جوگزر گیا سو گزر گیا
ماضی میں جینا، اس کے غموں اور المیوں کو یاد کرتے رہنا اور اُن پر رنج بےوقوفی اور حماقت ہے اس سے ارادہ مضمحل اور موجودہ زندگی مکدر ہوجائے گی جکماء کہتے ہیں کہ ماضی کی فائل لپیٹ کر رکھ دی جائے کیونکہ جو گذر گیا وہ گذر چکا نہ اُس کی یاد اُسے لوٹائے گی نہ کوئی غم یارنج وفکر اسے زندہ کرسکتی ہے کیونکہ ماضی کا مطلب ہے عدم، ماضی پرستی کے مرض میں مبتلا مت رہئے جو چھوٹ گیا اس کی پرچھائیوں سے پیچھا چھڑائیے کیونکہ آپ دریا کو اصل کی طرف، سورج کو مطلع کی طرف بچہ کو ماں کے پیٹ میں، دودھ کو چھاتی میں اور آنسو کو آنکھ میں واپس نہیں لاسکتے۔
ماضی کے سایہ میں رہنا، اسے یاد کرنا، اس کی آگ میں جلنا، ایک افسوسناک، المناک اور مرعوب کن بات ہے ماضی کی کتاب پڑھنے سے حاضر کی بربادی اور وقت کا زیاں ہے اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں گذشتہ اوقوام کا اور ان کے کاموں کا تذکرہ کیا ہے اور فرمایا کہ! یہ ایک قوم تھی جو گذر چکی۔ یعنی ان قوموں کا معاملہ ختم ہوا ماضی کے گڑے مردے اکھاڑنے اور تاریخ کے پہئیے کو پلٹانے سے کیا حاصل، ماضی کی بات دہرانے والا تو ایسا ہے کہ کوئی پسے ہوئے آٹے کو پھر پیسے یا کٹی ہوئی لکڑی کو پھر سے کاٹے، ماضی کا رونا رونے والوں کے بارے میں پچھلوں کا کہنا ہے کہ! تم مردوں کو قبروں سے نہ نکالو۔
کتاب غم نہ کریں سے اقتباس