• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جوہری ہتھیار سعودی عرب کو ڈلیوری کے لیے تیار

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
جوہری ہتھیار سعودی عرب کو ڈلیوری کے لیے تیار

خطرے کی صورت میں جوہری اسلحے سے لیس پاکستانی افواج کو سعودی عرب میں تعینات کا زیادہ امکان ہے

بی بی سی کے نیوز نائٹ پروگرام میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے جوہری پروگرام میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور بوقت ضرورت وہ پاکستان سے تیار جوہری ہتھیار حاصل کر سکتا ہے۔

نیوز نائٹ کو باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ سعودی عرب کے لیے یہ ممکن ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کر لیتا ہے تو سعودی عرب پاکستان سے تیار جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہو گا۔

رواں برس کے اوائل میں نیٹو کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بی بی سی نیوز نائٹ کے سفارتی اور دفاعی ایڈیٹر مارک اربن کو بتایا تھا کہ انہوں نے ایسی انٹیلی جنس رپورٹیں دیکھی ہیں جن کے مطابق پاکستان نے سعودی عرب کے لیے جوہری ہتھیار تیار کر رکھے ہیں جو بوقت ضرورت سعودی عرب کے حوالے کیے جا سکتے ہیں۔

پچھلے مہینے اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اموس یادلن نے سویڈن میں ایک کانفرنس کے دوران کہا تھا: 'اگر ایران نے جوہری ہتھیار حاصل کر لیے تو سعودی عرب ایک مہینہ بھی انتظار نہیں کرے گا۔ وہ جوہری بموں کے لیے پہلے ہی ادائیگی کر چکے ہیں۔ وہ پاکستان جائیں گے اور جو وہ چاہتے ہیں لے کر آ جائیں گے۔'

سعودی بادشاہ عبداللہ نے مشرق وسطیٰ کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ڈینس راس کو خبر کیا تھا کہ اگر ایران نے جوہری اسلحے کے حصول کے لیے حد عبور کی تو 'ہم بھی جوہری ہتھیار حاصل کریں گے۔'

سن دو ہزار نو کے بعد متعد بار سعودی عرب نے امریکہ کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اپنی خواہش سے آگاہ کیا۔

صدر براک اوباما کے مشیر گیری سیمور نے نیوز نائٹ کو بتایا:' میں نہیں سمجھتا کہ سعودی عرب کی پاکستان کے ساتھ کوئی ایسی مفاہمت ہے کہ وہ بوقت ضرورت پاکستان سے جوہری ہتھیاروں کا تقاضا کر سکیں گے۔'

سعودی عرب کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے حصول اور دور تک مار کرنےوالے میزائلوں کو داغنے کے نظام کے حصول کی کہانی کئی عشرے پرانی ہے۔

سعودی عرب نے سنہ 1980 میں چین سے سی ایس ایس ٹو بیلسٹک میزائل خریدے تھے۔

ماہرین کا خیال تھا کہ چینی ساخت کے یہ بیلسٹک میزائل کسی بھی نشانے کو بلکل درست انداز میں مار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔

رواں سال جینز ڈیفنس ویکلی نے رپورٹ کیا تھا کہ سعودی عرب نے ریاض سے دو سو میل کے فاصلے پر سی ایس ایس ٹو میزائل کو داغنے کے لیے نیا لانچ بیس بنایا ہے۔

مغربی ماہرین الزام لگاتے رہے ہیں کہ سعودی عرب کئی برس سے پاکستان کے میزائل اور جوہری لیبارٹریوں کو فراخدلانہ مالی امداد دیتا رہا ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے قریبی تعلق کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے سنہ 1999 اور پھر سنہ 2002 میں سعودی وزیر دفاع شہزادہ سلطان بن عبد العزیز السعود کو جوہری لیبارٹری کا دورہ کروایا۔

پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی دفاعی تعلقات ہیں اور چین نے پاکستان کو میزائل اور جوہری وار ہیڈ کے ڈیزائن تک پاکستان کو بیچے ہیں۔

پاکستانی سائنسدان عبد القدیر خان پر الزام لگا تھا کہ انہوں نے لیبیا اور جنوبی کوریا کو یورینیم کو افزودہ کرنے کی معلومات فراہم کی تھیں۔

عبد القدیر خان کی طرف سے جو ڈیزائن مہیا کیے گئے تھے وہ ایسے ہتھیاروں سےمتعلق تھے جو چین کے سی ایس ایس ٹو میزائل پر فٹ ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب نے یہ میزائل سسٹم سنہ 1980 میں چین سے خریدا تھا۔

نوے کی دہائی میں جب سعودی عرب اور پاکستان کے مابین جوہری ہتھیاروں سے متعلق معاہدے کی خبریں ظاہر ہوئیں تو سعودی عرب نے یہ کہتے ہوئے اس کی تردید کی کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کر چکا ہے۔

البتہ سعودی عرب نے اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک علاقہ بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔

سعودی عرب کو تیار جوہری ہتھیار مہیا کرنے کی صورت میں پاکستان کے لیے بڑے سیاسی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔

پاکستانی میجر جنرل فیروز حسن خان نے 'ایٹنگ دی کراس' نامی کتاب میں پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے لکھا ہے کہ سعودی شہزادے کا پاکستان کے جوہری لبیاٹریوں کا دورہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین جوہری ہتھیاروں کا کوئی معاہدہ موجود ہے۔ البتہ میجر جنرل فیروز حسن نے تسلیم کیا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو فراخدلانہ مدد کرتا رہا ہے جس سے پاکستان کا جوہری پروگرام آگے بڑھتا رہا ہے۔

خواہ سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ کوئی جوہری معاہدہ ہے یا نہیں، البتہ سعودی عرب سنہ 2003 کے بعد سے اپنی جوہری خواہشات کا برملا اظہار کرتا رہا ہے۔ سنہ 2003 میں سعودی عرب کے ایک اعلیٰ اہلکار نے سعودی عرب کے منصوبے کے بارے میں ایک دستاویز لیک کی تھی۔

اس دستاویز کے مطابق سعودی عرب ایران کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی صورت میں تین ممکنہ امکانات پر غور کر رہا ہے:

1)خود جوہری ہتھیار حاصل کرے،

2) کسی جوہری طاقت سے سعودی عرب کے دفاع کے لیے معاہدہ کرے،

3) یا مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک علاقہ قائم کیا جائے۔
سعودی عرب کو ایران کے جوہری پروگرام سے شدید خطرات لاحق ہیں

صدر اوباما کے مشیر گیری سیمور کا کہنا کہ عراق پر امریکی حملے کے بعد سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں کچھاؤ محسوس ہونا شروع ہوا ۔

سعودی عرب صدام حسین کو اقتدار سے نہیں ہٹانا چاہتا تھا۔ سعودی عرب کو ایران کے جوہری پروگرام سےمتعلق شدید خدشات ہیں۔ سعودی عرب اسرائیل سے متعلق امریکی پالیسی سے بھی نالاں تھا۔

سفارتی حلقوں میں سنہ 2003 کے بعد سے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین جوہری تعاون کے معاہدے کے بارے میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔

وکی لیکس میں سامنے آنی والی امریکی دستاویزات کے مطابق سنہ 2007 میں ریاض میں امریکی سفارت خانے نے محسوس کیا کہ پاکستانی سفارت کاروں نے سعودی عرب اور پاکستان کےجوہری تعاون کے حوالے سے امریکی اہلکاروں کی معلومات کے بارے میں سوالات کرنے شروع کر دیے۔

سعودی عرب کی جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دھمکیاں کیا واقع سنجیدہ ہیں یا وہ صرف امریکہ کو ایران پر سخت موقف اختیار کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

نیوز نائٹ کو ان دونوں سوالوں کا جواب دو پاکستانی اہلکاروں سے ملا۔ ایک پاکستان اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ دونوں ملکوں کے مابین 'شاید' غیر تحریری معاہدہ موجود ہے۔' ہم کیا سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب ہمیں کیوں پیسہ دے رہا تھا۔ یہ کوئی خیرات نہیں تھی۔'

ایک دوسرے پاکستانی اہلکار نے جس نے کچھ عرصہ تک انیٹلی جنس افسر کے طور پر کام کیا ہے، نیوز نائٹ کے ایڈیٹر کو بتایا کہ پاکستان کے پاس ایسے کچھ وار ہیڈ ہیں جو سعودی عرب کے کہنے پر ان کے حوالے کیے جا سکتے ہیں۔

سعودی عرب کی جوہری ہتھیاروں میں دلچسپی کے حوالے سے واشنگٹن انسٹیٹوٹ کے سائمن ہینڈرسن نے بی بی سی نیوز نائٹ کو بتایا کہ سعودی عرب ایران اور جوہری ہتھیاروں کے بارے میں انتہائی سنجیدہ ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے ممکنہ جوہری معاہدے کے بارے میں آگاہی رکھنے والے اہلکاروں سے بات چیت کرنے کر بعد جو دو نکات ابھر کر سامنے وہ یہ ہیں۔

کچھ اہلکاروں کا خیال ہے کہ یہ 'کیش اینڈ کیری' یعنی ادائیگی کرو اور اٹھا کے لے جاؤ والا معاملہ ہے۔ جبکہ کچھ اہلکاروں کا خیال ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستانی افواج کو سعودی عرب میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔

امریکی صدر کے مشیر گیری سیمور کا خیال ہے کہ 'نیٹو ماڈل' کو اپنائے جانے کا زیادہ امکان ہے۔ اس طرح پاکستان کہہ سکے گا کہ اس نے جوہری ہتھیار سعودی عرب کے حوالے نہیں کیے۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب جو اپنے آپ کو سنی مسلمانوں کا رہنما سمجھتا ہے وہ چاہے گا کہ جوہری ہتھیار مکمل طور پر اس کے کنٹرول میں ہوں۔

ایران اور امریکہ کے مابین جوہری پروگرام پر ممکنہ معاہدے کی خبروں نے سعودی بادشاہت کو مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ سعودی عرب سمجھتا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں سے روکنے سے متعلق کوئی بھی معاہدہ بے اثر ہو گا۔

پچھلے ہفتے سعودی عرب کے انٹیلی جنس کے سربراہ نے ایران اور شام میں امریکی کردار سے ناراضی کا بر ملا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب امریکہ سے اپنے تعلقات پر از سر نو غور کرے گا۔

کچھ ایسی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان پہلے ہی شاہین بیلسٹک میزائل سعودی عرب منتقل کر چکا ہے۔ ان افواہوں کے مطابق پاکستان نے ابھی تک وار ہیڈ سعودی عرب کے حوالے نہیں کیے ہیں۔

پاکستان نے نیوز نائٹ کے رابطے پر بتایا کہ 'یہ خبر بے بنیاد، شرانگیز اور فرضی ہے۔' ترجمان نے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ملک ہے اور اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام انتہائی مضبوط اور ایکسپورٹ کنٹرول جامع ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام عالمی معیار اور عالمی جوہری ادارے آئی اے ای اے کے حفاظتی معیار کے مطابق ہے۔

لندن میں سعودی سفارت خانے نے بھی نیوز نائٹ کی خبر کی تردید کی ہے۔ سعودی عرب نے کہا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدہ پر دستخط کر چکا ہے۔

البتہ سعودی عرب اپنے بیان میں کہا کہ اس کے سکیورٹی کونسل کی نشت قبول نہ کرنے کی وجوہات میں مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے پر ناکامی بھی ایک وجہ ہے۔

جمعرات 7 نومبر 2013
15:21 GMT
20:21 PST
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
جوہری پروگرام میں سعودی سرمایہ کاری کی خبریں بےبنیاد ہیں: پاکستان

مغربی ممالک پاکستان کے جوہری پروگرام پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں

پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان اطلاعات کی سختی سے تردید کی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ میں متعدد ذرائع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ سعودی عرب جب چاہے پاکستان سے یہ ہتھیار حاصل کر سکتا ہے۔

جمعرات کو پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اعزاز چوہدری نے بی بی سی اردو کو بھیجے گئے پیغام میں اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ خبر بے بنیاد، شرانگیز اور فرضی ہے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ملک ہے اور اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام انتہائی مضبوط اور ایکسپورٹ کنٹرول جامع ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام عالمی معیار اور عالمی جوہری ادارے آئی اے ای اے کے حفاظتی معیار کے مطابق ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک متعدد بار تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں جبکہ پاکستان کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ اس کے ایٹمی اثاثے محفوظ اور بہترین کمانڈ اور کنٹرول سسٹم کے تحت ہیں۔

نیوز نائٹ میں پروگرام کے سفارتی اور دفاعی امور کے مدیر مارک اربن نے نیٹو کے ایک اعلیٰ اہلکار سے رواں برس کے آغاز میں اپنی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس افسر نے ایسی خفیہ رپورٹیں دیکھی تھیں جن کے مطابق سعودی عرب کے لیے پاکستان میں تیار کیے جانے والے جوہری ہتھیار ڈیلیوری کے لیے تیار ہیں۔

اسی پروگرام میں اسرائیلی فوج کے خفیہ محکمے کے سربراہ اموس يالدن کی سویڈن میں کی گئی پریس کانفرنس کا حوالہ بھی دیا گیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اگر ایران جوہری بم حاصل کر لیتا ہے تو 'سعودی ایک ماہ کا بھی انتظار نہیں کریں گے۔ انہوں نے بم کے لیے پہلے ہی رقم ادا کر دی ہے۔ وہ پاکستان جائیں گے اور جو چاہتے ہیں، لے آئیں گے۔'

تاہم اسی پروگرام میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے امور پر امریکی صدر براک اوباما کے سابق مشیرگیری سیمور نے اس خیال کو رد کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے نہیں لگتا کہ سعودی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ ان کا ایسا کوئی تعلق ہے کہ کسی ہنگامی صورتحال میں وہ جوہری ہتھیار حاصل کر لیں گے۔'

بی بی سی کے مارک اربن کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے جوہری تعاون کے الزامات 1990 کی دہائی سے گردش کر رہے ہیں اور اس معاملے میں سعودی عرب پر پاکستانی میزائل اور جوہری لیبارٹریوں کے لیے رقم مہیا کرنے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔

لیکن اس وقت سعودی حکام نے ان کی تردید کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں اور وہ جوہری ہتھیاروں سے پاک مشرقِ وسطیٰ کا خواہاں ہے۔
جوہری ہتھیار لے جانے کے قابل میزائل کے حصول کے لیے سعودی عرب کے منصوبے کی خبریں کافی پرانی ہیں۔

1980 کی دہائی کے آخر میں سعودی عرب نے چین سے درجنوں سی ایس ایس 2 بیلسٹک میزائل خریدے تھے اور حال ہی میں دفاعی جریدے 'جین' میں ماہرین نے اسرائیل اور ایران سے متصل سرحد پر ان میزائلوں کے نئے اڈے بنائے جانے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

پاکستان کے ایٹمی سائنسدان عبدالقدیر خان پر ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو جوہری بم کی معلومات اور افزودہ یورینیم کے سنٹری فیوجز کی فروخت میں ملوث ہونے کا الزام لگتا رہا ہے اور انہوں نے سرکاری ٹی وی پر جوہری آلات کی منتقلی کا اعتراف بھی کیا تھا۔

نیوز نائٹ کے مطابق عبدالقدیر خان پر چینی ایٹمی ہتھیاروں کے بلیو پرنٹس کو ان ممالک تک پہنچانے کے بھی الزامات ہیں۔ یہ بلیو پرنٹس سی ایس ایس 2 میزائل میں فٹ ہونے والے بم کا ڈیزائن تھے اور یہ وہی میزائل ہیں جو سعودی عرب کے بھی پاس ہیں۔

جمعرات 7 نومبر 2013
‭ 09:18 GMT
14:18 PST
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اس میں حرج ہی کیا ہے، اگر ایسا ہے بھی تو۔
جب امریکہ بہادر دنیا بھر میں اسلحہ پھیلا سکتا ہے اور اسرائیل کو ایٹمی اسلحہ سے لیس کرسکتا ہے تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کرسکتا۔ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت اپنے بل بوتے پر حاصل کی ہے۔ کسی نے خیرات میں نہیں دی ہے۔ البتہ اس پروجیکٹ پر بلا شبہ مالی تعاون سعودیہ اور عرب عمارات نے کیا ہوگا کہ پاکستان کی مالی حالت کبھی بھی اتنی اچھی نہیں رہی ہے۔

پاکستان اگر اس مالی تعاون کے احسان کے بدلہ میں سعودیہ اور عرب امارات کو ایٹمی اسلحہ سے لیس کردے تو یہ بہت اچھی بات ہوگی۔ اس طرح مشرق وسطیٰ میں عرب ممالک اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیں گے اور ایران کی طرف سے ممکنہ “جارحیت” کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی تیار ہوجائیں گے۔ اللہ کرے کہ یہ خبر بالکل سچی ہو اور پاکستان کی “تردید” ویسی ہی ہو جیسی وہ ماضی میں اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں کرتا رہا تھا کہ ہمرا جوہری پروگرام مر امن مقاصد کے لئے ہے، جوہری ہتھیا روں کی تیاری کے لئے نہیں۔ جب معاملہ ”مکمل“ نہیں ہوجاتا، اس قسم کا ”اعتراف“ کرنے کی کیا ضرورت ہے، مکار کفار کے سامنے۔

اللہ کرے موجودہ حکمران نواز فیملی کو عقل آجائے اور وہ اپنے ”محسن ملک“ کو ایٹمی صلاحیتون سے مالا مال کرسکے۔ شاید اس طرح ان کے “گناہوں“ کا کفارہ ادا ہوسکے۔
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
اگر ایٹم بم سعودی عرب منتقل نہ ہو سکیں تو بھی دونوں ممالک کو آپس میں دفاعی معاہدہ کرنا چاہیے اور فوری طور پر ٹیکٹیکل بم سعودی عرب کو فراہم کرنے چاہیے۔
 
Top