• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم جنگ احد میں فتح وشکست کا ایک تجزیہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جنگ احد میں فتح وشکست کا ایک تجزیہ

یہ ہے غزوہ احد ، اپنے تمام مراحل اور جملہ تفصیلات سمیت۔ اس غزوے کے انجام کے بارے میں بڑی طول طویل بحثیں کی گئی ہیں کہ آیا اسے مسلمانوں کی شکست سے تعبیر کیا جائے یا نہیں ؟ جہاں تک حقائق کا تعلق ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ جنگ کے دوسرے راؤنڈ میں مشرکین کو بالاتری حاصل تھی۔ اور میدان جنگ انہیں کے ہاتھ تھا۔ جانی نقصان بھی مسلمانوں ہی کا زیادہ ہوا۔ اور زیادہ خوفناک شکل میں ہوا۔ اور مسلمانوں کا کم از کم ایک گروہ یقینا شکست کھاکر بھاگا۔ اور جنگ کی رفتار مکی لشکر کے حق میں رہی۔ لیکن ان سب کے باوجود بعض امور ایسے ہیں جن کی بنا پر ہم اسے مشرکین کی فتح سے تعبیر نہیں کرسکتے۔
ایک تو یہی بات قطعی طور پر معلوم ہے کہ مکی لشکر مسلمانوں کے کیمپ پر قابض نہیں ہوسکا تھا۔ اور مدنی لشکر کے بڑے حصے نے سخت اتھل پتھل اور بد نظمی کے باوجود فرار نہیں اختیار کیا تھا بلکہ انتہائی دلیری سے لڑتے ہوئے اپنے سپہ سالار کے پاس جمع ہوگیا تھا۔ نیز مسلمانوں کا پلہ اس حد تک ہلکا نہیں ہوا تھا کہ مکی لشکر ان کا تعاقب کرتا۔ علاوہ ازیں کوئی ایک بھی مسلمان کافروں کی قید میں نہیں گیا۔ نہ کفار نے کوئی مال غنیمت حاصل کیا ، پھر کفار جنگ کے تیسرے راونڈ کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ حالانکہ اسلامی لشکرابھی کیمپ ہی میں تھا ، علاوہ ازیں کُفار نے میدان جنگ میں ایک یا دودن یا تین دن قیام نہیں کیا حالانکہ اس زمانے میں فاتحین کا یہی دستور تھا۔ اور فتح کی یہ ایک نہایت ضروری علامت تھی۔ مگر کفار نے بالکل جھٹ پٹ واپسی اختیار کی۔ اور مسلمانوں سے پہلے ہی میدان جنگ خالی کردیا۔ نیز انہیں ذریت اور مال لوٹنے کے لیے مدینے میں داخل ہونے کی جرأت نہ ہوئی حالانکہ یہ شہر چند ہی قدم کے فاصلے پر تھا۔ اور فوج سے مکمل طور پر خالی اور ایک دم کھُلا پڑا تھا۔ راستے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔
ان ساری باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ قریش کو زیادہ سے زیادہ صرف یہ حاصل ہوا کہ انہوں نے ایک وقتی موقعے سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو ذرا سخت قسم کی زک پہنچادی۔ ورنہ اسلامی لشکر کو نرغے میں لینے کے بعد اسے کلی طور پر قتل یا قید کرلینے کا جو فائدہ انہیں جنگی نقطۂ نظر سے لازما ًحاصل ہونا چاہیے تھا اس میں وہ ناکام رہے اور اسلامی لشکر قدرے بڑے خسارے کے باوجود نرغہ توڑ کر نکل گیا۔ اور اس طرح کا خسارہ تو بہت سی دفعہ خود فاتحین کو برداشت کرنا پڑ تا ہے، اس لیے اس معاملے کو مشرکین کی فتح سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
بلکہ واپسی کے لیے ابو سفیان کی عجلت اس بات کی غماز ہے کہ اسے خطرہ تھا کہ اگر جنگ کا تیسرا دور شروع ہوگیا تو اس کا لشکر سخت تباہی اور شکست سے دوچار ہوجائے گا۔ اس بات کی مزید تائید ابو سفیان کے اس موقف سے ہوتی ہے جو اس نے غزوہ حمراء الاسد کے تئیں اختیار کیا تھا۔
ایسی صورت میں ہم اس غزوے کو کسی ایک فریق کی فتح اور دوسرے کی شکست سے تعبیر کرنے کے بجائے غیر منفصل جنگ کہہ سکتے ہیں۔ جس میں ہر فریق نے کامیابی اور خسارے سے اپنااپنا حصہ حاصل کیا۔ پھر میدان جنگ سے بھاگے بغیر اور اپنے کیمپ کو دشمن کے قبضہ کے لیے چھوڑے بغیر لڑائی سے دامن کشی اختیار کرلی۔ اور غیر منفصل جنگ کہتے ہی اسی کو ہیں۔ اسی جانب اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی اشارہ نکلتا ہے :
وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ ۖ إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْ‌جُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْ‌جُونَ (۴: ۱۰۴)
''قوم (مشرکین ) کے تعاقب میں ڈھیلے نہ پڑو۔ اگر تم اَلَم محسوس کررہے ہو تو تمہاری ہی طرح وہ بھی اَلَم محسوس کررہے ہیں اور تم لوگ اللہ سے اس چیز کی امید رکھتے ہو جس کی وہ امید نہیں رکھتے ۔''
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ضرر پہنچانے اور ضرر محسوس کرنے میں ایک لشکر کو دوسرے لشکر سے تشبیہ دی ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ دونوں فریق کے موقف متماثل تھے۔ اور دونوں فریق اس حالت میں واپس ہوئے تھے کہ کوئی بھی غالب نہ تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس غزوے پر قرآن کا تبصرہ:
بعد میں قرآن مجید نازل ہوا تو اس میںاس معرکے کے ایک ایک مرحلے پر روشنی ڈالی گئی۔ اور تبصرہ کرتے ہوئے ان اسباب کی نشاندہی کی گئی جن کے نتیجے میں مسلمانوں کو اس عظیم خسارے سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اور بتلایا گیا کہ اس طرح کے فیصلہ کن مواقع پر اہل ایمان اور یہ امت (جسے دوسروں کے مقابل خیرِ اُمت ہونے کا امتیاز حاصل ہے۔ ) جن اونچے اور اہم مقاصد کے حصول کے لیے وجود میں لائی گئی ہے ان کے لحاظ سے ابھی اہل ایمان کے مختلف گروہوں میں کیا کیا کمزوریاں رہ گئی ہیں۔
اسی طرح قرآن مجید نے منافقین کے موقف کا ذکر کرتے ہوئے ان کی حقیقت بے نقاب کی۔ ان کے سینوں میں اللہ اور رسول کے خلاف چھپی ہوئی عداوت کا پردہ فاش کیا۔ اور سادہ لوح مسلمانوں میں ان منافقین اور ان کے بھائی یہود نے جو وسوسے پھیلارکھے تھے ان کا ازالہ فرمایا اور ان قابل ستائش حکمتوں اور مقاصد کی طرف اشارہ فرمایا جو اس معرکے کا حاصل تھیں۔
اس معرکے کے متعلق سورۂ آل عمران کی ساٹھ آیتیں نازل ہوئیں۔ سب سے پہلے معرکے کے ابتدائی مرحلے کا ذکر کیا گیا۔ ارشاد ہوا :
وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۳: ۱۲۱)
''یاد کرو جب تم اپنے گھر سے نکل کر (میدان احد میں گئے۔ اور وہاں ) مومنین کو قتال کے لیے جابجا مقرر کررہے تھے۔''
پھر اخیر میں اس معرکے کے نتائج اور حکمت پر ایک جامع روشنی ڈالی گئی۔ ارشاد ہوا :
مَّا كَانَ اللَّـهُ لِيَذَرَ‌ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَجْتَبِي مِن رُّ‌سُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ‌ عَظِيمٌ (۳:۱۷۹)
''ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ مومنین کو اسی حالت پر چھوڑ دے جس پر تم لوگ ہو یہاں تک کہ خبیث کو پاکیزہ سے الگ کردے۔ اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تمہیں غیب پر مطلع کرے۔ لیکن وہ اپنے پیغمبروں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے۔ پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا تو تمہارے لیے بڑا اجر ہے ۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غزوے میں کارفرما الٰہی مقاصد اور حکمتیں:
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس عنوان پر بہت بسط سے لکھا ہے۔1 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علماء نے کہا ہے کہ غزوۂ احد اور اس کے اندر مسلمانوں کو پیش آنے والی زک میں بڑی عظیم ربانی حکمتیں اور فوائد تھے۔ مثلاً: مسلمانوں کو معصیت کے بُرے انجام اور ارتکاب نہی کی نحوست سے آگاہ کر نا۔ کیونکہ تیر اندازوں کو اپنے مرکز پر ڈٹے رہنے کا جو حکم رسول اللہﷺ نے دیا تھا ، انہوں نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مرکز چھوڑ دیا تھا۔ (اور اسی وجہ سے زک اٹھانی پڑی تھی ) ایک حکمت پیغمبروں کی اس سنت کا اظہار تھا کہ پہلے وہ ابتلاء میں ڈالے جاتے ہیں ،پھر انجام کار انہیں کو کامیابی ملتی ہے۔ اور اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اگر انہیں ہمیشہ کامیابی ہی کامیابی حاصل ہو تو اہل ایمان کی صفوں میں وہ لوگ بھی گھس آئیں گے جو صاحب ایمان نہیں ہیں۔ پھر صادق وکاذب میں تمیز نہ ہوسکے گی۔ اور اگر ہمیشہ شکست ہی شکست سے دوچار ہوں تو ان کی بعثت کا مقصد ہی پورا نہ ہوسکے گا۔ اس لیے حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ دونوں صورتیں پیش آئیں تاکہ صادق وکاذب میں تمیز ہوجائے۔ کیونکہ منافقین کا نفاق مسلمانوں سے پوشیدہ تھا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا۔ اور اہل نفاق نے اپنے قول وفعل کا اظہار کیا تو اشارہ صراحت میں بدل گیا۔ اور مسلمانوں کو معلوم ہوگیا کہ خود ان کے اپنے گھروں کے اندر بھی ان کے دشمن موجود ہیں۔ اس لیے مسلمان ان سے نمٹنے کے لیے مستعد اور ان کی طرف سے محتاط ہوگئے۔
ایک حکمت یہ بھی تھی کہ بعض مقامات پر مدد کی آمد میں تاخیر سے خاکساری پیدا ہوتی ہے۔ اور نفس کا غرور ٹوٹتا ہے۔ چنانچہ جب اہل ایمان ابتلاء سے دوچار ہوئے تو انہوں نے صبر سے کام لیا ، البتہ منافقین میں آہ وزاری مچ گئی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: زاد المعاد ۲/۹۹ تا ۱۰۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اللہ نے اہل ِ ایمان کے لیے اپنے اعزاز کے گھر (یعنی جنت ) میں کچھ ایسے درجات تیار کر رکھے ہیں جہاں تک ان کے اعمال کی رسائی نہیں ہوتی۔ لہٰذا ابتلاء ومحن کے بھی کچھ اسباب مقرر فرمارکھے ہیں تاکہ ان کی وجہ سے ان درجات تک اہل ایمان کی رسائی ہوجائے۔
اور ایک حکمت یہ بھی تھی کہ شہادت ، اولیاء کرام کا اعلیٰ ترین مرتبہ ہے۔ لہٰذا یہ مرتبہ ان کے لیے مہیافرمادیا گیا۔
اور ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اللہ اپنے دشمنوں کو ہلاک کرنا چاہتا تھا لہٰذا ان کے لیے اس کے اسباب بھی فراہم کردیئے۔ یعنی کفر وظلم اور اولیاء اللہ کی ایذاء رسانی میں حد سے بڑھی ہوئی سرکشی۔ (پھر ان کے اسی عمل کے نتیجے میں) اہل ایمان کو گناہوں سے پاک وصاف کردیا ، اور کافرین کو ہلاک وبرباد۔1
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فتح الباری ۷/۳۴۷
****​
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کیا سیرت کی کتب میں ایسی کوئی بات ملتی ہے کہ غزوۃ احد میں مسلمانوں نے کفار کا تعاقب بھی کیا تھا اگر ایسا ہی ہے تو پھر باقی دلائل کے ساتھ کیا یہ کافی نہیں کہ مسلمان اس غزوۃ میں فاتح تھے ؟
 
Top