کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
'جوتامار کلب' کا حصہ بنئے اور مشہور ہو جائیے
مشہور ہونے کیلیے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک بار اس کلب کا حصہ بن جائیں، چاہے جوتا مارنے والے بن جائیں یا پھر کھانے والے۔
اگر میں آپ سے پوچھوں کہ مشہور ہونے کے لیے کن کن کمالات کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ اس پر ایک چھوٹی سے فہرست بناکر دیںتوآپ یقینی طور ششو پنج میں مبتلا ہو جائیں گے اور مجھ سے پوچھیں گے کہ جناب یہ کیسا کام ہے اور میں کیوں کروں؟ جس کی بنیادی وجہ یہ ہوگی کہ یہ اس قدر مشکل کام ہے کہ فوری طور پر ایسی کسی بھی فہرست کو تیار کرنا بغیر پانی میں تیراکی کرنے کے مترادف ہے۔اور میں یہاں اس بات کا بھی دعوی کر سکتا ہوں کہ اس کرہ عرض پر بسنے والے ہر فرد کے نذدیک اس حوالے سے فہرست یقینی طورپر ایک دوسرے سے مختلف ہو گی۔
یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ میرے نذدیک مشہور ہونے کے لیے معیارات مختلف ہونگے اور بالکل اسی طرح آپ بھی دیگر کاموں کو مشہور ہونے کے لیے ناگزیر سمجھتے ہونگے۔ مثال کے طور پرمیں یہ سمجھتا ہوں کہ جناب اگر مشہور ہونا ہے یا آگے بڑھنا ہے کہ لوگوں کی خوشامد شروع کر دیں آپ کی خواہش بہت جلد پوری ہو جائے گی۔ لیکن آپ دلیل دے سکتے ہیں کہ ہاں بالکل خوشامد آپکو بہت جلد ترقی کے سفر پر گامزن کرسکتی ہے لیکن جتنی جلدی آپ اوپر جائیں گے اُتنی ہی جلدی نیچے بھی گر جائیں گے۔
لیکن یہ خواہش صرف میری اور آپکی تو نہیں ہے نا۔ یہاں تو جس سے پوچھو وہ مشہور ہونا چاہتا ہے اور ظاہر ہے جتنے لوگ اس خواہش کو حامی ہونگے تو اُتنے ہی طریقہ کار بھی منظر عام پر آئیں گے ۔ اور نیا اور آسان طریقہ کار گزشتہ روز دیکھنے کو ملا کہ جب جناب محترم وزیراعلی پنجاب شہباز شریف عرف خادم اعلی جنوبی ایشیاء لیبر کانفرنس میں غیر ملکی مہمانان گرامی کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ اُس تقریب میں خصوصی خطاب بھی چھوٹے میاں صاحب کا ہی تھا۔ اگر وزیر اعلی کی عادات پر نظر دوڑائی جائے تو خیال ایسا ہی آتا ہے کہ وہ اُس موقع پر اپنی جوش خطابت سے غیر ملکی مہمانوں کو بھی متاثر کرنے کی خواہش لیے بیٹھے ہونگے کیونکہ قوم تو پہلے سے ہی متاثر ہو چکی ہے (یہاں متاثر ذو معنی ہے یعنی آپ دونوں مفہوم سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں)۔ لیکن شہباز شریف کی خواہشات پر اُس وقت پانی پھر گیا جب نجی ٹی وی چینل کے صحافی نے اُس پُروقار تقریب کے رنگ میں بھنگ ڈال دیا اوراُن کو ایک جوتا دے مارا۔ یہ تو قسمت اچھی تھی کہ جوتا پھینکنے والے کی آخر وقت پر لائن خراب ہو گئی جس کے سبب ایمپائر نے اس کوشش کو ' وائیڈ بال' قرار دے دیا۔ اس واقعہ کے بعد آخر ہوا کیا۔ ایک وہ صحافی جس کو محض اُس کے چینل والے یا چند ارد گرد کے صحافی جانتے تھے کل کے بعد وہ پورے پاکستان اور عالمی میڈیا کی زینت بن گیا۔ اور ، اور کیا بس ہوگیا مشہور۔ شاید اِسی کو کہتے ہیں مشہور ہونے کا آسان طریقہ۔
ویسے تو نہ ہی یہ کوئی پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری 2008 سے اب تک اس قسم کے 50 سے زائد واقعات ہو چکے ہیں جس کا آغاز 7 اپریل 2008 کو ہوا تھا جب سندھ اسمبلی کی عمارت کی راہداری میں ایک شخص نے سابق وزیر اعلی سندھ ارباب غلام رحیم پر ایک جوتا جھڑ دیا تھا۔
جس کے بعد 14 دسمبر 2008 کو اُس وقت کے امریکی صدر جارج بش پر صحافی منتطر الذیدی نے بھی اپنے جوتوں کے ساتھ حملہ کیا تھا۔ اور اس کے بعد ہی درحقیقت اس طرح کے حملوں کا شکار ہونے والوں کی قدرہ منزلت میں اضافہ ہوا ہے۔
اور اب مشہور ہونے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ آپ بھی ایک بار اس 'شو کلب' کا حصہ بن جائیں۔ چاہے جوتا مارنے والے بن جائیں یا پھر جوتا کھانے والے ۔ دونوں صورتوں میں ایک چیز تو یقینی ہے کہ ٹی وی اور اخبارات میں آپ کا نام شائع ہوگا اور ہر کوئی آپکے نام سے مانوس ہو جائے گا۔ کیونکہ کوئی معمولی کلب تھوڑی ہے۔ بلکہ دنیا کی بڑی بڑی شخصیات اس کلب کے ممبر ہیں۔ جن میں سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ، سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد، ترک وزیراعظم طیب اردگان، سابق آسٹریلوی وزیراعظم جان ہاورڈ، سابق صدر پرویز مشرف اور سابق امریکی سیکریٹری خارجہ ہلیری کلنٹن بھی شامل ہیں۔ ان واقعات میں ہلیری کلنٹن وہ آخری غیر ملکی ہیں جنہوں نے کمال مہارت سے خود کو جوتے کی برق رفتار سے نہ صرف بچایا بلکہ اوسان بھی خطا نہیں ہونے دیے۔ اس حملے کے بعد جب سیکورٹی اہلکار جواں سال لڑکی جس نے حملہ کیا تھا باہر لے جا رہے تھے تو ہلیری کلنٹن مسکراتے ہوئے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھیں اور اس مسکراہٹ کی موجودگی میں انہوں نے اپنی تقریر کا دوبارہ آغاز کر دیا۔
فہیم پٹیل: 25 اپریل 2014