کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
جہل کے خلاف جنگ
کالم: ظہیر اختر بیدری پیر 29 فروری 2016
آج دنیا کے منظرنامے پر نظر ڈالیں تو خوف اور دہشت سے دل لرزنے لگتا ہے۔ جنگوں، نفرتوں، تعصبات، تنگ نظری کا ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ قوم، ملک، دین، دھرم، ذات پات، رنگ نسل، زبان اور قومیتوں کے حوالے سے انسانوں کو اس طرح تقسیم کر کے ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے کہ ہر شخص ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور ایک دوسرے کی جان کے درپے رہتا ہے۔
یہ تماشا اگرچہ صدیوں سے جاری ہے لیکن اکیسویں صدی کے آغاز سے اس میں ایک خوفناک عنصر مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی شکل میں داخل ہو گیا ہے جو تیزی کے ساتھ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ اس "تحریک" کا مقصد دنیا میں اسلام کو پھیلانا ہے۔ مذاہب کی تاریخ میں مختلف مذاہب کے علمبرداروں نے اپنے مذہب کو پھیلانے اور اسے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے عموماً پرامن تبلیغی طریقے استعمال کیے اور خود کو اپنے مذہب کا سچا پیروکار اور امن کا حامی بنا کر پیش کیا۔
اگرچہ ان تبلیغی کاوشوں سے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ ہو سکی لیکن ان مشنوں کی مخالفت اس لیے نہیں کی گئی کہ یہ مشن یا مہمات عموماً پرامن اور ترغیبی ہوتی تھیں۔ لیکن اکیسویں صدی کے آغاز سے مذہب کے نام سے جو خون آلود تحریک چلائی جا رہی ہے، اس نے ساری دنیا کو سہما کر رکھ دیا ہے۔
دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کی یہ مہم اس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے کہ دنیا کا کوئی ملک اس سے بچا ہوا نظر نہیں آتا۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کریں لیکن جب پرامن تبلیغ کی جگہ پرتشدد تحریک لے لیتی ہے تو محرکین کے ساتھ ساتھ مذہب بھی بدنام ہونے لگتا ہے۔ یہ خونیں کھیل اگرچہ اکیسویں صدی کے آغاز سے جاری ہے اور اسے روکنے کے لیے دنیا بھر کے ملک اپنی طاقت اور وسائل استعمال کر رہے ہیں لیکن یہ کوششیں حکومتی اور ریاستی سطح پر طاقت کے ذریعے ہی کی جا رہی ہیں، جب کہ مذہبی انتہاپسند اور دہشت گردی کی پشت پر ایک جہل پر مبنی نظریاتی ترغیب موجود ہے۔
مغربی ملکوں کے حکمرانوں کو اس عفریت کا طاقت کے ذریعے خاتمہ کرنے میں عراق اور افغانستان میں سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، ان جنگوں میں لاکھوں جانوں کے زیاں کے ساتھ ساتھ کھربوں ڈالر کے نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ مبصرین اس دہشت گردی کے پیچھے بھی سرمایہ دارانہ حکمت عملی کو دیکھتے ہیں، جس کا مقصد دنیا کے عوام کی توجہ سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم سے ہٹانا ہے۔ یہ قیاس اگرچہ غیر منطقی نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس آگ میں ہر روز دنیا کے مختلف ممالک میں ہزاروں بے گناہ لوگ جل رہے ہیں، اس کا ازالہ کس طرح ہو؟
بدقسمتی یہ ہے کہ اپنی پشت پر نظریاتی جواز رکھنے والی اس خونریز انتہاپسندی کو کس طرح روکا جائے؟ اب صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے ملکوں، دوسرے مذاہب میں بھی مذہبی انتہاپسندی فروغ پا رہی ہے، مثال کے طور پر ہندوستان کو لے لیں، جہاں آر ایس ایس، بی جے پی اور کئی دوسری مذہبی انتہاپسند جماعتیں تشدد اور مذہبی منافرت کا راستہ اختیار کر رہی ہیں۔ اس مسئلے کا ایک افسوسناک اور قابل شرم پہلو یہ ہے کہ بعض ملکوں میں، جن میں امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک بھی شامل ہیں، مذہبی انتہاپسندوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا، جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ مذہبی انتہاپسند ہر جگہ اپنی جگہ بنانے اور اپنی بے لگام سرگرمیاں جاری رکھنے کے قابل ہو گئے۔
اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ اہل قلم اور اہل دانش بھی آنکھ بند کر کے بڑے عیارانہ طریقوں سے مذہبی منافرت پھیلانے اور عوام کو مذہب کے حوالے سے تقسیم کر کے انھیں ایک دوسرے سے لڑانے کا گھناؤنا کام انجام دے رہے ہیں، اور دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ حضرات اپنی اس گندی مہم میں دھڑلے سے مذہب اور خدا کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ ان کو اس بات کا ادراک بھی نہیں رہا کہ خدا نے اپنے آپ کو ’’رب العالمین‘‘ کہا ہے، کیا عالمین کے رب کو کسی ایک مذہب سے جوڑ کر عوام میں مذہبی منافرت کی آبیاری کرنا قلم کی حرمت اور دانشوروں کی شان کہلا سکتا ہے؟
دنیا کے تمام مذاہب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بلا امتیاز مذہب و ملت سارے انسانوں کا جد امجد آدمؑ ہے، اگر اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے تو کرہ ارض پر رہنے والے تمام انسان خونی رشتے میں بندھے بھائی ہونے چاہئیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے خدا نے پیغمبر بھیجے لیکن پیغمبروں نے انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کا درس ہی دیا، کسی پیغمبر نے انسانوں کو انسانوں سے نفرت کرنا نہیں سکھایا۔ اس پس منظر میں مذاہب بنیادی طور پر انسانوں کی شناخت اور اپنے اپنے طریقوں سے خدا کی عبادت کا درس بھی دیتے ہیں، جو لوگ مذاہب کو انسانوں کے درمیان نفرتوں کا ذریعہ بناتے ہیں کیا وہ انسان کہلائے جانے کے مستحق ہیں؟
ہم نے اس بات کی نشان دہی کر دی تھی کہ مذہبی انتہا پسندی جہل کی پیداوار ہے، جس کا مقابلہ ہتھیار سے نہیں علم ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ دنیا کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ جن لوگوں (حکمرانوں) کے پاس طاقت، اختیارات، وسائل اور ضرورت کے مطابق پالیسیاں بنانے کا اختیار ہے وہ اس مسئلے کا حل صرف ہتھیاروں، جنگوں میں تلاش کر رہے ہیں، حالانکہ عراق اور افغانستان کی طویل اور خونیں جنگوں کے نتائج کے بعد انھیں اس بات کا شعور آ جانا چاہیے تھا کہ نظریاتی ترغیب کے پس منظر میں لڑی جانے والی جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں جیتی جا سکتیں، ان جنگوں کو جیتنے کے لیے جہل کے سامنے علم، انتہا پسندی کے آگے اعتدال پسندی کو لانا ہوگا۔
صرف ہتھیاروں سے یہ جنگ لڑنے والوں سے ایک سوال یہ کیا جا سکتا ہے کہ ’’ایک خودکش بمبار جس نظریاتی ترغیب کے ساتھ اپنے اور دوسرے بے گناہ لوگوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑاتا ہے، کیا اسے محض ہتھیار اور طاقت سے زیر کیا جا سکتا ہے؟‘‘ نہیں ہرگز نہیں۔ اسے زیر کرنے کے لیے ایک منظم منصوبہ بندی، جامع علمی شعوری کوششوں کی ضرورت ہے، جس میں میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ جنگی منصوبہ بندی حکمران نہیں آفاقی وژن رکھنے والے اہل قلم، اہل دانش ہی کر سکتے ہیں۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں پر جتنا سرمایہ خرچ کیا گیا اس کے چوتھائی حصے سے یہ کام انجام دیا جا سکتا ہے۔
ح