حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
اگر لاہور میں ایک معصوم بچی کو درندگی کا نشانہ بنیا جا ئے تو کوئی بات نہیں۔
اگر ایک مسلح جتھہ مذہب کے نام پر اقلیتوں کے گھر جلا دے تو کوئی بات نہیں۔
اگر طالبان ایک بچی کو تعلیم سے محبت کی بناء پر ٹارگٹ کریں تو کوئی بات نہیں۔
اگر معصوم بچیوں کو پیدائش کے کچھ دیر بعد سڑک پر پھینک دیں تو کوئی بات نہیں۔
اگر اسلامی نظریاتی کونسل ریپ کرنے کا پروانہ جاری کر دے تو کوئی بات نہیں۔
لیکن اگر پاکستان میں کسی اسکول نے اسلامیات پڑھانے سے انکار کیا تو اس اسکول کے ساتھ سوشل میڈیا پر بیٹھے مجاہدینِ اسلام بھرپور گالیوں اور نعروں کے ساتھ نمٹیں گے۔ ہمیں اس بات سے اختلاف نہیں ہے کہ اسلامیات پڑھائی جانی چاہیے مگر یہ تعلیمی ادارے کی مرضی پر منحصر ہے، کسی کو بھی اسلام کی ٹھیکداری کرنے کا حق نہیں ہے۔ ماضی میں اپنی اس انقلابی پالیسی کی قیمت آج پاکستان کی ریاست سود سمیت ادا کر رہی ہے۔ کبھی کسی نے سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں نصابِ تعلیم ایک ہونا چاہیے؟ مدرسہ سسٹم میں بھی نصاب ملکی قوانین کے تحت ہونا چاہیے؟۔ملک میں چائلڈ لیبر اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم پر قابو پایا جانا چاہیے؟
یقینی طور پر ایسا کچھ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہیں ہوتا۔ بات ہو رہی تھی کہ کیا تقابلی مذہبی تعلیم چھٹی جماعت میں قابلِ عمل ہے یا نہیں؟ تو اس بات پر سیر حاصل بحث ہو سکتی ہے مگر اس بات پر چایے کی پیالی میں طوفان برپا کر دینا کہ "ملک میں کسی نے اسلامیات پڑھانے سے انکار کیا تو کیوں کیا" ایک مذہبی عدم برداشت کی صلاحیت نہ رکھنے والے ملک میں ایک اور کنفیوژن پیدا کرنے کہ مترادف ہے۔ اسی ملک میں اسلام کے نام پر قتل سے لے کر دنیا کی ہر برائی کی اجازت دی جاتی ہے۔ اقلیتوں پہ ظلم ہو تو بھی مذہبی چھتری مجرموں کے تحفظ کے لیے موجود ہوتی ہے۔ امریکی ڈالر لینے ہوں یا ریاستی اداروں نے پرائیویٹ مذہبی جتھے پالنے ہوں تو یہاں بھی مذہب کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ہر شخص حرام کی کمائی جیب میں ڈال کر حلال گوشت کی دکان ڈھونڈتا ہے اور اس کا ایمان ہے کہ اگر اس ملک نے برداشت، رواداری، اور روشن خیالی جیسے نظریات پر عمل کرنا سیکھ لیا تو پھر فتوے کی دکانیں بھی بند ہوں گی اور فرقے بازی کے اسٹالوں پر بھی رش نہیں رہے گا۔
لاہور گرامر اسکول کے اس معاملے پر نوٹس لینے والے وزیر تعلیم کاش کبھی جنوبی پنجاب کے اسکولوں کا بھی نظارہ کر لیں جہاں استاد بھی ہیں، طالبعلم بھی ہیں، عمارت بھی ہے اور تنخواہیں بھی دی جاتی ہیں مگر صرف حکومت پنجاب کی سرکاری فائلوں میں۔ کاش کبھی سوشل میڈیا کے انقلابی مجاہد ہندوستان کو ہر وقت جہنم واصل کرنے کی بجائے وہاں ایک زیادتی کی شکار لڑکی کو ملنے والا انصاف اور یہاں اسلام کے نام پر شارخ جتوئی کی معافی کی خبر بھی لیں۔ میں بھی اسی معاشرے کا شہری ہوں مگر میں نے پاکستان اور اس کے شہریوں کو آپس میں لڑانے، مروانے اور اپنے بچوں کو نیو یارک میں پڑھانے اور خود منصورہ میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنا نہیں سیکھا ۔ کاش یہ لوگ کبھی دمشق اور قرطبہ کی تاریخ بھی پڑھ لیں کہ اموی حاکم نے سب سے پہلے قرطبہ میں یونیورسٹی بنوائی جہاں تمام مسالک اور مذاہب کے لوگ تمام دنیاوی اور دینی علوم ایک ساتھ پڑھتے۔ ان لوگوں کا قصور نہیں ہے ان کی تربیت ہی حضرت مولانا جرنل محمدضیاء الحق ر۔ح کی افکا ر کی روشنی میں ہوئی ہے جنہوں نے انھیں برداشت اور رواداری کہ علاوہ اسلام کی سب صفات پڑھا دیں بس نہیں پڑھایا تو انسانیت سے محبت کرنا۔
اگر ایک مسلح جتھہ مذہب کے نام پر اقلیتوں کے گھر جلا دے تو کوئی بات نہیں۔
اگر طالبان ایک بچی کو تعلیم سے محبت کی بناء پر ٹارگٹ کریں تو کوئی بات نہیں۔
اگر معصوم بچیوں کو پیدائش کے کچھ دیر بعد سڑک پر پھینک دیں تو کوئی بات نہیں۔
اگر اسلامی نظریاتی کونسل ریپ کرنے کا پروانہ جاری کر دے تو کوئی بات نہیں۔
لیکن اگر پاکستان میں کسی اسکول نے اسلامیات پڑھانے سے انکار کیا تو اس اسکول کے ساتھ سوشل میڈیا پر بیٹھے مجاہدینِ اسلام بھرپور گالیوں اور نعروں کے ساتھ نمٹیں گے۔ ہمیں اس بات سے اختلاف نہیں ہے کہ اسلامیات پڑھائی جانی چاہیے مگر یہ تعلیمی ادارے کی مرضی پر منحصر ہے، کسی کو بھی اسلام کی ٹھیکداری کرنے کا حق نہیں ہے۔ ماضی میں اپنی اس انقلابی پالیسی کی قیمت آج پاکستان کی ریاست سود سمیت ادا کر رہی ہے۔ کبھی کسی نے سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں نصابِ تعلیم ایک ہونا چاہیے؟ مدرسہ سسٹم میں بھی نصاب ملکی قوانین کے تحت ہونا چاہیے؟۔ملک میں چائلڈ لیبر اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم پر قابو پایا جانا چاہیے؟
یقینی طور پر ایسا کچھ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہیں ہوتا۔ بات ہو رہی تھی کہ کیا تقابلی مذہبی تعلیم چھٹی جماعت میں قابلِ عمل ہے یا نہیں؟ تو اس بات پر سیر حاصل بحث ہو سکتی ہے مگر اس بات پر چایے کی پیالی میں طوفان برپا کر دینا کہ "ملک میں کسی نے اسلامیات پڑھانے سے انکار کیا تو کیوں کیا" ایک مذہبی عدم برداشت کی صلاحیت نہ رکھنے والے ملک میں ایک اور کنفیوژن پیدا کرنے کہ مترادف ہے۔ اسی ملک میں اسلام کے نام پر قتل سے لے کر دنیا کی ہر برائی کی اجازت دی جاتی ہے۔ اقلیتوں پہ ظلم ہو تو بھی مذہبی چھتری مجرموں کے تحفظ کے لیے موجود ہوتی ہے۔ امریکی ڈالر لینے ہوں یا ریاستی اداروں نے پرائیویٹ مذہبی جتھے پالنے ہوں تو یہاں بھی مذہب کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ہر شخص حرام کی کمائی جیب میں ڈال کر حلال گوشت کی دکان ڈھونڈتا ہے اور اس کا ایمان ہے کہ اگر اس ملک نے برداشت، رواداری، اور روشن خیالی جیسے نظریات پر عمل کرنا سیکھ لیا تو پھر فتوے کی دکانیں بھی بند ہوں گی اور فرقے بازی کے اسٹالوں پر بھی رش نہیں رہے گا۔
لاہور گرامر اسکول کے اس معاملے پر نوٹس لینے والے وزیر تعلیم کاش کبھی جنوبی پنجاب کے اسکولوں کا بھی نظارہ کر لیں جہاں استاد بھی ہیں، طالبعلم بھی ہیں، عمارت بھی ہے اور تنخواہیں بھی دی جاتی ہیں مگر صرف حکومت پنجاب کی سرکاری فائلوں میں۔ کاش کبھی سوشل میڈیا کے انقلابی مجاہد ہندوستان کو ہر وقت جہنم واصل کرنے کی بجائے وہاں ایک زیادتی کی شکار لڑکی کو ملنے والا انصاف اور یہاں اسلام کے نام پر شارخ جتوئی کی معافی کی خبر بھی لیں۔ میں بھی اسی معاشرے کا شہری ہوں مگر میں نے پاکستان اور اس کے شہریوں کو آپس میں لڑانے، مروانے اور اپنے بچوں کو نیو یارک میں پڑھانے اور خود منصورہ میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنا نہیں سیکھا ۔ کاش یہ لوگ کبھی دمشق اور قرطبہ کی تاریخ بھی پڑھ لیں کہ اموی حاکم نے سب سے پہلے قرطبہ میں یونیورسٹی بنوائی جہاں تمام مسالک اور مذاہب کے لوگ تمام دنیاوی اور دینی علوم ایک ساتھ پڑھتے۔ ان لوگوں کا قصور نہیں ہے ان کی تربیت ہی حضرت مولانا جرنل محمدضیاء الحق ر۔ح کی افکا ر کی روشنی میں ہوئی ہے جنہوں نے انھیں برداشت اور رواداری کہ علاوہ اسلام کی سب صفات پڑھا دیں بس نہیں پڑھایا تو انسانیت سے محبت کرنا۔