- شمولیت
- اگست 28، 2019
- پیغامات
- 58
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 56
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جن لوگوں سے اللہ نفرت کرتاہے
جن لوگوں سے اللہ نفرت کرتاہے
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،اما بعد:
برادران اسلام!
اس سے پہلے ہم نے آپ کو یہ بات بتلائی تھی کہ ایک انسان کے لئے سب سے بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ اسے اللہ کی محبت مل جائےاور جس انسان کو بھی اللہ کی محبت مل جاتی ہے اس انسان سے پوری کائنات محبت کرنے لگ جاتی ہے اور آج کے خطبۂ جمعہ میں ان بدنصیب و بدبخت لوگوں کا تذکرہ کرنے جارہاہوں جن سے اللہ نفرت کرتاہے ،جن کو اللہ پسند نہیں کرتاہےاورجن سے اللہ ناراض رہتاہے ،اللہ کی پناہ! میرے بھائیو!یہ بات اچھی طرح سے یاد رکھ لیں اور جان لیں کہ جس انسان سے اللہ ناراض ہوجائے تو اس انسان سے ساری کائنات ناراض ہوجاتی ہے،جیسا کہ حبیب کائنات ﷺ نے فرمایا کہ ’’ وَإِذَا أَبْغَضَ اللَّهُ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ ‘‘ کہ جب اللہ کسی بندے سے اس کے برے اعمال وکرتوت کی وجہ سے نفرت کرنے لگ جاتاہے تو جبرئیل امین کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’ إِنِّي قَدْ أَبْغَضْتُ فُلَانًا ‘‘میں فلاں بندے سے نفرت کرتاہوں،لہذا تم سب بھی ایسے انسان سے نفرت کرو ،فرمایا ’’ فَيُنَادِي فِي السَّمَاءِ ثُمَّ تَنْزِلُ لَهُ البَغْضَاءُ فِي الأَرْضِ ‘‘جبرئیل امین آسمان میں یہ اعلان کردیتے ہیں کہ اللہ فلاں بندے سے نفرت کرتاہے، (اے فرشتوں کی جماعت!تم سب بھی اس انسان سے نفرت کرو اورپھر فرشتے بھی ایسے انسان سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں )پھراس کے لئے زمین میں نفرت اتار دی جاتی ہے۔(ترمذی:3161،صححه الألبانیؒ)اللہ کی پناہ!سنا آپ نے کہ جس سے اللہ ناراض ہوجاتاہے تو اس سے آسمانوں والے اور زمین والے سب کے سب نفرت کرنے لگ جاتے ہیں اور آج پوری دنیا میں ہم مسلمانوں سے سب سے زیادہ نفرت کی جارہی ہے،آج ہر کس وناکس اورہر قوم ہم سے نفرت کررہی ہیں ،کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے اپنے برے اعمال وکردار سے اپنے رب کو ناراض کرلیا ہے کیونکہ یہ ایک مسلم اصول ہے کہ رب ناراض تو سب ناراض اور رب راضی تو سب راضی۔اس لئے میرے بھائیو !اپنی اصلاح کرلو اور ہراس حرکت سے باز آ جاؤ جس سے ہمارا رب ناراض ہوتاہے،اب آئیے میں آپ لوگوں کو ان بدبختوں اور بدنصیبوں کے بارے میں بتلاتاہوں جن سے رب نفرت کرتا ہے اور جن کو پسند نہیں کرتاہے:
1۔ظالموں سے اللہ نفرت کرتاہے:
محترم سامعین! آج ہرطرف ظلم کا بازار گرم ہے،ہرطاقتور اپنے طاقت کے نشے میں چور کمزوروں کے اوپرظلم کررہاہے اور تو اور ہےجوبرسراقتدارہے یاپھر کسی سرکاری عہدےپرفائز ہےوہ تو اپنے ماتحت لوگوں کے اوپر ظلم وزیادتی کرنا اپنا حق سمجھتاہےاوراس معاملے میں آج کا مسلمان بھی کچھ پیچھے نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر ظلم کرتا نظر آتاہے،ایک بھائی اپنے بھائی پر ظلم کرتا نظرآتاہے،ایک شوہراپنے بیوی پر ظلم کرتے نظرآتاہے،ایک ساس اپنے بہوپر ظلم وزیادتی کرتے نظر آتی ہے جب کہ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ ہرمسلمان مردوعورت کے مابین دینی اخوت ہے لہذا کوئیکسی کے اوپر ظلم نہ کرےجیسا کہ جناب محمدعربیﷺ کا یہ فرمان ہے کہ ’’ المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ ‘‘ ایک مسلمان دوسرے مسلمان مرد کا بھائی ہے اور اسی طرح سے ایک عورت بھی دوسری عورت کی بہن ہے تو کوئی کسی کے اوپرظلم نہ کرے۔(بخاری:2442،مسلم:2564)میرے دوستو!جہاں انسان کا انسان کے اوپر ظلم کرنا حرام ہے وہیں اللہ کی شان وعظمت بھی ذرا سن لیجئے کہ ایک بار نہیں کئی بار خود اللہ رب العزت نے اپنے کلام پاک کے اندریہ اعلان کردیا ہے کہ میں کسی کے اوپر ظلم نہیں کرتا ہوں،فرمایا ’’ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ‘‘اورآپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ (فصلت:46) کہیں فرمایا کہ ’’ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ‘‘یقین مانوکہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔(لحج:10)دیکھئے خود اللہ کا یہ اعلان ہے کہ میں اپنے بندوں کے اوپر ظلم نہیں کرتا ہوں مگر آج کا یہ حضرت انسان جو اللہ کی مخلوق ہوکر ایک دوسرے کے اوپر ظلم کرتے نظر آتاہےجب کہ یہ ظلم وظالم اللہ رب العزت کو قطعی پسند نہیں ہے بلکہ اللہ تو ایسے لوگوں سے سخت نفرت کرتاہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ‘‘اور اللہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔(آل عمران:57)یعنی اللہ ظالموں کو بالکل بھی پسند نہیں کرتاہے،یہ ظلم ایک ایسا گناہ ہےجس کے مرتکب کو رب العزت دنیا میں ہی سزاسے دوچار کرتاہےجیسا کہ فرمان نبوی ﷺ ہے ’’ مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ ‘‘ یعنی کہ ظلم وزیادتی اور قطع رحمی سے بڑھ کوکوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس کی سزا اللہ تعالی دنیا میں بھی جلدی دے دیتاہے اور اس کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اس کی سزا جمع رکھ دیتا ہے۔ (ابن ماجہ:4211 ،ابوداؤد:4902صححہ الألبانیؒ)ایک دوسری روایت کے اندر اسی بات کو آپﷺ نے کچھ یوں بیان کیا کہ ’’ كُلُّ ذُنُوبٍ يُؤَخِّرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، إِلَّا الْبَغْيَ وَعُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ أَوْ قَطِيعَةَ الرَّحِمِ يُعَجِّلُ لِصَاحِبِهَا فِي الدُّنْيَا قَبْلَ الْمَوْتِ ‘‘ تمام گناہوں میں سے اللہ تعالی جس کی چاہے سزا مؤخر کردےسوائے ظلم وزیادتی اور والدین کی نافرمانی یا قطع رحمی کے،ان گناہوں کے مرتکب کو اللہ تعالی دنیا میں ہی بہت جلد سزا دیتا ہے۔(ٍٍٍٍٍصحیح الأدب المفرد للألبانیؒ:591،الصحیحہ:918،ترمذی:2511،ابوداؤد:4902،ابن ماجہ:4211) میرے نوجوانو!اپنی بیویوں اور اپنے سسرال والوں کی باتوں میں آکر ماں باپ سے جدائی ودوری نہ اختیار کیا کرو،ماں باپ کو بڑھاپے میں اکیلے نہ چھوڑا کرو اور نہ ہی ماں باپ کو تکلیف دیا کرواور نہ ہی ماں باپ کو رلایا کرو،ورنہ یہ حدیث یاد رکھنا کہ ایسے بدبختوں کو دنیا میں ہی سزا ضرور بالضرور ملتی ہے،اسی طرح سے وہ لوگ بھی ذرا کان کھول کرسن لیں جولوگوں کے اوپر اور بالخصوص اپنے پڑوسیوں اور اپنے رشتے داروں کے اوپر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھاتے ہیں،طرح طرح سے ان کو اذیتوں سے دوچارکرتے ہیں یہاں تک کہ ان کو محلہ وگاؤں چھوڑنے پر مجبور کردیتے ہیں تو اس طرح کے تمام لوگ دنیا ہی میں ضرور بالضرور اللہ کے کسی نہ کسی عذاب میں گرفتار ہوجاتے ہیں جب کہ ایسے لوگوں کا دردناک انجام وعذاب ابھی آخرت میں باقی رہے گا،اسی لئے حبیب کائنات ومحبوب خداﷺ نے اپنی امت کو یعنی کہ ہم کو اورآپ کو اس ظلم سے ڈراتے ہوئےباخبر کیاکہ اے لوگو!’’ مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ اليَوْمَ قَبْلَ أَنْ لاَ يَكُونَ دِينَارٌ وَلاَ دِرْهَمٌ ‘‘اگرکسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یاکسی اور طریقہ سے ظلم کیا ہو تو وہ آج ہی اس دن کے آنے سے پہلے پہلے معاف کرالے ،رفع دفع کرالے جس دن درہم ودینار نہ ہوں گے یعنی روپیہ پیسہ نہ ہوں گےبلکہ اس کی صورت یہ ہوگی کہ’’ إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ ‘‘اگر اس کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس ظالم کے پاس نہ ہوگا تو اس مظلوم کی برائیاں اس پر ڈال دی جائے گی اور پھر اس ظالم کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔(بخاری:2449،مسلم:2581)
میرے بھائیو!یہ بات ہمیشہ یادرکھنا کہ اس ظلم اور ظالموں سے رب العزت کو سخت نفرت ہے،کافروں ومشرکوں کو تو بسا اوقات رب العزت اپنی حکمت ومصلحت کے تحت اس دنیا میں عذاب سے دوچار نہیں کرتاہے،چھوڑ دیتاہے یا پھر ڈھیل دے دیتا ہےمگر اللہ رب العزت کبھی کسی ظالم کومعاف نہیں کرتاہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہرظالم مرنے سے پہلے پہلے اپنے ظلم کا مزہ کسی نہ کسی شکل میں ضروربالضرور چکھ لیتاہے۔
2۔گالیاں بکنے والوں سے اللہ نفرت کرتاہے:
میرے دوستو! اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت زبان ہے،یہ زبان جہاں ایک طرف نعمت ہے وہیں دوسری طرف یہ زحمت بھی ہے،اس زبان سے جہاں ایک طرف ایک انسان جنت میں جاسکتاہے وہیں دوسری طرف اسی زبان کی وجہ سے ہی سب سے زیادہ لوگ جہنم میں جائیں گے جیسا کہ حدیث کے اندر یہ بات مذکور ہے کہ ایک مرتبہ آپﷺ نے یہ فرمایا کہ تم لوگ اپنی اپنی زبانوں کی حفاظت کرو تو حضرت معاذ بن جبلؓ نے سوال کیا کہ اے نبیٔ اکرم ومکرم ﷺ ’’ وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ ‘‘ ہم جو باتیں کرتے ہیں کیا ان پر بھی ہماری پکڑ ہوگی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے معاذ تیری ماں تجھے گم پائے!’’ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ ‘‘ لوگوں کو جہنم کی آگ میں چہروں اور نتھنوں کے بل گھسیٹنے والی چیز ان کی زبانوں کی کاٹی ہوئی فصلوں کے علاوہ اور کیا ہے۔(ترمذی:2617،ابن ماجہ:3973،الصحیحۃ:1122)سنا آپ نے کہ زبان ہی کی وجہ سے لوگ سب سے زیادہ جہنم میں جائیں گے اس لئے میرے بھائیو !اپنی زبان کی حفاظت کرواور اس زبان سے گالیاں نہ بکا کرو یادرکھ لو کہ یہ گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اورآپﷺ نے سختی سے اس بات سے روکا ہے کہ کوئی کسی کو گالی دے،ہمارے حبیبﷺ نے تو انسان کیا جانور،ہوا ،بخار یہاں تک کہ شیطان کو بھی گالی دینے سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ تم کسی بھی مخلوق کو گالی نہ دیا کرو۔(ابوداؤد:5103،5099،مسلم:2557،الصحیحہ:2422)ایک طرف آپﷺ کا یہ حکم کہ تم کسی بھی مخلوق کو گالی نہ دو اور دوسری طرف آج کل کے مسلمانوں کی عادت یہ ہے کہ وہ ہروقت کسی نہ کسی کو گالی دیتے نظر آتے ہیں ،سماج ومعاشرے میں دیکھا یہ جاتاہے کہ کیاعالم ،کیاجاہل،کیانمازی،کیا بے نمازی،کیا حاجی، کیامرد،کیاعورت،کیابچہ،کیا جوان،کیابوڑھا ہرشخص ایک دوسرے کو گالی دیتے نظر آتاہےجب کہ یہ گالی دینا منافقوں کا طوروطریقہ رہاہے اور اللہ رب العزت کو تو گالیاں بکنا کسی بھی صورت میں پسند نہیں ہے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ وَإِيَّاكُمْ وَالْفُحْشَ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ ‘‘كه اے لوگو! فحش گوئی یعنی گالی گلوچ سے بچاکرو کیونکہ اللہ رب العزت فحش گو اور گالیاں بکنے والے انسان کوپسند نہیں کرتاہے۔(صحیح الادب المفرد للألبانی:366،ابوداؤد:4792)میرے دوستو!زبان کے ہلکے انسان کو اللہ صرف پسند ہی نہیں کرتاہے بلکہ ایسے انسان سے رب العزت سخت نفرت بھی کرتاہے جیسا کہ فرمان نبویﷺ ہے ’’ إِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ ‘‘کہ بے شک اللہ رب العزت فحش گو اور گالیاں بکنے والوں سے نفرت کرتاہے۔(الصحیحہ:876)اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ’’ إِنَّ اللَّهَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيَّ ‘‘بے شک اللہ رب العزت بدکلامی اور بیہودہ گوئی کرنے والے اور گالیاں بکنے والوں سے نفرت کرتاہے۔(ترمذی:2002،الادب المفرد:464،صحیح الجامع للألبانی:58،الصحیحہ:876)اللہ کی پناہ!اس لئے میرے بھائیو اوربہنو!اپنی زبان کی حفاظت کرو،نہ تو اپنے زبان سے بدکلامی وبیہودہ گوئی کرو اور نہ ہی کسی کو گالیاں دیا کرواوریہ بات اچھی طرح سےیاد رکھ لو کہ جو بھی شخص کسی کو گالیاں دے گا اس کی تمام نیکیاں ضائع وبرباد ہوجائیں گی۔(مسلم:2581)
3۔دنیاوی امور میں چالاک اور دینی واخروی معاملات میں جاہل رہنے والوں سے اللہ نفرت کرتاہے:
میرے بھائیو اوربہنو! آپ نے بالکل ہی صحیح سنا کہ اللہ رب العزت ایسے لوگوں سےنفرت کرتاہے جو دنیاوی معاملات میں بہت چالاک ہوتے ہیں، تجارت وبزنس کے معاملے میں بہت ہوشیار ہوتے ہیں،اعلی سے اعلی ڈگریاں رکھتے ہیں اور دس دس زبانوں کے جاننے وپڑھنے اور لکھنے والے ہوتے ہیں مگر دینی معاملات میں بالکل ہی جاہل ہوتے ہیں،نہ اللہ معلوم نہ رسول معلوم،نہ قرآن پڑھنے آتاہے بلکہ کتنے ایسے لوگ ہیں جن کو سورہ فاتحہ اور تشہد کی دعائیں بھی یاد نہیں ہوتی ہیں،ایک مرتبہ کون بنے گا کڑوڑپتی میں ایک مسلمان سے یہ سوال کیا گیا کہ چار اوپشن میں سے وہ کون ہے جو پیغمبر اور رسول نہیں ہے ،اس میں تین نام تو نبیوں اور رسولوں کے تھے اور ایک نام جبرئیل امین کا تھا ،آپ جانتے ہیں وہ شخص رامائن ومہابھارت، گیتا اور تاریخ ،سائنس وٹکنالوجی وغیرہ کے مشکل سے مشکل سوالوں کے جواب دے گیا مگر وہ مسلمان ہوکر بھی اس سوال کا جواب نہ دے سکا،افسوس صد افسوس آج ہمارے بچے بھی ایسے ہی ہیں کہ وہ انجینئر ،بی کام اوریم بی بی ایس ڈاکٹر،پی،ایچ ،ڈی اور ایم فل وغیرہ کی ڈگریاں تو رکھتے ہیں مگر وہ دین سے بالکل بھی نابلداور ناواقف ہوتے ہیں تو ایسے ہی لوگوں سے اللہ نفرت کرتاہے جو دنیاوی امور ومعاملات میں تو بہت ماہر اورذہین وفطین ہوتے ہیں مگر دین کی موٹی موٹی باتوں کا بھی انہیں علم نہیں ہوتاہےجیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے کہ’’ إِنَّ اللهَ تَعَالىٰ يُبْغِضُ كُلَّ عَالِمٍ بِالدُّنْيَا جَاهِلٍ بِالْآخِرَةِ ‘‘بے شک اللہ تعالی اس شخص نے نفرت کرتاہے جو دنیاوی امورومعاملات کا تو بہت جانکارہے مگر آخرت کے معاملےمیں بہت جاہل ہے۔(صحیح الجامع للألبانیؒ:1879،الصحیحہ:195)سنا آپ نے کہ ایسا انسان اللہ کے نزدیک قابل نفرت ہے جو دنیا کا ماہر ہے مگر آخرت کے بارے میں غافل ہے اور یقینا آخرت سےوہی شخص جاہل وغافل رہ سکتاہے جو دین سے جاہل ہو تو جو دین سے جاہل رہے گا وہ اللہ کی نظر میں قابل نفرت شخص ہوگا۔
4۔جھگڑالو شخص سے اللہ نفرت کرتاہے:
میرے بھائیو!شریعت ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ کامل مسلمان وہ ہے جو اپنے ہاتھ وزبان سے کسی مسلمان کو تکلیف نہ دے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے کہ ’’ ألْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ‘‘ کامل مسلمان وہ ہے جس کے زبان وہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہے۔(مسلم:41،بخاری:10)مگرافسوس کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑرہاہے کہ آج کے دور میں ہرمسلمان ایک دوسرے کو اپنے زبان وہاتھ سے کسی نہ کسی طرح سے تکلیف سے دوچارکرتارہتاہے،کوئی کسی کو گالی دیتاہے تو کوئی کسی کو مارتا وپیٹتاہے تو کوئی کسی پر ظلم وزیادتی کرتے نظر آتاہے بلکہ ہرآئے دن مسلم محلوں میں لڑائی جھگڑے ہوتے رہنا یہ عام بات ہے،سماج ومعاشرے میں یہ بات تو عام ہی ہوگئی ہے اور یہ صد فیصد حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلمان ہی آپس میں زیادہ لڑتے وجھگڑتے ہیں،دیکھا یہ جاتاہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور معاملات پر مسلمان آپس میں ہاتھاپائی اور زبان دراز ی کرتے ہیں، سماج ومعاشرے میں ایک بالشت یا پھرایک اینٹ کے برابرجگہ کے لئے بھائی ،بھائی کا جانی دشمن بنا ہوا ہے ،ہروقت ان میں لڑائی وجھگڑا ہوتارہتاہے اوراپنی انا کی وجہ سے ہرکوئی اس لڑائی وجھگڑا کو طول دیتاہے اور کوئی کسی کو معاف کرنے اورلڑائی وجھگڑا چھوڑنےکے لئے تیار نہیں ہوتاہے ،میرے بھائیو سن لو! اس لڑائی وجھگڑے سے ہمیشہ دور رہاکرو کیونکہ یہ ایک ایسامنافقانہ روش ہے جس میں صرف منافق قسم کے لوگ ہی دلچسپی لیتے ہیں اسی لئے یہ لڑائی وجھگڑ ا کرناشیطان کو بہت محبوب ہے جبکہ ا للہ کو اس سے سخت نفرت ہے جیسا اماں عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ إِنَّ أَبْغَضَ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الأَلَدُّ الخَصِمُ ‘‘بے شک کہ اللہ کے نزدیک لوگوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور قابل نفرت سخت جھگڑالو لوگ ہیں۔(بخاری:2457،مسلم:2668)اس حدیث میں ’’ الأَلَدُّ الخَصِمُ ‘‘ کا لفظ ہے جس کا معنی ہے کہ وہ انسان جو لڑائی جھگڑا کرنے میں ماہر ہو اور ہروقت لڑائی وجھگڑا کرنے کے فراق میں رہے،چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی وجھگڑا کرنے پر آمادہ ہوجائے تو اس طرح کے لوگوں سے رب العزت نفرت کرتاہے اور ایسے لوگ جہنم کے ایندھن بنیں گے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ ‘‘کہ کیا میں تمہیں جہنمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں تو صحابۂ کرام نے کہا کہ کیوں نہیں ؟اے اللہ کے نبیﷺ آپ ہمیں ضرور اس بات کی جانکاری دے دیں تو آپﷺ نے فرمایا ’’ كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ ‘‘ کہ سخت مزاج وسخت دل اور بدخلق ،دوسروں کے ناک میں دم کرنے والا یعنی کہ جھگڑالو،پیسہ جوڑ جوڑ کر رکھنے والابخیل اور تکبر کرنے والے یہ سب کے سب جہنمی ہیں۔ (بخاری:4918،مسلم:2853)
میرے بھائیو اور بہنو! اس سلسلے میں ایک خوشخبری بھی سن لیں کہ جو لوگ حق پر ہونے کے باوجود بھی لڑائی وجھگڑا سے دوری اختیار کرلیں گے تو ایسے لوگوں کے لئے جنت میں ایک محل کی بشارت دیتے ہوئے محبوب خدا ومحبوب کائناتﷺ نے فرمایا کہ ’’ أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا ‘‘ میں اس شخص کو جنت کے کنارے ادنی درجے میں ایک محل کی ضمانت وگارنٹی دیتاہوں جو حق پر ہونے کے باوجود بھی لڑائی وجھگڑا چھوڑ دے۔ (ابوداؤد:4800،حسنہ الألبانیؒ)
5۔ فسادیوں سے اللہ نفرت کرتاہے:
میرے بھائیو!ابھی آپ نے یہ سنا کہ جھگڑاکرنے والوں سے اللہ نفرت کرتاہےتو اسی سلسلے میں ایک اور چیز ہے جس کو انجام دینے والوں سے رب العزت کونفرت ہے اور وہ ہے لوگوں کو آپس میں لڑانا،سماج ومعاشرے میں فساد پیدا کرنا،دوخاندان والوں اور دو بھائیو کو آپس میں لڑانا،لڑائی وجھگڑے کو ہوا دینا،میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کی کوشش کرنا، ساس وبہو کوآپس میں لڑانا،آج سماج ومعاشرے میں یہ ہورہاہے کہ ساس اپنے بہو کے خلاف اپنے بیٹے کے کان بھرتی ہے اور بیٹا طیش وجذبات میں آکر بیوی پر ظلم ڈھاتاہے یا پھر طلاق دے دیتاہے یا پھر لڑکی ہی تنگ آکر خلع لے لیتی ہے تو جومرد وعورت بھی یہ بری حرکت کرتے ہیں وہ یہ آج جان لیں کہ ایسے لوگ مسلمان اور آپﷺ کا امتی کہلائے جانے کے لائق ومستحق نہیں ہے بلکہ ایسے لوگوں کادین ناقص وغیرمکمل ہے اور اس کا اعلان خود محبوب خدا ﷺ نے کیا ہے کہ ’’ لَيْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا ‘‘ وہ ہم میں سے نہیں جو کسی عورت کو اس کے شوہرکے خلاف بھڑکائے ،اور ایک دوسری روایت میں ہے آپﷺ نے فرمایا کہ’’ وَمَنْ أَفْسَدَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا فَلَيْسَ مِنَّا ‘‘ وہ انسان ہم میں سے نہیں چاہے وہ نند ہو، یاپھر ساس ہو ، یا پھر دیور ودیورانی ہو ، ، یا پھر جیٹھ وجیٹھانی ہو جوکسی عورت کو اس کے شوہر سے(یاپھرکسی شوہرکو اس کی بیوی سے )دورکرنے کی کوشش کرے اور ان دونوں کے درمیان فساد ڈالنے کی کوشش کرے ۔ (ابوداؤد:2175،الصحیحۃ:324)اسی طرح سے سماج ومعاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کسی اولاد کو اس کےوالدین سے دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تویہ سب ایسے کام ہیں جن کو انجام دینے والوں سے رب کوسخت نفرت ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ‘‘اور الله فساد كو ناپسند کرتاہے۔(البقرۃ:205)اور ایک دوسری جگہ فرمایا کہ ’’ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ‘‘اورملک میں فساد کو خواہاں نہ ہو،یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند رکھتاہے۔(القصص:77)سنا آپ نے کہ اللہ فساد اور فسادی قسم کے لوگوں کو پسند نہیں کرتاہے مگر آج سماج ومعاشرے میں یہ خرابی بہت عام ہے،اکثروبیشتر جو دو بھائیو اور دو خاندانوں کے درمیان لڑائی ہوتی ہے اس کے پیچھے کسی تیسرے آدمی کا ہی ہاتھ ہوتاہے جو بڑے ہی چالاکی وعیاری سے آگ لگا کر آرام سے بیٹھ کر تماشہ دیکھتے رہتے ہیں اور کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو آپ کے اور سب کےسامنے میل ملاپ و صلح وصفائی کی بات کریں گے مگر اندر ہی اندر وہ آپ کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے رہیں گے اور فساد کی بیج بوتے رہیں گے تومیرے دوستو!آپ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں کیونکہ قرآن نے ایسے فسادیوں کو منافق کہا ہے جو بظاہر صلح وصفائی کی باتیں کرتے ہیں مگر ان کا مقصد فساد پیداکرنا اورلڑاناہوتاہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ، أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ ‘‘اورجب ان سے کہاجاتاہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں،خبردارہوجاؤ!یقیناً یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں،لیکن انہیں شعور نہیں۔(البقرۃ:11-12)تومیرے بھائیو!آپ ہمیشہ یہ قرآن کی نصیحت یاد رکھیں اور کسی تیسرے ایرے غیرے نتھو خیرےکو اپنے اور اپنے گھریلو وخاندانی معاملات میں دخل نہ دینے دیں ورنہ آپ کی زندگی کا ہرچین وسکون یہ فسادی لوگ ختم کردیں گے کیونکہ آج سماج ومعاشرے میں آگ بجھانے والے کم اور آگ لگانے والے زیادہ پائے جاتے ہیں ۔
6۔ بکواس ولفاظی کرنے اور شیخی بگھاڑنے والوں سے اللہ نفرت کرتاہے:
میرے بھائیو!آپ نے بالکل ہی صحیح سنا کہ جولوگ لفاظی کرتے ہیں اور شیخی بگھاڑتے رہتے ہیں توایسے لوگوں سے اللہ رب العزت نفرت کرتاہے،کتنے ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کے سامنے میں اپنی علمی برتری دکھانے کے لئے مسجع ومقفع الفاظ اور عبارتوں کا استعمال کرتے ہیں اور لوگوں میں اپنا رعب ودبدبہ قائم کرنے کے لئے فصاحت وبلاغت جھاڑتے رہتے ہیں تو اس طرح کے جتنے بھی چرب زبان لوگ ہوتے ہیں ان سب سے اللہ رب العزت نفرت کرتا ہے جیسا عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبْغِضُ الْبَلِيغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِهِ تَخَلُّلَ الْبَاقِرَةِ بِلِسَانِهَا ‘‘ کہ بے شک اللہ ایسے فصاحت وبلاغت جھاڑنے والے شخص سےنفرت کرتاہے جو منہ پھاڑ پھاڑ کر تکلف وتصنع سے گفتگوکرتے ہوئے اپنی زبان کو گائے کے جگالی کرنے کی طرح بار بار پھیرتاہے۔ (الصحیحۃ:880،ابوداؤد:5005،ترمذی:2853)
7۔رات میں مردار کی طرح پڑے رہنے والوں اور دن میں گدھا بننے والوں سے اللہ نفرت کرتاہے:
میرے دوستو!دنیا میں اکثرایسے لوگ ہیں جن کی زندگی کامقصد بس دنیا کمانااور مال ودولت جمع کرنا ہے،سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی وہ دنیا کمانے میں لگ جاتے ہیں اور گدھے کی طرح شام تک جی توڑ محنت کرتے ہیں اور پھرجیسے ہی رات ہوتی ہے تو ایسے لوگ ایک مردے کی طرح اپنے بستر پرجاگرتے ہیں توایسے دنیاپرست لوگوں سے رب العزت کو سخت نفرت ہے جیسا کہ جناب محمدعربیﷺ کا یہ فرمان ہے کہ ’’ إِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ كُلَّ جَعْظَرِيٍّ جَوَّاظٍ سَخَّابٍ بِالْأَسْوَاقِ جِيفَةٍ بِاللَّيْلِ حِمَارٍ بِالنَّهَارِ عَالِمٍ بِأَمْرِ الدُّنْيَا جَاهِلٍ بِأَمْرِ الْآخِرَةِ ‘‘بے شک ہر بکواس کرنے اور شیخی بگھاڑنے اور بازاروں میں شورشرابا کرنے والوں ،را ت کو مردار کی طرح پڑے رہنے والوں،دن میں گدھا بننے والوں اور دنیا کے جانکار وماہر اورآخرت سے جاہل رہنے والوں سے اللہ رب العزت نفرت کرتاہے۔(الصحیحۃ:195،صحیح ابن حبان:72)میرے بھائیو!اس حدیث کے اندرآپﷺ نےسب سے پہلے یہ کہا کہ جعظری اور جواظ قسم کے لوگوں سے اللہ نفرت کرتاہےتو اس کے کئی معانی ومفہوم ہیں جیسے کہ بکواس کرنے والا،ڈینگیں مارنے والا،پھینکنے والا،باتونی انسان،اپنی چال ڈھال میں تکبر اپنانے والا،زیادہ کھانے والا،بخیل،بدخلق اور سخت مزاج تو اس طرح کے جتنے بھی لوگ ہیں ان سب سے اللہ نفرت کرتاہے اور ایسے لوگ جنت میں بھی پہلے پہل داخل نہیں ہوسکتے ہیں جیسا کہ جناب محمدعربیﷺ کا یہ فرمان ہے’’ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ الْجَوَّاظُ وَلَا الْجَعْظَرِيُّ ‘‘سخت مزاج و بدخلق انسان اور اس طرح کے جتنے بھی لوگ ہیں وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔(ابوداؤد:4701،صحیح الجامع للألبانیؒ:2787)اس کے بعد اس حدیث میں جو لفظ مذکور ہے وہ ہے ’’ السخاب ‘‘ یعنی شورشرابا کرنے والا،جھگڑالو انسان تو ایسے انسان سے رب العزت کو نفرت ہے،پھر اس حدیث میں جو لفظ مذکور ہے وہ ہے ’’ الجیفۃ ‘‘ یعنی ایسا مردار جس سے بدبو شروع ہوجائے،یہ لفظ ایسے انسان پر بولاگیا ہے جو ساری رات مردار کی طرح پڑا رہتاہے ،تہجد ونماز فجر کے لئے بھی نہیں اٹھتاہے لیکن جب صبح ہوتی ہے اور اس کے کام ونوکری پر جانے کا وقت ہوتاہے ہے جلدی جلدی اٹھتاہے اور کپڑے پہنتاہے اور کام پر چلا جاتاہے تو ایسے انسان سے بھی اللہ رب العزت کو نفرت ہے،اس کے بعد جو لفظ حدیث میں مذکور ہے وہ ہے ’’ الحمار‘‘ تو اس سے مراد ایسا انسان ہے جو اپنی آخرت کی تیاری کے برابر اپنی دنیا کے لئے سارا دن گدھے کی طرح محنت کرتاہے یعنی جتنی تیاری آخرت کے لئے کرنی چاہئے تھی اتنی تیاری دنیا کے لئے کرتاہے اور جب رات ہوتی ہے اور سونے کا ٹائم ہوتاہے تو بستر پر مردار کی طرح گرپڑتاہے۔(اللہ تعالی کی پسند وناپسند،ص:342)
8۔چارقسم کے لوگوں سے اللہ نفرت کرتاہے:
میرے دوستو!اب جو حدیث میں آپ کو سنانے جارہاہوں ذرا اس کو غور سے سنئے کیونکہ اس حدیث کے اندر چار ایسے بدنصیب لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن سے اللہ نفرت کرتاہے،نمبر ایک جھوٹی قسمیں اٹھانے والا تاجر،نمبر دو متکبر فقیر،نمبر تین بڑھاپے میں زنا کرنے والا اور نمبر چار ظالم حکمراں جیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ جناب محمدعربیﷺ نے فرمایا : ’’ أَرْبَعَةٌ يُبْغِضُهُمُ اللَّهُ الْبَيَّاعُ الْحَلَّافُ وَالْفَقِيرُ الْمُخْتَالُ وَالشَّيْخُ الزَّانِي وَالْإِمَامُ الْجَائِرُ ‘‘چار لوگوں سے اللہ نفرت کرتاہے نمبر ایک جھوٹی قسمیں کھاکر سامان بیچنے والا،نمبر دو مغرورمتکبر فقیر ،نمبر تین بوڑھا زانی اور نمبر چار ظالم بادشاہ۔(الصحیحۃ:363،نسائی:2576،صحیح الجامع للألبانیؒ:880)اس حدیث کے اندر سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جولوگ اپنا مال جھوٹی قسمیں کھاکر بیچتے ہیں تو ایسے لوگوں سے اللہ رب العزت نفرت کرتاہے،میرے بھائیو!الحمد للہ !آپ لوگ تجارت کرنے والے لوگ ہیں ،قسمیں کھاکر اپنا مال نہ بیچا کیجئے کیونکہ ایساانسان اللہ کے غضب کا شکار رہتاہے اور ایسے انسان کی کمائی سے برکت بھی چھین لی جاتی ہے جیسا کہ جناب محمدعربیﷺ کا یہ فرمان ہے ’’ ألحَلِفُ مَنْفَقَةٌ لِلسِّلْعَةِ مُمْحِقَةٌ لِلْبَرَكَةِ ‘‘ کہ جھوٹی قسم سے سامان تو بِک جاتاہے مگر برکت ختم ہوجاتی ہے۔ (بخاری:2087،مسلم:1606)صرف یہی نہیں کہ جھوٹی قسم کھانے سے انسان کی کمائی سے برکت روٹھ جاتی ہےبلکہ ایسے انسان کی آخرت بھی تباہ وبرباد ہوجاتی ہے کیونکہ ایسے انسان کو کل بروز قیامت رب العزت سخت سے سخت عذاب سے دوچار بھی کرےگا جیسا کہ جناب محمدعربیﷺ نے فرمایا کہ جو انسان جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچے گا تو کل قیامت کے دن اللہ رب العزت ایسے انسان سے نہ تو بات کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ ہی انہیں پاک وصاف کرے گا اور ایسے انسان کو سخت سے سخت سزا بھی دے گا۔(مسلم:106)نمبر دو جس انسان سے اللہ نفرت کرتاہےوہ ایسا انسان ہے جو غریب وفقیر ہے مگر کبر وغرور سے چور ہے،فقیروقلاش ہے،جیب میں ایک کوڑی نہیں ہے مگر پھر بھی وہ گھمنڈمیں مبتلارہتاہے تو ایسے لوگوں سے اللہ کو سخت نفرت ہے،آپ نے ایسے کتنے گداگروں کو دیکھے ہوں گے جو ایک تو بھیک مانگ رہاہوتاہے ،لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلارہاہوتاہے مگر اسے ایک روپیہ دو روپیہ نہیں چاہئے بلکہ دس /بیس روپیہ چاہئے اور اگر آپ ایک روپیہ یا پھر دو روپیہ دیں تو وہ پھینک دیتے ہیں تو ایسے ہی لوگوں سے اللہ نفرت کرتاہے،تیسرا شخص جس سے اللہ نفرت کرتاہے وہ ایسا شخص ہے جو بڑھاپے کی عمر میں زنا کرتاہے،عموما کبرسنی میں شہوت ماند پڑجاتی ہے مگر اس کے باوجود کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کےپاؤں قبرمیں لٹکے ہوئے ہوتے ہیں مگر پھر بھی اس حرام وکبیرہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں تو اس طرح کے جتنے بھی لوگ ہوتے ہیں ان سب سے رب العزت کو سخت نفرت ہوتی ہے۔اعاذنااللہ۔
میرے دوستو!آئیے اسی سلسلے میں ایک دوسری حدیث بھی سناتاہوں جس کے اندر بھی اسی بات کا تذکرہ ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہیں جن سے رب العزت کو سخت نفرت ہےبلکہ حدیث کے الفاظ تو یہ ہیں کہ اللہ ایسے لوگوں سے دشمنی رکھتاہے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ ثَلَاثَةٌ يَشْنَؤُهُمُ اللَّهُ التَّاجِرُ الْحَلَّافُ وَالْفَقِيرُ الْمُخْتَالُ وَالْبَخِيلُ الْمَنَّانُ ‘‘کہ تین آدمیوں سے اللہ دشمنی کرتاہے نمبر ایک قسمیں اٹھانے والا تاجر،نمبر دو کبروغرور سے چور فقیر انسان اور نمبر تین احسان جتلانے والا بخیل شخص۔(صحیح الجامع للألبانیؒ:3074)
9۔ اپنا کپڑا ٹخنہ سے نیچے رکھنے والوں سے اللہ نفرت کرتاہے:
میرے بھائیو!اب میں ایک ایسے کبیرہ گناہ کا تذکرہ کرنے جارہاہوں جس کے اندر بہت سارے نمازی حضرات ملوث ہیں،یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ ایسا کرنے والوں کی طرف اللہ رب العزت کل بروز قیامت نظر رحمت سے بھی نہ دیکھے گا بلکہ ایسے لوگوں کو سخت سے سخت عذاب دے گا۔(مسلم:106)اور ایسے انسان کو اللہ رب العزت دنیا کے اندر بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اللہ کی پناہ! یہ اتنا بڑا گناہ ہے مگر اس گناہ کو اچھے خاصے دیندار لوگ بھی بڑے شوق سےانجام دیتے ہیں اور وہ گناہ ہے اپنا کپڑا ،اپنی لنگی اوراپنا پینٹ ٹخنے سے نیچے رکھنا،جو لوگ بھی یہ گناہ کرتے ہیں وہ آج یہ حدیث سن کر اپنی اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ جب تک وہ زندہ رہیں گے اللہ کی ناراضگی میں زندہ رہیں گے اور مرنے کے بعد بھی اللہ کی ناراضگی وغضب کے شکار ہوں گے ،سنئے حدیث! آپ ﷺ نے ہم کو اور آپ کو اللہ کا یہ پیغام سنایا کہ اے لوگو! ’’ لَا تُسْبِلْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُسْبِلِينَ ‘‘اپنا کپڑا ٹخنے سے نیچے نہ رکھا کرو کیونکہ اللہ رب العزت ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتاہے۔(ابن ماجہ:3574،حسنہ الألبانیؒ)دیکھا اور سنا آپ نے یہ گناہ کتنا بڑا جرم ہے مگر ہم اور آپ اس کو بڑے شوق سے فیشن سمجھ کر انجام دیتے ہیں اور بہت سارے لوگ تو اس گناہ کو یہ کہہ کرانجام دیتے ہیں کہ ہمارا کپڑا ٹخنے سے نیچے ہے تو کیا ہوا ؟ہمارے دل میں کبروغرور اور گھمنڈ نہیں ہےتو جولوگ بھی ایسا سوچتے و سمجھتے ہیں اور ایسا کہتے ہیں ایسے لوگ آج یہ حدیث بھی سن لیں کہ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا اور رکھنا ہی تکبر کی علامت ہے جیسا کہ آپﷺ نے یہ فرمایا کہ اے لوگو! اپنا کپڑا آدھی پنڈلی تک اونچی رکھا کرو اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو کم سے کم اپنا کپڑا ٹخنوں سے اوپر ہی ہمیشہ رکھا کرو پھر آگے آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ فَإِنَّهَا مِنَ المَخِيلَةِ وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ ‘‘ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے سے بچوکیونکہ یہ بلاشک وشبہ یہ تکبر کی علامت ہے اور اللہ رب العزت کو تکبر بالکل بھی پسند نہیں ہے۔(ابوداؤد:4084،صححہ الألبانیؒ)سنا آپ نے کہ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا ہی تکبر کی علامت ہے اب اگر کوئی انسان یہ کہتاہے کہ میرے دل میں ایسی ویسی بات نہیں ہے اور میرے دل میں کبروغرور اور تکبر نہیں ہے تو ایسا انسان جھوٹا اور مکار ہے۔
میرے دوستو!اس حرکت سے باز آجاؤ ورنہ جہاں ایک طرف آپ اللہ کی ناراضگی میں زندہ رہوگے وہیں دوسری طرف آپ کے سارے نیک اعمال بھی ضائع وبرباد ہوجائیں گے،اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ کیسے تو سنئے یہ حدیث ،سیدنا ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نےتین مرتبہ یہ فرمایا کہ’’ ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ‘‘تین آدمی ایسے ہیں جن سے کل قیامت کے دن رب العزت نہ تو بات کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ ہی ان کو پاک وصاف کرے گا بلکہ ان سب کو سخت سے سخت سزائیں بھی دے گا،تو ابوذرؓ نے کہا کے اے اللہ کے حبیبﷺ ایسے لوگ ہلاک وبرباد ہوں او ر ایسے لوگوں کا ستیاناس ہوجائے ،وہ کون لوگ ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ أَلْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ ‘‘ نمبر ایک اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے رکھنے والا اور نمبر دو احسان جتلانے والا اور نمبر تین جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچنے والا۔(مسلم:106،ابن ماجہ:2208) اب آپ ہی بتائیں کہ جو انسان نمازی ہے ،حاجی ہے اور طرح طرح کے نیک اعمال کو انجام دیتا ہے مگر اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے رکھتاہے تو جب اللہ رب العزت اس کی طرف نظر رحمت سے ہی نہیں دیکھے گا اور نہ ہی بات کرے گااور ایسے انسان کو سخت سے سخت سزائیں بھی دے گا تو اس کے سارے اعمال حسنہ تو ضائع وبرباد ہی ہوگئے۔اللہ کی پناہ!اس لئے میرے بھائیو! اس حرکت سے باز آ کر اپنے نیک اعمال کو بچالو ورنہ کل قیامت کے دن بہت پچھتاؤگے۔
10۔ تکبر کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتاہے:
میرے دوستو! جن لوگوں سے اللہ رب العزت کو نفرت ہے ان میں سے ایک انسان وہ بھی ہے جو کبروغرور کو اپناتاہے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئےتکبر کواختیارکرتاہےجیسا کہ رب العزت نے اپنے کلام پاک میں فرمایا ’’ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ ‘‘ کہ وہ غرور کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاہے۔(النحل:23)کہیں اللہ نے فرمایا ’’ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ‘‘كه يقيناً اللہ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتاہے۔(النساء:36)کہیں اللہ نے فرمایا’’ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ‘‘ که كسي تكبر والے شیخی خورے کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔(لقمان:18) کہیں اللہ نے فرمایا ’’ لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ ‘‘ کہ اترا ؤمت ! اللہ اترانے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔(القصص:76)غرض کہ رب العزت نے باربار یہ اعلان کردیا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کو لوگوں کا تکبر کرنا بالکل بھی پسند نہیں ہے اور اللہ رب العزت کو متکبرین سے نفرت کیوں نہ ہو یہ تو انسان کے لئے لائق وزیبا ہی نہیں ہے ،یہ بڑائی وکبریائی صرف اور صرف اللہ کےلئے لائق وزیبا ہےجیساکہ باری تعالی نے خود یہ اعلان کیا کہ’’ وَلَهُ الْكِبْرِياءُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ ‘‘ اورتمام بڑائی آسمانوں اور زمین میں اسی کی ہے۔(الجاثیۃ:37)اب جوانسان اس کو اپنانے کی کوشش کرے گا تو رب العزت اسے ذلیل ورسواکرکے جہنم میں داخل کردے گا جیسا کہ حدیث قدسی میں رب العزت کا یہ اعلان ہے ’’ الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي مَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا أَلْقَيْتُهُ فِي جَهَنَّمَ ‘‘ کہ کبریائی وبڑائی میری چادر ہے اور عظمت میراپہناوا ہے ،اب جوکوئی ان میں سے کسی ایک کوبھی کھینچنے کی کوشش کرے گا تو میں اسے جہنم میں جھونک دوں گا۔(ابوداؤد:4090،ابن ماجہ:4174)پتہ یہ چلا کہ یہ تکبر،یہ بڑائی و کبریائی صرف اور صرف اللہ رب العزت کے لئے لائق وزیبا ہے مگر سماج ومعاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس کو اختیار کرتے ہیں یا پھر اس کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں تو جولوگ بھی اس کے قریب جائیں گے اورتکبرکو اپنائیں گے تو ایسے لوگوں کو رب العزت دنیا وآخرت میں ذلیل ورسوا کردے گا،اسی تکبر کی وجہ سے ہی ابلیس ملعون ومردود ہوا،اسی تکبر کو اپنانے کی وجہ سے ہی فرعون غرق آب ہوا،اسی تکبر کواپنانے کی وجہ سے ہی قارون اپنے خزانوں سمیت دھنسادیا گیا اس لئے میرے دوستو! اس تکبر سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھواورہمیشہ عاجزی وانکساری کو اپناؤکیونکہ اگر عاجزی وانکساری کو اپناؤگے تو رب العزت تمہیں اور عزت سے نوازے گا جیساکہ فرمان مصطفی ﷺ ہے ’’ وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ ‘‘ كه جو الله كے لئے عاجزی وانکساری کو اپناتاہے تو اللہ اسے اور بلند کردیتاہے۔(مسلم:2588،ترمذی:2029)صرف اتنا ہی نہیں کہ اللہ عزتوں سے نوازے گا بلکہ جو لوگ بھی اپنے دل کو تکبر سے پاک وصاف رکھیں گےتو اللہ رب العزت ایسے لوگوں کو جنت میں بھی داخل کردے گا جیساکہ جناب محمدعربیﷺ کا یہ فرمان ہے ’’ مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ ثَلَاثٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ مِنَ الْكِبْرِ وَالْغُلُولِ وَالدَّيْنِ ‘ ‘ كه جو انسان اس حال میں مراکہ وہ تین چیزوں سے پاک تھا تو وہ جنت میں جائے گا،نمبر ایک تکبر،نمبر دو خیانت اور نمبر تین قرض۔(ابن ماجہ:2412،الصحیحۃ:2785)
میرے بھائیو!جہاں ایک طرف تکبر سے بچنے کی یہ فضیلت ہے وہیں دوسری طرف کبروغرورکواپنانے واختیار کرنے والوں کے لئے سخت وعیدیں بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بیان فرمایا ہے جیسا کہ اللہ رب العزت کا یہ اعلان ہے ’’ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ ‘‘ کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ؟(الزمر:60)اور آپ ﷺ نے بھی متکبروں کے برے انجام کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا ’’ يُحْشَرُ المُتَكَبِّرُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ أَمْثَالَ الذَّرِّ فِي صُوَرِ الرِّجَالِ ‘‘ کہ تکبرکرنے والوں کو قیامت کے دن آدمیوں کی صورت میں ہی چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کے مانند جمع کیاجائے گا اور ’’ يَغْشَاهُمُ الذُّلُّ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ ‘‘ یہ لوگ ہرچہارجانب سے ذلیل ورسوا ہورہے ہوں گے،’’ فَيُسَاقُونَ إِلَى سِجْنٍ فِي جَهَنَّمَ يُسَمَّى بُولَسَ ‘‘ اور ان لوگوں کو جہنم کی بولس نامی جیل کی طرف ہانک کر لے جایاجائے گا،’’ تَعْلُوهُمْ نَارُ الأَنْيَارِ ‘‘آگ کا مجموعہ ان پر چڑھ جائے گا اور ایسے لوگوں کو ’’ يُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَةِ أَهْلِ النَّارِ طِينَةَ الخَبَالِ ‘‘جہنمیوں کے بدن سے بہنےورسنے والا خون وپیپ پلایا جائے گاجسے طینۃ الخبال کہاجاتاہے۔(ترمذی:2492،صحیح الجامع للألبانیؒ:3129،الادب المفرد:557 ،اسنادہ حسن)
میرے دوستو!متکبروں کے برے انجام کو سن کر اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تکبر ہے کیا چیز؟تو آئیے میں آپ کو اس تکبر کی پہچان وعلامت حدیث کی روشنی میں بتلادیتاہوں،سیدناعبداللہ بن مسعودؓبیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ ‘‘کہ وہ انسان جنت میں نہیں جائے گا جس انسان کےدل میں رائی کے دانے کے برابربھی کبروغرور ہوگا،تو یہ سن کر کسی صحابی نے کہا کہ اے اللہ کی نبیٔ اکرم ومکرمﷺ اچھا آپ یہ بتائیں کہ ’’ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً ‘‘ایک انسان یہ چاہتاہے کہ اس کے جوتے وکپڑے وغیرہ یہ سب اچھے ہوں تو کیا یہ بھی تکبر ہے؟تو آپﷺ نے فرمایا’’ إِنَّ اللهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ ‘‘ کہ نہیں یہ تکبر نہیں ہے بلکہ اللہ تو خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتاہے ،’’ الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ‘‘ تکبر تو یہ ہے کہ انسان حق کا انکارکرے اور لوگوں کوحقیر جانے اورسمجھے۔(مسلم:91)جی ہاں میرے بھائیواوربہنو!آپ نے بالکل ہی صحیح سنا کہ تکبر اس کا نام ہے کہ جب ایک انسان اپنے قول وعمل کے خلاف کوئی فرمان خدا یا پھر فرمان رسول سنے تو اسے ماننے سے انکار کردے اور تکبر اس کا نام ہے کہ لوگوں کو حقیروذلیل سمجھے،بڑے افسوس کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑرہاہے کہ آج یہ تکبرکی بیماری مسلم قوم میں بہت عام ہوچکی ہے اورغیراقوام کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مسلم قوم نے بھی انہیں کی طرح خاندانی اونچ ونیچ کے تفریق کواپنالیا ہے ،انہیں کی طرح مسلم قوم میں بھی کچھ ایسی ذات والےہیں جو دوسری ذات والوں کو حقیر وذلیل سمجھتے ہیں،سید ،شیخ ،پٹھان وغیرہ ذات والےتو اپنے علاوہ سب کو حقیروذلیل سمجھتے ہیں اور یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم سے اچھا کوئی ہے ہی نہیں !تو جولوگ بھی اپنے دل میں ایساوہم وگمان رکھتے ہیں وہ لوگ سن لیں کہ یہی تکبر ہے اور جو انسان بھی دوسروں کوحقیروذلیل سمجھتا ہے تووہی انسان متکبر اور برا انسان ہے جیساکہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ ‘‘ کہ کسی انسان کے براہونے کے لئے بس اتنی سی بات کافی ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کوحقیروذلیل اورکمترسمجھے۔(مسلم:2564)تکبر وگھمنڈ کی بری بیماری کا شکار صرف مرد حضرات ہی نہیں ہیں بلکہ سماج ومعاشرے میں اکثر خواتین ایسی ہیں جو اپنی خوبصورتی پر بہت ناز کرتی ہیں اور اپنے علاوہ سب کو حقیر وذلیل سمجتھی ہیں تو یہ بھی تکبر کے اندر شامل ہے اور کچھ مرد حضرات بھی ایسے ہوتے ہیں جو اپنی جوانی وخوبصورتی پر بہت اتراتے ہیں تو یہ بھی کبروغرور کے اندر شامل ہیں اسی سلسلے میں محمود الورّاق نے کیا ہی خوب اشعار کہے ہیں کہ:
عَجِبْتُ مِنْ مُعْجَبٍ بِصُورَتِهِ ... ... ... وَكَانَ فِي الْأَصْلِ نُطْفَةً مَذِرَهْ
مجھے اپنی شکل وصورت پر گھمنڈ کرنے والوں پر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ کیونکہ اس شکل وصورت کی اصل تو ایک پانی کا گندہ قطرہ ہے۔
وَهُوَ غَدًا بَعْدَ حُسْنِ صُورَتِهِ ... ... ... ... يَصِيرُ فِي اللَّحْدِ جِيفَةً قَذِرَهْ
اورآج کی یہ خوبصورتی کل قبرمیں ایک بدبودارمردار کی شکل میں پڑا ہوگا۔
وَهُوَ عَلَى تِيهِهِ وَنَخْوَتِهِ ... ... ... ... ... مَا بَيْنَ ثَوْبَيْهِ يَحْمِلُ الْعَذِرَهْ
اور یہ حضرت انسان اپنی اکڑوگھمنڈ اور تکبرکرنے کے باوجود بھی اپنے دوکپڑوں کے درمیان یعنی پیٹ میں پاخانہ اٹھائے پھرتاہے،اور ایک دوسرا شاعر کہتاہے:
يَا ابْنَ التُّرَابِ وَمَأْكُولَ التُّرَابِ غَدًا ... ... ... قَصِّرْ فَإِنَّكَ مَأْكُولٌ وَمَشْرُوبُ
اے مٹی سے پیداہونے والے اور کل کومٹی ہی کی خوراک بننے والے،کبروغرور اوراللہ کی نافرمانی سے باز آجا کیونکہ ایک نہ ایک دن تو اس زمین کے حوالے ہونے والا ہے اوریہ مٹی تجھےکھاپی کر ختم کرڈالے گی۔(تفسیرقرطبی:18/295)
11۔ فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ ناپسند کرتاہے:
میرے دوستو!اللہ جن لوگوں سے نفرت کرتاہے اور جن لوگوں کو پسند نہیں کرتاہے ان میں سے ایک بدنصیب وبدبخت وہ انسان بھی ہے جسے اللہ نے مال ودولت سے نوازا ہے مگر وہ فضول خرچی کرتاہے،یہ بیماری بھی آج مسلمانوں میں بہت عام ہوچکی ہے کہ ہرکوئی اپنی شان وشوکت ظاہرکرنے کے لئے سود پر قرضے لے کرشادی بیاہ کے موقعے سے اسراف وفضول خرچی سے کام لیتاہے اوراپنے مال ودولت کوپانی کی طرح بہاتاہے اور یہ سوچتاہے کہ ایساکرنے سے لوگ اس کی تعریف کریں گے،اس کانام روشن ہوگا،لوگ اس کی شادی کو یاد رکھیں گےمگر وہ یہ بھول جاتاہے ایساکرنا تو رب کو پسند نہیں ہے اور جو ایسا کام کرے گاجو رب کو پسند نہیں تو وہ انسان ہمیشہ ناکام ونامراد رہے گااور اس کی جگ ہنسائی ہوتی رہے گی اور ہم نے دیکھا اور سنا ہے کہ جولوگ بھی اپنی شادیوں میں فضول خرچی کرتے ہیں تو لوگ ان کی برائی ہی بیان کرتے ہیں اور ایساکیوں نہ ہو جب کہ ایساکرنے والوں کو رب پسند ہی نہیں کرتاہے جیساکہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ‘‘اور فضول خرچی نہ کیاکروکیونکہ اللہ تعالی فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتاہے۔(الانعام:141)اور ایک دوسری جگہ اللہ نے فرمایا کہ ’’ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ‘‘اورکھاؤ اور پیو اور فضول خرچی نہ کیاکرو ،بے شک کہ اللہ تعالی فضول خرچی کرنے والوں کو ناپسند کرتاہے۔(الاعراف:31)دیکھئے اللہ نے کیا کہا کہ کھاؤ پیو مگر فضول خرچی نہ کرو گویاکہ کھانے پینے میں بھی اسراف اللہ کو پسند نہیں ہے اورآج کا مسلمان اپنی شادی میں دس دس طرح کے قسماقسم کے پکوان کو پکوا کراپنے مال کو ضائع وبرباد کرکے اللہ کی ناراضگی کو مول لیتاہے تو بھلابتائیے کہ ایسے لوگوں کی شادیاں کیسے کامیاب ہوسکتی ہیں؟اورآج کل تو لوگ ایک اور فضول خرچی کرنے لگے ہیں اور دھیرے دھیرے اس کارواج بھی بڑھتاجارہاہے کہ کچھ لوگ سماج ومعاشرے میں اپنی شان وشوکت اور مالداری بتانے اور دکھانے کے لئے مدینہ میں جاکرنکاح کررہے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ بہت بڑا نیکی اوراجروثواب کا کام ہے!جب کہ اللہ کی قسم! یہ نیکی نہیں ہے کیونکہ اگر مدینے میں نکاح کرنا کوئی نیکی واجروثواب کا کام ہوتاتو پھر آپﷺ اپنی امت کو ضرور بالضرور اس کا حکم دیتے یا پھر کم سے کم صحابہ سے تو اس بارے میں کچھ نہ کچھ باتیں ضرور ثابت ہوتی !مگر اس بارے میں نہ تو آپﷺ سے کچھ بھی ثابت ہے اور نہ ہی صحابۂ کرام سے کچھ ثابت ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نکاح چاہے مسجد نبوی میں ہو یا پھر مسجدحرام میں یا پھرعام مساجد میں ہو ،گھرکے دروازے پر ہو یا پھر فنکشن ہال میں سب کے سب برابر ہیں اورایسی کوئی بات نہیں ہے کہ فلاں جگہ یا پھرفلاں فلاں مسجد میں نکاح کرنے سے زیادہ اجروثواب ملے گا اور جو یہ سمجھتاہے کہ فلاں فلاں مسجد میں نکاح کرنے سے زیادہ اجروثواب ملے گا تویہی چیز بدعت ہےاورآج لوگ مدینے میں نکاح کرنا ایک اجروثواب کا کام ہی سمجھ رہے ہیں تو جہاں یہ بدعت ہے وہیں مدینے میں جاکرنکاح کرنا یہ فضول خرچی بھی ہےکیونکہ مدینے میں جاکر نکاح کرنے میں ایک خطیررقم کی ضرورت پڑتی ہے اورلاکھوں روپئے تو صرف ٹکٹوں میں ہی لگانے پڑیں گے!بھلا آپ ہی بتلائے کہ کیا یہ فضول خرچی نہیں ہے؟اور کیا یہ نکاح کو مشکل کرنا نہیں ہے؟کیاہرکسی کے لئے یہ آسان ہے کہ وہ مکہ ومدینہ میں جاکرنکاح کرے؟مجھے تو ایسالگ رہاہے کہ مسلم قوم اس چیز کو بھی آنے والے دنوں میں نکاح کا ایک حصہ اور جزولاینفک بنالے گی اورہرلڑکی کے والدین سے یہ ڈیمانڈ کیا جائے گا یہ نکاح مدینے میں کرکے دو!ابھی تو یہ صرف اہل ثروت کے مابین چل رہاہے مگر دھیرے دھیرے اس کا رواج عام ہوتاجائے گا !اور جب رواج عام ہوجائے گا تو ہرکوئی اپنی بیٹی کا نکاح مدینے میں تو نہیں کرسکے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلم قوم کی بیٹیاں زناکریں گی یا پھر غیروں کے ساتھ بھاگ کر مرتد ہوکر شادیاں کریں گی اس لئے آپ لوگ اس رواج کو اچھا نہ سمجھیں بلکہ ایساکرنے والوں کی حوصلہ شکنی کریں ۔
میرے بھائیواور بہنو!تو میں یہ کہہ رہاتھا کہ مدینے میں جاکرنکاح کرناکوئی اجروثواب کا کام نہیں ہے بلکہ یہ فضول خرچی ہے اور آج آپ یہ بات اچھی طرح سے جان لیں کہ جو لوگ بھی فضول خرچی کرتے ہیں وہ لوگ دوبڑے نقصان سے دوچار ہوتے ہیں ،نمبر ایک ان کا مال ضائع وبرباد ہوتاہے اور نمبر دو ایسے لوگوں سے اللہ ناراض ہوجاتاہےاور جب اللہ ایسے لوگوں سے ناراض ہوجاتاہے تو فضول خرچی کرنے والے لوگ شیطان کے دوست ویار بن جاتے ہیں جیسا کہ خود رب العزت نے فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ، إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ‘‘اوراسراف اور بے جا خرچ یعنی فضول خرچی سے بچو،بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کےبھائی ہیں،اورشیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔(الاسراء:26-27)دیکھئے میرے بھائیو!فضول خرچی سے منع کرنے کےلئے رب العزت نے دو الفاظ بیان کئے ہیں نمبر ایک اسراف اور نمبر دو تبذیر،اسراف یہ ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرنا یا پھر یہ کہ جہاں خرچ کرنے کی ضرورت ہو وہاں ضرورت سے زیادہ خرچ کیاجائے،مثال کے طورپر ولیمہ صرف ایک قسم کے پکوان سے ہوسکتی ہے مگرانسان دس طرح کے اور قسما قسم کے پکوان پکواتاہے تو یہ اسراف ہے اور تبذیر یہ ہے ناجائز امور میں خرچ کئے جائیں یا پھر یہ کہ جہاں ضرورت نہ ہووہاں بے جاخرچ کئے جائیں جیسے کہ لوگ شادی بیاہ کے موقعے سے طرح طرح کے رسم وراج کے نام پر پیسے خرچ کرتے ہیں ،کبھی بچی کو دیکھنے کے نام پرتو کبھی منگنی کے نام پرتوکبھی ہلدی کے نام پر تو کبھی منہ دکھائی کے نام پر تو کبھی ختنہ کے نام پروغیرہ وغیرہ تو یہ سب تبذیر کے اندر شامل ہے ،اور رب العزت نےفضول خرچی سے منع کرنے کے لئے جو لفظ استعمال کیا ہے ذرا اس پرغور کیجئے،رب نے کہا کہ ’’ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ‘‘ فضول خرچی نہ کیا کرو اوریہ جو لفظ تبذیرہے اس کی اصل بذر ہے اور بذر کہتے ہیں بیج کو یعنی کہ رب العزت نے یہ لفظ استعمال کرکےیہ پیغام دے دیاہے کہ جس طرح سے ایک کسان بیج کو اپنے مٹھی میں بھر کراپنے کھیتوں میں یہاں وہاں اورجہاں تہاں پھینکتاہے اور وہ یہ نہیں دیکھتاہے کہ بیج کس جگہ پر کتنی مقدارمیں گررہی ہے ،بس وہ اپنے پورے کھیت میں بیج گراتارہتاہے(احسن البیان:ص640) اسی طرح سے اے لوگوں تم بھی اپنے روپئے پیسے کو جہاں تہاں بغیرسوچے سمجھے نہ خرچ کیاکرو کیونکہ کل تمہیں ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے،اس لئے میرے بھائیو!اگر اللہ نے مال ودولت سے نوازا ہے تو اس کی حفاظت کرو اورفضول خرچی نہ کیاکروبلکہ ہمیشہ معتدل رہو،دین ودنیا ہرمعاملے میں دیکھ سمجھ کرخرچ کیاکرو،نہ تو بخیل بن جاؤ اور نہ ہی فضول خرچی کرکے شیطان کے بھائی بنو،اسی بات کی نصیحت کرتے ہوئے رب العزت نے فرمایا کہ ’’ وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا ‘‘ اورخرچ کرتے وقت نہ تو اپنی گردن سے ہاتھ باندھ لو اور نہ ہی اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو،ورنہ تم ہرطرف سے ملامت زدہ اورعاجز وبے کس بن کررہ جاؤگے۔(الاسراء:29)اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسفؒ لکھتے ہیں کہ انسان نہ بخل کرے کہ اپنی اوراپنے اہل وعیال کی ضروریات پربھی خرچ نہ کرے اور دیگرمالی حقوق واجبہ بھی ادانہ کرے اور نہ فضول خرچی ہی کرے کہ اپنی وسعت اور گنجائش دیکھے بغیر ہی بے دریغ خرچ کرتارہے،بخل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان ملوم یعنی قابل ملامت ومذمت قرار پائے گا اور فضول خرچی کے نتیجے میں محسور یعنی تھکاہارا اور پچھتانے والا (بن جائے گا)۔محسورا اسے کہتے ہیں جو چلنے سے عاجز ہوچکا ہو،فضول خرچی کرنے والا بھی بالآخر خالی ہاتھ ہو کربیٹھ جاتاہے۔(احسن البیان ،ص:640)سنا آپ نے کہ فضول خرچی کرنے والا ایک نہ ایک دن خالی ہاتھ ہوجاتا ہے اور اپنے کئے پر بہت پچھتاتاہے اسی لئے تو رب العزت نے فضول خرچی سے منع کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے اور مومنوں کی صفت وپہچان یہ بتائی ہے کہ مومن وہ ہوتاہے جو نہ تو فضول خرچی کرتاہے اور نہ ہی بخیلی جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكانَ بَيْنَ ذلِكَ قَواماً ‘‘اورجو خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں۔(الفرقان:67)
12۔قول وفعل میں تضاد رکھنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتاہے:
میرے دوستو!قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جیسے جیسے قیامت نزدیک آتی جائے گی علم پھیلتاجائے گا مگر لوگ بے عمل ہوتے جائیں گے(بخاری:6037) اور آج ہم اور آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں کے پاس علم تو ہے مگر عمل نام کی کوئی چیز نہیں ہے،آج ہرکوئی دوسروں کو عمل کی تلقین کرتانظرآتاہے مگر خود عمل سے کوسوں دور ہوتاہے،ہم نے تو یہاں تک دیکھے ہیں کہ لوگ فجر کی نماز نہیں پڑھتے مگر اپنی نیندسے بیدارہوتے ہی واٹس ایپ گروپ میں نماز کے فضائل ومناقب اور نمازچھوڑنے کے نقصانات پرتقریروں وتحریروں اوردیگرپوسٹ کوڈالناشروع کردیتے ہیں،اور یہ شوشل میڈیا جب سے آیاہے تب سے اور یہ ہزاروں بلکہ لاکھوں واٹس ایپ گروپ ان سب کو دیکھ کر ایسا لگ رہاہے کہ ہرکوئی دوسروں کو دین بتانا چاہتاہے اورہرکوئی دوسروں کو نیکی پر عمل کرنے کی تلقین کرتارہتاہے،ہرکوئی نیکیوں والے پوسٹ کو شئیر کرتا رہتاہے مگر وہ خود اس نیکی پرعمل کرنا نہیں چاہتاہے،آج ہرکوئی یہ سوچتااور سمجھتاہے کہ دین کی اور اللہ اور اس کے رسول کی یہ باتیں دوسروں کے لئے ہے میرے لئے نہیں ہے،سماج ومعاشرے کے اندر دیکھا یہ جاتاہے کہ لوگ دین کے بارے میں یا پھر دیگر احکام ومسائل کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کرتے نظرآتے ہیں مگروہ خود عمل میں زیرو ہوتےہیں،اورتو اور ہے آج کل یوٹیوب پر ہرکوئی عالم ومفتی بنا بیٹھا ہے،ہرکوئی لوگوں کو دین سکھاتا نظر آتاہے مگروہ خود عمل سے کوسوں دورہوتا ہے، ہرکوئی دوسروں کو جنت میں داخل کرانا چاہتاہے مگروہ خود جہنم میں جارہاہے اس کو اس بات کی قطعی فکرنہیں ہے توایسے ہی لوگوں کو رب العزت نے بیوقوف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‘‘کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتے ہو؟اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو،کیااتنی بھی تم میں سمجھ نہیں ؟(البقرۃ:44) اور رب العزت نے تو ایسے لوگوں کو صرف بیوقوف ہی قرار نہیں دیا ہے بلکہ ایسے لوگوں سے اپنی نفرت وناراضگی کا بھی اعلان کردیا ہے اور یہ کہہ دیا ہے کہ جو دوسروں کو تو دین بتاتے ہیں مگر وہ خود عمل نہیں کرتے ہیں تو میں ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتاہوں ،فرمان باری تعالی ہے ’’ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ، كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ‘ ‘اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں،تم جو کرتے نہیں ا س کا کہنا اللہ کو سخت ناپسند ہے۔(الصف:2-3)
میرے دوستو!جہاں ایک طرف ایسے لوگوں کے لئے رب العزت نے اپنی ناراضگی کا اعلان کیا ہے وہیں دوسری طرف اللہ کے رسول جناب محمدعربی ﷺ نے بھی ایسے لوگوں کے برے انجام کی خبردی ہےجو دوسروں کو تو عمل کی تلقین کرتے ہیں مگر وہ خود عمل سے عاری رہتے ہیں ،جیسا کہ سدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ’’ رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي رِجَالًا تُقْرَضُ شِفَاهُهُمْ بِمَقَارِيضَ مِنْ نَارٍ‘‘ جب مجھے معراج کرائی گئی تو اس رات میرا گذر کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹاجارہاتھا ،تو میں نے جبرئیل امین سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں اے جبرئیل امین؟تو انہوں نے کہا کہ ’’ ألْخُطَبَاءُ مِنْ أُمَّتِكَ يَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَيَنْسَوْنَ أَنْفُسَهُمْ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا يَعْقِلُونَ ‘‘یہ آپ کی امت کے وہ شعلہ بیاں خطیب ومقرر،حضرت ومولاناومفتی صاحب ہیں(نعوذباللہ)جودنیا میں لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے مگر وہ خود عمل نہیں کرتے تھے،حالانکہ وہ قرآن کی تلاوت بھی کرتے ہیں تو کیا انہیں اتنی بھی عقل اور سمجھ نہیں ہے ؟۔(الصحیحۃ:291،احمد:13515)اور ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں جبرئیل امین نے کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ ’’ خُطَبَاءُ أُمَّتِكَ الَّذِينَ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ وَيَقْرَؤُوْنَ كِتَابَ اللَّهِ وَلَا يَعْمَلُوْنَ بِهِ ‘‘یہ لوگ آپ کی امت کے وہ خطیب ومقرر ،عالم ومولانا اور علامہ ومفتی صاحب ہیں جو اپنی زبانوں سے وہ کہتے تھے جس پر وہ خود عمل نہیں کرتے تھے اور اللہ کی کتاب کو پڑھا کرتے تھے مگر عمل نہیں کرتے تھے۔(صحیح الجامع للألبانیؒ:52)سنا آپ نے کہ جولوگ نیکی کا حکم دیتے ہیں مگر وہ خود عمل نہیں کرتے ہیں اور قرآن کی تلاوت تو کرتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کو کتنی سخت سزائیں دی جارہی تھی اس لئے میرے بھائیو اور بہنو!اس بری حرکت سے ہمیشہ اپنے آپ کو دور رکھا کرو ورنہ رب العزت کی نظر میں قابل نفرت بن جاؤگے۔
حرف دعا:
اب آخر میں رب ذوالجلال والاکرام سے دعاگوہوں کہ اے الہ العالمین تو ہمیں اپنی محبت عطاکردے اور توہمیں تادم حیات ان لوگوں میں شامل نہ کر جن سے تو نفرت کرتاہے۔آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
طالب دعا
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
اٹیچمنٹس
-
1 MB مناظر: 12