• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنگِ جمل و صفین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اجتہادی خطا تھی جس پر وہ ندامت و افسوس کا اظہار کرتے تھے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
620
ری ایکشن اسکور
193
پوائنٹ
77
جنگِ جمل و صفین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اجتہادی خطا تھی جس پر وہ ندامت و افسوس کا اظہار کرتے تھے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جنگ پر ندامت اور رجوع ایک واضح دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جنگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اجتہادی خطا تھی، ورنہ آپ اس پر نادم و پشیمان نہ ہوتے اور نہ ہی اپنے موقف سے رجوع فرماتے۔

پانچ معتبر کتب کے حوالہ جات اس موقف کی تائید کرتے ہیں، اور یہ کتب درج ذیل ہیں:
  1. کتاب السنہ از عبداللہ بن امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
  2. المعجم الکبیر از امام طبرانی رحمہ اللہ
  3. التاریخ الکبیر از امام بخاری رحمہ اللہ
  4. تاریخ دمشق از امام ابن عساکر رحمہ اللہ
  5. المصنف از امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا جنگ جمل پر اظہار افسوس

١٣٩٧ - حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، نا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، قَالَ: قَالَ: عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِابْنِهِ الْحَسَنِ يَوْمَ الْجَمَلِ: «يَا حَسَنُ، لَيْتَ أَبَاكَ مَاتَ مِنْ عِشْرِينَ سَنَةً» قَالَ: فَقَالَ لَهُ الْحَسَنُ: يَا أَبَتِ قَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا. قَالَ: «يَا بُنَيَّ لَمْ أَرَ الْأَمْرَ يَبْلُغُ هَذَا»

قیس بن عباد رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل کے دن اپنے بیٹے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے حسن! کاش تمہارا باپ بیس سال پہلے وفات پا چکا ہوتا۔
اس پر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ابا جان! میں آپ کو (اس جنگ سے) روکتا رہا تھا۔ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے میرے بیٹے! مجھے اندازہ نہیں تھا کہ معاملہ اس حد تک پہنچ جائے گا۔

[السنة لعبد الله بن أحمد، ج : ٢، ص : ٥٨٩]

٢٠٣ - حَدَّثَنَا أَبُو خَلِيفَةَ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ، ثنا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَوْمَ الْجَمَلِ يَقُولُ لِابْنِهِ حَسَنٍ: «يَا حَسَنُ وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ مِتُّ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً»

قَیس بن عَبَّاد بیان کرتے ہیں کہ میں نے جنگِ جمل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا: اے حسن! میں تمنا کرتا ہوں کہ کاش میں بیس سال پہلے وفات پا چکا ہوتا۔


[المعجم الكبير للطبراني، ج : ١، ص : ١١٤]

یہ روایات اس بات کی صریح دلیل ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے صاحبزادے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی نصیحت کو نظر انداز کرنے پر پشیمان تھے، جو انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جنگ سے روک رہے تھے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا موقف برحق تھا، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک اجتہادی خطا کی تھی جس پر وہ بعد میں نادم ہوئے۔

جنگ صفین پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ندامت

٢٧١٧ - عمرو سمع عليا رضى الله عَنْهُ وعاتبِهِ فِي تخلفه عَنْهُ فلقي الْحَسَن بْن عَلِيّ فَقَالَ: لا تحزن عليه فواللَّه لسَمِعَته يَقُولُ يوم صفِين أو يوم كذا وكذا: يا ليت أمي لم تلدني وليت إني مت قبل اليوم -

عمرو جنگ صفین میں شریک نہ ہوئے تھے۔ جب ان کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے مواخذہ کیا۔ عمرو کہتے ہیں: میں سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے ملا تو انہوں نے فرمایا: آپ فکر نہ کریں، اللہ کی قسم! میں نے اپنے والد کو صفین والے دن فرماتے سنا تھا: کاش! میری ماں نے مجھے پیدا ہی نہ کیا ہوتا، کاش! میں آج کے دن سے پہلے ہی مر گیا ہوتا!


[التاريخ الكبير للبخاري، ج : ٦، ص : ٣٨٤]

یہ روایت بھی اس حقیقت پر دلالت کرتی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جنگ صفین کے فیصلے پر سخت نادم و پشیمان تھے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ پر اظہار افسوس

أخبرنا أبو محمد بن الإسفرايني أنا أبو الحسن بن صصرى إجازة نا طاهر بن العباس المروزي نا أبو القاسم السقطي نا إسحاق بن محمد نا أبو بكر بن مهران نا أبو بن عبد الخالق نا إبراهيم بن نصير نا سليمان الرقي نا شيخ يقال له عبد الرحيم ابن غنم عن عروة عن رويم قال جاء أعرابي إلى النبي (صلى الله عليه وسلم) فقال يا رسول الله صارعني فقام إليه معاوية فقال يا أعرابي أنا أصارعك فقال النبي (صلى الله عليه وسلم) لن يغلب معاوية أبدا فصرع الأعرابي قال فلما كان يوم صفين قال علي لو ذكرت هذا الحديث ما قاتلت معاوية

سیدنا رویم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ! مجھ سے کشتی لڑیں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: میں تم سے کشتی لڑوں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاویہ کبھی مغلوب نہیں ہوگا۔ پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس اعرابی کو پچھاڑ دیا۔ جنگ صفین کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر مجھے اس حدیث کا پہلے سے علم ہوتا، تو میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ نہ کرتا۔


[تاريخ دمشق لابن عساكر، ج : ٥٩، ص : ٨٧]

یہ روایت اس امر کو واضح کرتی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بعد میں یہ جان لیا تھا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ درست فیصلہ نہیں تھا، اور اس پر انہیں شدید افسوس تھا۔

صفین کے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی پشیمانی

٣٧٨٥٢ - مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْأَسَدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مُهَلَّبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مِهْرَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْ، سَمِعَ عَلِيًّا، يَوْمَ صِفِّينَ وَهُوَ عَاضٌّ عَلَى شَفَتِهِ: لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ الْأَمْرَ يَكُونُ هَكَذَا مَا خَرَجْتُ , اذْهَبْ يَا أَبَا مُوسَى فَاحْكُمْ وَلَوْ خَرَّ عُنُقِي.

سلیمان بن مہران رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے ایک عینی شاہد سے سنا کہ صفین کے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ہونٹ کاٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے: اگر مجھے معلوم ہوتا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا، تو (کوفہ سے) باہر ہی نہ نکلتا۔ ابو موسیٰ! فیصلہ کیجیے، خواہ یہ میری گردن پر ہو!


[ المصنف ابن أبي شيبة، ج : ٧، ص : ٥٤٨]

یہ روایت بھی اس امر کی واضح دلیل ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر انتہائی نادم تھے۔

نتیجہ : ان تمام روایات و آثار کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جنگ کرنا ایک اجتہادی خطا تھی، جس پر وہ بعد میں نادم و پشیمان ہوئے اور اس موقف سے رجوع فرمایا۔

یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک ان کے مخالف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باغی نہیں تھے، ورنہ باغیوں کے خلاف جہاد کرنے پر کون پشیمان ہوتا ہے؟

لہٰذا، ان دلائل کی بنیاد پر یہ کہنا درست ہوگا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ندامت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ان کا موقف اجتہادی خطا پر مبنی تھا، جبکہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا موقف برحق تھا۔
 
Top