الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمعہ کی دو اذانوں کی شرعی حیثیت ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جمعہ کےدن دواذانیں کیوں دی جاتی ہیں کیا ایسا کرنا رسول اللہﷺ سے ثابت ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہﷺ کےعہد مبارک اور حضرت ابوبکر صدیق ،اور حضرت عمر فاروق ،اور حضرت عثمان غنی ؓ کے ابتدائی دور خلافت میں جمعہ کے دن ایک ہی اذان ہوتی تھی۔ حضرت عثمان غنی ؓ کےدورحکومت میں جب مدینہ کی آبادی میں اضافہ ہواتو آپ نے لوگوں کی سہولت کےپیش نظر ‘‘زوراء’’نامی پہاڑی پر پہلی اذان دینے کا اہتمام کردیا،اس پر بعض صحابہ کرامؓ نے اعتراض بھی کیا تھا،تاہم یہ سلسلہ جاری رہا،حضرت علیؓ نے کوفہ میں صرف ایک اذان کو ہی برقرار رکھا،اس پہلی اذان کی آج کوئی ضرورت نہیں ہے،تاہم جہاں فتنہ فساد کا اندیشہ ہووہاں عثمانی اذان کو برقرار رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (واللہ اعلم ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 446) جمعہ کی دو اذانوں کی شرعی حیثیت ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ضلع بھکر سے محمد ایو ب لکھتے ہیں کہ ہما ری مسجد میں سنت کے مطابق جمعہ کی صرف ایک اذا ن دی جا تی تھی مقا می خطیب نے بعض احنا ف کے اصرار پر دو اذانو ں کا سلسلہ شرو ع کر دیا ہے اب کچھ نمازی اس کی مخا لفت کر رہے ہیں اور کچھ اس کی حما یت پر کمر بستہ ہیں تا کہ جما عت انتشا ر کا شکا ر نہ ہو جا ئے مخا لفت کر نے وا لو ں نے دوسرو ں سے بو ل چا ل بند کر دی ہے بعض افراد نے مقا می خطیب کے پیچھے نما ز پڑھنا بھی تر ک کر دی اب دریا فت طلب امر یہ ہے کہ :
(1)نما زیو ں کی تعداد میں اضا فہ کے پیش نظر سنت کو نظر اندا ز کیا جا سکتا ہے ؟
(2) کیا بو ل چا ل بند کر دینا اللہ کی نا را ضگی تصور ہو گی ۔
(3)کیا ایسے حا لا ت میں مقا می خطیب کے پیچھے نما ز پڑھنا درست ہے ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشر ط صحت سوال واضح ہو کہ اصل اذا ن تو وہی ہے جو امام کے منبر پر بیٹھتے وقت دی جا تی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسا لت اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فا رو ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلا فت میں جمعہ کے دن اس وقت اذا ن دی جا تی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جا تا ۔(صحیح بخا ری :کتا ب الجمعہ )
اس حدیث سے معلو م ہو اکہ جمعہ کے دن ایک اذا ن دینے کا یہ طرز عمل حضرت عمر فا رو ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلا فت تک جا ری رہا حضرت عثما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو ر خلا فت میں مدینہ کی آبا دی بڑھ گئی تھی جس کی وجہ دے دور دور تک مکا نا ت پھیل گئے تھے تو حضرت عثما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لو گو ں کی سہو لت کے پیش نظر زور اء نا می پہا ڑی پر ایک اور اذا ن دینے کا فیصلہ فر ما یا جسے صحا بہ کرا م رضوان ا للہ عنہم اجمعین کی اکثریت نے قبو ل کر لیا البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس اذا ن کو خلا ف سنت کہا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ :3/140)
پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دار الحکو مت کو فہ میں اسے ختم کر کے اذان نبو ی یکو ہی بر قرار رکھا ۔(تفسیر قر طبی :18/100)
حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح کے مطا بق نو یں صدی ہجری کے نصف تک مغر ب کے علا قہ میں جمعہ کے دن صرف ایک اذا ن دینے کا اہتما م تھا امام شا فعی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ جمعہ کی اذا ن کے متعلق عہد رسا لت ہی طرز عمل کو زیا دہ پسند کرتا ہو ں ۔(کتا ب الام :1/195)
تفصیل با لا کے پیش نظر سنت نبو ی کے مطا بق جہا ں ایک اذا ن دینے کا عمل ہے وہا ں اسے بر قرار رہنا چا ہیے کسی خا ص مکتب فکر کے لو گو ں کو خو ش کر نے کے لیے اس طرز عمل کو بد لنا قطعاً مستحسن نہیں ہے البتہ جہاں دو اذا نیں ہو تی ہیں وہا ں دیکھا جا ئے اگر کسی قسم کے فتنہ و فسا د کا اندیشہ نہ ہو تو وہا ں ایک اذا ن پر اکتفا کر نا چا ہیے اگر حا لا ت نا سا ز گار ہو ں تو دو نو ں اذا نو ں کو بر قرار رکھنے کی گنجا ئش مو جو د ہے ایسا کرنا گنا ہ نہیں کیو ں کہ صحا بہ کرا م رضوان ا للہ عنہم اجمعین کی مو جو د گی میں خلیفہ را شد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس عمل کو جا ری فر ما یا تھا اور ان کی اکثریت نے اسے قبول کر لیا تھا اس بنا پر ایسے معا ملا ت کو با ہمی اختلا ف وجدا ل کا ذریعہ نہ بنا یا جا ئے اب سوالات کے تر تیب وار جوا ب ملا حظہ فرما ئیں :
(1)نما زیو ں کی تعداد میں اضا فہ کے پیش نظر اندا ز کر کے دو اذا نو ں کو جا ری کر نا درست نہیں ہے بلکہ نما زیو ں کے دلو ں میں سنت کی افادیت و اہمیت کو اجا گر کیا جا ئے ۔
(2)ایسے معا ملا ت کو سا منے رکھ کر نما ز یو ں کا آپس میں بو ل چا ل بند کر لینا درست نہیں ہے بلکہ افہا م و تفہیم کے ذریعے محبت و یگا نگت کی فضا پیدا کی جا ئے ۔اس قسم کی نا را ضگی اللہ کے لیے نا را ضگی تصور نہیں ہو گی ۔
(3)مقا می خطیب نے غلطی کا ارتکا ب ضرورکیا ہے لیکن اسے تو ہین سنت کا نا م دے کر اس کے پیچھے نماز پڑھنا نما ز تر ک کر دینا دا نش مند ی نہیں ہے اللہ تعا لیٰ ان حضرات کو بد گما نی سے محفو ظ رکھے اور انہیں اتفاق و محبت سے رہنے کی تو فیق دے آمین ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ جمعہ کی پہلی اذان کا شرعی حکم ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جمعہ کی پہلی اذان کےمتعلق شرعی حکم کیا ہے؟بعض لوگ اسے سنت کہتے ہیں ،کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وہ اذان جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے جمعہ کے دن اس وقت ہوتی تھی،جب رسول اللہﷺ خطبہ کےلئے منبر پر بیٹھ جاتے تھے،رسول اللہﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق اور عمرؓ کے دور خلافت میں یہی معمول رہا،جب حضرت عثمان غنی ؓ کے عہد حکومت میں مدینہ کی آبادی میں اضافہ ہوگیا تو آپ نے لوگوں کی سہولت کےلئے مزید ایک اذان کا اضافہ کردیا جو بازار میں‘‘زوراء’’ نامی مقام پر دی جاتی تھی۔جیسا کہ سائب بن یزیدؓ فرما تےہیں کہ رسول اللہﷺ حضرت ابوبکر اور عمرؓ کے زمانہ میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوئی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا لیکن حضرت عثمان ؓ کےدور میں جب لوگ زیادہ ہوگئے تو آپ نے مقام زوراء پر تیسری اذان کا اضافہ فرمایا۔(صحیح بخاری،الجمعہ:۹۱۲)
شرعی اعتبار سے نماز کےلئے تکبیر کو بھی اذان کہا جاتا ہے،اس لئے عثمانی اذان ،اضافہ کے اعتبار سے تیسری اور ترتیب کے لحاظ سے پہلی ہے بعض روایات میں اس عثمان اذان کو اذان ثانی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ (صحیح بخاری،۹۱۵)
حقیقی اذان نبوی کےمقابلہ میں اسے دوسری اذان کہا جاتا ہے اگرچہ ترتیب کے اعتبار سے پہلی اذان کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت عثمان ؓ نے آبادی میں اضافہ کی وجہ سے بازار میں ایک اونچے مقام پر اذان کہنے کا اہتمام ،اس لئے کیا تھا تا کہ لوگوں کو جمعہ کےمتعلق بآسانی خبردار کیا جائے۔اسے صحابہ کرام ؓ کی اکثریت نے اختیا رکرلیا،اگر آج بھی ایسے حالات ہوں تو اس عمل کو برقرار رکھا جاسکتا ہے لیکن عصر حاضر میں تقریباً ہر مسجد میں لاؤڈ سپیکر موجود ہے جس کے ذریعے دوردرازعلاقوں میں اذان کی آواز پہنچ جاتی ہے اور لوگ جمعہ کےوقت سے باخبر ہوجاتے ہیں اندریں حالات کسی ہنگامی اذان کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔واضح رہے کہ مسجد میں ہی دونوں اذانوں کا اہتمام حضرت عثمان ؓ کا طریقہ نہیں ہے اگر کوئی اس پر عمل کرنا چاہتا ہے تو اسے بازار میں جا کرکسی اونچی جگہ پر کھڑے ہوکر پہلی اذان دینے کا شرف پورا کرلینا چاہیے۔اپنے مؤقف کی تائید میں یہ کہنا اذان عثمانی خلفائے راشدین ؓ میں سے ایک خلیفہ کی سنت ہے جسے مضبوطی سے تھامنے کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ ا س لئے درست نہیں ہے کہ خلفائے راشدین ؓ کی وہی سنت اختیار کی جاسکتی ہے جو سنت نبوی کے خلاف نہ ہو،لیکن ہم اسے بدعت نہیں کہہ سکتے کیونکہ حضرت عثمان ؓ نے یہ اذان دوسری اذانوں پر قیاس کرتے ہوئے شروع کردی تھی وہ اس طرح کہ کسی بھی نماز کےلئے اذان اس لئے کہی جاتی ہے تا کہ لوگوں کو نماز کے وقت سے خبردار کیا جاسکے چونکہ لوگوں کی کثرت کے باعث جمعہ کے دن ایسا ممکن نہ تھا کہ ایک ہی اذان سے سب کو اطلاع ہوجائے اس لئے انہوں نے یہ اذان شروع کردی۔یہ دعویٰ کرنا کہ پہلی اذان کے جواز پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع سکوتی ہے، یہ دعویٰ بھی محل نظر ہے کیونکہ حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ جمعہ کے دن پہلی اذان کہنا بدعت ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،ص:۱۴۰،ج۳)
اس کے علاوہ حضرت علی ؓ نےبھی دارالحکومت کوفہ میں اسے ختم کرکے اذان نبوی کو ہی جاری رکھنے کا حکم جاری کیا تھا۔(تفسیر قرطبی،ص:۱۰۰،ج۱۸)
حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ نویں صدی ہجری کےنصف تک مغرب کےعلاقے میں جمعہ کےلئے صرف ایک اذان دینے کا حکم دیا تھا۔(فتح الباری،ص:۵۰۷،ج۲)
امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ جمعہ کی اذان کے متعلق میں عہد رسالت ہی کے طرزعمل کو زیادہ پسند کرتا ہوں۔(کتاب الام،ص:۱۹۵،ج۱)
تفصیل بالا کے پیش نظر ہمارے نزدیک سنت نبوی کےمطابق کہاں ایک اذان دینے کا عمل ہے ،وہاں اسے برقرار رہنا چاہیے،کسی خاص مکتب فکر کےلوگوں کو خوش کرنے کے لئے اس نبوی طرزعمل کو بدلنا قطعاًمستحسن نہیں ہے،البتہ جہاں دواذانیں ہوتی ہیں اگر وہاں کسی قسم کے فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہوتو وہاں ایک اذان پر اکتفا کرنے کا اہتمام ہوناچاہیے۔اگر حالات سازگار نہ ہوں تو ان کے سازگار ہونے تک دونوں اذانوں کو برقرار رکھنے کی گنجائش ہے، لیکن سنت نبوی پر عمل کرنے کےلئے ذہن سازی کرتے رہنا چاہیے ایسے حالات کو باہمی اختلاف وجدال کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔(واللہ اعلم ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب