کیا موجودہ جمھوریت کی تشبیہ خلافت ببو امیہ اور خلافت بنو عباسیہ سے دینا درست ہے اس بنیاد پر کہ جس طرح جمھوریت میں عوام کے پاس اختیار ہے کہ چاہے تو اسلامی شریعت نافذ کریں چاہے انگریز کا نظام نافذ کریں اور چاہے تو خود اپنے لیے نظام وضع کریں. اس طرح بادشاہ کو بھی اختیار ہے (یعنی جسطرح جمھوریت میں حاکمیت عوام کے پاس ہوتی ہے اسطرح بادشاہت میں بادشاہ کے پاس). تو جس طرح بادشاہت بذات خود کفر نہی جب تک وہ غیر اللہ کے قوانین نافذ نہی کرتی اس طرح جمھوریت بھی کفر نہی. کیا یہ استدلال درست ہے؟؟؟؟
محترم بھائی اوپر آپکی بات میں آخری ہائیلائٹ کردہ بات پہ میرے علم کے مطابق سب کا علماء کا اس حد تک مکمل اتفاق ہے کہ بادشاہت یا جمہوریت کے نظام سے کسی کو حکمران بنانا کفر کا سبب بالکل نہیں ہے
ہاں اس میں اختلاف ہو جاتا ہے کہ ایک بادشاہ یا جمہوری حکمران کسی ملک کا حکمران بننے کے بعد پھر غیر اللہ کے قانون کو پورے ملک پہ نافذ کر دے تو کیا پھر وہ کافر ہو جائے گا یا نہیں کچھ اسکو کفر اکبر کہتے ہیں کچھ کفر دون کفر کہتے ہیں ان دونوں میں کسی ایک کو آپ درست کہ سکتے ہیں اور دوسرے کو اجتہادی غلطی پہ بھی کہ سکتے ہیں مگر یہ میرا مکمل دعوی ہے یا چیلنج ہے کہ کوئی سلفی عالم کسی ایک گروہ کو مکمل گمراہ نہیں کہے گا
میرے بھائی یاد رکھیں یہاں دو باتوں کو مکس کر دیا جاتا ہے
۱۔کسی علاقہ یا ملک پہ کسی کو حکمران بنانے کا شرعی طریقہ کیا ہے
۲۔ کسی علاقہ پہ مامور شرعی حکمران یا بادشاہ یا جمہوری حکمران اس ملک پہ نظام کون سا نافذ کرے گا
شریعت نے جہاں دوسرے سوال کے واضح جواب دے دیا ہے کہ غالب یا نافذ نظام صرف اور صرف شریعت کا ہی ہو گا وہاں پہلے سوال کے کوئی واضح اصول متعین نہیں کیے گئے یعنی کچھ اشارات ضرور ملتے ہیں جیسا امرھم شوری بینھم وغیرہ ہیں یہاں پہلے سوال کے حوالے سے کچھ باتیں یاد رکھنے والی ہیں
۱۔مشورہ صرف مسلمانوں اور دیندار لوگوں سے لیا جائے گا البتہ غیر مسلم یا بے دین لوگوں سے مشورہ لینے سے وہ نظام کافر نہیں ہوتا غلطی ضرور تصور کی جائے گی جیسا کہ فاسق یا بدعتی کوئی نماز کا امام بن جائے تو مجبورا وہ قبول ہوتا ہے البتہ عین مطلوب نہیں ہوتا یعنی اصل شرعی حکم یہ نہیں ہوتا کہ فاسق یا بدعتی امام بناو البتہ بن جانے پہ اسکو درست سمجھنا بھی ضروری ہے پس اگر کوئی مروجہ جمہوری طریقہ سے حکمران بنتا ہے تو وہ طریقہ تو درست نہیں ہے مگر طریقہ کے غلط ہونے کے گناہ اسکے منتخب ہونے تک رہے گا اسکا اثر آگے اسکی اطاعت پہ نہیں جائے گا بلکہ اطاعت کے اوپر اس حکمران کے آگے والے اقدامات اثر انداز ہوں گے
۲۔اسی طرح بغیر مشورہ کے کسی بے دین یا فاسق ڈیکٹیٹر کا حکمران بن جانا بھی شرعیت میں مطلوب تو نہیں ہے البتہ اگر بن جائے تو اس کے بننے کا گناہ اسکے بننے تک ہی محدود رہے گا اسکے بعد اسکی اطاعت کے اوپر اسکا اثر نہیں ہو گا بلکہ اسکے ڈکٹیٹر بننے کے بعد کے اسکے اقدامات کا اثر اسکی طاعت پہ ضرور پڑے گا
اور میرے ایک ور دو نمبر کی دلیل میں وہی بات ہے جو آپ نے اپنے سوال کے شروع میں لکھی ہے کہ کیا جمہوریت کی مشابہت بنو امیہ یا عثمانیہ خلافت یا اسکے علاوہ مختلف آزاد ممالک سے ہمارے سلف صالحین کا تعامل رہا ہے کہ وہ کچھ حکمرانوں کے چناو کو درست نہیں بھی سمجھتے تھے مگر اسکے بعد انکی اطاعت ان باتوں میں کرتے رہتے تھے جو شریعت کے خلاف نہو ہوں واللہ اعلم
ج: یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اسلام میں نہ مروجہ بادشاہت ہے اور نہ مروجہ جمہوریت۔ لیکن یہ بھی ”درست“ ہے کہ نہ تو ”بادشاہی نطام“ کو کفر قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ”جمہوری نظام“ کو۔ دنیا میں ”نظام“ آتے جاتے رہتے ہیں۔ چونکہ یہ ”نظام“ انسانوں کے اپنے وضع کردہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان میں خوبیاں اور خامیاں دونوں پائی جاتی ہیں۔ گو اب بادشاہت کا زمانہ نہیں رہا تاہم اب اس کی ایک نئی شکل ”فوجی آمریت“ کی صورت میں اب بھی دنیا میں نظر آتی رہتی ہے۔ میرے ناقص خیال میں (جو اب اتنا ناقص بھی نہیں ہے ۔ ابتسامہ)،
مروجہ جمہوریت کے مقابلہ میں بادشاہت یا فوجی آمریت کے تحت زیادہ سے زیادہ اسلامی شریعت کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ آئین کے تحت اگر عام انتخابات میں جیتنے والے تمام امیدوار آئین کی شق اہلیت 62 اور 63 پر پورا اترتے ہوں (جو فی الحال پانچ دس فیصد امیدوار بھی پورا نہیں اترتے) تب ایسی جمہوریت میں بھی زیادہ سے زیادہ اسلامی شریعت کو نافذ کیا جاسکتا ہے۔
اور
@عبدہ سے ”دخل در معقولات“ کی معذرت ۔ شیخ عبدہ اپنے خیالات سے ضرور آگاہ فرمائیں۔
جی آپکی ہائیلائٹ کردہ بات سے میں مکمل اتفاق کرتا ہوں کیونکہ آمر یا بادشاہ عوام کی پسند یا نا پسند کا جواب دہ نہیں ہوتا جیسا کہ سعودیہ کے بادشاہوں نے اسلام حقیقی معنوں میں نافذ کر کے دکھایا اور شرک کے اڈوں کو برابر کر کے دکھایا اللہ کی بے شمار رحمتیں ہو ان پہ
البتہ جو بعد میں آپ نے لکھا ہے کہ جمہوریت کے ذریعے بھی اسلام نافذ ہو سکتا ہے اگر طاہر القادری کی بات یعنی شق ۶۲ اور ۶۳ پہ عمل کروایا جائے تو میرے بہت ہی پیارے بھائی میرے خیال میں یہ بات بالکل درست نہیں کیونکہ آپ خالی ۶۲ اور ۶۳ ہی نہیں بلکہ تمام شقوں پہ سو فیصد ہی نہیں بلکہ ایک سو دس فیصد عمل کروا دیں تو بھی اسلام کی بنیاد کو ہی نافذ نہیں کیا جا سکتا اور اسلام کی بنیاد توحید ہے شرک کے اڈوں کو سعودیہ کے عظیم حکام (رحمھم اللہ) کی طرح برابر کرنا ممکن ہی نہیں اور اسکے بغیر اسلام کے نفاذ کا دعوی کرنا ہی غلط ہے
پس بھائی جان پورے پاکستانی آئین میں ایک بھی شق آپ کو شرک کے خلاف نہیں ملے گا اور اسکے بغیر یعنی اسلام کی بنیاد کے بغیر اسلام کیسے نافذ ہو سکتا ہے