- شمولیت
- اگست 28، 2019
- پیغامات
- 55
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 56
6۔جہیز لینا اور پھریہ کہنا کہ یہ تحفہ وہدیہ ہے:
میرے دوستو!سماج ومعاشرے کے اندرجہیز کالینادینا بہت عام بات ہے،آج کل کے دورمیں کوئی بھی شخص بغیرجہیز کےشادی وبیاہ کرنا نہیں چاہ رہاہےجب کہ جہیز لینا یہ بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے وہ اس طرح سے کہ جہیز کا لینا یہ باطل طریقے سے دوسرے کا مال کھاناہے اورباطل طریقے سے مال کھانے سے رب العزت نے اپنے کلام پاک میں جگہ جگہ پر منع کیاہے،فرمایا’’ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ‘‘اے ایمان والو!اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ۔(النساء:29)اورلڑکی والوں سے جہیز مانگنا یہی تو ہے باطل طریقے سے مال کھانااوریہ جہیز لیناصرف باطل طریقے سے مال کھانا ہی نہیں ہے بلکہ یہ ظلم بھی ہے کیونکہ اس کے اندر لڑکی والوں پر جبرکیاجاتاہےوہ اس طرح سے کہ جہیز واچھے پکوان اوراچھی مہمان نوازی کے لئے دباؤ بھی ڈالاجاتاہےتوبھلابتلائے کہ یہ ظلم ہے کی نہیں ؟اورجب یہ ظلم ہے تو ظلم حرام ہےجیساکہ حدیث قدسی میں رب العزت کا یہ فرمان ہے کہ’’ يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوا ‘‘اے میرے بندو!میں نے ظلم وزیادتی کو اپنے اوپر حرام قراردے لیاہے اورمیں نے اس ظلم کوتمہارے درمیان بھی حرام قراردے دیا ہے لہذا تم ایک دوسرے کو اوپر ظلم نہ کرو۔(مسلم:2577)یہ ظلم حرام بھی ہے اورکبیرہ گناہوں میں سے بھی ہےمگرسماج ومعاشرے میں یہ گناہ بھی بڑے ذوق وشوق سے انجام دئے جاتے ہیں اورطرفہ تماشاتویہ ہےکہ اس ناجائز چیز کو جائز بتانے کے لئے یہ شیطانی حربہ پیش کیاجاتاہے کہ یہ تو ایک ہدیہ ہے!یہ تو تحفہ وہدیہ ہے!یہ تو گفٹ ہے!یہ تو لڑکی والے خوشی سے دے رہے ہیں!یہ تو لڑکی والے اپنی بیٹی کو دے رہے ہیں!ہم نے کوئی ڈیمانڈ نہیں کیا ہے، وہ اپنی مرضی سے دے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ،یہی سب وہ شیطانی ہتھکنڈے ہیں جن کو اپنا کر اس ناجائز کام کو جائز سمجھ کرکیا جاتاہےلیکن ہمیں کوئی ذرا یہ تو بتائے کہ یہ جہیزتحفہ وہدیہ کیسے ہے؟کیونکہ:
(1)ہدیہ وتحفہ دل کی خوشی سے دی جاتی ہے مگر اس جہیز میں دل کی خوشی نہیں ہوتی ہے بلکہ اس دل میں یہ ڈر وخوف لگارہتاہے کہ اگرہم نے جہیز نہیں دیا تو میری بیٹی کو سسرال والے ستائیں گے اورطعنے ماریں گے!
(2)ہدیہ وتحفہ دینے کے لئے بڑے بڑے قرضے نہیں لئے جاتے ہیں مگر اس جہیز کو اداکرنے کے لئے انسان کو مقروض ہونا پڑتاہے،اپنی جائداد بیچنی پڑتی ہے اوراپناگھروغیرہ بھی گروی رکھنی پڑتی ہے۔
(3)ہدیہ وتحفہ دینے میں کسی کا دباؤ نہیں ہوتاہے مگرجہیز میں دولہے میاں کے کنبے وقبیلے اوررشتے داروں کا دباؤ ہوتاہے۔
(4)ہدیہ وتحفہ اپنی طاقت کے مطابق دی جاتی ہے مگر اس جہیز میں طاقت سے زیادہ لڑکی والوں پر بوجھ ڈالاجاتاہے۔
(5)ہدیہ وتحفہ نہ دینے سے نہ توکوئی کسی سےناراض ہوتاہے اورنہ ہی کوئی کسی کو ستاتااورمارتاوپیٹتاہے مگر یہ جہیز نہ دینے سے دولہے میاں اوردولہے میاں کے ماں باپ ناراض ہوجاتے ہیں،لڑکی کو ستاتے اورمارتے وپیٹتے ہیں بلکہ بسااوقات تو جہیز نہ دینے کی وجہ سے لڑکی کا مرڈر وقتل بھی کردیا جاتاہے۔
(6)ہدیہ وتحفہ نہ دینے سے کوئی سوسائڈ وخودکشی نہیں کرتاہے مگر جہیز نہ دینے کی وجہ سے کئی لڑکیاں سوسائڈ وخودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔
(7)ہدیہ وتحفہ نہ دینے سے کوئی کسی سے رشتہ وناطہ ختم نہیں کرتاہے اورنہ ہی اس کو نہ دینے سے زندگی رک جاتی ہے اورنہ ہی اس کے نہ دینے سے کسی کی زندگی تباہ وبرباد ہوتی ہے مگر اس جہیز کے نہ دینے سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لڑکیوں کی زندگی تباہ وبرباد ہورہی ہے،جہیز نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں لڑکیوں کی شادیاں نہیں ہورہی ہیں،اس جہیز کے نہ ہونے سے لاکھوں کی تعداد میں مسلم لڑکیاں غیروں کے ساتھ راہ فرار اختیارکررہی ہیں اب آپ ہی بتلائیں کہ جب جہیز میں اتنی ساری خرابیاں اورہلاکت وبربادیاں ہیں تو یہ ہدیہ وتحفہ کیسے ہوا اور یہ جائز کیسے ہوا؟اس لئے میرے دوستو!اللہ سے ڈرو اوراس گناہ سے بچاکرو اوربغیرجہیز وڈوری کے ہی اپنی اوراپنی اولاد کی شادی وبیاہ کو انجام دیا کرواوریہ نہ کہاکرو کہ یہ تو تحفہ وہدیہ ہے۔
اسی طرح سے بہت سارے نوجوان جہیز لینے کے لئے یہ بھی ایک حیلہ وبہانہ کرتے ہیں کہ میں مجبورہوں کیوں کہ میری ماں نہیں مان رہی ہے،اسی طرح سے بہت سارے لوگ یہ کہتے بھی نظرآتے ہیں کہ ہماری عورتیں ہماری بات نہیں سنتی ہیں ،ہم اپنی عورتوں کے ہاتھوں مجبور ہیں کیونکہ وہ بغیر جہیز کے شادی ہی نہیں کرناچاہتی ہے توجولوگ بھی ایسی باتیں بناتے ہیں ایسے لوگ یہ سن لیں کہ ہماری شریعت کا یہ حکم ہے کہ حرام وگناہ والے کاموں اوراللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق ماں،بیوی،بہن،بیٹی ،دوست ویاریاپھر پیروفقیرکسی کی بھی بات نہیں ماننی ہے جیسا کہ قرآن میں فرمان باری تعالی ہے ’’ وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ‘‘کہ اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تومیرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا۔(لقمان:15)اورآپﷺ نے بھی یہی حکم دیا کہ ’’ لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ ‘‘ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے۔(مسلم:1840،بخاری:7257)
میرے دوستو!سماج ومعاشرے کے اندرجہیز کالینادینا بہت عام بات ہے،آج کل کے دورمیں کوئی بھی شخص بغیرجہیز کےشادی وبیاہ کرنا نہیں چاہ رہاہےجب کہ جہیز لینا یہ بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے وہ اس طرح سے کہ جہیز کا لینا یہ باطل طریقے سے دوسرے کا مال کھاناہے اورباطل طریقے سے مال کھانے سے رب العزت نے اپنے کلام پاک میں جگہ جگہ پر منع کیاہے،فرمایا’’ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ‘‘اے ایمان والو!اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ۔(النساء:29)اورلڑکی والوں سے جہیز مانگنا یہی تو ہے باطل طریقے سے مال کھانااوریہ جہیز لیناصرف باطل طریقے سے مال کھانا ہی نہیں ہے بلکہ یہ ظلم بھی ہے کیونکہ اس کے اندر لڑکی والوں پر جبرکیاجاتاہےوہ اس طرح سے کہ جہیز واچھے پکوان اوراچھی مہمان نوازی کے لئے دباؤ بھی ڈالاجاتاہےتوبھلابتلائے کہ یہ ظلم ہے کی نہیں ؟اورجب یہ ظلم ہے تو ظلم حرام ہےجیساکہ حدیث قدسی میں رب العزت کا یہ فرمان ہے کہ’’ يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوا ‘‘اے میرے بندو!میں نے ظلم وزیادتی کو اپنے اوپر حرام قراردے لیاہے اورمیں نے اس ظلم کوتمہارے درمیان بھی حرام قراردے دیا ہے لہذا تم ایک دوسرے کو اوپر ظلم نہ کرو۔(مسلم:2577)یہ ظلم حرام بھی ہے اورکبیرہ گناہوں میں سے بھی ہےمگرسماج ومعاشرے میں یہ گناہ بھی بڑے ذوق وشوق سے انجام دئے جاتے ہیں اورطرفہ تماشاتویہ ہےکہ اس ناجائز چیز کو جائز بتانے کے لئے یہ شیطانی حربہ پیش کیاجاتاہے کہ یہ تو ایک ہدیہ ہے!یہ تو تحفہ وہدیہ ہے!یہ تو گفٹ ہے!یہ تو لڑکی والے خوشی سے دے رہے ہیں!یہ تو لڑکی والے اپنی بیٹی کو دے رہے ہیں!ہم نے کوئی ڈیمانڈ نہیں کیا ہے، وہ اپنی مرضی سے دے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ،یہی سب وہ شیطانی ہتھکنڈے ہیں جن کو اپنا کر اس ناجائز کام کو جائز سمجھ کرکیا جاتاہےلیکن ہمیں کوئی ذرا یہ تو بتائے کہ یہ جہیزتحفہ وہدیہ کیسے ہے؟کیونکہ:
(1)ہدیہ وتحفہ دل کی خوشی سے دی جاتی ہے مگر اس جہیز میں دل کی خوشی نہیں ہوتی ہے بلکہ اس دل میں یہ ڈر وخوف لگارہتاہے کہ اگرہم نے جہیز نہیں دیا تو میری بیٹی کو سسرال والے ستائیں گے اورطعنے ماریں گے!
(2)ہدیہ وتحفہ دینے کے لئے بڑے بڑے قرضے نہیں لئے جاتے ہیں مگر اس جہیز کو اداکرنے کے لئے انسان کو مقروض ہونا پڑتاہے،اپنی جائداد بیچنی پڑتی ہے اوراپناگھروغیرہ بھی گروی رکھنی پڑتی ہے۔
(3)ہدیہ وتحفہ دینے میں کسی کا دباؤ نہیں ہوتاہے مگرجہیز میں دولہے میاں کے کنبے وقبیلے اوررشتے داروں کا دباؤ ہوتاہے۔
(4)ہدیہ وتحفہ اپنی طاقت کے مطابق دی جاتی ہے مگر اس جہیز میں طاقت سے زیادہ لڑکی والوں پر بوجھ ڈالاجاتاہے۔
(5)ہدیہ وتحفہ نہ دینے سے نہ توکوئی کسی سےناراض ہوتاہے اورنہ ہی کوئی کسی کو ستاتااورمارتاوپیٹتاہے مگر یہ جہیز نہ دینے سے دولہے میاں اوردولہے میاں کے ماں باپ ناراض ہوجاتے ہیں،لڑکی کو ستاتے اورمارتے وپیٹتے ہیں بلکہ بسااوقات تو جہیز نہ دینے کی وجہ سے لڑکی کا مرڈر وقتل بھی کردیا جاتاہے۔
(6)ہدیہ وتحفہ نہ دینے سے کوئی سوسائڈ وخودکشی نہیں کرتاہے مگر جہیز نہ دینے کی وجہ سے کئی لڑکیاں سوسائڈ وخودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔
(7)ہدیہ وتحفہ نہ دینے سے کوئی کسی سے رشتہ وناطہ ختم نہیں کرتاہے اورنہ ہی اس کو نہ دینے سے زندگی رک جاتی ہے اورنہ ہی اس کے نہ دینے سے کسی کی زندگی تباہ وبرباد ہوتی ہے مگر اس جہیز کے نہ دینے سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لڑکیوں کی زندگی تباہ وبرباد ہورہی ہے،جہیز نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں لڑکیوں کی شادیاں نہیں ہورہی ہیں،اس جہیز کے نہ ہونے سے لاکھوں کی تعداد میں مسلم لڑکیاں غیروں کے ساتھ راہ فرار اختیارکررہی ہیں اب آپ ہی بتلائیں کہ جب جہیز میں اتنی ساری خرابیاں اورہلاکت وبربادیاں ہیں تو یہ ہدیہ وتحفہ کیسے ہوا اور یہ جائز کیسے ہوا؟اس لئے میرے دوستو!اللہ سے ڈرو اوراس گناہ سے بچاکرو اوربغیرجہیز وڈوری کے ہی اپنی اوراپنی اولاد کی شادی وبیاہ کو انجام دیا کرواوریہ نہ کہاکرو کہ یہ تو تحفہ وہدیہ ہے۔
اسی طرح سے بہت سارے نوجوان جہیز لینے کے لئے یہ بھی ایک حیلہ وبہانہ کرتے ہیں کہ میں مجبورہوں کیوں کہ میری ماں نہیں مان رہی ہے،اسی طرح سے بہت سارے لوگ یہ کہتے بھی نظرآتے ہیں کہ ہماری عورتیں ہماری بات نہیں سنتی ہیں ،ہم اپنی عورتوں کے ہاتھوں مجبور ہیں کیونکہ وہ بغیر جہیز کے شادی ہی نہیں کرناچاہتی ہے توجولوگ بھی ایسی باتیں بناتے ہیں ایسے لوگ یہ سن لیں کہ ہماری شریعت کا یہ حکم ہے کہ حرام وگناہ والے کاموں اوراللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق ماں،بیوی،بہن،بیٹی ،دوست ویاریاپھر پیروفقیرکسی کی بھی بات نہیں ماننی ہے جیسا کہ قرآن میں فرمان باری تعالی ہے ’’ وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ‘‘کہ اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تومیرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا۔(لقمان:15)اورآپﷺ نے بھی یہی حکم دیا کہ ’’ لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ ‘‘ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے۔(مسلم:1840،بخاری:7257)