• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمھوریت سے متعلق چند سوال

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا موجودہ جمھوریت کی تشبیہ خلافت ببو امیہ اور خلافت بنو عباسیہ سے دینا درست ہے اس بنیاد پر کہ جس طرح جمھوریت میں عوام کے پاس اختیار ہے کہ چاہے تو اسلامی شریعت نافذ کریں چاہے انگریز کا نظام نافذ کریں اور چاہے تو خود اپنے لیے نظام وضع کریں. اس طرح بادشاہ کو بھی اختیار ہے (یعنی جسطرح جمھوریت میں حاکمیت عوام کے پاس ہوتی ہے اسطرح بادشاہت میں بادشاہ کے پاس). تو جس طرح بادشاہت بذات خود کفر نہی جب تک وہ غیر اللہ کے قوانین نافذ نہی کرتی اس طرح جمھوریت بھی کفر نہی. کیا یہ استدلال درست ہے؟؟؟؟

اگر کسی آئین میں یہ کہا جائے کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالی کے پاس ہوگی اور کوئی قانون اسلام کے خلاف نہی بنے گا جبکہ حالت یہ ہو کہ اگر کوئی شخص اسلام کے خلاف قانون سازی کرے تو اسے کوئی سزا نہی اور اگر کوئی شخص اسلام کے کسی قانون کو نافذ کرنا چاہے تو وہ بھی پارلیمان کی اکثریت کا محتاج ہے. کیا ایسا آئین محض اپنے دعوے کی وجہ سے اسلامی آئین ہے؟؟؟؟ اور اس ملک کو اسلامی ملک کہا جائے گا؟؟؟؟

کیا اسلام کو کسی اسلامی ملک میں نافذ کرنے کے لیے جمھوریت کا رستہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟؟؟

شیخ محترم @عبدہ
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
س: کیا موجودہ جمھوریت کی تشبیہ خلافت ببو امیہ اور خلافت بنو عباسیہ سے دینا درست ہے اس بنیاد پر کہ جس طرح جمھوریت میں عوام کے پاس اختیار ہے کہ چاہے تو اسلامی شریعت نافذ کریں چاہے انگریز کا نظام نافذ کریں اور چاہے تو خود اپنے لیے نظام وضع کریں. اس طرح بادشاہ کو بھی اختیار ہے (یعنی جسطرح جمھوریت میں حاکمیت عوام کے پاس ہوتی ہے اسطرح بادشاہت میں بادشاہ کے پاس). تو جس طرح بادشاہت بذات خود کفر نہی جب تک وہ غیر اللہ کے قوانین نافذ نہی کرتی اس طرح جمھوریت بھی کفر نہی. کیا یہ استدلال درست ہے؟؟؟؟
ج: یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اسلام میں نہ مروجہ بادشاہت ہے اور نہ مروجہ جمہوریت۔ لیکن یہ بھی ”درست“ ہے کہ نہ تو ”بادشاہی نطام“ کو کفر قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ”جمہوری نظام“ کو۔ دنیا میں ”نظام“ آتے جاتے رہتے ہیں۔ چونکہ یہ ”نظام“ انسانوں کے اپنے وضع کردہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان میں خوبیاں اور خامیاں دونوں پائی جاتی ہیں۔ گو اب بادشاہت کا زمانہ نہیں رہا تاہم اب اس کی ایک نئی شکل ”فوجی آمریت“ کی صورت میں اب بھی دنیا میں نظر آتی رہتی ہے۔ میرے ناقص خیال میں (جو اب اتنا ناقص بھی نہیں ہے ۔ ابتسامہ)، مروجہ جمہوریت کے مقابلہ میں بادشاہت یا فوجی آمریت کے تحت زیادہ سے زیادہ اسلامی شریعت کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ آئین کے تحت اگر عام انتخابات میں جیتنے والے تمام امیدوار آئین کی شق اہلیت 62 اور 63 پر پورا اترتے ہوں (جو فی الحال پانچ دس فیصد امیدوار بھی پورا نہیں اترتے) تب ایسی جمہوریت میں بھی زیادہ سے زیادہ اسلامی شریعت کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔


س: اگر کسی آئین میں یہ کہا جائے کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالی کے پاس ہوگی اور کوئی قانون اسلام کے خلاف نہی بنے گا جبکہ حالت یہ ہو کہ اگر کوئی شخص اسلام کے خلاف قانون سازی کرے تو اسے کوئی سزا نہی اور اگر کوئی شخص اسلام کے کسی قانون کو نافذ کرنا چاہے تو وہ بھی پارلیمان کی اکثریت کا محتاج ہے. کیا ایسا آئین محض اپنے دعوے کی وجہ سے اسلامی آئین ہے؟؟؟؟ اور اس ملک کو اسلامی ملک کہا جائے گا؟؟؟؟
ج: اگر کسی ”دین“ میں یہ لکھا ہو کہ اس دین میں داخل ہونے والا فلاں فلاں کام کرے گا اور فلاں فلاں کام نہیں کرے گا جبکہ اس دین میں ”داخل“ ہونے والے ”مسلمانوں“ کی یہ حالت ہو کہ وہ دین کے بنیادہ مآخذ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے ہی آگاہ نہ ہوں، بنیادی عبادات کی پابندی بھی نہ کرتے ہوں، معاملات دنیوی میں بھی اسلام کی ہدایات پر عمل کرنے کی بجائے اپنی مرضی چلاتے ہوں تو ایسے لوگ محض اپنے دعویٰ کی وجہ سے ”مسلمان“ کہلائے جائیں گے ؟؟؟؟

س: کیا اسلام کو کسی اسلامی ملک میں نافذ کرنے کے لیے جمھوریت کا رستہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟؟؟
ج: جن ہاتھوں میں ”قوت نافذہ“ ہو، اور وہ ”اسلامی شریعت“ کو نافذ بھی کرنا چاہتے ہوں تو وہ یقیناً ایسا کرسکتے ہیں، خواہ ملک میں بادشاہت ہو، جمہوریت ہو یا فوجی آمریت۔ اصل مسئلہ ”نظام“ کا نہیں بلکہ ”ناظم اور ناظمین“ کا ہے۔ یہ کسی بھی نظام کے اندر اسلام کو نافذ کرسکتے ہیں شرط صرف یہ ہے کہ ان کے پاس قوت نافذہ ہو، وہ اسلام کو نافذ کرنا چاہتے ہوں اور وہ اسلامی نظام سے بھی واقف ہوں۔
واللہ اعلم بالصواب

نوٹ: شیوخ @
سید طہ عارف
اور @عبدہ سے ”دخل در معقولات“ کی معذرت ۔ شیخ عبدہ اپنے خیالات سے ضرور آگاہ فرمائیں۔
 

abulwafa80

رکن
شمولیت
مئی 28، 2015
پیغامات
64
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اس فورم پر موجود علماء کرام
ایک سوال جو ایک بہائ نے فسبوک پر مرے ایک سیاسی پوسٹ پر کمینٹ کر کے کہا کی اوٹ دینا حرام ہے اور دلیل میں یہ بولے کی اللہ فرماتا ہے کی حکمراں میں چنوگا اور مرا حکومت رہےگا۔ اسلئے ہم کون ہوتے ہیں حکمراں چننے والے لہذا اوٹ دینا حرام ہے

برائے مہربانی اس مسئلے میں رہنمائی فرمائیں آپ علماء کرام حضرات
 
شمولیت
جون 16، 2011
پیغامات
100
ری ایکشن اسکور
197
پوائنٹ
97
اصل مسئلہ ”نظام“ کا نہیں بلکہ ”ناظم اور ناظمین“ کا ہے۔ یہ کسی بھی نظام کے اندر اسلام کو نافذ کرسکتے ہیں
بھائی بڑے ادب سے گزارش ہے کہ جب نظام ہی درست نہیں تو ناظمین کا نظام میں تبدیلی لانا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ جمہوریت کا اسلام سے دور تک کا بھی تعلق نہیں ۔ بالفرض اگر کہہ دیا جائے کہ چلو یہ جمہوری طریقے سے اسلام نافذ ہونے لگا ہے تو ہمارے آئین میں حکومت 5 سال رہتی ہے تو اس کا کیا مطلب کہ اللہ کا نظام اور حاکمیت صرف 5 سال کے لیے ہوگی اس کے بعد پھر بندوں کو اختیار دے دیا جائے گا کہ اس نظام کا مزہ نہیں آیا چلو آؤ ایک بار پھر ووٹ کروا کر دوبارہ چیک کر لیتے ہیں۔ اور ظاہر ہے ۔ جب ان 5 سالوں میں اگر اسلامی حدود کا نفاذ ہوا ہو تو لوگ تو اس سے دور ہو چکے ہونگے اور چاہیں گے کہ اپنے لیے کوئی آزاد نظام دیکھا جائے۔ اس لیے اگلی دفعہ ووٹوں میں پھر اللہ کی حاکمیت کو چھوڑ کر اپنی خوشی سے نظام لے آئیں گے کیونکہ بقول قرآن فاسق اور بدعمل زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس لیے ان کا نظام چھا جائے گا۔ غرض یہ کہ یہ جمہوری نطام خالص مغربی نظام ہے اور بوگس سسٹم ہے۔ اس کے ذریعے اسلام لانے کی توقع کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی ہجڑے سے اولاد کی امید۔ یعنی کوئی معجزہ تو ہو سکتا ہے۔ لیکن نظام نہیں آ سکتا۔ جیسا کہ ہم یہ 68 سال میں تجربہ کر چکے ہیں اور مصر کے مرسی کا حال ہمارے سامنے ہے۔ وباللہ التوفیق
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اس فورم پر موجود علماء کرام
ایک سوال جو ایک بہائ نے فسبوک پر مرے ایک سیاسی پوسٹ پر کمینٹ کر کے کہا کی اوٹ دینا حرام ہے اور دلیل میں یہ بولے کی اللہ فرماتا ہے کی حکمراں میں چنوگا اور مرا حکومت رہےگا۔ اسلئے ہم کون ہوتے ہیں حکمراں چننے والے لہذا اوٹ دینا حرام ہے

برائے مہربانی اس مسئلے میں رہنمائی فرمائیں آپ علماء کرام حضرات
پہلی بات کہ علماء ان شاء اللہ اس مسئلہ میں آپ کی رہنمائی فرماتے ہیں!
میں ایک طالب علم کی حیثیت سے دو نکات بیان کرنا چاہوں گا!
پہلے تو یہ کہنے والے سے پوچھیں، کہ کیا اللہ کی وحی آئی گی، بذریعہ جبریل ، کہ اللہ نے فلاں کو حاکم مقرر کیا ہے، یہ اللہ کا چنا ہوا حاکم ہے! یا آسمانوں سے آواز آئے گی!
دوسری بات کہ اللہ تعالیٰ رزق دینے والا ہے، تو یہ صاحب رزق کمانے کی محنت کیوں کرتے ہیں؟

@abulwafa80 بھائی! دراصل امور حکومت دنیاوی امور سے متعلق ہے، یعنی کہ یہ نماز روزہ کی طرح عبادات کے امور سے نہیں، بلکہ معاملات کے امور سے ہے جیسے کھانا ، کپڑے وغیرہ،
تو ان امور معاملات میں شریعت اسلامی میں وہی چیزیں حرام ہیں، جسے قرآن و حدیث میں حرام کہا گیا ہو، باقی سب حلال ہے!
جبکہ امورعبادات میں تمام عبادتیں حرام ہیں، سوائے ان عبادات کے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہو! یعنی کہ کوئی عبادت خود سے ایجاد نہیں کی جاسکتی!
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا موجودہ جمھوریت کی تشبیہ خلافت ببو امیہ اور خلافت بنو عباسیہ سے دینا درست ہے اس بنیاد پر کہ جس طرح جمھوریت میں عوام کے پاس اختیار ہے کہ چاہے تو اسلامی شریعت نافذ کریں چاہے انگریز کا نظام نافذ کریں اور چاہے تو خود اپنے لیے نظام وضع کریں. اس طرح بادشاہ کو بھی اختیار ہے (یعنی جسطرح جمھوریت میں حاکمیت عوام کے پاس ہوتی ہے اسطرح بادشاہت میں بادشاہ کے پاس). تو جس طرح بادشاہت بذات خود کفر نہی جب تک وہ غیر اللہ کے قوانین نافذ نہی کرتی اس طرح جمھوریت بھی کفر نہی. کیا یہ استدلال درست ہے؟؟؟؟

اگر کسی آئین میں یہ کہا جائے کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالی کے پاس ہوگی اور کوئی قانون اسلام کے خلاف نہی بنے گا جبکہ حالت یہ ہو کہ اگر کوئی شخص اسلام کے خلاف قانون سازی کرے تو اسے کوئی سزا نہی اور اگر کوئی شخص اسلام کے کسی قانون کو نافذ کرنا چاہے تو وہ بھی پارلیمان کی اکثریت کا محتاج ہے. کیا ایسا آئین محض اپنے دعوے کی وجہ سے اسلامی آئین ہے؟؟؟؟ اور اس ملک کو اسلامی ملک کہا جائے گا؟؟؟؟

کیا اسلام کو کسی اسلامی ملک میں نافذ کرنے کے لیے جمھوریت کا رستہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟؟؟

شیخ محترم @عبدہ
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
س: کیا موجودہ جمھوریت کی تشبیہ خلافت ببو امیہ اور خلافت بنو عباسیہ سے دینا درست ہے اس بنیاد پر کہ جس طرح جمھوریت میں عوام کے پاس اختیار ہے کہ چاہے تو اسلامی شریعت نافذ کریں چاہے انگریز کا نظام نافذ کریں اور چاہے تو خود اپنے لیے نظام وضع کریں. اس طرح بادشاہ کو بھی اختیار ہے (یعنی جسطرح جمھوریت میں حاکمیت عوام کے پاس ہوتی ہے اسطرح بادشاہت میں بادشاہ کے پاس). تو جس طرح بادشاہت بذات خود کفر نہی جب تک وہ غیر اللہ کے قوانین نافذ نہی کرتی اس طرح جمھوریت بھی کفر نہی. کیا یہ استدلال درست ہے؟؟؟؟
ج: یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اسلام میں نہ مروجہ بادشاہت ہے اور نہ مروجہ جمہوریت۔ لیکن یہ بھی ”درست“ ہے کہ نہ تو ”بادشاہی نطام“ کو کفر قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ”جمہوری نظام“ کو۔ دنیا میں ”نظام“ آتے جاتے رہتے ہیں۔ چونکہ یہ ”نظام“ انسانوں کے اپنے وضع کردہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان میں خوبیاں اور خامیاں دونوں پائی جاتی ہیں۔ گو اب بادشاہت کا زمانہ نہیں رہا تاہم اب اس کی ایک نئی شکل ”فوجی آمریت“ کی صورت میں اب بھی دنیا میں نظر آتی رہتی ہے۔ میرے ناقص خیال میں (جو اب اتنا ناقص بھی نہیں ہے ۔ ابتسامہ)، مروجہ جمہوریت کے مقابلہ میں بادشاہت یا فوجی آمریت کے تحت زیادہ سے زیادہ اسلامی شریعت کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ آئین کے تحت اگر عام انتخابات میں جیتنے والے تمام امیدوار آئین کی شق اہلیت 62 اور 63 پر پورا اترتے ہوں (جو فی الحال پانچ دس فیصد امیدوار بھی پورا نہیں اترتے) تب ایسی جمہوریت میں بھی زیادہ سے زیادہ اسلامی شریعت کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔


س: اگر کسی آئین میں یہ کہا جائے کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالی کے پاس ہوگی اور کوئی قانون اسلام کے خلاف نہی بنے گا جبکہ حالت یہ ہو کہ اگر کوئی شخص اسلام کے خلاف قانون سازی کرے تو اسے کوئی سزا نہی اور اگر کوئی شخص اسلام کے کسی قانون کو نافذ کرنا چاہے تو وہ بھی پارلیمان کی اکثریت کا محتاج ہے. کیا ایسا آئین محض اپنے دعوے کی وجہ سے اسلامی آئین ہے؟؟؟؟ اور اس ملک کو اسلامی ملک کہا جائے گا؟؟؟؟
ج: اگر کسی ”دین“ میں یہ لکھا ہو کہ اس دین میں داخل ہونے والا فلاں فلاں کام کرے گا اور فلاں فلاں کام نہیں کرے گا جبکہ اس دین میں ”داخل“ ہونے والے ”مسلمانوں“ کی یہ حالت ہو کہ وہ دین کے بنیادہ مآخذ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے ہی آگاہ نہ ہوں، بنیادی عبادات کی پابندی بھی نہ کرتے ہوں، معاملات دنیوی میں بھی اسلام کی ہدایات پر عمل کرنے کی بجائے اپنی مرضی چلاتے ہوں تو ایسے لوگ محض اپنے دعویٰ کی وجہ سے ”مسلمان“ کہلائے جائیں گے ؟؟؟؟

س: کیا اسلام کو کسی اسلامی ملک میں نافذ کرنے کے لیے جمھوریت کا رستہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟؟؟
ج: جن ہاتھوں میں ”قوت نافذہ“ ہو، اور وہ ”اسلامی شریعت“ کو نافذ بھی کرنا چاہتے ہوں تو وہ یقیناً ایسا کرسکتے ہیں، خواہ ملک میں بادشاہت ہو، جمہوریت ہو یا فوجی آمریت۔ اصل مسئلہ ”نظام“ کا نہیں بلکہ ”ناظم اور ناظمین“ کا ہے۔ یہ کسی بھی نظام کے اندر اسلام کو نافذ کرسکتے ہیں شرط صرف یہ ہے کہ ان کے پاس قوت نافذہ ہو، وہ اسلام کو نافذ کرنا چاہتے ہوں اور وہ اسلامی نظام سے بھی واقف ہوں۔
واللہ اعلم بالصواب

نوٹ: شیوخ @

اور @عبدہ سے ”دخل در معقولات“ کی معذرت ۔ شیخ عبدہ اپنے خیالات سے ضرور آگاہ فرمائیں۔
محترم بھائی @سید طہ عارف اور محترم بھائی @یوسف ثانی میں کوئی مفتی نہیں ہوں اصل فتوی تو کوئی مفتی ہی دے سکتا ہے البتہ اپنے علم کی بنیاد پہ میں آپ دونوں کی باتوں کا جواب نیچے پوسٹ میں دے دیتا ہوں ان جوابات کو آپ اپنے ان سوالات سے ملا کر کسی جید شیخ و مفتی سے کنفرم کریں اور اگر ان شیخ صاحب کے مطابق میرے جوابات درست ہوں تو پھر سمجھو میرا جواب کنفرم ہو گیا اور اگر اپنے راسخ علم کی وجہ سے میرے جواب کو قرآن و سنت سے غلط قرار دے تو وہی میرا بھی جواب ہو گا اور مجھے بھی اس پہ آگاہ کر دیں جزاکم اللہ خیرا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
کیا موجودہ جمھوریت کی تشبیہ خلافت ببو امیہ اور خلافت بنو عباسیہ سے دینا درست ہے اس بنیاد پر کہ جس طرح جمھوریت میں عوام کے پاس اختیار ہے کہ چاہے تو اسلامی شریعت نافذ کریں چاہے انگریز کا نظام نافذ کریں اور چاہے تو خود اپنے لیے نظام وضع کریں. اس طرح بادشاہ کو بھی اختیار ہے (یعنی جسطرح جمھوریت میں حاکمیت عوام کے پاس ہوتی ہے اسطرح بادشاہت میں بادشاہ کے پاس). تو جس طرح بادشاہت بذات خود کفر نہی جب تک وہ غیر اللہ کے قوانین نافذ نہی کرتی اس طرح جمھوریت بھی کفر نہی. کیا یہ استدلال درست ہے؟؟؟؟
محترم بھائی اوپر آپکی بات میں آخری ہائیلائٹ کردہ بات پہ میرے علم کے مطابق سب کا علماء کا اس حد تک مکمل اتفاق ہے کہ بادشاہت یا جمہوریت کے نظام سے کسی کو حکمران بنانا کفر کا سبب بالکل نہیں ہے
ہاں اس میں اختلاف ہو جاتا ہے کہ ایک بادشاہ یا جمہوری حکمران کسی ملک کا حکمران بننے کے بعد پھر غیر اللہ کے قانون کو پورے ملک پہ نافذ کر دے تو کیا پھر وہ کافر ہو جائے گا یا نہیں کچھ اسکو کفر اکبر کہتے ہیں کچھ کفر دون کفر کہتے ہیں ان دونوں میں کسی ایک کو آپ درست کہ سکتے ہیں اور دوسرے کو اجتہادی غلطی پہ بھی کہ سکتے ہیں مگر یہ میرا مکمل دعوی ہے یا چیلنج ہے کہ کوئی سلفی عالم کسی ایک گروہ کو مکمل گمراہ نہیں کہے گا

میرے بھائی یاد رکھیں یہاں دو باتوں کو مکس کر دیا جاتا ہے
۱۔کسی علاقہ یا ملک پہ کسی کو حکمران بنانے کا شرعی طریقہ کیا ہے
۲۔ کسی علاقہ پہ مامور شرعی حکمران یا بادشاہ یا جمہوری حکمران اس ملک پہ نظام کون سا نافذ کرے گا

شریعت نے جہاں دوسرے سوال کے واضح جواب دے دیا ہے کہ غالب یا نافذ نظام صرف اور صرف شریعت کا ہی ہو گا وہاں پہلے سوال کے کوئی واضح اصول متعین نہیں کیے گئے یعنی کچھ اشارات ضرور ملتے ہیں جیسا امرھم شوری بینھم وغیرہ ہیں یہاں پہلے سوال کے حوالے سے کچھ باتیں یاد رکھنے والی ہیں
۱۔مشورہ صرف مسلمانوں اور دیندار لوگوں سے لیا جائے گا البتہ غیر مسلم یا بے دین لوگوں سے مشورہ لینے سے وہ نظام کافر نہیں ہوتا غلطی ضرور تصور کی جائے گی جیسا کہ فاسق یا بدعتی کوئی نماز کا امام بن جائے تو مجبورا وہ قبول ہوتا ہے البتہ عین مطلوب نہیں ہوتا یعنی اصل شرعی حکم یہ نہیں ہوتا کہ فاسق یا بدعتی امام بناو البتہ بن جانے پہ اسکو درست سمجھنا بھی ضروری ہے پس اگر کوئی مروجہ جمہوری طریقہ سے حکمران بنتا ہے تو وہ طریقہ تو درست نہیں ہے مگر طریقہ کے غلط ہونے کے گناہ اسکے منتخب ہونے تک رہے گا اسکا اثر آگے اسکی اطاعت پہ نہیں جائے گا بلکہ اطاعت کے اوپر اس حکمران کے آگے والے اقدامات اثر انداز ہوں گے
۲۔اسی طرح بغیر مشورہ کے کسی بے دین یا فاسق ڈیکٹیٹر کا حکمران بن جانا بھی شرعیت میں مطلوب تو نہیں ہے البتہ اگر بن جائے تو اس کے بننے کا گناہ اسکے بننے تک ہی محدود رہے گا اسکے بعد اسکی اطاعت کے اوپر اسکا اثر نہیں ہو گا بلکہ اسکے ڈکٹیٹر بننے کے بعد کے اسکے اقدامات کا اثر اسکی طاعت پہ ضرور پڑے گا
اور میرے ایک ور دو نمبر کی دلیل میں وہی بات ہے جو آپ نے اپنے سوال کے شروع میں لکھی ہے کہ کیا جمہوریت کی مشابہت بنو امیہ یا عثمانیہ خلافت یا اسکے علاوہ مختلف آزاد ممالک سے ہمارے سلف صالحین کا تعامل رہا ہے کہ وہ کچھ حکمرانوں کے چناو کو درست نہیں بھی سمجھتے تھے مگر اسکے بعد انکی اطاعت ان باتوں میں کرتے رہتے تھے جو شریعت کے خلاف نہو ہوں واللہ اعلم
ج: یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اسلام میں نہ مروجہ بادشاہت ہے اور نہ مروجہ جمہوریت۔ لیکن یہ بھی ”درست“ ہے کہ نہ تو ”بادشاہی نطام“ کو کفر قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ”جمہوری نظام“ کو۔ دنیا میں ”نظام“ آتے جاتے رہتے ہیں۔ چونکہ یہ ”نظام“ انسانوں کے اپنے وضع کردہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان میں خوبیاں اور خامیاں دونوں پائی جاتی ہیں۔ گو اب بادشاہت کا زمانہ نہیں رہا تاہم اب اس کی ایک نئی شکل ”فوجی آمریت“ کی صورت میں اب بھی دنیا میں نظر آتی رہتی ہے۔ میرے ناقص خیال میں (جو اب اتنا ناقص بھی نہیں ہے ۔ ابتسامہ)، مروجہ جمہوریت کے مقابلہ میں بادشاہت یا فوجی آمریت کے تحت زیادہ سے زیادہ اسلامی شریعت کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ آئین کے تحت اگر عام انتخابات میں جیتنے والے تمام امیدوار آئین کی شق اہلیت 62 اور 63 پر پورا اترتے ہوں (جو فی الحال پانچ دس فیصد امیدوار بھی پورا نہیں اترتے) تب ایسی جمہوریت میں بھی زیادہ سے زیادہ اسلامی شریعت کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔
اور @عبدہ سے ”دخل در معقولات“ کی معذرت ۔ شیخ عبدہ اپنے خیالات سے ضرور آگاہ فرمائیں۔
جی آپکی ہائیلائٹ کردہ بات سے میں مکمل اتفاق کرتا ہوں کیونکہ آمر یا بادشاہ عوام کی پسند یا نا پسند کا جواب دہ نہیں ہوتا جیسا کہ سعودیہ کے بادشاہوں نے اسلام حقیقی معنوں میں نافذ کر کے دکھایا اور شرک کے اڈوں کو برابر کر کے دکھایا اللہ کی بے شمار رحمتیں ہو ان پہ
البتہ جو بعد میں آپ نے لکھا ہے کہ جمہوریت کے ذریعے بھی اسلام نافذ ہو سکتا ہے اگر طاہر القادری کی بات یعنی شق ۶۲ اور ۶۳ پہ عمل کروایا جائے تو میرے بہت ہی پیارے بھائی میرے خیال میں یہ بات بالکل درست نہیں کیونکہ آپ خالی ۶۲ اور ۶۳ ہی نہیں بلکہ تمام شقوں پہ سو فیصد ہی نہیں بلکہ ایک سو دس فیصد عمل کروا دیں تو بھی اسلام کی بنیاد کو ہی نافذ نہیں کیا جا سکتا اور اسلام کی بنیاد توحید ہے شرک کے اڈوں کو سعودیہ کے عظیم حکام (رحمھم اللہ) کی طرح برابر کرنا ممکن ہی نہیں اور اسکے بغیر اسلام کے نفاذ کا دعوی کرنا ہی غلط ہے
پس بھائی جان پورے پاکستانی آئین میں ایک بھی شق آپ کو شرک کے خلاف نہیں ملے گا اور اسکے بغیر یعنی اسلام کی بنیاد کے بغیر اسلام کیسے نافذ ہو سکتا ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اگر کسی آئین میں یہ کہا جائے کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالی کے پاس ہوگی اور کوئی قانون اسلام کے خلاف نہی بنے گا جبکہ حالت یہ ہو کہ اگر کوئی شخص اسلام کے خلاف قانون سازی کرے تو اسے کوئی سزا نہی اور اگر کوئی شخص اسلام کے کسی قانون کو نافذ کرنا چاہے تو وہ بھی پارلیمان کی اکثریت کا محتاج ہے. کیا ایسا آئین محض اپنے دعوے کی وجہ سے اسلامی آئین ہے؟؟؟؟ اور اس ملک کو اسلامی ملک کہا جائے گا؟؟؟؟
بھائی جان اس میں دو باتیں ہیں جنکو لوگ بھول جاتے ہیں
۱۔پہلی بات تو یہ میرے بھائی کہ آئین پاکستان کو مکس کر دیا گیا ہے پس آئین کے حکم کو دیکھنے کے لئے کسی ایک شق کو نہیں دیکھا جائے گا بلکہ پوری روح کو دیکھا جائے گا اسکو میں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں آج کل بریلویوں کے ڈاکٹر اشرف جلالی جگہ جگہ توحید خالص سیمینار کر رہے ہیں تو خالی اس نام سے کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ وہ توحید کے علمبردار ہیں اسی طرح آپ دعوت اسلامی کی کتاب فیضان سنت دیکھیں یا فضائل اعمال کو دیکھیں وہاں آپ کو مختلف جگہوں پہ قل ھو اللہ احد کے تحت توحید کی باتیں لکھی ہوئی ملیں گی اور اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے نہ ہونے کا یقین جیسے باتیں اور محمد کے طریقے میں کامیابی اور غیر اللہ کے طریقے میں ناکامی جیسی باتیں ملیں گے مگر ہمارے اہل حدیث انکی ان باتوں کو ذرا اہمیت نہیں دیتے کیونکہ ان باتوں کے ساتھ ہی اسی کتاب میں اسکے مخالف باتیں بھی لکھی ہوتی ہیں
پس جہاں آئین میں لکھا ہوا ہے کہ حاکم اعلی اللہ ہے وہاں مشکل کشا اور حاجت روا صرف ایک اللہ کا ہونا نہیں لکھا ہوا اسی طرح جہاں یہ شق لکھی ہوئی ہے کہ اسلام کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا وہاں نیچے ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ یہ فیصلہ بھی اکثریت ہی کرے گی کہ کون سا قانون اسلام کے خلاف ہے یا اسکے مطابق اور ساتھ ساتھ اگر اکثریت چاہے تو اس شق کو ہی ختم کر دے کہ اسلام کے خلاف قانون نہیں بنایا جائے گا

۲۔ دوسری بات یہ کہ پورے آئین میں اسلام کی اصل بنیاد یعنی اھل حدیث کی توحید کا کہیں ذکر ہی نہیں ہے (ڈاکٹر اشرف جلالی والی توحید کی بات نہیں ہو رہی) اہل حدیث کی توحید یہ ہے کہ مشکل کشا حاجت روا صرف اللہ ہے اور شرک کے اڈے برابر کرنے ہیں تو پھر آئین کے بارے میں یہ باتیں کرنا کہاں کی عقلمندی ہے کہ جی وہ تو پورا کا پورا اسلامی ہے
ہاں ہم یہ تو کہتے ہیں کہ یہ نافذ آئین اسلامی نہیں مگر یہ نہیں کہتے کہ اب لازمی اسکو نافذ کرنے والے سارے کافر ہو گئے یہ علیحدہ بحث ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
کیا اسلام کو کسی اسلامی ملک میں نافذ کرنے کے لیے جمھوریت کا رستہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟؟؟
شیخ محترم @عبدہ
جی بھائی جان اوپر میں نے بتایا ہے کہ مروجہ جمہوریت (جس میں مسلمان اور کافر کو برابر حق ہوتا ہے) اسلام میں مطلوب تو نہیں مگر اگر آ جائے تو طوعا کرھا قبول کرنے میں منع نہیں جب تک اسکا مقصد صرف حکمران کا تعین کرنا ہو مگر یہاں مروجہ جمہوریت کا مقصد صرف حکمران کا تعین کرنا نہیں ہوتا بلکہ نافذ نظام کا تعین کرنا بھی اسکا مقصد ہوتا ہے کہ غالب نظام کا فیصلہ بھی وہی حکرمان کریں گے
اب یہاں ایک بات ہے کہ اگرچہ مروجہ جمہوری نظام کا مقصد حکمران کا تعین کرنا بھی ہوتا ہے جو کسی حد تک مباح ہے اور ساتھ غالب نظام کا فیصلہ کرنا بھی ہوتا ہے جو کہ مکمل بالاتفاق حرام ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے تو اس سلسلے میں بات یہ ہے کہ جو مسلمان دوسرے نقطہ کو تو حرام سمجھتا ہے مگر کسی خاص مصلحت کے تحت وہ اس جمہوری نظام میں حصہ لیتا ہے تو یہ اسکا اجتہاد ہے اس پہ آپ اس کے ساتھ دلائل سے جھگڑ سکتے ہیں مگر اسکو گمراہ نہیں کہا جا سکتا واللہ اعلم

س: کیا اسلام کو کسی اسلامی ملک میں نافذ کرنے کے لیے جمھوریت کا رستہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟؟؟
ج: جن ہاتھوں میں ”قوت نافذہ“ ہو، اور وہ ”اسلامی شریعت“ کو نافذ بھی کرنا چاہتے ہوں تو وہ یقیناً ایسا کرسکتے ہیں، خواہ ملک میں بادشاہت ہو، جمہوریت ہو یا فوجی آمریت۔ اصل مسئلہ ”نظام“ کا نہیں بلکہ ”ناظم اور ناظمین“ کا ہے۔ یہ کسی بھی نظام کے اندر اسلام کو نافذ کرسکتے ہیں شرط صرف یہ ہے کہ ان کے پاس قوت نافذہ ہو، وہ اسلام کو نافذ کرنا چاہتے ہوں اور وہ اسلامی نظام سے بھی واقف ہوں۔
واللہ اعلم بالصواب

نوٹ: شیوخ @

اور @عبدہ سے ”دخل در معقولات“ کی معذرت ۔ شیخ عبدہ اپنے خیالات سے ضرور آگاہ فرمائیں۔
بھائی جان شرط قوت نافذہ کے ہونے کی نہیں بلکہ نیت نافذہ کی ہے یعنی انکی نیت ہو کہ وہ حقیقی اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں ورنہ تو مشرف جہاں بگٹی جیسے طاقتور کو قتل کروا سکتا تھا وہاں اسکی قوت نافذہ تھی اسنے کسی مخالفت کی پروا نہیں کی مگر دوسری طرف اسنے کالاباغ ڈیم پہ وہی قوت نافذہ نہیں دکھائی کیونکہ اسکو پاکستان کا مفاد نہیں کچھ اور عزیز تھا پس میرے خیال میں قوت نافذہ سے زیادہ نیت نافذہ آج کا مسئلہ ہے
 
Top