محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
جنت میں جانے سے کون انکار کریں گا !!! - ضرور پڑھیں
تشریح :عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ صَخْرٍ رَضِیَ اللہ تَعَالَی عَنْہُ قَالَ:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَا نَہَیْتُکُمْ عَنْہُ، فَاجْتَنِبُوہُ وَمَا أَمَرْتُکُمْ بِہِ فَافْعَلُوا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، فَإِنَّمَا أَہْلَکَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ کَثْرَۃُ مَسَاءِلِہِمْ، وَاخْتِلَافُہُمْ عَلَی أَنْبِیَاءِہِمْ ؛؛
[أخرجہ البخاری - کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب: الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، 6777 ومسلم - کتاب: الفضائل، باب: توقیرہ صلی اللہ علیہ وسلم، 1337] .
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
''میں تمیں جس کام سے منع کر وں اس سے باز رہواور جس کام کا حکم دوں اسے بقد ر استطاعت (طاقت کے مطابق )بجا لاو تم سے پہلے لوگوں کو ان کے کثرت سوالات اور انبیاء علیہم السلام سے اختلاف نے ہلاک کر ڈالا تھا۔
قرآن مجید میں اس طرح کی بے شمار آیتیں موجود ہیں جس میں اللہ نے رسول کی اطاعت واتبا ع کا حکم دیا ہے(وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّہ) [ 4النساء64 ]۔
ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جا ئے "
ایک مقام پر اللہ رب العزت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت کو اپنی و فرمابرداری قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا :(قُلْ أَطِیعُوا اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ الْکَافِرِینَ )[3آل عمران 32]۔
اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہہ دیجئے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اگر تم نے اعراض کیا تو بیشک اللہ کافروں کو پسند نہیں کر تا ہے ۔
اور اللہ رب العالمین مسلمانوں کے لئے جو اپنے دلوں میں نبی سے محبت رکھتے ہیں ان کے تعلق سے بیا ن فرمایا کہ نبی کی زند گی کواپنی زندگی کو کامیاب بنانے میں اسوہ مان لو ۔(مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّہَ)[4 /النساء 80]۔
جس کسی نے رسول کی اطاعت کی اس نے گو یا اللہ ہی اطاعت کی ۔
(لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) 33/ا لاحزاب 21]۔
یقیناًتمہارے لئے رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقد س میں اسو ہ حسنہ ہے ۔
ان تمام آیات کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر اللہ رب العز ت نے مومنین کو ابھارا ہے اور اور رسول کی باتوں پر انکار واعراض اور نافر مانی پر رب العالمین نے کفر کا فتوی صادر فرمایا ہے(وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا) [الحشر:7/59]۔
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جو کچھ دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس رک جاو ۔
کُلُّ أُمَّتِی یَدْخُلُونَ الجَنَّۃَ إِلَّا مَنْ أَبَی، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، وَمَنْ یَأْبَی؟ قَالَ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ أَطَاعَنِی دَخَلَ الجَنَّۃَ ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ أَبَی [بخاری رقم 7280]۔
''ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا''صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! انکار کون کرے گا ؟ فرمایا کہ: '' جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا''۔
*وَمَا أَمَرْتُکُمْ بِہِ فَافْعَلُوا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ
جس کام کا حکم دوں اسے بقد ر استطاعت (طاقت کے مطابق) بجا لاو۔ اسی طرح کی بات اللہ نے
اسلام ایک واحد دین رحمت ہے جو کسی پر زور و زبردستی یا اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر کو ئی عمل کا حکم نہیں دیتا ہے بلکہ اللہ رب العز ت نے ارشاد فرمایا کہ "اللہ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا ہے بلکہ بعض مقام پر تو اسلام نے اتنی آسانی رکھی ہے اگر کو ئی شخص کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا ہے تو وہ بیٹھ کر پڑھے اور اگر بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتا ہے تو اشارے سے پڑھے اور رمضان کے مہینے میں اگر روزہ رکھنے کی استطاعت نہ ہو تو بعد کے مہینے میں اس روزے کی قضا ء کر ے اس طرح کے سینکڑوں مسائل قرآن و حدیث میں ذکر ہیں جو اس با ت پر مبنی ہیں کہ اللہ اور اس کے رسو ل نے اسلام میں لوگوں پر سختی نہیں بلکہ آسانی رکھی ہے اور استطاعت کے مطابق عمل کا حکم دیا ہے جیسا کہ اسی حدیث میں خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اور کئی سارے اعمال خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی لئے کہ لو گ جان لیں ۔(فَاتَّقُوا اللَّہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ)[ التغابن :16/64]۔
کہ تم اللہ سے ڈرو استطاعت کے مطابق ۔ یعنی جس طرح اللہ سے ڈرنے کا حق ہے اس طرح ڈرو ۔
یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس با ت کا حکم دیا ہے اس کو بغیر سوال وچوں چرا اوربغیر کٹ حجتی اس کو مان لینا اور اللہ کے رسول کی باتوں کے تعلق سے بے جا سوال کر نا جیسا کہ موسیِ علیہ السلام سے بنی اسرائیل نے گا ئے کے ذبح کرنے کے بارے میں کیا تھا اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے فضول سوال کر نے سے منع کیا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھلی امتوں کے ہلاکت کا سبب کثرت سوال بتایا ہے ۔*فَإِنَّمَا أَہْلَکَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ کَثْرَۃُ مَسَاءِلِہِمْ، وَاخْتِلَافُہُمْ عَلَی أَنْبِیَاءِہِمْ ۔
تم سے پہلے لوگوں کو ان کے کثرت سوالات اور انبیاء سے اختلاف نے ہلاک کر ڈالا تھا۔