ابن تیمیہ کا منہج اس مضمون کو جابر علی عسکری نے جماعۃ الدعوۃ کا منہج , منہج ابن تیمیہ ہے کے نام سے ملتقی اہلحدیث فورم پہ پیش کیا جابر علی عسکری اور ملتقی فورم کے شکریہ سے ساتھ پیش خدمت ہے
الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ!اما بعد! فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُ*وا يَرُ*دُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِ*ينَ ﴿١٤٩﴾ بَلِ اللَّـهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ* النَّاصِرِ*ينَ ﴿١٥٠﴾ [آل عمران : 150-149]
فقال ابراہیم بن عبدالرحمن العذری رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: يحملُ هذا العلمَ من كلِّ خلفٍ عُدولَهُ ينفونَ عنه تحريفَالغالينَ وانتحالَ المُبطلينَ وتاویل الجاہلین
وراہ البیہقی مرسلا: ان صح الخبر
عزیزان گرامی قدر! جلسے تو اللہ کے فضل وکرم سے مرکز الدعوۃ والارشاد کا تعارف بن چکے ہیں۔ اور بہت بڑے بڑے جلسے بھی ہم نے خطاب کیے اور آپ نے الحمد للہ استماع فرمایا۔ مگر مجھے آج کے اس اجتماع میں ان تمام بڑے بڑے اجتماعات سے زیادہ خوشی محسوس ہورہی ہے کیونکہ یہ جمع ، جمع کبیر عامۃ الناس کا نہیں ہے، بلکہ اس اجتماع کا اختصاص اورمیزہ یہ ہے کہ یہ کارکنان دعوت وجہاد کا اجتماع ہے۔کارکن وہ شخص ہوتا ہے جو عامۃ الناس سے صلب موضوع کی طرف زیادہ متقدم ہوتا ہے، اس کا قلب مضطرب ہوتا ہے، اس کو موافقت تامہ حاصل ہوچکی ہوتی ہے اور ایک حوالے سے وہ ذمہ دار ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ معترف ہوتا ہے، مقر ہوتا ہے کہ میں اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو سربلند کرنے کےلیے اپنی جان، اپنا مال، اپنا سب کچھ قربان کرنے کےلیے تیار ہوں اور اس کےلیے میں یہاں جمع ہوا ہوں۔تاکہ میں مزید خیر کثیر کےلیے اعلیٰ تربیت حاصل کروں۔تو اللہ کے فضل وکرم سے یہ بہت بڑا اجتماع کارکنین کا ، مسؤلین کا، ذمہ داران کا، ان لوگوں کا جن لوگوں کا جنہوں نے عقل کے ساتھ، سوچ سمجھ کے ساتھ، فہم وفراست کے ساتھ ، بیداری وشعور کے ساتھ اس بات کا اعتراف واقرار کرلیا ہے کہ
نحن اللہ بایعوا محمدا --- علی الجہاد ما بقینا ابدا
اللہ اکبر! یہ ان عظیم، بابرکت، مقدس ، ان خیر کے لوگوں کا اجتماع ہے۔ اللہ اکبر!
تو اس اجتماع میں ہم شیخ الاسلام تقی الدین ابوالعباس احمد ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ۔ ہمارے ذمہ جو سبق، جو درس، جو لیکچر ، جو لیسن آج ہمارے ذمہ لگا ہے امیر محترم کی طرف سے، وہ ہے کہ ہم عالم اسلام کی ایک انتہائی برگزیدہ ، ممیز شخصیت، میرےبھائیو! عالم اور شیوخ الاسلام تو اللہ کے فضل سے بے شمار آئے، وجود میں ، النجوم الظاہرہ، چمکدار ستارے بہت سے چمکے اس آسمان پر اللہ کے فضل سے۔ اللہ کی قسم اندھیری راتیں تو منحوس یورپ پر طاری ہوئیں، ان کافروں پر طاری ہوئیں۔ اللہ کے فضل وکرم سے عالم اسلام کے اندر چمکتے ستارے، درخشاں ستارے ان گنت آئے۔ بے شمارآئے۔ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ میزہ ، یہ خاصہ، یہ دعا، یہ اللہ کی رحمتیں اور برکتیں، یحمل ہذا العلم من کل خلف عدولہ۔
یہ سلسلہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے لےکر آج تک چل رہا ہے۔چلتا رہے گا ان شاء اللہ۔
مگر ہمیں موضوع دیا گیا ہے، اللہ اکبر! تقی الدین ابوالعباس احمد ابن تیمیہ۔ کیوں؟ کہ جب احمد ابن تیمیہ کھڑا ہوا تھا، جب اس کو اللہ نے علم، قال اللہ وقال الرسول ، مشکاۃ المصابیح، بخاری اور مسلم کے متون اور منطق اور فلسفہ او رصرف اور نحو اور لغت اور نطق اور بیان اور زبان جب اللہ نے اس کو دیا تھا، تب اس وقت عالم اسلام پر جو مسکنت، جو ذلت ،جوپریشانیاں، جو زوال، جو انحطاط اس ووقت عالم اسلام پر تھا، اللہ کی قسم! آج عالم اسلام پر اسی قسم کے حالات اس سے بھی زیادہ پریشان کن حالات عالم اسلام پر ہیں۔اسی طرح مرکزیت کا زوال ہے، خلافت کا زوال ہے، سقوط خلافت ہے ، امارات اسلامیہ نہیں ہے۔ حکومات مسلمہ نہیں ہیں، مسلمان عوام نہیں ہے، بیدار علماء نہیں ہیں۔ کتاب وسنت قائم نہیں ہیں۔ توحید واتباع کا نظام نہیں ہے۔ شرک و بدعت رائج ہے۔رفض وشیعیت مسلط ہے۔
باطنی فرقے پورے عالم اسلام کی ریڑھ کی ہڈی کو کھا رہے ہیں او ران سب سے اوپر مسیحی ، یہودی ، کمیونسٹ، سوشلسٹ، بدھ اور دہریے اور ہندو چھار ہے ہیں۔یہی حالات تھے جب احمد ابن تیمیہ، اللہ اکبر! کھڑا ہو کر دعوت اور جہاد کا کام کرتا تھا۔یہی حالات تھے اللہ کی قسم! خلافت کا سقوط۔آج خلافت کافر کی۔ مسلمان چھتری ، چھت اور سائبان کے بغیر ہیں۔ یاد رکھو مسلمانو،بھائیو! مسلم امت کے اوپر بہت سے سائبان جو ان کو کافروں کے کفر سے، دھوپ کی تمازت سے ، یہ طاغوت کی تمازت سے بچاتا ہے، وہ خلافت اسلامیہ، امارت اسلامیہ ہوا کرتا ہے، اس وقت بھی وہ ساقط تھا، آج بھی وہ مفقود ہے۔اور جب خلافت گر جایا کرتی ہے تو پھر فتنے برساتی مینڈکوں کی طرح، خود رو جڑی بوٹیوں کی طرح ، جنگلی گھاس اور پودوں کی طرح فتنے، گمراہیاں، دعوتیں، تنظیمیں، جماعتیں، احزاب، طوائف، چھوٹے چھوٹے بادشاہ، چھوٹے چھوٹے راجے، راجواڑے، دستور، قانون ، تقلید، تحکیم الی غیر الشریعہ، یہ سب بیماریاں بھرپور نکلا کرتی ہیں۔یہ کینسر، یہ وائرس، یہ بیکٹیریا، یہ ٹی بی، اللہ کی قسم! لگ جایا کرتی ہے امت اسلام کو، ملت اسلام کو جب اس کے سر سے خلافت کا سایہ چھین لیا جاتا ہے، وہ چادر پھاڑ لی جاتی ہے۔
661-728۔ساتویں اور آٹھویں ہجری میں، ذوالقرنین، یہ زمانہ ہے ابن تیمیہ رحمہ اللہ شیخ الاسلام کا۔ عباسیہ خلافت کو تاتاریوں نے گرا دیا تھا۔ خلاف عباسیہ بغداد میں ساقط ہوچکی تھی اور جس جس علاقے سے وہ خلافت ساقط ہوئی، تاتاری اور باطنی، اندر کے سازشی، بغداد میں خلافت عباسیہ کے سقوط کے نتیجے میں عالم اسلام کا ثقل، اس کا بیلنس، اس کی سیادت ، اس کی قیادت بغداد سے مصر کی طرف منتقل ہوچکی تھی۔مصر جو طویل عرصے تک عبیدیوں اور فاطمیوں کی کا مرکز رہا۔ عبیدی خلافتیں اور فاطمی خلافتیں، یہ دو خلافتیں جو کتاب و سنت سے ہٹ کر تشیع اور رفض ، بدعات اور خرافات، اہل بیت کے نام پر جعل سازیاں ، وہ جو سقوط تھا خلافت اسلامیہ کا ،اس کی بجائے، اللہ اکبر! بے شمار خرافات اور بے شمار ہک اور اضافے بنو عبید اور فاطمیین کی خلافت رہی تھی مصر میں۔ اس سے ذرا پہلے ان دونوں علاقوں پر، مصر اور شام پر، صلیبیوں کی یلغاریں ہوتی تھیں، طویل عرصہ تک صلیبیوں نے، عیسائیوں نے ان علاقوں پر بیت المقدس کے باعث اس کو چھین لینے کےلیے ، اس پر قابض ہونے کےلیے بہت سی مسلم ریاستیں، شہر اور صوبہ جات، شام کے اور مصر کے ساحلی علاقہ جات ، ان سب پر کافی عرصہ تک، نوے سال تقریباً ، اکانوے سال تک اس پوری پٹی پر صلیبی باقاعد ہ متمکن رہے۔ان کی سلطنتیں رہیں، انہوں نے مسلمانوں کو کاٹا، اسلام کو گرایا، مسیحیت کو مسلمانوں کے اندر تک داخل کیا، اس کےلیے ہر جبر، ہر ظلم، انسانیت کے تمام تقاضے انہوں نے پامال کردیے، تاریخ شاہد ہے، بیت المقدس کے اندر ان ظالموں نے جب قبضہ کیا، ایک ہفتہ، ڈیڑھ ہفتہ تک ان ظالموں نے اتنا خون بہایا کہ گھٹنوں تک، اگر گھوڑے چلتے تھے تو ان کے گھٹنوں پر مسلمانوں کا، مسلم امہ کا ، محمدیون کا خون تھا۔
اور تاریخ شاہد ہے کہ ان صلیبیوں اور ان مسیحیوں کو دعوت دینے کےلیے، اس خطے پر حملے کرنے کےلیے کنہوں نے دعوت دی تھی؟ وہی باطنی، عبیدی، فاطمی سلاطین، اپنی اپنی حکومتیں، ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی سلطنتیں ، اپنی شخصی بادشاہتیں، ان کو جمع رکھنے کےلیے اسلام اور سنت اور تمسک بالدین اس کا قلع قمع کرنے کےلیے ، اندر کے لوگوں نے دعوتیں دے کر کافروں کو جرمنی سے، فرانس سے، بلغاریہ سے، ہنگری سے ، بریڈ فورڈ اور یہ فلاں اور فلاں ، یہ سب چڑھے تھے اور انہوں نے اکانوے برس حکومت کرلی۔اب مسیحی ، عبیدی، فاطمی، مسیحیوں کا گناہ ، اللہ اکبر، اور ان کی خرافات اور ان کا غلو اپنے اولیاء اور اپنے انبیاء کے ساتھ ان کا شرک ۔ اس شرک کے اثرات تھے شام کے اندر اور مصر کے اندر ، اتنے وسیع، اتنے قبیح، اتنے عریض، اتنے اندر تک گھسے ہوئے کہ اللہ کی قسم ! ابن تیمیہ جیسے داعی کو بےشمار مشکلات پیش آئیں۔
اس گہرے شرک کو، اس کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے میں کیونکہ مسیحیت کا شرک مسلمانوں کے اندر بدعت کے روپ میں پوری طرح پھیل چکا تھا۔ہاں! یہ اسی طرح ہوتا ہے۔ یہ جو ہمارے بہت سارے بھائی آج تک فیصلہ نہیں کرسکے ناں کہ محمد ﷺ نور ہیں کہ بشر ہیں؟ جھگڑا ڈال لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں آخر میں کہ بشر تو ہو نہیں سکتے۔ نور ہیں۔ نور کیسے نور ہیں؟ من نور اللہ ہیں۔اللہ کی ذات میں سے ذات۔ اللہ کی قسم! جاؤ ، پڑھو، علماء نے لکھا کہ مسلم امت کے فرق ضالہ کے اندر جو شرک آج موجود ہے کہ یہ اپنے نبی کو ذات من ذات اللہ کہتے ہیں ، یہ عکس ہے ان عیسائیوں کا جب انہوں نے کہا تھا کہ عیسیٰ ابن اللہ، یہ عکس ہے یہودیوں کا جب انہوں نے کہا: عزیر ابن اللہ۔ کافر قوموں کے ساتھ اختلاط، وہ مسلمانوں پر چڑھ جائیں۔ تو یہ نہ سمجھا کرو کہ من قال لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ۔ لا الہ الا اللہ زبان سے کہتے ہیں مسلمان، ختنے کرتے ہیں، عقیقے کرتے ہیں، نکاح کرتے ہیں، جنازے پڑھتے ہیں، عیدیں ، جمعے مناتے ہیں، پر ان کی شکلیں، ان کی عقلیں، ان کی تہذیب، ان کے شعائر، ان کی اعیاد، ان کی (۔۔۔) سب کچھ کافروں جیسی ہوچکی ہیں۔یہی اس وقت ہوا تھا۔ بغداد کی خلافت کا سقوط، اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ امت مسلمہ کا سیاسی وزن ، بغداد کی بجائے مصر منتقل ہوگیا۔
اور مصر اور شام کی حالت کیا تھی ، عبیدیوں ،باطنیوں اور فاطمیوں اور اس کے ساتھ ساتھ مسیحیوں کے اثرات کی وجہ سے یہ سارے کا سارا خطہ بظاہر اسلام اور حقیقت میں یہ سارے کا سارا خطہ بدعات کا ، کفر کا اور شرک کا اور ضلالات کا اور گمراہیوں کا اور غیر اللہ کی عبادت کا اور تمسخر اور تکبر اور استغاثہ اور استعانت لغیر اللہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔پھر اس خطے کو ایک اور چیز بھی ، اللہ اکبر! جو ابن تیمیہ کےلیے پریشانی کا باعث تھی، وہ کیا؟ اس پورے زمانے میں زبردست تقلیدی جمود، اشعری عقائد اور اصول، مسلم امہ کے اندر یہ ذہن کہ رسول اللہﷺ کی حدیث، صحابہ کرام کا عمل، بڑی اس کی شان ہوگی لیکن لاؤ اس کو کسی امام سے ، امام المسلک سے، ائمہ اربعہ سے اس کو کہلواؤ، اس کو منواؤ، قاضی مالکیہ، قاضی شافعیہ، قاضی حنفیہ، قاضی حنبلیہ ، چاروں قاضیوں میں سے کوئی قاضی اس مسئلے کو ثابت کرے، اپنے امام سے، اپنے سلسلے سے، اپنی تقلید سے ، تب جاکر اس کو اسلامی کہا جائے وگرنہ اس کے خلاف کفر کا ، گستاخی کا، بغاوت کا، جیل کا، ہر قسم کا فتویٰ دے دیا جائے۔ عقائد اشعریہ، تقلیدی جمود، اللہ، ہمارے ہاں بھی آج کل اسی قسم کی حالت ہے۔
اللہ اکبر! انگریزوں، یہودیوں ، عیسائیوں سے دبتے ہوئے اور اندر میرا فرقہ فلاں، میرا فرقہ فلاں۔ پاکستان میں اسلام لاؤ، فقہ ہوگی حنفی۔ کوئی کہے گا: سوڈان میں اسلام لاؤ، فقہ ہوگی شافعی۔ الجزائر، مراکش میں اسلام لاؤ، فقہ ہوگی مالکی۔ اسلام نیم مالکی فقہ، اسلام نیم جعفری فقہ۔ اسلام کے معنیٰ سواد اعظم۔ یہ بیماری پوری شدت کے ساتھ اس وقت موجود تھی۔ اور خاص کر ، اللہ اکبر! صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ ایک طرف ان کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے بیت المقدس صلیبیوں سے آزاد کروایا۔دوسری طرف ان کے ایوبی سلاطین اور ممالیک کے ہاتھوں پر فقہ اشعریہ، اصول اشعریہ کی ترویج، بہرحال مصر وشام میں پوری طرح متداول تھی۔
یقیناً اس سارے میدان اور مجال میں وہ سلفی العقیدہ بھی تھے جو آج بھی ہیں ، ان کو طائفہ منصورہ، کتاب اللہ وسنۃ رسول اللہ، ما أنا علیہ وأصحابی، یہ ساری عبارتیں، ان کو تب یاد تھیں ، اب یاد ہیں، مگر ان کے اندر وہی ذہن، ہمارا خلیفہ نہیں ہے، تمہاری قوت نہیں ہے۔ ابھی مکی دور ہے۔ پہلے عقیدے درست کرو، تاتاری بھلے چلے آتے ہوں۔صلیبی دندناتے ہوں، مسیحی دھاڑتے ہوں، مگر یہ الجھنِ علمی اس وقت بھی ان کو گھیرے ہوئے تھی۔جیسے آج بھی بیشتر حصے کو گھیرے ہوئے ہے۔
یہ تقریباً حالات تھے۔ آج بھی بہت سارا طبقہ ہے اللہ کے فضل سے جن کو یہ پتہ ہے کہ دین کیا ہے، دین کے اصول کیا ہیں؟ التمسک بالکتاب والسنۃ، طائفۃ منصورۃ، لاتزال ، لاتزال، بالکل یاد ہے۔ ما أنا علیہ وأصحابی، ما أنا علیہ وأصحابی بالکل ان کو یاد ہے۔مگر اس کی عملی تصویر، اس کی عملی تطبیق میں وہ بالکل فاش غلطی کے مرتکب ہوجاتےہیں۔جو اعلیٰ ترین ، احسن ترین لوگ ہیں، وہ تطبیق علمی ایک فاش ترین غلطی کا ارتکاب کرکے، تعطل میں ، انتظار میں اور چیزوں کے معطل کرنے میں اور برطانوی کافروں کے غلبےکو قبول کرلینے یا برداشت کرلینے میں یا اپنے اوپر مصنوعی جبر طاری کرکے ، مکی دور میں داخل کرکے ایک عجیب سی پناہ گاہ میں چھپ جاتے ہیں۔ یہ لوگ بھی بہرحال موجود تھے۔ اس وقت ابن تیمیہ رحمہ اللہ کھڑے ہوئے۔ تاتاری ان کی جرأتیں بہت زیادہ تھیں، انہوں نے عالم اسلام کے بیشتر حصے کو ادھیڑ دیا تھا۔ سلجوقی سلطان ایک مرتبہ مارا صلیبیوں کو تو صلیبیوں کو وہ جو خوفناک مار تھی ، اس کے اثر سے کچھ عرصہ تک صلیبی یلغار متاخر ہوئی۔
اسی طرح مصر کے سلطان نے ایک مرتبہ ان سے جھڑپ لے لی ان سے تو کچھ عرصہ ان سے متاخر ہوئے۔ مگر چونکہ انہوں نے بغداد کو گرالیا تھا، ایران کو ڈھا لیا تھا، خراسان کو تہ تیغ کرلیا تھا۔خوازمی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے تھے، انہوں نے عالم اسلام کے انتہائی طاقتور، متمدن، خوبصورت ، مالا مال، سونا اگلتی زمینوں کو چونکہ تاراج کردیا تھا ، انہوں نے غیر دیہاتی مسلمانوں کی مسجدوں کو، مدرسوں کو پامال کرلیا ہوا تھا ، ان کے حوصلے تھے، وہ بھی آگے بڑھ بڑھ کر شام، دمشق، قاہرہ، مصر، اس پر حملوں کی سوچ رہے تھے۔اور کررہے تھے۔ اور ان کے اندر ایک اور چیز پیدا ہوچکی تھی ، کچھ تاتاری سردار اسلام قبول کرچکے تھے ، مگر اللہ اکبر! اللہ بچائے اس اسلام سے، ویسا ہی جیسا آج ہمارے پاس ہے۔تاتاری اپنے چنگیز خان کے (۔۔۔۔)دستورکو مقدس جانتے تھے۔ کلمہ شہادتین ،(۔۔۔) واعترفوا، یہ ایک بیماری عجیب وغریب جو پہلے نہیں تھی اور آج تک نہیں گئی، یہ (۔۔۔)، یہ قانون سازیاں، مسلم امہ کے اندر ، مسلمانوں کے لیڈر، مسلمانوں کے سیاست دان جمع ہوکر اپنے انتخاب یا اپنی نامزدگیوں سے کہیں، مسلمان کلمے پڑھیں ، کریں عقیقے ، جائیں مسجدوں کو مگر اپنے سکول، اپنے ڈھانچے، اپنے ادارے چلانے کےلیے ، تقلید، التحکیم الی غیر شریعۃ اللہ اور یہ بیماری بھی تاتاریوں کے ساتھ آئی۔
کچھ ان میں سے کفر پر تاتاری، کچھ ان میں سے مسلمان ہوگئے۔اب جو مسلمان ہوگئے، کلمہ وہ پڑھتے ہیں لیکن حکم بغیر ما أنزل اللہ، التحکم الی غیر شریعۃ اللہ۔ ابن تیمیہ کے سامنے یہ سارے مسائل،یہ سارے حالات تھےاب ابن تیمیہ شیخ الاسلام بنا۔ منہج ہے، اللہ کی قسم! منہج، کوئی آواز نہیں اٹھائی کہ میں جماعت بناؤ ں گا۔ اتنی احزاب ہیں ، میں بھی حزب کھڑی کروں گا۔حزب اللہ ہوگی، حزب الرسول ہوگی، ایسی کتاب اللہ اور سنۃ رسول اللہ پر جماعت ہوگی ، میں اس کا قائد ہوں گا۔
دمشق میں اس کا مرکز بناؤ ، میری لیڈری چمکاؤ، میرے ووٹ ڈالو، میری برانچیں کھولو دمشق میں میرے نام سے ، نہیں! کوئی ایسا تعطل کا انداز اختیار نہیں کیا کہ چاہے جتنے خطرات ہیں، کوئی اسلام کو اوپر سے کاٹے، کوئی نیچے سے گرائے، صلیبی چڑھ جائیں، تاتاری آجائیں مگر ہم تو پہلے اپنی فلاں چیز کو ٹھیک کریں گے، نفس کی اصلاح کریں گے ، تمسک بالسنۃ لائیں گے، اپنی حزب اللہ بنائیں گے، اپنی قوت لائیں گے، پھر کچھ کر پائیں گے۔نہیں! اللہ اکبر! پوری بصیرت اور بصارت کے ساتھ ، ہوش مندی کے ساتھ ، اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے کہ میں اللہ کے دین کا طالب علم ہوں ، ایک مسلمان ہوں ، میری ذمہ داری ہے۔ سلطان گئے، خلافتیں زوال پذیر ہوگئیں، علماء دبک گئے، ان کے سارے مسالک، ان کی مسندیں ، ان کے مدرسے سب ٹھنڈے پڑ گئے۔تاتاری چھا گئے، یلغاریں آگئیں۔
سب نکل گئے، اگر میں بھی چلا گیا ان کے ساتھ تو اسلام ، اہل اسلام، ارض اسلام ، عرض اسلام، آبروئے اسلام، عصمت اسلام کا کون دفاع کرے گا، کون حفاظت کرے گا۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ کھڑا ہوا دعوت کے ساتھ ، جہاد کے ساتھ دمشق کی گلیوں میں، بازاروں میں ، گلی کوچوں میں، منڈیوں میں ،درس گاہوں میں، بچے کھچے لوگوں میں ، قلعوں میں، سرداروں کی حویلیوں میں ، جگہ جگہ پر جاکر ابن تیمیہ نے ان حالات کے تحت مسلم امہ کی بچی کھچی قوت کو ، ان کے سلطان کو ، ان کے لشکریوں، عسکریوں، نوجوانوں کو ، طالب علموں کو، تاجروں کو ، سوئے ہوئے طبقوں کو، اللہ کی قسم! پڑھ کر دیکھو ، ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن تیمیہ کو بھی ایسے کارکنان دے دیے تھے دعوت وجہاد کےلیے۔ بالکل نئے سرے دعوت کی پچ بالکل سیٹ کردی۔نیا انداز دعوت کا کھڑا کردیا تھا۔ لوگ پوچھتے تھے: ابن تیمیہ حنفی ہے؟پتہ چلتا ، نہیں! مالکی ہے؟ نہیں! حنبلی ہے؟ نہیں! اشعری ہے؟ نہیں! ابن تیمیہ کون ہے؟ ابن تیمیہ داعی ہے، دعوت دیتا ہے: أَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ [الزمر : 54] آؤ اللہ کی طرف ، اللہ کے رسول کی طرف، عقیدہ توحید پر، تمسک بالسنۃ پر، شرک کے رد پر، بدعت کے رد پر، قبور پرستی کے رد پر، مزارات کے رد پر، قبور کی زیارت کے رد پر، ان تمام چیزوں پر رد کرتا ہوا ابن تیمیہ عقیدہ توحید کو بنیاد بنا کر پوری شدت کے ساتھ توحید ی تھا، تکفیری نہیں تھا۔زبردست بنیاد توحید تھی۔ دعوت اور ارشاد۔ تمام مزارات کے خلاف۔ لوگو! اللہ کی طرف آؤ، لا تشدوا الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد۔ اونٹوں کے کجاوے نہ کسنا، احمد بدوی کی قبر، عبدالقادر گیلانی کی قبر ، میدان حسین میں حسین کا سر، زینب بی بی کا مزار، فلانا مزار، مزارات پر نہ جاؤ۔ دین اللہ کی طرف آؤ، اللہ کی طرف آؤ، اللہ سے مدد مانگو۔
اللہ کی قسم! تب تو مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ تاتاریوں کے خوف سے مزاروں پر ، قبروں پر ، خانقاہوں پر، آستانوں پر جاجاکر جھکتے تھے کہ یہ آستانے، یہ قبریں ، یہ مزار ہمیں تاتاریوں کے ظلم اور تلوار سے بچا لیں گے۔دعوت کی بنیاد کیا بنایا؟ حزبیت نہیں، کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں ، مروجہ فرقوں میں سے کسی ایک فرقہ کے پلڑے میں کوئی عہدہ لے کر ، اس وقت کی پارلیمنٹ میں پہنچ کر، گندی جمہوریت میں شرکت کرکے یہ نہیں کہ جی پہلے مجھے دعوت دینے دیں۔ میں وہاں جاؤں گا، بھلے میں اہل الحدیث ہوں، متمسک بالسنۃ ہوں ،یہ جمہوریت کافرہ ہے ۔ مگر مجھے ڈال دو اس میں، مرکزی بناؤ، جمعیت بناؤ، جماعت بناؤ، متحدہ بناؤ، غرباء بناؤ، امراء بناؤ، مجھے ووٹ سے اوپر چڑھاؤ، پھر میں وہاں چڑھ کر جہاں یہ چڑھے ہیں، کلمہ حق کہنے جاؤں گا۔ نہیں! اللہ کی قسم! نہیں! نہ یہ منہج ابن تیمیہ کا تھا،اور نہ مرکز الدعوۃ والارشاد کا ہے۔
کفر کے نظام کو ایک لمحہ کےلیے ، اس کی قوتیں، اس کے نظام، اس کے آرگنز، اس کے ٹولز، اس کے ہتھیار، اس کی ٹیم بن کر نہیں، إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ [الممتحنة : 4] ابراہیمی منہج کو ابن تیمیہ نے کھڑا کردیا۔ خالص توحید کی بنیاد پر دعوت، عقیدے کی بنیاد پر دعوت ، دعوت کی بنیاد پر نوجوان ابن تیمیہ کے گرد اکھٹے ہوتے۔ ان نوجوانوں کو اتباع سنت ، جہاد فی سبیل اللہ ۔ ایک دم چلا دیتے، ایک دم۔ ہم نے ترپن سال انتظار کیا ۔ طائفہ منصورہ نے، ما انا علیہ واصحابی نے، ترکت فیکم امرین لن تضلوا فلانی حدیث، فلانی حدیث، ہم نے ترپن سال انتظار کیا۔
ابن تیمیہ کی کل بائیس سال کی عمر تھی جب دعوت توحید کی ، تمسک بالسنہ کی ، در بدعت کا ، شرک کا، قبروں کا، مزارات کا ، باطل فرقوں کا ، اشعریوں کا، تاویلی وتعطلیلی فرقوں کا، منطقی فلسفیوں کا ، یونان کے حکماء کا ، تمام فکری قوتوں کا رد کرتے ہوئے، تلوار لے کر گھوڑے پر سوار ہوکر ساتھیوں کے ساتھ سیدھا میدان جہاد میں قوت بناتے ہوئے ، دعوت کھڑی کرتے ہوئے لشکر قائم کردیا۔ہمیں پتہ ہی نہیں اللہ کی قسم کہ قوت کیسے بڑھتی ہے۔قوت دعوت وجہاد سے بنتی ہے۔ان میں سے ایک بھی کم ہوتو چاہے ترپن سال لگا لو، قوت نہیں بنتی۔صرف دعوت دینے سے، دعوت کے مراکز قائم کرنے سے، مدارس کھولنے سے، لشکر قائم نہ کرنے سے کبھی قوت نہیں بن سکتی۔جب تک جہاد کو ساتھ نہ ملایا جائے گا، قوت نہیں ملے گی۔
ابن تیمیہ بائیس سال کی عمر میں ہی قائد اسلام، مجاہد اسلام اور سفارت کار ِ اسلام بن چکے تھے۔ تاتاریوں کے دربار میں خود ہی سفیر بن کر گئے ۔حالانکہ تاتاری تو دہشت کی وہ علامت تھے جو اگرکسی کو کہہ دیتے کہ کھڑا رہ، میں ابھی تلوار لے کرآتا ہوں تیری گردن اڑانے کےلیے، تو وہ بےچارہ کھڑا ہی رہتا تھا۔یہ تھے ابن تیمیہ جو کئی دفعہ تاتاریوں کے دربار میں سفیر بن کر گئے اور وہاں جاکر دعوت کا کام کیا، انہیں ظلم سے روکا۔پھر تاتاریوں کے خلاف خود سربکف ہوکر میدان جنگ میں اترے۔ یہ دعوت وجہاد ہی ان کامنہج تھا۔
اگر آپ اس وقت کے دمشق کے حالات دیکھنا چاہتے ہیں تو موجودہ پاکستانی حالات کو دیکھ لیں ۔ گیارہ سال پہلے جس دعوت کو کھڑا کیا گیا بتیس افراد سے، آج وہ اللہ کے فضل سے بتیس ہزار سے متجاوز ہیں۔ دیکھ لیں اپنے سامنے ان پھیلے ہوئے دعوت وجہاد کے کارکنان کو۔ یہ قبول، یہ شمول اوریہ برکتیں صرف اللہ کی رحمت ہے۔
اللہم اجعل أفئدۃ الناس تہوی الیہم۔ یا اللہ ! لوگوں کے دل مرکز الدعوۃ کی طرف موڑ دے۔اللہ فرماتے ہیں: میں تمہارے دل پھیرتا ہوں، تو اپنا دل قربان کر ، کوئی تلوار، کوئی یلغار، کوئی دل کی بات نکال کہ پتہ لگے تو میرا ہے۔فلسفے اور منطق کا نہیں ہے، احتیاطات اور مصلحتوں کا نہیں ہے۔ابن تیمیہ نے دعوت وجہاد کے میدان میں آکر کسی قاضی اور امام کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دیا۔
صرف دین اللہ کی وضاحت کی۔ہر قسم کی تغیر وتبدل اور تحریف وتاویل سے دین کو صاف کرکے بالکل اصلی حالت میں لوگوں کے سامنے پیش کردیا۔ عقیدہ توحید کی آبیاری کی اور شرک کی جڑوں کو کاٹا اور بدعات کو نیست ونابود کردیا۔تمسک بالسنہ اور اتباع رسول کے جھنڈے ہر طرف گاڑ دیے۔ ہر مسئلے میں کتاب وسنت کو سامنے رکھا چاہے وہ طلاق کا مسئلہ ہو یا زیارت قبور کا۔نہ صرف تمام فرق باطلہ کا رد کیا بلکہ اسلام کی مثبت اور صحیح دعوت بھی لوگوں کے سامنے پیش کی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اگر اس وقت ابن تیمیہ دعوت وجہاد کا منہج نہ اپناتے تو دمشق بھی یلغار ِ تاتار سے محفوظ نہ رہتا۔یہ صرف مسلمانوں کا درد تھا جس نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا۔
آج ہمیں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ جہاد کشمیر کرکے تمہیں کیا ملے گا؟ یوں ہی نوجوانوں کو کٹوا رہے ہو، جب سری نگر آزاد ہوگا تو لشکر طیبہ کو کسی نے پوچھنا بھی نہیں۔ مانا کہ تمہارے نوجوان زیادہ شہید ہوتے ہیں ، تم قربانیاں زیادہ پیش کررہے ہو، لیکن سری نگر میں فلاں جماعت کے عقیدہ میں اگرچہ شرک ہے، فلاں جماعت میں بدعات کا دور دورہ ہے، لیکن تمہارے مقابلے میں وہ تعداد میں زیادہ ہیں۔ کل کو جب امریکا سری نگر کی بندر بانٹ کرے گا تو تمہارے حصے میں کچھ نہیں آنا، سب کچھ انہیں ہی دے دے گا۔ عجیب باتیں سننے کو اور تاریخ میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔
یہی باتیں لوگوں نے جاکر شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے کی تھیں کہ حکمران بھاگ رہے ہیں، قلعے خالی چھوڑے جارہے ہیں، امراء اپنی دولت سمیٹ کر کسی گوشہ عافیت کی تلاش میں نکل چکے ہیں، تو پھر آپ تاتاریوں کے خلاف لڑ کر کیا کریں گے، کیا فائدہ ہوگا سوائے جوانوں کے شہید ہوجانے کے؟
ہمیں بھی یہی کہا جاتا ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ ہمار ےملک کی ان اسلامی جماعتوں نے جمہوریت کا ڈرامہ رچا کر کیا فوائد حاصل کرلیے؟دیکھیں ابن تیمیہ کو، انہوں نے عین ان حالات میں جوانوں کو منظم کیا اور تاتاریوں کے خلاف علم جہاد بلند کردیا اور اپنے بارے میں یہ کہا: انا رجل ملۃ لا رجل دولۃ۔ میں ملت اسلام کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں کسی حکومت کا چمچہ نہیں ہوں۔
اس لیے اے کارکنان دعوت وجہاد! اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ تم لوگوں نے سری نگر سے کیا لینا ہے تو اسے ابن تیمیہ کا یہی قول سنا دینا: انا رجل ملۃ ، لا رجل دولۃ۔
ہمارے یہاں کتنے خلافت کو کھڑا کرنے کا نعرہ لگانے والے ہیں، کہتے ہیں پہلے اندر کا م کریں گے، دس سال لگائیں گے، لوگوں کو سمجھائیں گے، کرسی اقتدار پر براجمان ہوں گے اور پھر اس کرسی کے نیچے سے خلافت نکال کر اسے جلوہ افروزکریں گے۔
یاد رکھیں! یہ سب گمراہیاں، فتنے اور ضلالتیں ہیں۔ ابن تیمیہ سے جب کہا گیا کہ تاتاریوں سے لڑ کر اگر تم جیت بھی گئے تو پھر سلطان آکر حکومت سنبھال لیں گے۔ تمہیں کیا ملے گا؟ انہوں نے فرمایا: انا رجل ملۃ، لا رجل دولۃ۔ کیا تم نے ابن تیمیہ کو کرسیٔ اقتدار کا بھوکا سمجھ رکھا ہے؟ کہ جسے صرف حکومت کا شوق ہی تاتاریوں سے جنگ پر آمادہ کررہا ہے۔ ہرگز نہیں! یہ صرف ملت کا غم ہے اور امت کو بچانے کا جذبہ ہے جس کی وجہ سے ہم نے اس منہج کو اپنایا ہے۔انا رجل ملۃ، لا رجل دولۃ۔
ابن تیمیہ سے کہا گیا: آپ تو تمسک بالسنہ، اتباع سنت اور شریعت پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں پھر ان فساق وفجار حکمرانوں اور امراء کے ساتھ مل کر کیوں لڑتے ہیں؟
آج بھی یہی کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں، فوج کے ساتھ مل کر کیوں لڑتے ہو؟ یہ تو طاغوت ہیں۔
ہاں بھائی! جب کوئی میدان میں اترتا ہے تو اسے اس کی مشکلات کا علم ہوتا ہے۔
یاد رکھیے! جب کوئی کہیں دعوت وجہاد کے منہج کے مطابق کام شروع کیا جاتا ہے تو اسی طرح کے اشکالات پیش کیے جاتے ہیں، داعی، امیر وغیرہ کو روکنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔شیطان اس کو دبانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ جب وہ اللہ کی مہربانی سے کام چلنا شروع ہوجاتا ہے تو شیطان پھر وساوس، اشکالات اور اعتراضات سجھاتا ہے کہ تم تو متمسک بالکتاب والسنہ ہو، جن کے ساتھ مل کر لڑو گے ، وہ تو فساق وفجار ہیں، گناہگار ہیں۔ مسلمانوں کے حکمران تو ایسے ہیں اور ویسے ہیں۔ ان کے ساتھ مل کر لڑتے ہو؟ ان کے تو خلاف لڑنا چاہیے۔
اس موقع پر میں ابن تیمیہ کا ایک متن آپ بھائیوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں: وانتشرت صبحۃ اخری عن غرض حسن من بعض وغرض سیئ من آخرین۔ایک اور شبہ اٹھایا گیا، بہت سے لوگوں کی نیت تو اس شبہ سے اچھی تھی، لیکن بہت سے لوگوں کی نیت بری تھی۔وہذہ الشبہۃ تتعلق بالولاۃ وان منہم یقاتل العدو ولیس ہو فی سبیل اللہ وان ما فی قبیل حکمہ وسلطانہ۔
یہ شبہ حکومتوں اور حکمرانوں سے متعلق ہوتا ہے۔کیونکہ اس وقت وہاں ممالیک بادشاہ تھے جو بالکل شخصی حکمران تھے۔جو دل چاہتا تھا، کرتے تھے۔ بیت المال میں سے کچھ مال خیر کے کاموں پر لگا دیتے تھے اور باقی اپنی عیش وعشرت میں۔اگر وہ حکمران رافضی اور باطنی نہ ہوں، نطق کلمہ شہادتین کرتے ہوں، وعظ وتذکیر پر کچھ سنبھل جاتے ہوں تو ان سے کام لیا جاسکتا ہے۔ یعنی اگر حکمرانوں کی نیت بد بھی ہوتو ان سے کام لیا جاسکتا ہے۔
ومنہم من ہو ظاہر الفجور والظلم والفساد۔ہمارے اس دور میں بھی ایسے حکمران ہیں جو دن رات فسق وفجور میں لگے رہتے ہیں۔ وان من ہذہ حالہ لا یصح القتال معہ۔ اب یہ اشکال سامنے آگیا۔ لان فیہ اعانۃ علی ما ہو فیہ من مقاصد غیر الحسنۃ والاعمال القبیحۃ ومما لا شک فیہ ان ہذہ شبہۃ عظیمۃ خطیرۃ علی الامۃ۔ جب امت کے حکمرانوں کو وعظ وتذکیر کے ذریعے ان کی اصلاح کرلی جائے، نوجوانوں کو دعوت وجہاد کےلیے تیار کرلیا جائے تو اس طرح کے شبہات بہت گہرا اثر رکھتے ہیں۔ اس لیے ابنت تیمیہ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: فان اتفق من یقاتلہم بوجہ الکامل فہو الغایۃ لرضوان اللہ وکلمتہم واقامۃ دینہ وطاعۃ رسولہ۔اگر تمہیں ایسے حکمران میسر آجائیں جو اللہ کے دین سے محبت کرنے والے ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرو اور ان کے ساتھ مل کر جہاد فی سبیل اللہ کرو۔ “وان کان فیہم من فیہ فجور وفسق وفساد نیۃ بان یکون قاتل علی الریاسۃ او یاتی فی بعض الامور کانت مفسدۃ ترک قتالہم اعظم علی الدین من مفسدۃ قتالہم علی ہذا الوجہ کان الواجب ایضا قتالہم لدفع اعظم المفسدتین۔ اگر تمہیں ایسے حکمران میسر آئیں جو فاسق وفاجر اور اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور گناہگار ہوں۔ اگر وہ جہاد کےلیے کھڑے ہوجائیں تو تم پر ان کے ساتھ مل کر جہاد کرنا واجب ہےتاکہ اسلام کو غلبہ ملے۔
جیسے ہم جہاد کانفرنسیں کرتے ہیں ، ویسے ہی شیخ الاسلام بھی لوگوں کو جہاد پر ابھارنے کےلیے تقاریر کیا کرتے تھے۔ بلکہ ایک دفعہ تو انہوں نے حکمران کو یہ تک کہہ دیا تھا کہ میں تمہیں اللہ کی نصرت کی ضمانت دیتا ہوں، تم لوگ جہاد کےلیے نکلو تو سہی۔
ہم لوگ جب اس طرح کی بات کرتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ لشکری ڈینگیں مارتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ابن تیمیہ نے ایک مرتبہ اپنی تقریر میں کہا: لوگو! تم پر جہاد واجب ہوچکا ہے۔ا گر تم فی سبیل اللہ جہاد کرو گے تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ اللہ کی نصرت ضرور آئے گی۔ مجمع میں موجود ایک عالم نے کہا: ابن تیمیہ! ان شاء اللہ تو کہو۔ فرمایا: ان شاءاللہ تحقیقاً ، لا تعلیقاً۔
تو جو ابن تیمیہ کی طرح پر عزم ہوتےہیں ، انہیں اللہ کی مدد آنے کا یقین ہوتا ہے۔
پھر شیخ الاسلام حکمران ناصر الدین کو لے کر نکلے اور میدان جنگ میں جا پہنچے۔گھمسان کا معرکہ ہوا۔ سلطان بیچارہ ممالیک میں سے تھا اور ضعیف الاعتقاد تھا، دوران جنگ اس نے یوں پکار لگائی: یا خالد بن الولید! ابن تیمیہ نے جیسے ہی سلطان کے منہ سے یہ کلمہ سنا، فوراً گھوڑے کو ایڑ لگائی اور سلطان کے پاس پہنچ کر اسے ڈانٹا اور ایاک نعبد وایاک نستعین یاد دلایا اور کہا: ایسی مشرکانہ پکار نہ لگاؤ، ایسا نہ ہو کہ تمہاری وجہ سے مسلمانوں کو نقصان پہنچ جائے۔ داعی جب مجاہد بن جاتا ہے تو حکمران بھی اس کی بات مانتا ہے۔ اس نے فوراً توبہ کی اور ایاک نعبد وایاک نستعین پکارنے لگا۔ پھر بعد میں اس نے شیخ سے اپنی غلطی کا کفارہ بھی پوچھا۔ہمارے مجاہد جب سیکٹروں سے گزرتے ہیں تو الحمد للہ نعرہ تکبیر ہی لگاتے ہیں۔آپ اس واقعہ کو ذرا غور سے دیکھیں کہ سلطان نے جب عین میدان جنگ میں یا خالد بن الولید! کا نعرہ لگایا تو ابن تیمیہ نے اس پر کفر وشرک کا فتویٰ لگا کر میدان چھوڑنے کا قصد نہیں کیا، بلکہ اس کو سمجھایا کیونکہ ابن تیمیہ محافظ اسلام تھا، مجدد اسلام تھا۔ ایسے ہی آج لشکر طیبہ بھی اسی منہج پر کام کررہا ہے۔ کہتے ہیں کہ تم بریلویوں ، دیوبندیوں کے ساتھ مل کر کیوں لڑتے ہو؟ وہ تو عقیدے کے اعتبار سے انتہائی غلط ہیں۔ پھر کشمیر کے عوام بھی بریلوی ہیں۔ قبروں پر جاتے ہیں، انہی سے مانگتے ہیں۔ وہ مرتے ہیں تو مرنے دو۔ ان کی عورتوں کی عصمت لٹتی ہے تو لٹنے دو، تم ادھر نہ جاؤ۔ میرے بھائیو! یہ بھی مسلمان ہیں، انہیں صحیح عقیدہ بتایا ہی نہیں گیا، اس لیے وہ گمراہ ہوئے ہیں، انہیں بچانا ہماری ذمہ داری ہے۔
پھر سلطان نے کہا: اے شیخ! آپ میرے پاس آجائیں۔ لشکر کے قلب میں آپ رہیں۔ اس بیچارے کا خیال تھا کہ جہاں شیخ ہوں گے، وہ تاتاری حملہ نہیں کرسکیں گے۔ شیخ نے اس کی بات ماننے سے انکار کردیا اور نبیﷺ کا طریقہ یاد دلایا کہ ہر آدمی اپنے لشکر کے ساتھ رہے۔
ہمیں بھی یہی طریقہ اپنانا ہوگا کہ جب بھی کوئی اشکال اور اعتراض پیش کیا جائے تو ہمیں فوراً چودہ سو سال پہلے والا رسول اللہﷺ کا طریقہ یاد دلانا چاہیے۔
وہ سلطان شیخ سے مدد مانگ رہا تھا کہ میرے پاس آجاؤ۔ اور ہمارے مولوی حکمرانوں کے پاس جاتے ہیں کہ ہمیں یہ جگہ چاہیے مدرسے کےلیے، یا فنڈ چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔یہ منہج کی غلطیاں انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔
شیخ نے جب اس کی بات ماننے سے انکار کردیا تو اس نے کہا : کچھ تو کیجئے۔ آپ نے پھر اچھے گھوڑے منگوائے اور سارے لشکر کا معائنہ فرمانے لگے اور سب لشکریوں کے حوصلے بڑھانے لگے اور انہیں اللہ کےلیے جان قربان کرنے پر اکسانے لگے۔اللہ کی قسم! عقیدے یوں بدلتے ہیں، بدعتیں یوں مٹتی ہیں، شرک یوں ختم ہوتا ہے جب داعی اور مجاہد خود عقیدہ توحید کی دولت سے مالا مال ہو اور اسے دوسروں پر نچھاور کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔
یہ وہی شیخ تھے جنہوں نے قبرص کے عیسائی بادشاہ کو خط لکھا تھا کہ اگر تیرے ملک میں مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچا تو ہمارے پاس ایسے فدائی موجود ہیں جو تجھے تخت سے اٹھا لائیں گے۔
وقت کی قلت کے پیش نظر آپ سب مسؤولین، زونل امراء، اساتذہ اور کارکنان کےلیے شیخ الاسلام کا ایک واقعہ سنا کر اجازت چاہوں گا۔
ایک مرتبہ ابن تیمیہ مرج السفر نامی جگہ پر تھے۔ آپ نے اپنے ساتھی سے کہا: کیا تم فوجوں کو آمنے سامنے دیکھ رہے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں! فرمایا: مجھے اس جگہ لے چلو جہاں موت کا رقص ہوگا۔ جب لشکر سامنے آگئے۔ تلواریں نکل آئیں، چہرے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوگئے ۔ ایک طرف وہ تاتاری جن کی دہشت اطراف عالم میں پھیلی ہوئی تھی۔ جنہوں نے بغداد میں مسلمانوں کی کھوپڑیوں سے مینار تعمیر کیے تھے۔ جن کا سامنا کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرتا تھا۔ جب ابن تیمیہ نے اس کا سامنا کیا تو اپنے ساتھی سے کہا: مجھے اس جگہ لے چلو جہاں موت ناچتی ہے۔
یہ نہیں کہا کہ میں داعی ہوں، مجھے پیچھے لے جاؤ، کسی اوٹ میں کھڑا کردو، نہیں! بلکہ ابن تیمیہ ایک مجاہد تھا، کہا: مجھے وہاں لے چلو جہاں شہادت یقینی ہو۔ساتھی کہتے ہیں: میں ان کو دشمن کے عین سامنے لے گیا جہاں تاتاریوں کا لشکر سیل رواں کی طرح بڑھتا چلا آرہا تھا۔میں نے وہاں پہنچا کر کہا: لیجئے! آپ کی من پسند جگہ یہی ہے، یہی آپ کو جام ِ شہادت نوش فرمانے کےلیے مل سکتا ہے۔ کہتے ہیں: وہاں پہنچ کر ابن تیمیہ نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور دشمن سے لڑائی کرتے وقت ذکر اللہ کی سنت نبویﷺ کو پورا کرنے لگے۔ بدر واحد کا منظر تازہ ہونے لگا۔ پھر جب وہ لشکر قریب آیا تو ابن تیمیہ نے اپنی اس مناجات کو ختم کیا اور تلوار سونت لی اور دشمنوں پر فدائی حملے کےلیے تیار ہوگئے۔ پھر لڑائی شروع ہوگئی اور کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا۔
تلواروں سے تلواریں ٹکرانے لگیں، آہ وپکار ہونے لگی، فوجیں گھتم گھتا ہوگئیں، ایک دوسرے پر فنون حرب آزمائے جانے لگے۔ ابن تیمیہ پیچھے ہٹنے کی بجائے دشمن کے لشکر میں گھس گئے اور میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ پھر جب مسلمانوں کو فتح ہوگئی اور تاتاری دم دبا کر بھاگ گئے تو مسلمان ان کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوگئے۔ اسی دوران میں نے شیخ الاسلام اور ان کے بھائی کو دیکھا کہ وہ لشکر میں گھوم پھر کر مسلمانوں کو جوش دلا رہے تھے اور دشمن کو بالکل ختم کرنے پر آمادہ کررہے تھے اور انہیں ابھار رہے تھے کہ آج کسی تاتاری کو بچ کر نہیں جانا چاہیے۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب مسلمانوں کے دل سے تاتاریوں کا خوف نکلا۔
یہ واقعہ 702 ہجری کے رمضان المبارک کے پہلے حصے میں عصر کے وقت سے شروع ہوکر اگلے دن کی عصر کے وقت ختم ہوا۔
یہ تھے ابن تیمیہ جو دعوت وجہاد کے منہج پر گامزن تھے اور اللہ نے انہیں فتح ونصرت سے نوازا۔
ابن تیمیہ کے منہج دعوت وجہاد کا ایک بہت بڑا حصہ شعائر اللہ کی پابندی بھی تھا اور وہ غیروں کی تہذیب وثقافت سے بہت دور اور نفور تھے۔ اور الحمد للہ آج لشکر کے ساتھی بھی اسی منہج پر رواں دواں ہیں۔ اس وقت کے جتنے بھی غیر مسلم ہیں اور مسلمانوں سے برسر پیکار ہیں، انہیں اگر کسی جہادی تنظیم سے خطرہ ہے تو وہ لشکر طیبہ ہے کیونکہ یہی وہ جماعت ہے جس کی بیک پر دعوت موجود ہے۔ یہی ابن تیمیہ کا منہج دعوت وجہاد تھا کہ لوگوں کو صحیح عقیدے پر جمع کرنا لیکن غیر تکفیری انداز میں۔سب سے اشتراک عمل لیکن اپنے مسلک پر پکے۔ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ [القلم : 9] نرم نہیں پڑنا لیکن گالیاں بھی نہیں دینی، تشدد والا رویہ بھی نہیں اپنانا۔
اگر ہدایت چاہتے ہو تو آؤ قرآن وحدیث کو سینے سے لگا لو، اسی میں سب کےلیے ہدایت ہے۔
ما یلفظ من قول إلا لدیہ رقیب عتید .... لکھنے والا جو کچھ بھی لکھتا ہے اس پر ضرور ایک نگہبان مقرر ہوتا ہے ۔
لنک
الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ!اما بعد! فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُ*وا يَرُ*دُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِ*ينَ ﴿١٤٩﴾ بَلِ اللَّـهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ* النَّاصِرِ*ينَ ﴿١٥٠﴾ [آل عمران : 150-149]
فقال ابراہیم بن عبدالرحمن العذری رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: يحملُ هذا العلمَ من كلِّ خلفٍ عُدولَهُ ينفونَ عنه تحريفَالغالينَ وانتحالَ المُبطلينَ وتاویل الجاہلین
وراہ البیہقی مرسلا: ان صح الخبر
عزیزان گرامی قدر! جلسے تو اللہ کے فضل وکرم سے مرکز الدعوۃ والارشاد کا تعارف بن چکے ہیں۔ اور بہت بڑے بڑے جلسے بھی ہم نے خطاب کیے اور آپ نے الحمد للہ استماع فرمایا۔ مگر مجھے آج کے اس اجتماع میں ان تمام بڑے بڑے اجتماعات سے زیادہ خوشی محسوس ہورہی ہے کیونکہ یہ جمع ، جمع کبیر عامۃ الناس کا نہیں ہے، بلکہ اس اجتماع کا اختصاص اورمیزہ یہ ہے کہ یہ کارکنان دعوت وجہاد کا اجتماع ہے۔کارکن وہ شخص ہوتا ہے جو عامۃ الناس سے صلب موضوع کی طرف زیادہ متقدم ہوتا ہے، اس کا قلب مضطرب ہوتا ہے، اس کو موافقت تامہ حاصل ہوچکی ہوتی ہے اور ایک حوالے سے وہ ذمہ دار ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ معترف ہوتا ہے، مقر ہوتا ہے کہ میں اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو سربلند کرنے کےلیے اپنی جان، اپنا مال، اپنا سب کچھ قربان کرنے کےلیے تیار ہوں اور اس کےلیے میں یہاں جمع ہوا ہوں۔تاکہ میں مزید خیر کثیر کےلیے اعلیٰ تربیت حاصل کروں۔تو اللہ کے فضل وکرم سے یہ بہت بڑا اجتماع کارکنین کا ، مسؤلین کا، ذمہ داران کا، ان لوگوں کا جن لوگوں کا جنہوں نے عقل کے ساتھ، سوچ سمجھ کے ساتھ، فہم وفراست کے ساتھ ، بیداری وشعور کے ساتھ اس بات کا اعتراف واقرار کرلیا ہے کہ
نحن اللہ بایعوا محمدا --- علی الجہاد ما بقینا ابدا
اللہ اکبر! یہ ان عظیم، بابرکت، مقدس ، ان خیر کے لوگوں کا اجتماع ہے۔ اللہ اکبر!
تو اس اجتماع میں ہم شیخ الاسلام تقی الدین ابوالعباس احمد ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ۔ ہمارے ذمہ جو سبق، جو درس، جو لیکچر ، جو لیسن آج ہمارے ذمہ لگا ہے امیر محترم کی طرف سے، وہ ہے کہ ہم عالم اسلام کی ایک انتہائی برگزیدہ ، ممیز شخصیت، میرےبھائیو! عالم اور شیوخ الاسلام تو اللہ کے فضل سے بے شمار آئے، وجود میں ، النجوم الظاہرہ، چمکدار ستارے بہت سے چمکے اس آسمان پر اللہ کے فضل سے۔ اللہ کی قسم اندھیری راتیں تو منحوس یورپ پر طاری ہوئیں، ان کافروں پر طاری ہوئیں۔ اللہ کے فضل وکرم سے عالم اسلام کے اندر چمکتے ستارے، درخشاں ستارے ان گنت آئے۔ بے شمارآئے۔ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ میزہ ، یہ خاصہ، یہ دعا، یہ اللہ کی رحمتیں اور برکتیں، یحمل ہذا العلم من کل خلف عدولہ۔
یہ سلسلہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے لےکر آج تک چل رہا ہے۔چلتا رہے گا ان شاء اللہ۔
مگر ہمیں موضوع دیا گیا ہے، اللہ اکبر! تقی الدین ابوالعباس احمد ابن تیمیہ۔ کیوں؟ کہ جب احمد ابن تیمیہ کھڑا ہوا تھا، جب اس کو اللہ نے علم، قال اللہ وقال الرسول ، مشکاۃ المصابیح، بخاری اور مسلم کے متون اور منطق اور فلسفہ او رصرف اور نحو اور لغت اور نطق اور بیان اور زبان جب اللہ نے اس کو دیا تھا، تب اس وقت عالم اسلام پر جو مسکنت، جو ذلت ،جوپریشانیاں، جو زوال، جو انحطاط اس ووقت عالم اسلام پر تھا، اللہ کی قسم! آج عالم اسلام پر اسی قسم کے حالات اس سے بھی زیادہ پریشان کن حالات عالم اسلام پر ہیں۔اسی طرح مرکزیت کا زوال ہے، خلافت کا زوال ہے، سقوط خلافت ہے ، امارات اسلامیہ نہیں ہے۔ حکومات مسلمہ نہیں ہیں، مسلمان عوام نہیں ہے، بیدار علماء نہیں ہیں۔ کتاب وسنت قائم نہیں ہیں۔ توحید واتباع کا نظام نہیں ہے۔ شرک و بدعت رائج ہے۔رفض وشیعیت مسلط ہے۔
باطنی فرقے پورے عالم اسلام کی ریڑھ کی ہڈی کو کھا رہے ہیں او ران سب سے اوپر مسیحی ، یہودی ، کمیونسٹ، سوشلسٹ، بدھ اور دہریے اور ہندو چھار ہے ہیں۔یہی حالات تھے جب احمد ابن تیمیہ، اللہ اکبر! کھڑا ہو کر دعوت اور جہاد کا کام کرتا تھا۔یہی حالات تھے اللہ کی قسم! خلافت کا سقوط۔آج خلافت کافر کی۔ مسلمان چھتری ، چھت اور سائبان کے بغیر ہیں۔ یاد رکھو مسلمانو،بھائیو! مسلم امت کے اوپر بہت سے سائبان جو ان کو کافروں کے کفر سے، دھوپ کی تمازت سے ، یہ طاغوت کی تمازت سے بچاتا ہے، وہ خلافت اسلامیہ، امارت اسلامیہ ہوا کرتا ہے، اس وقت بھی وہ ساقط تھا، آج بھی وہ مفقود ہے۔اور جب خلافت گر جایا کرتی ہے تو پھر فتنے برساتی مینڈکوں کی طرح، خود رو جڑی بوٹیوں کی طرح ، جنگلی گھاس اور پودوں کی طرح فتنے، گمراہیاں، دعوتیں، تنظیمیں، جماعتیں، احزاب، طوائف، چھوٹے چھوٹے بادشاہ، چھوٹے چھوٹے راجے، راجواڑے، دستور، قانون ، تقلید، تحکیم الی غیر الشریعہ، یہ سب بیماریاں بھرپور نکلا کرتی ہیں۔یہ کینسر، یہ وائرس، یہ بیکٹیریا، یہ ٹی بی، اللہ کی قسم! لگ جایا کرتی ہے امت اسلام کو، ملت اسلام کو جب اس کے سر سے خلافت کا سایہ چھین لیا جاتا ہے، وہ چادر پھاڑ لی جاتی ہے۔
661-728۔ساتویں اور آٹھویں ہجری میں، ذوالقرنین، یہ زمانہ ہے ابن تیمیہ رحمہ اللہ شیخ الاسلام کا۔ عباسیہ خلافت کو تاتاریوں نے گرا دیا تھا۔ خلاف عباسیہ بغداد میں ساقط ہوچکی تھی اور جس جس علاقے سے وہ خلافت ساقط ہوئی، تاتاری اور باطنی، اندر کے سازشی، بغداد میں خلافت عباسیہ کے سقوط کے نتیجے میں عالم اسلام کا ثقل، اس کا بیلنس، اس کی سیادت ، اس کی قیادت بغداد سے مصر کی طرف منتقل ہوچکی تھی۔مصر جو طویل عرصے تک عبیدیوں اور فاطمیوں کی کا مرکز رہا۔ عبیدی خلافتیں اور فاطمی خلافتیں، یہ دو خلافتیں جو کتاب و سنت سے ہٹ کر تشیع اور رفض ، بدعات اور خرافات، اہل بیت کے نام پر جعل سازیاں ، وہ جو سقوط تھا خلافت اسلامیہ کا ،اس کی بجائے، اللہ اکبر! بے شمار خرافات اور بے شمار ہک اور اضافے بنو عبید اور فاطمیین کی خلافت رہی تھی مصر میں۔ اس سے ذرا پہلے ان دونوں علاقوں پر، مصر اور شام پر، صلیبیوں کی یلغاریں ہوتی تھیں، طویل عرصہ تک صلیبیوں نے، عیسائیوں نے ان علاقوں پر بیت المقدس کے باعث اس کو چھین لینے کےلیے ، اس پر قابض ہونے کےلیے بہت سی مسلم ریاستیں، شہر اور صوبہ جات، شام کے اور مصر کے ساحلی علاقہ جات ، ان سب پر کافی عرصہ تک، نوے سال تقریباً ، اکانوے سال تک اس پوری پٹی پر صلیبی باقاعد ہ متمکن رہے۔ان کی سلطنتیں رہیں، انہوں نے مسلمانوں کو کاٹا، اسلام کو گرایا، مسیحیت کو مسلمانوں کے اندر تک داخل کیا، اس کےلیے ہر جبر، ہر ظلم، انسانیت کے تمام تقاضے انہوں نے پامال کردیے، تاریخ شاہد ہے، بیت المقدس کے اندر ان ظالموں نے جب قبضہ کیا، ایک ہفتہ، ڈیڑھ ہفتہ تک ان ظالموں نے اتنا خون بہایا کہ گھٹنوں تک، اگر گھوڑے چلتے تھے تو ان کے گھٹنوں پر مسلمانوں کا، مسلم امہ کا ، محمدیون کا خون تھا۔
اور تاریخ شاہد ہے کہ ان صلیبیوں اور ان مسیحیوں کو دعوت دینے کےلیے، اس خطے پر حملے کرنے کےلیے کنہوں نے دعوت دی تھی؟ وہی باطنی، عبیدی، فاطمی سلاطین، اپنی اپنی حکومتیں، ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی سلطنتیں ، اپنی شخصی بادشاہتیں، ان کو جمع رکھنے کےلیے اسلام اور سنت اور تمسک بالدین اس کا قلع قمع کرنے کےلیے ، اندر کے لوگوں نے دعوتیں دے کر کافروں کو جرمنی سے، فرانس سے، بلغاریہ سے، ہنگری سے ، بریڈ فورڈ اور یہ فلاں اور فلاں ، یہ سب چڑھے تھے اور انہوں نے اکانوے برس حکومت کرلی۔اب مسیحی ، عبیدی، فاطمی، مسیحیوں کا گناہ ، اللہ اکبر، اور ان کی خرافات اور ان کا غلو اپنے اولیاء اور اپنے انبیاء کے ساتھ ان کا شرک ۔ اس شرک کے اثرات تھے شام کے اندر اور مصر کے اندر ، اتنے وسیع، اتنے قبیح، اتنے عریض، اتنے اندر تک گھسے ہوئے کہ اللہ کی قسم ! ابن تیمیہ جیسے داعی کو بےشمار مشکلات پیش آئیں۔
اس گہرے شرک کو، اس کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے میں کیونکہ مسیحیت کا شرک مسلمانوں کے اندر بدعت کے روپ میں پوری طرح پھیل چکا تھا۔ہاں! یہ اسی طرح ہوتا ہے۔ یہ جو ہمارے بہت سارے بھائی آج تک فیصلہ نہیں کرسکے ناں کہ محمد ﷺ نور ہیں کہ بشر ہیں؟ جھگڑا ڈال لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں آخر میں کہ بشر تو ہو نہیں سکتے۔ نور ہیں۔ نور کیسے نور ہیں؟ من نور اللہ ہیں۔اللہ کی ذات میں سے ذات۔ اللہ کی قسم! جاؤ ، پڑھو، علماء نے لکھا کہ مسلم امت کے فرق ضالہ کے اندر جو شرک آج موجود ہے کہ یہ اپنے نبی کو ذات من ذات اللہ کہتے ہیں ، یہ عکس ہے ان عیسائیوں کا جب انہوں نے کہا تھا کہ عیسیٰ ابن اللہ، یہ عکس ہے یہودیوں کا جب انہوں نے کہا: عزیر ابن اللہ۔ کافر قوموں کے ساتھ اختلاط، وہ مسلمانوں پر چڑھ جائیں۔ تو یہ نہ سمجھا کرو کہ من قال لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ۔ لا الہ الا اللہ زبان سے کہتے ہیں مسلمان، ختنے کرتے ہیں، عقیقے کرتے ہیں، نکاح کرتے ہیں، جنازے پڑھتے ہیں، عیدیں ، جمعے مناتے ہیں، پر ان کی شکلیں، ان کی عقلیں، ان کی تہذیب، ان کے شعائر، ان کی اعیاد، ان کی (۔۔۔) سب کچھ کافروں جیسی ہوچکی ہیں۔یہی اس وقت ہوا تھا۔ بغداد کی خلافت کا سقوط، اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ امت مسلمہ کا سیاسی وزن ، بغداد کی بجائے مصر منتقل ہوگیا۔
اور مصر اور شام کی حالت کیا تھی ، عبیدیوں ،باطنیوں اور فاطمیوں اور اس کے ساتھ ساتھ مسیحیوں کے اثرات کی وجہ سے یہ سارے کا سارا خطہ بظاہر اسلام اور حقیقت میں یہ سارے کا سارا خطہ بدعات کا ، کفر کا اور شرک کا اور ضلالات کا اور گمراہیوں کا اور غیر اللہ کی عبادت کا اور تمسخر اور تکبر اور استغاثہ اور استعانت لغیر اللہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔پھر اس خطے کو ایک اور چیز بھی ، اللہ اکبر! جو ابن تیمیہ کےلیے پریشانی کا باعث تھی، وہ کیا؟ اس پورے زمانے میں زبردست تقلیدی جمود، اشعری عقائد اور اصول، مسلم امہ کے اندر یہ ذہن کہ رسول اللہﷺ کی حدیث، صحابہ کرام کا عمل، بڑی اس کی شان ہوگی لیکن لاؤ اس کو کسی امام سے ، امام المسلک سے، ائمہ اربعہ سے اس کو کہلواؤ، اس کو منواؤ، قاضی مالکیہ، قاضی شافعیہ، قاضی حنفیہ، قاضی حنبلیہ ، چاروں قاضیوں میں سے کوئی قاضی اس مسئلے کو ثابت کرے، اپنے امام سے، اپنے سلسلے سے، اپنی تقلید سے ، تب جاکر اس کو اسلامی کہا جائے وگرنہ اس کے خلاف کفر کا ، گستاخی کا، بغاوت کا، جیل کا، ہر قسم کا فتویٰ دے دیا جائے۔ عقائد اشعریہ، تقلیدی جمود، اللہ، ہمارے ہاں بھی آج کل اسی قسم کی حالت ہے۔
اللہ اکبر! انگریزوں، یہودیوں ، عیسائیوں سے دبتے ہوئے اور اندر میرا فرقہ فلاں، میرا فرقہ فلاں۔ پاکستان میں اسلام لاؤ، فقہ ہوگی حنفی۔ کوئی کہے گا: سوڈان میں اسلام لاؤ، فقہ ہوگی شافعی۔ الجزائر، مراکش میں اسلام لاؤ، فقہ ہوگی مالکی۔ اسلام نیم مالکی فقہ، اسلام نیم جعفری فقہ۔ اسلام کے معنیٰ سواد اعظم۔ یہ بیماری پوری شدت کے ساتھ اس وقت موجود تھی۔ اور خاص کر ، اللہ اکبر! صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ ایک طرف ان کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے بیت المقدس صلیبیوں سے آزاد کروایا۔دوسری طرف ان کے ایوبی سلاطین اور ممالیک کے ہاتھوں پر فقہ اشعریہ، اصول اشعریہ کی ترویج، بہرحال مصر وشام میں پوری طرح متداول تھی۔
یقیناً اس سارے میدان اور مجال میں وہ سلفی العقیدہ بھی تھے جو آج بھی ہیں ، ان کو طائفہ منصورہ، کتاب اللہ وسنۃ رسول اللہ، ما أنا علیہ وأصحابی، یہ ساری عبارتیں، ان کو تب یاد تھیں ، اب یاد ہیں، مگر ان کے اندر وہی ذہن، ہمارا خلیفہ نہیں ہے، تمہاری قوت نہیں ہے۔ ابھی مکی دور ہے۔ پہلے عقیدے درست کرو، تاتاری بھلے چلے آتے ہوں۔صلیبی دندناتے ہوں، مسیحی دھاڑتے ہوں، مگر یہ الجھنِ علمی اس وقت بھی ان کو گھیرے ہوئے تھی۔جیسے آج بھی بیشتر حصے کو گھیرے ہوئے ہے۔
یہ تقریباً حالات تھے۔ آج بھی بہت سارا طبقہ ہے اللہ کے فضل سے جن کو یہ پتہ ہے کہ دین کیا ہے، دین کے اصول کیا ہیں؟ التمسک بالکتاب والسنۃ، طائفۃ منصورۃ، لاتزال ، لاتزال، بالکل یاد ہے۔ ما أنا علیہ وأصحابی، ما أنا علیہ وأصحابی بالکل ان کو یاد ہے۔مگر اس کی عملی تصویر، اس کی عملی تطبیق میں وہ بالکل فاش غلطی کے مرتکب ہوجاتےہیں۔جو اعلیٰ ترین ، احسن ترین لوگ ہیں، وہ تطبیق علمی ایک فاش ترین غلطی کا ارتکاب کرکے، تعطل میں ، انتظار میں اور چیزوں کے معطل کرنے میں اور برطانوی کافروں کے غلبےکو قبول کرلینے یا برداشت کرلینے میں یا اپنے اوپر مصنوعی جبر طاری کرکے ، مکی دور میں داخل کرکے ایک عجیب سی پناہ گاہ میں چھپ جاتے ہیں۔ یہ لوگ بھی بہرحال موجود تھے۔ اس وقت ابن تیمیہ رحمہ اللہ کھڑے ہوئے۔ تاتاری ان کی جرأتیں بہت زیادہ تھیں، انہوں نے عالم اسلام کے بیشتر حصے کو ادھیڑ دیا تھا۔ سلجوقی سلطان ایک مرتبہ مارا صلیبیوں کو تو صلیبیوں کو وہ جو خوفناک مار تھی ، اس کے اثر سے کچھ عرصہ تک صلیبی یلغار متاخر ہوئی۔
اسی طرح مصر کے سلطان نے ایک مرتبہ ان سے جھڑپ لے لی ان سے تو کچھ عرصہ ان سے متاخر ہوئے۔ مگر چونکہ انہوں نے بغداد کو گرالیا تھا، ایران کو ڈھا لیا تھا، خراسان کو تہ تیغ کرلیا تھا۔خوازمی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے تھے، انہوں نے عالم اسلام کے انتہائی طاقتور، متمدن، خوبصورت ، مالا مال، سونا اگلتی زمینوں کو چونکہ تاراج کردیا تھا ، انہوں نے غیر دیہاتی مسلمانوں کی مسجدوں کو، مدرسوں کو پامال کرلیا ہوا تھا ، ان کے حوصلے تھے، وہ بھی آگے بڑھ بڑھ کر شام، دمشق، قاہرہ، مصر، اس پر حملوں کی سوچ رہے تھے۔اور کررہے تھے۔ اور ان کے اندر ایک اور چیز پیدا ہوچکی تھی ، کچھ تاتاری سردار اسلام قبول کرچکے تھے ، مگر اللہ اکبر! اللہ بچائے اس اسلام سے، ویسا ہی جیسا آج ہمارے پاس ہے۔تاتاری اپنے چنگیز خان کے (۔۔۔۔)دستورکو مقدس جانتے تھے۔ کلمہ شہادتین ،(۔۔۔) واعترفوا، یہ ایک بیماری عجیب وغریب جو پہلے نہیں تھی اور آج تک نہیں گئی، یہ (۔۔۔)، یہ قانون سازیاں، مسلم امہ کے اندر ، مسلمانوں کے لیڈر، مسلمانوں کے سیاست دان جمع ہوکر اپنے انتخاب یا اپنی نامزدگیوں سے کہیں، مسلمان کلمے پڑھیں ، کریں عقیقے ، جائیں مسجدوں کو مگر اپنے سکول، اپنے ڈھانچے، اپنے ادارے چلانے کےلیے ، تقلید، التحکیم الی غیر شریعۃ اللہ اور یہ بیماری بھی تاتاریوں کے ساتھ آئی۔
کچھ ان میں سے کفر پر تاتاری، کچھ ان میں سے مسلمان ہوگئے۔اب جو مسلمان ہوگئے، کلمہ وہ پڑھتے ہیں لیکن حکم بغیر ما أنزل اللہ، التحکم الی غیر شریعۃ اللہ۔ ابن تیمیہ کے سامنے یہ سارے مسائل،یہ سارے حالات تھےاب ابن تیمیہ شیخ الاسلام بنا۔ منہج ہے، اللہ کی قسم! منہج، کوئی آواز نہیں اٹھائی کہ میں جماعت بناؤ ں گا۔ اتنی احزاب ہیں ، میں بھی حزب کھڑی کروں گا۔حزب اللہ ہوگی، حزب الرسول ہوگی، ایسی کتاب اللہ اور سنۃ رسول اللہ پر جماعت ہوگی ، میں اس کا قائد ہوں گا۔
دمشق میں اس کا مرکز بناؤ ، میری لیڈری چمکاؤ، میرے ووٹ ڈالو، میری برانچیں کھولو دمشق میں میرے نام سے ، نہیں! کوئی ایسا تعطل کا انداز اختیار نہیں کیا کہ چاہے جتنے خطرات ہیں، کوئی اسلام کو اوپر سے کاٹے، کوئی نیچے سے گرائے، صلیبی چڑھ جائیں، تاتاری آجائیں مگر ہم تو پہلے اپنی فلاں چیز کو ٹھیک کریں گے، نفس کی اصلاح کریں گے ، تمسک بالسنۃ لائیں گے، اپنی حزب اللہ بنائیں گے، اپنی قوت لائیں گے، پھر کچھ کر پائیں گے۔نہیں! اللہ اکبر! پوری بصیرت اور بصارت کے ساتھ ، ہوش مندی کے ساتھ ، اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے کہ میں اللہ کے دین کا طالب علم ہوں ، ایک مسلمان ہوں ، میری ذمہ داری ہے۔ سلطان گئے، خلافتیں زوال پذیر ہوگئیں، علماء دبک گئے، ان کے سارے مسالک، ان کی مسندیں ، ان کے مدرسے سب ٹھنڈے پڑ گئے۔تاتاری چھا گئے، یلغاریں آگئیں۔
سب نکل گئے، اگر میں بھی چلا گیا ان کے ساتھ تو اسلام ، اہل اسلام، ارض اسلام ، عرض اسلام، آبروئے اسلام، عصمت اسلام کا کون دفاع کرے گا، کون حفاظت کرے گا۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ کھڑا ہوا دعوت کے ساتھ ، جہاد کے ساتھ دمشق کی گلیوں میں، بازاروں میں ، گلی کوچوں میں، منڈیوں میں ،درس گاہوں میں، بچے کھچے لوگوں میں ، قلعوں میں، سرداروں کی حویلیوں میں ، جگہ جگہ پر جاکر ابن تیمیہ نے ان حالات کے تحت مسلم امہ کی بچی کھچی قوت کو ، ان کے سلطان کو ، ان کے لشکریوں، عسکریوں، نوجوانوں کو ، طالب علموں کو، تاجروں کو ، سوئے ہوئے طبقوں کو، اللہ کی قسم! پڑھ کر دیکھو ، ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن تیمیہ کو بھی ایسے کارکنان دے دیے تھے دعوت وجہاد کےلیے۔ بالکل نئے سرے دعوت کی پچ بالکل سیٹ کردی۔نیا انداز دعوت کا کھڑا کردیا تھا۔ لوگ پوچھتے تھے: ابن تیمیہ حنفی ہے؟پتہ چلتا ، نہیں! مالکی ہے؟ نہیں! حنبلی ہے؟ نہیں! اشعری ہے؟ نہیں! ابن تیمیہ کون ہے؟ ابن تیمیہ داعی ہے، دعوت دیتا ہے: أَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ [الزمر : 54] آؤ اللہ کی طرف ، اللہ کے رسول کی طرف، عقیدہ توحید پر، تمسک بالسنۃ پر، شرک کے رد پر، بدعت کے رد پر، قبور پرستی کے رد پر، مزارات کے رد پر، قبور کی زیارت کے رد پر، ان تمام چیزوں پر رد کرتا ہوا ابن تیمیہ عقیدہ توحید کو بنیاد بنا کر پوری شدت کے ساتھ توحید ی تھا، تکفیری نہیں تھا۔زبردست بنیاد توحید تھی۔ دعوت اور ارشاد۔ تمام مزارات کے خلاف۔ لوگو! اللہ کی طرف آؤ، لا تشدوا الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد۔ اونٹوں کے کجاوے نہ کسنا، احمد بدوی کی قبر، عبدالقادر گیلانی کی قبر ، میدان حسین میں حسین کا سر، زینب بی بی کا مزار، فلانا مزار، مزارات پر نہ جاؤ۔ دین اللہ کی طرف آؤ، اللہ کی طرف آؤ، اللہ سے مدد مانگو۔
اللہ کی قسم! تب تو مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ تاتاریوں کے خوف سے مزاروں پر ، قبروں پر ، خانقاہوں پر، آستانوں پر جاجاکر جھکتے تھے کہ یہ آستانے، یہ قبریں ، یہ مزار ہمیں تاتاریوں کے ظلم اور تلوار سے بچا لیں گے۔دعوت کی بنیاد کیا بنایا؟ حزبیت نہیں، کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں ، مروجہ فرقوں میں سے کسی ایک فرقہ کے پلڑے میں کوئی عہدہ لے کر ، اس وقت کی پارلیمنٹ میں پہنچ کر، گندی جمہوریت میں شرکت کرکے یہ نہیں کہ جی پہلے مجھے دعوت دینے دیں۔ میں وہاں جاؤں گا، بھلے میں اہل الحدیث ہوں، متمسک بالسنۃ ہوں ،یہ جمہوریت کافرہ ہے ۔ مگر مجھے ڈال دو اس میں، مرکزی بناؤ، جمعیت بناؤ، جماعت بناؤ، متحدہ بناؤ، غرباء بناؤ، امراء بناؤ، مجھے ووٹ سے اوپر چڑھاؤ، پھر میں وہاں چڑھ کر جہاں یہ چڑھے ہیں، کلمہ حق کہنے جاؤں گا۔ نہیں! اللہ کی قسم! نہیں! نہ یہ منہج ابن تیمیہ کا تھا،اور نہ مرکز الدعوۃ والارشاد کا ہے۔
کفر کے نظام کو ایک لمحہ کےلیے ، اس کی قوتیں، اس کے نظام، اس کے آرگنز، اس کے ٹولز، اس کے ہتھیار، اس کی ٹیم بن کر نہیں، إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ [الممتحنة : 4] ابراہیمی منہج کو ابن تیمیہ نے کھڑا کردیا۔ خالص توحید کی بنیاد پر دعوت، عقیدے کی بنیاد پر دعوت ، دعوت کی بنیاد پر نوجوان ابن تیمیہ کے گرد اکھٹے ہوتے۔ ان نوجوانوں کو اتباع سنت ، جہاد فی سبیل اللہ ۔ ایک دم چلا دیتے، ایک دم۔ ہم نے ترپن سال انتظار کیا ۔ طائفہ منصورہ نے، ما انا علیہ واصحابی نے، ترکت فیکم امرین لن تضلوا فلانی حدیث، فلانی حدیث، ہم نے ترپن سال انتظار کیا۔
ابن تیمیہ کی کل بائیس سال کی عمر تھی جب دعوت توحید کی ، تمسک بالسنہ کی ، در بدعت کا ، شرک کا، قبروں کا، مزارات کا ، باطل فرقوں کا ، اشعریوں کا، تاویلی وتعطلیلی فرقوں کا، منطقی فلسفیوں کا ، یونان کے حکماء کا ، تمام فکری قوتوں کا رد کرتے ہوئے، تلوار لے کر گھوڑے پر سوار ہوکر ساتھیوں کے ساتھ سیدھا میدان جہاد میں قوت بناتے ہوئے ، دعوت کھڑی کرتے ہوئے لشکر قائم کردیا۔ہمیں پتہ ہی نہیں اللہ کی قسم کہ قوت کیسے بڑھتی ہے۔قوت دعوت وجہاد سے بنتی ہے۔ان میں سے ایک بھی کم ہوتو چاہے ترپن سال لگا لو، قوت نہیں بنتی۔صرف دعوت دینے سے، دعوت کے مراکز قائم کرنے سے، مدارس کھولنے سے، لشکر قائم نہ کرنے سے کبھی قوت نہیں بن سکتی۔جب تک جہاد کو ساتھ نہ ملایا جائے گا، قوت نہیں ملے گی۔
ابن تیمیہ بائیس سال کی عمر میں ہی قائد اسلام، مجاہد اسلام اور سفارت کار ِ اسلام بن چکے تھے۔ تاتاریوں کے دربار میں خود ہی سفیر بن کر گئے ۔حالانکہ تاتاری تو دہشت کی وہ علامت تھے جو اگرکسی کو کہہ دیتے کہ کھڑا رہ، میں ابھی تلوار لے کرآتا ہوں تیری گردن اڑانے کےلیے، تو وہ بےچارہ کھڑا ہی رہتا تھا۔یہ تھے ابن تیمیہ جو کئی دفعہ تاتاریوں کے دربار میں سفیر بن کر گئے اور وہاں جاکر دعوت کا کام کیا، انہیں ظلم سے روکا۔پھر تاتاریوں کے خلاف خود سربکف ہوکر میدان جنگ میں اترے۔ یہ دعوت وجہاد ہی ان کامنہج تھا۔
اگر آپ اس وقت کے دمشق کے حالات دیکھنا چاہتے ہیں تو موجودہ پاکستانی حالات کو دیکھ لیں ۔ گیارہ سال پہلے جس دعوت کو کھڑا کیا گیا بتیس افراد سے، آج وہ اللہ کے فضل سے بتیس ہزار سے متجاوز ہیں۔ دیکھ لیں اپنے سامنے ان پھیلے ہوئے دعوت وجہاد کے کارکنان کو۔ یہ قبول، یہ شمول اوریہ برکتیں صرف اللہ کی رحمت ہے۔
اللہم اجعل أفئدۃ الناس تہوی الیہم۔ یا اللہ ! لوگوں کے دل مرکز الدعوۃ کی طرف موڑ دے۔اللہ فرماتے ہیں: میں تمہارے دل پھیرتا ہوں، تو اپنا دل قربان کر ، کوئی تلوار، کوئی یلغار، کوئی دل کی بات نکال کہ پتہ لگے تو میرا ہے۔فلسفے اور منطق کا نہیں ہے، احتیاطات اور مصلحتوں کا نہیں ہے۔ابن تیمیہ نے دعوت وجہاد کے میدان میں آکر کسی قاضی اور امام کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دیا۔
صرف دین اللہ کی وضاحت کی۔ہر قسم کی تغیر وتبدل اور تحریف وتاویل سے دین کو صاف کرکے بالکل اصلی حالت میں لوگوں کے سامنے پیش کردیا۔ عقیدہ توحید کی آبیاری کی اور شرک کی جڑوں کو کاٹا اور بدعات کو نیست ونابود کردیا۔تمسک بالسنہ اور اتباع رسول کے جھنڈے ہر طرف گاڑ دیے۔ ہر مسئلے میں کتاب وسنت کو سامنے رکھا چاہے وہ طلاق کا مسئلہ ہو یا زیارت قبور کا۔نہ صرف تمام فرق باطلہ کا رد کیا بلکہ اسلام کی مثبت اور صحیح دعوت بھی لوگوں کے سامنے پیش کی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اگر اس وقت ابن تیمیہ دعوت وجہاد کا منہج نہ اپناتے تو دمشق بھی یلغار ِ تاتار سے محفوظ نہ رہتا۔یہ صرف مسلمانوں کا درد تھا جس نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا۔
آج ہمیں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ جہاد کشمیر کرکے تمہیں کیا ملے گا؟ یوں ہی نوجوانوں کو کٹوا رہے ہو، جب سری نگر آزاد ہوگا تو لشکر طیبہ کو کسی نے پوچھنا بھی نہیں۔ مانا کہ تمہارے نوجوان زیادہ شہید ہوتے ہیں ، تم قربانیاں زیادہ پیش کررہے ہو، لیکن سری نگر میں فلاں جماعت کے عقیدہ میں اگرچہ شرک ہے، فلاں جماعت میں بدعات کا دور دورہ ہے، لیکن تمہارے مقابلے میں وہ تعداد میں زیادہ ہیں۔ کل کو جب امریکا سری نگر کی بندر بانٹ کرے گا تو تمہارے حصے میں کچھ نہیں آنا، سب کچھ انہیں ہی دے دے گا۔ عجیب باتیں سننے کو اور تاریخ میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔
یہی باتیں لوگوں نے جاکر شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے کی تھیں کہ حکمران بھاگ رہے ہیں، قلعے خالی چھوڑے جارہے ہیں، امراء اپنی دولت سمیٹ کر کسی گوشہ عافیت کی تلاش میں نکل چکے ہیں، تو پھر آپ تاتاریوں کے خلاف لڑ کر کیا کریں گے، کیا فائدہ ہوگا سوائے جوانوں کے شہید ہوجانے کے؟
ہمیں بھی یہی کہا جاتا ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ ہمار ےملک کی ان اسلامی جماعتوں نے جمہوریت کا ڈرامہ رچا کر کیا فوائد حاصل کرلیے؟دیکھیں ابن تیمیہ کو، انہوں نے عین ان حالات میں جوانوں کو منظم کیا اور تاتاریوں کے خلاف علم جہاد بلند کردیا اور اپنے بارے میں یہ کہا: انا رجل ملۃ لا رجل دولۃ۔ میں ملت اسلام کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں کسی حکومت کا چمچہ نہیں ہوں۔
اس لیے اے کارکنان دعوت وجہاد! اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ تم لوگوں نے سری نگر سے کیا لینا ہے تو اسے ابن تیمیہ کا یہی قول سنا دینا: انا رجل ملۃ ، لا رجل دولۃ۔
ہمارے یہاں کتنے خلافت کو کھڑا کرنے کا نعرہ لگانے والے ہیں، کہتے ہیں پہلے اندر کا م کریں گے، دس سال لگائیں گے، لوگوں کو سمجھائیں گے، کرسی اقتدار پر براجمان ہوں گے اور پھر اس کرسی کے نیچے سے خلافت نکال کر اسے جلوہ افروزکریں گے۔
یاد رکھیں! یہ سب گمراہیاں، فتنے اور ضلالتیں ہیں۔ ابن تیمیہ سے جب کہا گیا کہ تاتاریوں سے لڑ کر اگر تم جیت بھی گئے تو پھر سلطان آکر حکومت سنبھال لیں گے۔ تمہیں کیا ملے گا؟ انہوں نے فرمایا: انا رجل ملۃ، لا رجل دولۃ۔ کیا تم نے ابن تیمیہ کو کرسیٔ اقتدار کا بھوکا سمجھ رکھا ہے؟ کہ جسے صرف حکومت کا شوق ہی تاتاریوں سے جنگ پر آمادہ کررہا ہے۔ ہرگز نہیں! یہ صرف ملت کا غم ہے اور امت کو بچانے کا جذبہ ہے جس کی وجہ سے ہم نے اس منہج کو اپنایا ہے۔انا رجل ملۃ، لا رجل دولۃ۔
ابن تیمیہ سے کہا گیا: آپ تو تمسک بالسنہ، اتباع سنت اور شریعت پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں پھر ان فساق وفجار حکمرانوں اور امراء کے ساتھ مل کر کیوں لڑتے ہیں؟
آج بھی یہی کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں، فوج کے ساتھ مل کر کیوں لڑتے ہو؟ یہ تو طاغوت ہیں۔
ہاں بھائی! جب کوئی میدان میں اترتا ہے تو اسے اس کی مشکلات کا علم ہوتا ہے۔
یاد رکھیے! جب کوئی کہیں دعوت وجہاد کے منہج کے مطابق کام شروع کیا جاتا ہے تو اسی طرح کے اشکالات پیش کیے جاتے ہیں، داعی، امیر وغیرہ کو روکنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔شیطان اس کو دبانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ جب وہ اللہ کی مہربانی سے کام چلنا شروع ہوجاتا ہے تو شیطان پھر وساوس، اشکالات اور اعتراضات سجھاتا ہے کہ تم تو متمسک بالکتاب والسنہ ہو، جن کے ساتھ مل کر لڑو گے ، وہ تو فساق وفجار ہیں، گناہگار ہیں۔ مسلمانوں کے حکمران تو ایسے ہیں اور ویسے ہیں۔ ان کے ساتھ مل کر لڑتے ہو؟ ان کے تو خلاف لڑنا چاہیے۔
اس موقع پر میں ابن تیمیہ کا ایک متن آپ بھائیوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں: وانتشرت صبحۃ اخری عن غرض حسن من بعض وغرض سیئ من آخرین۔ایک اور شبہ اٹھایا گیا، بہت سے لوگوں کی نیت تو اس شبہ سے اچھی تھی، لیکن بہت سے لوگوں کی نیت بری تھی۔وہذہ الشبہۃ تتعلق بالولاۃ وان منہم یقاتل العدو ولیس ہو فی سبیل اللہ وان ما فی قبیل حکمہ وسلطانہ۔
یہ شبہ حکومتوں اور حکمرانوں سے متعلق ہوتا ہے۔کیونکہ اس وقت وہاں ممالیک بادشاہ تھے جو بالکل شخصی حکمران تھے۔جو دل چاہتا تھا، کرتے تھے۔ بیت المال میں سے کچھ مال خیر کے کاموں پر لگا دیتے تھے اور باقی اپنی عیش وعشرت میں۔اگر وہ حکمران رافضی اور باطنی نہ ہوں، نطق کلمہ شہادتین کرتے ہوں، وعظ وتذکیر پر کچھ سنبھل جاتے ہوں تو ان سے کام لیا جاسکتا ہے۔ یعنی اگر حکمرانوں کی نیت بد بھی ہوتو ان سے کام لیا جاسکتا ہے۔
ومنہم من ہو ظاہر الفجور والظلم والفساد۔ہمارے اس دور میں بھی ایسے حکمران ہیں جو دن رات فسق وفجور میں لگے رہتے ہیں۔ وان من ہذہ حالہ لا یصح القتال معہ۔ اب یہ اشکال سامنے آگیا۔ لان فیہ اعانۃ علی ما ہو فیہ من مقاصد غیر الحسنۃ والاعمال القبیحۃ ومما لا شک فیہ ان ہذہ شبہۃ عظیمۃ خطیرۃ علی الامۃ۔ جب امت کے حکمرانوں کو وعظ وتذکیر کے ذریعے ان کی اصلاح کرلی جائے، نوجوانوں کو دعوت وجہاد کےلیے تیار کرلیا جائے تو اس طرح کے شبہات بہت گہرا اثر رکھتے ہیں۔ اس لیے ابنت تیمیہ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: فان اتفق من یقاتلہم بوجہ الکامل فہو الغایۃ لرضوان اللہ وکلمتہم واقامۃ دینہ وطاعۃ رسولہ۔اگر تمہیں ایسے حکمران میسر آجائیں جو اللہ کے دین سے محبت کرنے والے ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرو اور ان کے ساتھ مل کر جہاد فی سبیل اللہ کرو۔ “وان کان فیہم من فیہ فجور وفسق وفساد نیۃ بان یکون قاتل علی الریاسۃ او یاتی فی بعض الامور کانت مفسدۃ ترک قتالہم اعظم علی الدین من مفسدۃ قتالہم علی ہذا الوجہ کان الواجب ایضا قتالہم لدفع اعظم المفسدتین۔ اگر تمہیں ایسے حکمران میسر آئیں جو فاسق وفاجر اور اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور گناہگار ہوں۔ اگر وہ جہاد کےلیے کھڑے ہوجائیں تو تم پر ان کے ساتھ مل کر جہاد کرنا واجب ہےتاکہ اسلام کو غلبہ ملے۔
جیسے ہم جہاد کانفرنسیں کرتے ہیں ، ویسے ہی شیخ الاسلام بھی لوگوں کو جہاد پر ابھارنے کےلیے تقاریر کیا کرتے تھے۔ بلکہ ایک دفعہ تو انہوں نے حکمران کو یہ تک کہہ دیا تھا کہ میں تمہیں اللہ کی نصرت کی ضمانت دیتا ہوں، تم لوگ جہاد کےلیے نکلو تو سہی۔
ہم لوگ جب اس طرح کی بات کرتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ لشکری ڈینگیں مارتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ابن تیمیہ نے ایک مرتبہ اپنی تقریر میں کہا: لوگو! تم پر جہاد واجب ہوچکا ہے۔ا گر تم فی سبیل اللہ جہاد کرو گے تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ اللہ کی نصرت ضرور آئے گی۔ مجمع میں موجود ایک عالم نے کہا: ابن تیمیہ! ان شاء اللہ تو کہو۔ فرمایا: ان شاءاللہ تحقیقاً ، لا تعلیقاً۔
تو جو ابن تیمیہ کی طرح پر عزم ہوتےہیں ، انہیں اللہ کی مدد آنے کا یقین ہوتا ہے۔
پھر شیخ الاسلام حکمران ناصر الدین کو لے کر نکلے اور میدان جنگ میں جا پہنچے۔گھمسان کا معرکہ ہوا۔ سلطان بیچارہ ممالیک میں سے تھا اور ضعیف الاعتقاد تھا، دوران جنگ اس نے یوں پکار لگائی: یا خالد بن الولید! ابن تیمیہ نے جیسے ہی سلطان کے منہ سے یہ کلمہ سنا، فوراً گھوڑے کو ایڑ لگائی اور سلطان کے پاس پہنچ کر اسے ڈانٹا اور ایاک نعبد وایاک نستعین یاد دلایا اور کہا: ایسی مشرکانہ پکار نہ لگاؤ، ایسا نہ ہو کہ تمہاری وجہ سے مسلمانوں کو نقصان پہنچ جائے۔ داعی جب مجاہد بن جاتا ہے تو حکمران بھی اس کی بات مانتا ہے۔ اس نے فوراً توبہ کی اور ایاک نعبد وایاک نستعین پکارنے لگا۔ پھر بعد میں اس نے شیخ سے اپنی غلطی کا کفارہ بھی پوچھا۔ہمارے مجاہد جب سیکٹروں سے گزرتے ہیں تو الحمد للہ نعرہ تکبیر ہی لگاتے ہیں۔آپ اس واقعہ کو ذرا غور سے دیکھیں کہ سلطان نے جب عین میدان جنگ میں یا خالد بن الولید! کا نعرہ لگایا تو ابن تیمیہ نے اس پر کفر وشرک کا فتویٰ لگا کر میدان چھوڑنے کا قصد نہیں کیا، بلکہ اس کو سمجھایا کیونکہ ابن تیمیہ محافظ اسلام تھا، مجدد اسلام تھا۔ ایسے ہی آج لشکر طیبہ بھی اسی منہج پر کام کررہا ہے۔ کہتے ہیں کہ تم بریلویوں ، دیوبندیوں کے ساتھ مل کر کیوں لڑتے ہو؟ وہ تو عقیدے کے اعتبار سے انتہائی غلط ہیں۔ پھر کشمیر کے عوام بھی بریلوی ہیں۔ قبروں پر جاتے ہیں، انہی سے مانگتے ہیں۔ وہ مرتے ہیں تو مرنے دو۔ ان کی عورتوں کی عصمت لٹتی ہے تو لٹنے دو، تم ادھر نہ جاؤ۔ میرے بھائیو! یہ بھی مسلمان ہیں، انہیں صحیح عقیدہ بتایا ہی نہیں گیا، اس لیے وہ گمراہ ہوئے ہیں، انہیں بچانا ہماری ذمہ داری ہے۔
پھر سلطان نے کہا: اے شیخ! آپ میرے پاس آجائیں۔ لشکر کے قلب میں آپ رہیں۔ اس بیچارے کا خیال تھا کہ جہاں شیخ ہوں گے، وہ تاتاری حملہ نہیں کرسکیں گے۔ شیخ نے اس کی بات ماننے سے انکار کردیا اور نبیﷺ کا طریقہ یاد دلایا کہ ہر آدمی اپنے لشکر کے ساتھ رہے۔
ہمیں بھی یہی طریقہ اپنانا ہوگا کہ جب بھی کوئی اشکال اور اعتراض پیش کیا جائے تو ہمیں فوراً چودہ سو سال پہلے والا رسول اللہﷺ کا طریقہ یاد دلانا چاہیے۔
وہ سلطان شیخ سے مدد مانگ رہا تھا کہ میرے پاس آجاؤ۔ اور ہمارے مولوی حکمرانوں کے پاس جاتے ہیں کہ ہمیں یہ جگہ چاہیے مدرسے کےلیے، یا فنڈ چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔یہ منہج کی غلطیاں انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔
شیخ نے جب اس کی بات ماننے سے انکار کردیا تو اس نے کہا : کچھ تو کیجئے۔ آپ نے پھر اچھے گھوڑے منگوائے اور سارے لشکر کا معائنہ فرمانے لگے اور سب لشکریوں کے حوصلے بڑھانے لگے اور انہیں اللہ کےلیے جان قربان کرنے پر اکسانے لگے۔اللہ کی قسم! عقیدے یوں بدلتے ہیں، بدعتیں یوں مٹتی ہیں، شرک یوں ختم ہوتا ہے جب داعی اور مجاہد خود عقیدہ توحید کی دولت سے مالا مال ہو اور اسے دوسروں پر نچھاور کرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔
یہ وہی شیخ تھے جنہوں نے قبرص کے عیسائی بادشاہ کو خط لکھا تھا کہ اگر تیرے ملک میں مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچا تو ہمارے پاس ایسے فدائی موجود ہیں جو تجھے تخت سے اٹھا لائیں گے۔
وقت کی قلت کے پیش نظر آپ سب مسؤولین، زونل امراء، اساتذہ اور کارکنان کےلیے شیخ الاسلام کا ایک واقعہ سنا کر اجازت چاہوں گا۔
ایک مرتبہ ابن تیمیہ مرج السفر نامی جگہ پر تھے۔ آپ نے اپنے ساتھی سے کہا: کیا تم فوجوں کو آمنے سامنے دیکھ رہے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں! فرمایا: مجھے اس جگہ لے چلو جہاں موت کا رقص ہوگا۔ جب لشکر سامنے آگئے۔ تلواریں نکل آئیں، چہرے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوگئے ۔ ایک طرف وہ تاتاری جن کی دہشت اطراف عالم میں پھیلی ہوئی تھی۔ جنہوں نے بغداد میں مسلمانوں کی کھوپڑیوں سے مینار تعمیر کیے تھے۔ جن کا سامنا کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرتا تھا۔ جب ابن تیمیہ نے اس کا سامنا کیا تو اپنے ساتھی سے کہا: مجھے اس جگہ لے چلو جہاں موت ناچتی ہے۔
یہ نہیں کہا کہ میں داعی ہوں، مجھے پیچھے لے جاؤ، کسی اوٹ میں کھڑا کردو، نہیں! بلکہ ابن تیمیہ ایک مجاہد تھا، کہا: مجھے وہاں لے چلو جہاں شہادت یقینی ہو۔ساتھی کہتے ہیں: میں ان کو دشمن کے عین سامنے لے گیا جہاں تاتاریوں کا لشکر سیل رواں کی طرح بڑھتا چلا آرہا تھا۔میں نے وہاں پہنچا کر کہا: لیجئے! آپ کی من پسند جگہ یہی ہے، یہی آپ کو جام ِ شہادت نوش فرمانے کےلیے مل سکتا ہے۔ کہتے ہیں: وہاں پہنچ کر ابن تیمیہ نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور دشمن سے لڑائی کرتے وقت ذکر اللہ کی سنت نبویﷺ کو پورا کرنے لگے۔ بدر واحد کا منظر تازہ ہونے لگا۔ پھر جب وہ لشکر قریب آیا تو ابن تیمیہ نے اپنی اس مناجات کو ختم کیا اور تلوار سونت لی اور دشمنوں پر فدائی حملے کےلیے تیار ہوگئے۔ پھر لڑائی شروع ہوگئی اور کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا۔
تلواروں سے تلواریں ٹکرانے لگیں، آہ وپکار ہونے لگی، فوجیں گھتم گھتا ہوگئیں، ایک دوسرے پر فنون حرب آزمائے جانے لگے۔ ابن تیمیہ پیچھے ہٹنے کی بجائے دشمن کے لشکر میں گھس گئے اور میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ پھر جب مسلمانوں کو فتح ہوگئی اور تاتاری دم دبا کر بھاگ گئے تو مسلمان ان کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوگئے۔ اسی دوران میں نے شیخ الاسلام اور ان کے بھائی کو دیکھا کہ وہ لشکر میں گھوم پھر کر مسلمانوں کو جوش دلا رہے تھے اور دشمن کو بالکل ختم کرنے پر آمادہ کررہے تھے اور انہیں ابھار رہے تھے کہ آج کسی تاتاری کو بچ کر نہیں جانا چاہیے۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب مسلمانوں کے دل سے تاتاریوں کا خوف نکلا۔
یہ واقعہ 702 ہجری کے رمضان المبارک کے پہلے حصے میں عصر کے وقت سے شروع ہوکر اگلے دن کی عصر کے وقت ختم ہوا۔
یہ تھے ابن تیمیہ جو دعوت وجہاد کے منہج پر گامزن تھے اور اللہ نے انہیں فتح ونصرت سے نوازا۔
ابن تیمیہ کے منہج دعوت وجہاد کا ایک بہت بڑا حصہ شعائر اللہ کی پابندی بھی تھا اور وہ غیروں کی تہذیب وثقافت سے بہت دور اور نفور تھے۔ اور الحمد للہ آج لشکر کے ساتھی بھی اسی منہج پر رواں دواں ہیں۔ اس وقت کے جتنے بھی غیر مسلم ہیں اور مسلمانوں سے برسر پیکار ہیں، انہیں اگر کسی جہادی تنظیم سے خطرہ ہے تو وہ لشکر طیبہ ہے کیونکہ یہی وہ جماعت ہے جس کی بیک پر دعوت موجود ہے۔ یہی ابن تیمیہ کا منہج دعوت وجہاد تھا کہ لوگوں کو صحیح عقیدے پر جمع کرنا لیکن غیر تکفیری انداز میں۔سب سے اشتراک عمل لیکن اپنے مسلک پر پکے۔ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ [القلم : 9] نرم نہیں پڑنا لیکن گالیاں بھی نہیں دینی، تشدد والا رویہ بھی نہیں اپنانا۔
اگر ہدایت چاہتے ہو تو آؤ قرآن وحدیث کو سینے سے لگا لو، اسی میں سب کےلیے ہدایت ہے۔
سبحانک اللہ وبحمدک اشہد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیہ
ما یلفظ من قول إلا لدیہ رقیب عتید .... لکھنے والا جو کچھ بھی لکھتا ہے اس پر ضرور ایک نگہبان مقرر ہوتا ہے ۔
لنک