• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جہاد فلسطین کی بعض فقہی جہات، عرب ریاستوں کا اسرائیل سے خُفیہ سمجھوتہ اور مدخلی کائیں کائیں کا راز

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
جہاد فلسطین کی بعض فقہی جہات، عرب ریاستوں کا اسرائیل سے خُفیہ سمجھوتہ اور مدخلی کائیں کائیں کا راز

(قسط اول)

تحریر : حافظ ضیاء اللہ برنی روپڑی

مسئلہ فلسطین اس وقت اُمت کا اہم ترین مسئلہ ہے کیونکہ یہ اساس عقیدہ، فقہ جہاد اور اُمت مسلمہ کے خلاف عالمی صہیونی منصوبے کو بیک وقت ضمن میں لیے ہوئے ہے۔ اس کا حقیقی ادراک اُس وقت نہیں ہوسکتا جب تک قارئین ابراہیمی معاہدات(Abrahamic Accords) اور اعلان مکہ(Macca Declaration 2019) کی روح کو نہیں سمجھیں گے۔

ان سمجھوتوں میں عملاً اسلام کے واحد دین حق اور ہدایت انسانی کے واحد مصدر ہونے کی کُلی نفی کرکے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے نام پر ادیان سماویہ(یہودیت، نصرانیت، اسلام) کی برابر حیثیت تسلیم کی گئی جس کی تعبیر امارات میں “بیت ابراہیمی” کی تعمیر سے کی گئی جہاں مسجد اور اہل کتاب کے معبد خانے یکساں حیثیت میں موجود ہیں۔

پھر مکہ اعلامیہ میں تو باقاعدہ تمام مذاہب کا برابر استحقاق تسلیم کرکے انسانیت کو اصل مانا گیا ہے، خصوصاً اس کی شق 22 یعنی Global Citizenship کو اگر آپ اقوام متحدہ کے (Universal Declaration of Human Rights) کی روشنی میں پڑھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ اس میں اسلام بطور دین کی بجائے مکمل طور پر دین انسانیت کی بالادستی تسلیم کی گئی یہاں تک lgbtq جیسے حقوق بھی global citizenship کی عالمی اصطلاح کا حصہ ہیں

اور اسے منعقد کرنے والی وُہی عرب ریاست ہے جو موجودہ مدخلیوں کا خلیفة المسلمین (ولی امر) ہے، شرمناک بات یہ کہ اعلامیہ مکہ میں (moderate islam) اسلام کے نام پر جاری کیا گیا، جس کے بعد رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل محمد العیسی کی پُھرتیاں پوری دُنیا کے سامنے ہیں۔

خیر اس تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ ان سمجھوتوں اور معاہدوں کا روح رواں اسرائیل ہے اور مقصد یہ ہے کہ عرب دُنیا کو نظریہ بالادستی اسلام اور شعائر جہاد سے محروم کرکے فلسطین سے جُدا کردیا جائے اور یہودی بے دخلی تو کُجا فلسطین مسلمانوں کو آزاد ریاست کے خواب سے بھی محروم کردیا جائے۔

یہ بات چند روز قبل ایم بی ایس (محمد بن سلمان) بھی کہتا پایا گیا کہ اسرائیل سے مضبوط تعلقات میں بہت قریب آچُکے، Fox News کے ایک انٹرویو میں جب سوال ہوا کہ فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے حل کا کیا ہوا جو عشروں سے سعودیہ کا موقف تھا تو ایم بی ایس نے اس کے ذکر سے فرار کا راستہ اختیار کیا۔

اُدھر متوازی فورم پر اسی طرح کی گفتگو مُنتِن یاہو کررہا ہے کہ سعودیہ سے فلسطین کے بارے معاملات طے ہونے کے قریب ہیں البتہ وہ صراحت سے کہتا ہے آزاد ریاست نہیں بلکہ فلسطینی ہمارے ما تحت زندگی گزاریں گے۔

مُنتِن یاہو نے دو مہینے ہہلے ہی اس بات کا اعادہ ایک انٹرویو میں کیا جس کا خلاصہ عمار خان ناصر نے چھ نکات میں کیا، اسے میں نیچے من و عن نقل کررہا ہوں، غور سے پڑھیے خصوصا آخری دو نکات ان عرب معاہدوں کے حوالے سے ہیں، اگرچہ اس میں ایران کی منافقت اور خُفیہ گُٹھ جوڑ بھی واضح دکھائی دے رہا ہے۔

مُنتِن یاہو مسئلہ فلسطین کی بابت کہتا ہے

1۔ اس قضیے کی اصل جڑ یہ ہے کہ فلسطینی، ایک یہودی ریاست کا وجود قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا یہ موقف اسرائیل کے قیام سے پہلے بھی رہا ہے اور بعد میں بھی، 67 کی جنگ سے پہلے بھی رہا ہے اور بعد میں بھی۔ اس لیے ریاست کی حدود کا تعین اصل مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ یہودی ریاست کے وجود کو قبول نہ کرنا ہے۔

2۔ فلسطینیوں کا داخلی اختلاف صرف اس حوالے سے ہے کہ اسرائیل کو ختم کرنے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے یا سیاسی حکمت عملی سے یہ مقصد حاصل کیا جائے۔ حماس پہلے طریقے کی اور باقی فلسطینی دوسرے طریقے کے قائل ہیں، لیکن بنیادی مقصد دونوں کا ایک ہے۔

3۔ اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اس لیے قابل عمل نہیں کہ فلسطینی اس ریاست کو مرکز بنا کر اسرائیل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اسی لیے اسرائیل نے جب غزہ کا علاقہ خالی کر دیا تو حماس نے اقتصادی ترقی اور امن پر توجہ دینے کے بجائے غزہ کو اسرائیل کے خلاف دہشت گردی کا گڑھ بنا دیا۔ (یہی کچھ لبنان کا علاقہ خالی کرنے کے بعد ہوا جہاں حزب اللہ نے قبضہ کر لیا جو اسرائیل کو نقشے سے مٹانا چاہتی ہے)۔

4۔ اسرائیل جو بھی علاقہ خالی کرتا ہے، وہاں سے اسے جواب میں امن کے بجائے تشدد ہی ملتا ہے۔ اس لیے آزاد فلسطینی ریاست جیسے ہی قائم ہوگی، وہ ایران کی ایک پراکسی قوت بن جائے گی اور اسرائیل کی تباہی کے لیے کام کرنا شروع کر دے گی۔ پس دریائے اردن اور بحر متوسط کے درمیان واقع اس چھوٹے سے علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔

5۔ یہودیوں اور عربوں کو یہیں اکٹھے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہوگا۔ علاقے کی سیکیورٹی کی ذمہ داری اسرائیل کے پاس رہے گی۔ فلسطینیوں کو اپنے معاملات چلانے کے لیے مکمل اختیار دیا جا سکتا ہے، لیکن مکمل خود مختاری نہیں دی جا سکتی جس سے وہ اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکیں۔ اس لیے پورے علاقے کی سیکیورٹی کا بندوبست اسرائیل کے ہاتھوں میں رہنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور حل قابل عمل نہیں۔

6۔ جو یہودی آبادیاں 1967 کے بعد تعمیر ہو چکی ہیں، ان کو گرایا نہیں جا سکتا۔ یہ ناقابل عمل ہے۔ یہ بڑے بڑے رہائشی بلاک ہیں جن پر کثیر سرمایہ صرف ہوا ہے اور کوئی بھی ہوشمند شخص یہ نہیں سمجھتا کہ کسی حل تک پہنچنے کے لیے ان کو گرانا ضروری ہے۔ جیسے اسرائیل کے شہروں میں عرب یہودیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں، اسی طرح عربوں کے علاقے میں یہودی بھی ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

7۔ اب تک عمومی سوچ یہ رہی ہے کہ فلسطینیوں کا مسئلہ حل کیے بغیر عرب دنیا کے ساتھ تعلقات نہیں بنائے جا سکتے۔ میری سوچ اس کے برعکس یہ ہے کہ عرب دنیا کے ساتھ تعلقات بنائے بغیر فلسطینی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ فلسطینی، عرب دنیا کا 2 فیصد ہیں۔ بجائے اس کے کہ 98 فیصد سے تعلقات کو 2 فیصد کے رحم وکرم پر چھوڑا جائے، براہ راست 98 فیصد عرب دنیا سے رابطے استوار کرنے چاہییں۔

8۔ ابراہیمی معاہدات کے ذریعے سے میں نے فلسطینیوں کو الگ رکھ کر کئی عرب حکومتوں کے ساتھ براہ راست تعلقات قائم کیے ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ بھی کرنے جا رہے ہیں۔ فلسطینیوں کے ساتھ امن کی پیشگی شرط کا مطلب یہ ہے کہ کبھی امن نہ ہو، کیونکہ فلسطینی ہمیشہ توقع کرتے رہیں گے کہ عرب دنیا کی مدد اور پشت پناہی سے وہ اسرائیل کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اگر عرب دنیا سے ہمارے تعلقات قائم ہو جائیں گے تو فلسطینیوں کی امید دم توڑ جائے گی اور وہ بھی اسرائیل کے ساتھ پرامن طور پر رہنا قبول کر لیں گے۔

-آئندہ قسط میں ہم بعض مدخلی تلبیسات کا شرعی محاکمہ کریں گے

(جاری ہے…)
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
جہاد فلسطین کی بعض فقہی جہات، بدعتی جماعتوں سے جہادی تعاون پر مدخلی تلبیسات



(قسط دوم)
تحریر : حافظ ضیاء اللہ برنی روپڑی

سابقہ قسط میں ہم نے مُنتن یاہو کے زیر نگرانی عرب معاہدوں کے حوالے سے یہ واضح کیا کہ وحدت ادیان سماویہ اور دین انسانیت (humanism) کی شقوں کو قبول کرکے عرب ریاستیں اصولی طور پر غلبه اسلام (الإسلام يعلو ولا يعلى عليه)، وحدت اور نُصرت اُمت(وهم يد على من سواهم) اور جهاد فى سبيل الله (أُمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا..) جيسے مسلمات سے دستبردار ہوچُکے ہیں، اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے دیار عرب کی فقہ الواقع کا ادراک رکھنے والا ہر اہل علم جانتا ہے۔

فقہی اصطلاح میں اسے ھُدنہ دائمہ لازمہ کہا جاتا ہے، یعنی کُفار سے تا قیامت صلح اور اور ترک جہاد کا مُعاہدہ۔ یہ معاہدہ مستقل طور پر نہیں ہوا بلکہ لازمی نتیجہ ہے اس عہد کا کہ ہمارے درمیان فیصلہ کُن میزان دین اسلام ہوگا نہ دین کی بُنیاد پر کبھی جنگ ہوگی بلکہ میزان تعامل ہمیشہ کے لیے مشترکہ انسانی اقدار ہونگی۔

اور اس قسم کی مصالحت باجماع اُمت حرام ہے۔ لہذا ان کی طرف سے فلسطین کی فوجی یعنی حقیقی مدد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا الا ما شاء اللہ۔ البتہ فیس سیونگ کے لیے پائیدار حل، ایرانی یا اسرائیلی ہم منصب کو فون کال، ناراضی کا اظہار وغیرہ ہمیشہ کی طرح کیا جاتا رہے گا اور مظلوم اسی طرح مرتے رہیں گے، تسلط بھی بدستور طاغوت کا رہے گا۔

جیسا کہ ہمارے ہاں بھی سابقہ حکومت کشمیر بیچنے کے بعد موم بتیاں، دومنٹ کی خاموشی اور احتجاجی ریلیاں وغیرہ فیس سیونگ کے لیے استعمال کرتی رہی۔ مظلوم آج بھی مررہا ہے۔ یہ ان حکومتوں کی مجبوریاں ہوتی ہے۔

البتہ مملکت سودی عرب کی ایک مجبوری اور بھی ہے کہ اس کے ساتھ توحید اور شریعت کے الفاظ جُڑے ہوئے ہیں، کسی مُلحد حکمران کی وجہ سے نہیں، بلکہ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب اور اُن کے منھج حق سے جُڑے ہوئے کثیر علمائے حق کے مبارک سلسلے کی بدولت جو مملکت کا حقیقی چہرہ اور نظریاتی اساس ہیں۔

لیکن اس اساس کے ہوتے ہوئے کیا یہ الحادی عہود و اعلامیے، اور یہ مملکت (ریاض، جدہ وغیرہ) میں مُغنّیات کے کنسرٹ، سرعام رقص، طرب اور ملاھی ممکن ہوتے؟ اسے منکر شائع کہا جاتا ہے یعنی ایسے فواحش اور الحاد جو معاشرے میں عام پھیل جائیں۔

ان کا انکار ہر ایک کے لیے واجب ہے وگرنہ عذاب الہی آتا ہے (یوشک ان یعمھم اللہ بعقاب منہ)۔ لیکن انکار کرنے والے علمائے حق کو تکفیری اور خوارج قعدیہ وغیرہ کے القاب دے کر جبر شدید کے حلقے میں کس دیا گیا، سینکڑوں پس زنداں ہیں اور دیگر بوجہ تعذیب خاموش۔

خصوصا پچھلے چند سال سے یہ حالات کسی سے مخفی نہیں۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ دُنیا کی عظیم ترین دینی یونیورسٹی ان کی جیلیں ہیں جہاں کئی ایسی ہستیاں ہیں جن کے بارے بلاشبہ کہا جاسکتا ہے (ھو من اعلم اھل الارض

مثلًا شيخ عبد الكريم الخضير کے بقول اگر آج بھی ائمہ سلف جیسے حفاظ علم ہیں تو اُن میں شیخ عبد العزیز الطریفی اور شیخ عبد اللہ سعد ہیں حفظھما اللہ تعالی اجمعین۔ دونوں وقت کے عظیم محدث بھی ہیں۔ خصوصا محدث الطریفی کا علم تو آفاق عالم میں پھیل چُکا ہے جو ان شاء اللہ قبولیت ربانی کی نشانی ہے۔ اور ایسے کثیر نام ہیں۔ یہ سب جہاد شرعی کے داعی، غاصب یہود کے خلاف اُمت کے لیے غیرت دینی کے پاسباں اور Modernist Islam اور عالمی الحادی پالیسیوں میں رُکاوٹ تھے۔

اس کے برعکس موافقت کرنے والے درباری مُلاؤوں کو نوازا گیا اور حکومتی اقدامات کو دینی سند دینے یا حاکم کی اطاعت کے نام پر سکوت مطلق کو منھج سلف بتانے کے لیے ان کو استعمال کیا جارہا ہے۔ پھر ان سے متاثر کثیر عجمی مولوی یا طلبہ بھی ہیں جو ایک عرصے سے کھیپیں تیار کرکے بھیجی جا رہی ہیں۔

یہ وہ مدخلی چوزے ہیں جن کا ذہن ایک مخصوص انداز میں تشکیل دیا گیا کہ انہیں اپنے خلیفة المُسلمين اور اُس کا مملکت میں پھیلایا جانے والا الحاد بھی دکھائی نہیں دیتا، اور علمائے ربانی کی تجریح اور تبدیع بلکہ تکفیر میں پیش پیش رہتے ہیں۔ بلکہ یہ آپ کو کُفار یہود و ہنود سے زیادہ اہل اسلام پر مُسلط نظر آئیں گے۔ بالکل خوارج کی مانند۔

بطور مثال حال ہی کو دیکھ لیجیے،، انہیں پاکستان کا ٹیچرز یا مدرز ڈے نظر آیا تو دفتر لکھ مارے اور سودی عرب میں سرکاری سطح پر منائے جانے والا کُفریہ اور غلیظ تہوار ہیلووین نظر نہ آیا، جبکہ حُرمت میں دوسرا زیادہ شدید ہے۔ یا شاید پاکستانی حاکم کے معاملے میں منھج تبدیل ہوجاتا ہے۔

مدخلی انڈیا کا ہو یا کہیں اور کا وہ ایم بی ایس کو گویا دُنیائے اسلام کا خلیفہ مانتا ہے کہ اپنے مُلک میں ہوتے ہوئے بھی اس کے بڑھتے ہوئے الحاد پر زبان بند رکھنا اور رکھوانا اس کا فرض ہے۔ شاید “مملکت توحید” کے ٹیگ کو بچانے کے لیے۔

حالانکہ قاعدہ شرعیہ ہے کہ حاکم کے فسق یا کُفر کا حُکم اُس کے مُلک یا باشندوں پر منطبق نہیں ہوتا۔ یہ خوارج کا عقیدہ ہے۔ سعودی علماء اور عوام میں جب تک اسی طرح دین غالب رہے گا وہ مملکت توحید ہی رہے گی... اللہ رب العزت اُسے ان فُساق کے تسلط سے نجات عطا فرمائے۔ لہذا کسی حاکم کی شخصی ہیبت یا حکومتی تاثر کو بیان حق اور اللہ کے دین کی ہیبت پر غالب نہیں آنا چاہیے۔ خصوصا جب وہ دین کے نام پر الحاد کا سب سے بڑا داعی بن جائے، تو کتمان حق کو مصلحت دینی سمجھنے کی بجائے اللہ کے عذاب کا انتظار کرنا چاہیے۔

البتہ غالی مداخلہ کا چونکہ دین ہی سعودی حمایت ہے، یہی ان کی نماز اور یہی ان کا جہاد ہے، تو مسئلہ فسلطین میں بھی پُوری اُمت کے کرب اور شریعت کی واضح نصوص کی پرواہ کیے بغیر یہ جہاد قدس کے خلاف ہی ناچنے لگے ہیں۔

وجہ صرف یہ ہے کہ چالیس مُلکوں کا خلیفہ چونکہ خود یہودی معاہدوں میں بندھا ہوا ہے، دفاع قدس کو نہیں آسکتا، لہذا جو فلسطین کے عسکری دفاع کو حقیقی حل سمجھتا ہے یہ مدخلی جتھوں کی صورت میں اُن پر حملہ آور ہورہے ہیں۔

کُچھ لوگ سمجھتے ہیں شاید یہ اخوانیوں کا رد ان کی بدعات کی وجہ سے کرتے ہیں، جبکہ کُلی طور پر ایسا نہیں۔ یہ اصل میں اخوانی فکر کا سعودی ایجنڈے سے ٹکراؤ ہے جسے یہ منھجی غیرت کے نام پر پیش کرکے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں اور اپنے خلیفہ کی خدمت کرتے ہیں۔

مثلا سعودی اور مرسی کی مصری حکومت کا ٹکراؤ معروف ہے جب مدخلی اپنے قاعدے کے تحت مصری حاکم شرعی متغلب کے خلاف سیسی جیسے اسرائیلی ایجنٹ کے خروج کی حمایت کرتے رہے۔ تب بھی ان کا منھج کانا ہوگیا تھا۔

لہذا یہ صرف دُنیا میں دینی چودھراہٹ کی جنگ ہے۔ مدخلی یا اخوانی، دونوں انتہائیں ہیں، حق وسطیت میں ہے.... مدخلی فکر حاکم وقت کی ہر جائز و ناجائز اطاعت پر تشکیل دی گئی ہے، گرچہ اس میں کتاب اللہ سے صریح تصادم ہو یا قوانین شرعیہ منصوصہ اور مُجمع علیھا کے خلاف کُفر سے ذلت آمیز مفاہمت ہو جو آجکل اکثر برسر اقتدار پارٹیوں بشمول سعودی حکومت کی ضرورت رہتی ہے۔

یہ خروج اور نہی عن المُنکر، اور نصیحت حاکم کی حدود شرعیہ سے مکمل جاہل اور خلط کرتے رہتے ہیں۔ اپنے بنیادی مصدر ضلال سے کمتر عام بدعات کی اچھی معرفت رکھتے ہیں کیونکہ ان کی پیدائش جامعات و مدارس میں ہی کی جاتی ہے جہاں علمی ذوق غالب ہوتا ہے۔ اسی لیے کثیر عوام یا طلبہ علم حتی کہ بعض کم رسوخ والے علماء بھی ان کی ظاہری علمی ہیئت، تعلیمی اسناد اور کتابی باتوں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔

جب تک سرزمین حجاز میں حقیقی اور ربانی علماء اور اُن کی ھیئات کا غلبہ رہا یہ فتنہ دبا رہا، لیکن اب ایم بی ایس کی نگرانی میں ان کی نرسریاں خوب پھل پھول رہی ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں جب سے ہمارے مُلک میں سعودیہ پلٹ مدخلیوں کی کثرت ہوئی، یہ جمہوریت یا جمہوری حکمران پر بھی خلیفہ مسلمین کے احکام چسپاں کرتے ہوئے پائے جانے لگے۔

حالانکہ اس سے پہلے ہمارے اعلی علمی حلقات میں یہ بدعت موجود تھی نہ یہاں کے جمہوری حکمرانوں نے کبھی امیر المومنین کہلوانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ کرتے بھی کیسے جبکہ جمہوری حکمران صرف طریق انتخاب میں نہیں بلکہ تدبیر و انتظام میں بھی بیک وقت کئی ہوتے ہیں جیسا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور صدر اور وزیر اعظ کا ٹکراؤ، حتی کہ خود پارلیمنٹ کے اندر اہوزیشن اور حکومت کا ٹکراؤ جن میں سُلطہ قانونی طور پر منقسم ہوتا اور بالاخر مجرد عددی اکثریت نہ کہ عدل شریعت کی بنا پر قانون سازی ہوجاتی ہے، ٹرانسجینڈر قانون اس کی مثال ہے۔

لہذا امارت شرعیہ کی اصطلاح شرعی کا اس پر لغوی استعمال ایسے ہی ہے جیسے شراب کو شہد کہ دیا جائے۔ مُجھے یاد ہے ایک مدخلی جو عربی میں گفتگو کررہا تھا میرے استفسار پر کہنے لگا کہ بے نظیر بھٹو بھی ہمارے نزدیک شرعی حاکم ہے (ھی حاكم شرعي عندنا)۔ پھر جواب یہی بنتا تھا کہ (إذن لا تفلح ابدا لقول النبي صلى الله عليه وسلم “لن يفلح قوم ولّوا امرهم امرأة”)۔

اسی طرح کی مضحکہ خیز ان کی صورتحال ہے جب بھی گفتگو کی جائے۔ حاکم کا موقف بدلنے سے مدخلی دین بدلنے کی ایک ادنی ترین مثال سعودی وطنی دن ہے جسے یہ اب اپنے اپنے مُلکوں میں بیٹھ کر بھی مناتے ہیں، جبکہ ماضی کے تمام کبار سعودی علماء مثل ابن باز اور عثیمین اسے ناجائز قرار دیتے رہے۔ جیسا کہ ابن تیمیہ نے اقتضاء میں تفصیل ذکر کی ہے کہ کُفار کے تہوار سے مشابہت عادات اور عبادات دونوں میں ممنوع ہے۔ ماضی کے مدخلی اسے ناجائز اور بدعت کہتے، آج سعید رسلان جیسے کئی حق میں دلائل تراشنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

اسی طرح ان کا ایک وصف اہلسُنت علماء اور طلبہ علم کے خلاف سوئے ظن پھیلانا، حقیقی اہل بدعت اور فواسق بلکہ حربی کُفار اور ائمہ کُفر کو چھوڑ کر پٗوری دُنیا کے اہلحدیثوں کی صفوں میں انتشار اور افتراق پھیلانا ہے۔

انکا خلیفہ ایم بی ایس میکرون ملعون کی بدترین توہین رسالت پر اُس سے بوس وکنار اور اظہار محبت کرتا رہا، ان سے بنصف کلمہ بھی بیان حق نہ ہوا، لیکن جس نے فرانس کے خلاف بیان حکم شرعی کیا اُس پر پل پڑے، بعینہ یہی حال فلسطین کے المیے میں ہے۔

آپ تاریخ میں فلسطینی شہیدوں کی راکھ کُرید کر دیکھ لیجیے مگر آپ کو ایک کلمہ اُن کے حق میں یا غاصب یہود کے خلاف یا دشمن کے خلاف جہاد پر نہیں ملے گا ، البتہ بچانے والوں کے خلاف چُھریاں تیز ہیں۔

ان کے بعض شگوفے ملاحظہ فرمائیں..
“فلسطین میں لڑنے والی تنظیم خارجی یا رافضی ہے لہذا جہاد کامیاب نہیں ہوسکتا ہے”، ”فلسطینی جہاد کی بات کرنے والوں کو مخفی فتنوں کا ادراک ہر ایک کو کہاں!”، اور کوئی منھج علمی کا چمپئن اور مدافع بن کر خود کو “صبر” کی تصویر اور دوسروں کو جذباتی ثابت کررہا ہے۔

اس علمیت کی قلعی تو خیر کھولی جائے گی، پہلے ایک سادہ سا سوال ہے کہ مدخلی صاحب سے کس نے کہا کہ حماس اور فُلاں فُلاں کی معیت میں جہاد کریں؟ وہاں لاکھوں قدسی مسلمان بشمول بچے اور خواتین ہیں جو جل رہے ہیں جو رافضی اور اخوانی اصطلاحات کی الف باء بھی واقف نہیں کیا ان کی غیر مشروط نُصرت بھی از روئے شرع اُمت پر واجب نہیں؟

یا جب تک حماس وہاں رہے گی آپ مسجد اقصی کا بچاؤ کریں گے نہ ان مسلمانوں کا؟ یہ عجیب ڈھکوسلا ہے کہ ڈاکو مسلمان گھرانے میں گُھس آئے، حرمتیں پامال کرے، اور تُم دور سے شور مچاتے رہو کہ دیکھو وہاں ایک اخوانی مدد کے لیے گیا تُم بھی نہ جاؤ؟ تُم حماس کو چھوڑو اور آگے بڑھ کر اپنے چالیس مُلکوں کی فوج والے خلیفة المُسلمين سے کہو نا کہ منھاج نبوی کے مطابق جہاد دفاعی کی قیادت کرے اور اس فریضہ اعظم کو نبھائے۔

یہ تو خیر ان فضولیات کا الزامی جواب تھا تحقیقی جواب یہ ہے کہ اگر تمہارے نزدیک وہاں کی جہادی تنظیمیں اہل بدعت ہیں تو دو ہی صورتیں ہیں، یا وہ قدسیوں کے ساتھ مُخلص ہیں یا نہیں۔ دوسری صورت کی انتہاء یہ ہے کہ وہ سازشی اور منافق ہونگے۔

تو مدخلی صاحب تاریخ اسلام کا وہ کونسا دور تھا جب اہل اسلام منافقین کے وجود سے آزاد تھے یا ان کے وجود سے پاک ہونے تک جہاد موقوف کردیا گیا؟ قصے کہانیاں اور ادھر اُدھر کے قصوں کی بجائے جو شخصی خطائیں ہوسکتی ہیں قران و سُنت یا منھج صحابہ سے کوئی ایک دلیل لاؤ کہ منافقین کے ساتھ کُفار کے خلاف یا دفاع مُسلم کے لیے جہاد کرنا حرام مطلق ہے؟

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی مسلسل سازشوں کے باوجود اُن کو لشکر جہاد میں ہمیشہ شامل نہیں رکھا۔ بلکہ یہ اصل ہے۔ سوائے اس کے کہ غالب مصلحت اس کے خلاف ہو۔ بلکہ منافقین جنگ سے بھاگنا چاہتے تو قران نے رسول اللہ کو ان کو انکے شر کے بطلان کے لیے ساتھ رکھنے کا حُکم دیا (عفا اللہ عنک لم أذنت لھم

ابن أبی رأس المُنافقین غزوہ أحد میں عین وقت قتال ایک تہائی لشکر لے کر واپس لوٹ گیا، لیکن آپ علیہ السلام نے جنگ کے بعد اُسے سزا نہیں دی بلکہ آئندہ غزوات میں شامل رکھا کیونکہ ان حالات میں انھیں الگ کرنا فقہ سیاست کے خلاف اور دُشمن کو حوصلہ دینا تھا۔ حالانکہ وہ منصوص منافق تھے۔ جبکہ تُمھارے صرف اندازے ہیں۔

اگر کہیں نفاق یا سازش ظاہر ہوئی بھی تو یقینا ان جماعتوں میں کثیر ایسے مخلصین بھی ہیں جن کا منھج کج فہمی کا شکار ہوسکتا ہے لیکن انہیں دفاع حُرمت مسلم کے جہاد میں شامل رکھنا سنت نبوی اور منھج سلف صالحین ہے۔ اگر اہل منھج ہونے کا دعوی کرنے والے یہود سے دوستیاں نبھانے کے لیے عورتوں کی مانند گھر بیٹھ رہیں گے تو زمام کار بدعتی کے ہاتھ میں ہی آئے گا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے تاتاریوں کے خلاف مرتکب شرکیات اہل بدعت کی مدد بھی لی۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ "ألا ترى أن أهل السُّنة وإن كانوا يقولون في الخوارج والروافض وغيرهما مِن أهل البدع ما يقولون، لكن لا يعاونون الكفّار على دينهم، ولا يختارون ظهور الكفر وأهله على ظهور بدعةٍ دون ذلك"

یعنی اہل سُنت خوارج، روافض اور دیگر اہل بدعت کا رد کرنے کے باوجود اہل کُفر کا غلبہ ان سے کمتر بدعیتوں کے غلبے پر مُقدم نہیں رکھتے نہ ان کے بالمُقابل کُفر کی مدد کرتے ہیں”۔ یہ کتنا حکیمانہ موقف ہے جو سُنت نبوی سے ماخوذ ہے کہ جب تک اہل بدعت سے مدد لینے کی مفسدت اُن کے ساتھ جہاد کی مصلحت پر غالب نہ آجائے اُنہیں ظاہری کثرت میں شامل رکھا جائے،

کیونکہ فقہ جہاد میں “تکثیر السواد” یعنی اپنے لشکروں اور حمایتوں کے کثرت دکھانا بذات خُود مقصود شریعت ہے جیسا کہ امام طبری رحمہ اللہ ابن عباس، ضحاک وغیرہ رحمھم اللہ تعالی کے حوالے سے یہ قول نقل کیا ہے “تکثّروا بانفسکم ولو لم تُقاتلوا” یعنی جنگ میں قتال نہ بھی کرسکو تو عددی کثرت کے لیے ضرور شامل رہو۔ اور اس پر کثیر دلائل ہیں۔

پھر اس میں یہ بھی حکمت ہے کہ نفاق کے بھی درجات ہیں، جہاد سے فیصلہ اور امتیاز ہوتا ہے، یہ اللہ کی سُنت ہے، فرمایا (ھم للکفر یومئذ اقرب منھم للایمان)، یعنی حُکم جہاد کے متوجہ ہونے کے بعد کئی لوگ کُفر کے قریب ہوئے جبکہ اس سے ہہلے وہ درمیان میں تھے یا ایمان کے زیادہ قریب۔

خود نبی کریم نے ان تمام اشخاص میں فرق رکھا۔ حتی کہ کافر مناصر مثل ابو طالب وغیرہ کے ساتھ وہ تعامل نہ رکھا جو کافر عدو مثل ابو جھل اور ابو لہب کے ساتھ تھا۔ اسی طرح عدو قریب اور عدو بعید کا فرق، مثلا آپ علیہ السلام نے جہاد یہود کو جہاد منافقین پر مقدم رکھا۔ یہ تمام اور ایسی کثیر حکمتیں ہیں جو فقہ الجہاد سے متعلق ہیں۔

الغرض یہ مدخلی جو منھج منھج کا شور مچاتے ہیں مسائل فقہ میں حقیقی منھج علمی سے خالی ہیں۔ صرف رٹی رٹائی چند عبارتوں کے مُفتی ہیں جو انہیں ازبر کرادی گئی ہیں۔ نبی کریم نے جہاں راجح مصلحت کو جانا سند یافتہ منافقین کو بھی غزوات میں اپنے ساتھ رکھا، البتہ اُنھیں "بطانة" یعنی شریک راز نہیں بنایا کیونکہ قران کریم نے اس سے روک دیا (لا تتخذوا بطانة من دونكم)۔ اور نہ انھیں دوست بنایا (لا تتخذوا الکافرین اولیاء من دون المومنین

الغرض اس قسم کے بدعتی گروہوں کی شمولیت اور عدم شمولیت دراصل موازنہ مصالح و مفاسد کے باب سے ہے جو انتہائی وسیع ہے، اور اس میں جہاد سے بچنے کے لیے صرف اخوانی بدعتی کہہ کر دوڑ جانا اور اہل اسلام کو مرنے کے لیے چھوڑ دینا کسی جاہل یا منافق کا طرز عمل تو ہوسکتا ہے حقیقی اہل علم کا نہیں۔

بلکہ جہاد سے بھاگنے کے لیے اس قسم کے عُذر منافقین تراشا کرتے تھے جیسا کہ مدخلی تراشتے ہیں، مثلا غزوہ احد میں (لو نعلم قتالا لاتبعناکم)، اگر حقیقی قتال ہوتا تو ہم بھی تمھارے پیچھے آتے، تبوک میں (گرمی بہت ہے)، اور (إئذن لی ولا تفتنی) مُجھے فتنے میں مت ڈالیے، ولا حول ولا قوة إلا بالله۔

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر بقول ان کے فلسطین میں منافقین اور کُفار کا گُٹھ جوڑ ہے تو وہ بھی اسی لیے کہ تم نے اُن کو ان منافقین کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا، چنانچہ عامة المسلمين پھر مسلسل اور شدید ظلم کی بنا پر ہر تنکے اور پتھر کا سہارا لینے ہر مجبور ہوئے، خصوصا جہاد دفاعی میں مظلوم منھج دیکھنے کا پابند نہیں بس اُس کا منھج ہی جان مال عزت کا دفاع ہے، بلکہ قاعدہ ہے کہ اُس کے لیے جہاد کی نیت بھی ضروری نہیں۔

اگر وہ بے چارا بالکل ان پڑھ اور جاہل ہے لیکن کسی بھی طریقے سے اپنی حُرمت کا دفاع کرتے ہوئے مرگیا تو بسند نبی کریم شہید ہے (فانت شھید)، ہاں اگر کوئی غیر شخص اس کی نُصرت کرتا ہے تو اُسے اللہ ہی کی رضا مقصود رکھنی چاہیے کہ یہ سبیل اللہ ہے بدلیل (وما لکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ ..الآیة)اور اجر عظیم ہے۔ اس کے برعکس جہاد اقدامی میں اگر نیت فی سبیل اللہ نہ ہو تو باطل ہے۔

(جاری ہے..)
 
Last edited:
Top