• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ ابن حجرؒ کے مقبول کی کہانی انہی کی زبانی

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حافظ ابن حجرؒ کے مقبول کی کہانی انہی کی زبانی

أبو عبد الرحمان محمد رفيق الطاهر​
حدیث کی تحقیق اور چھان بین کے معاملہ میں متقدمین اھل الحدیث اور متأخرین میں کافی حد تک اختلاف ہوا ہے، اور اس اختلاف کی مختلف وجوہ ہیں، جن میں ایک وجہ رواۃ پر متقدمین اہل علم کی الفاظ جرح وتعدیل کے معنیٰ کو سمجھنے میں کوتا ہی ہے۔
اس کی ایک مثال حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا کسی راوی کو 'مقبول' کو قرار دینا ، یعنی جب حافظ صاحب کسی راوی کا رتبہ لفظ 'مقبول' سے بیان فرماتے ہیں تو اس کاکیا معنیٰ ہے، متأخرین میں سے بہت سے یہ سمجھتے ہیں کہ ابن حجر کے 'مقبول' کہنے کا معنیٰ یہ ہے کہ 'مقبول' راوی کی حدیث جب اس کی متابعت میں نہ ہو تو ضعیف ہی ہو تی ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، کیونکہ حافظ صاحب اپنی مصطلحات کو خوب اچھی طرح سمجھنے والے تھے۔ انھوں نے جب خود ایک اصطلاح وضع کی ہے تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ اس کا کیا مفہوم لیتے ہیں۔ جب ہم ابن حجر رحمہ اللہ کی اصطلاح کو انھی سے سمجھیں گے تو معاملہ بالکل واضح ہوجائے گا۔
میرے سامنے ایسی بے شمار دلیلیں موجود ہیں کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک راوی کو 'مقبول' قرار دیا ہے اور پھراس کی ایسی روایت --جس میں وہ متفرد ہے –کو حسن یا صحیح قراردیا ہے، ان میں سے چند مثالیں پیش ِخدمت ہیں۔
۱۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تغلیق التعلیق (۳۱۹/۳) میں فرمایا ہے کہ امام احمد نے (۳۸۸/۴) اور اسحاق بن راہویہ نے بطریق وکیع نا وبر بن ابی دلیلۃ شیخ من اھل الطائف عن محمد بن میمون بن مسیکۃ واثنی علیہ خیرا عن عمرو بن شرید عن ابیہ مرفوعاً یہ روایت بیان کی ہے :"لی الواجد یحل عرضہ وعقوبتہ"
اور پھر اس کی تخریج کرتے ہوئے فرماتےہیں : "راوہ ابوداؤد والنسائی من حدیث ابن المبارک عن وبر وراہ النسائی وابن ماجہ من حدیث وکیع" اور پھر سند پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :"وھو اسناد حسن"
حالانکہ محمد بن عبداللہ بن میمون بن مسیکہ الطائفی کے بارہ میں تقریب (۴۹۰/۱) میں فرماتے ہیں:
"مقبول من السادسة" اور فتح الباری (۶۲/۵) میں ابوعبداللہ البخاری رحمہ اللہ الباری کے اس قول "ویذکر عن النبی ﷺ لی الواجد یحل عرضہ وعقوبتہ"کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"والحدیث المذکور وصلہ احمد واسحاق فی مسند بھما من حدیث عمرو بن الشرید بن اوس الثقفی عن ابیہ بلفظہ واسنادہ وذکرالطبرانی انہ لایروی الا بھذا الاسناد"
اور یہی بات تلخیص الحبیر (۳۹/۳(۱۲۳۷) میں بھی مذکور ہے۔
اسی طرح امام شمس الدین الذھبی رحمہ اللہ میزان الاعتدال فی نقدالرجال (۲۶/۶(۷۷۶۶) میں رقمطراز ہیں: "محمد بن عبداللہ بن میمون بن مسیکۃ الطائفی عن عمرو بن الشریدوعنہ وبر بن ابی دلیلۃ فقط" اور پھر مذکورہ بالا حدیث نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں:"رواہ نبیل وجماعة عن وبر" یعنی اس کو روایت کرنے میں محمد بن عبداللہ بن میمون بن مسیکۃ الطائفی متفرد ہے اور حافظ صاحب نے اس کو"مقبول" قرارد یا ہے اور اپنے اس "مقبول" کی روایت کو "حسن" قراردے رہے ہیں۔ جبکہ اس کی کوئی متابعت بھی نہیں ہے۔
۲۔الاصابہ فی معرفۃ الصحابۃ (۶۴/۳) میں سعد بن ضمیرۃ بن سعد بن سفیان بن مالک بن حبیب کے بارہ میں فرماتے ہیں:"لہ عندابی داؤد حدیث فی قصة محلم بن جثامة اللیثی باسناد حسن" اورا س کی حدیث ابوداؤد ،کتاب الدیات،باب الامام یامر بالعفو فی الدم (۴۵۰۳) بطریق محمد بن جعفر بن الزبیر از زیادہ بن سعد بن ضمیرۃ السلمی عن ابیہ مروی ہے۔
یعنی اس کی سند میں زیاد بن سعد بن ضمیرۃ السلمی متفرد ہے اور اس کی متابعت بھی نہیں آتی ، نیز یہ کہ زیاد بن سعد سے اس کے علاوہ اور کوئی حدیث بھی مروی نہیں ہے۔
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب (۲۱۹/۱) میں اس کو "مقبول" قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے:"مقبول من الرابعة"
تو گویا حافظ صاحب علیہ الرحمۃ اپنے اس "مقبول" کی روایت کی بھی "تحسین" فرمارہے ہیں ، جس سے ان کے "مقبول" کی روایت کی حیثیت ان کے نزدیک واضح ہوجاتی ہے۔
۳۔امام بخاری نے کتا ب الصوم، باب صوم یوم الجمعۃ ۔۔۔(۱۹۸۶) میں جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنھا کی روایت صرف جمعہ کے دن کا روزہ رکھنے کے بارہ میں نقل فرمائی ہے۔ حافظ صاحب علیہ الرحمۃ فتح الباری (۲۳۴/۴) میں اسی حدیث کے تحت رقم طراز ہیں:
"ولیس لجویرية زوج النبیﷺ فی البخاری من روایتھا سوی ھذا الحدیث ولہ شاہد من حدیث جنادۃ بن ابیامية عندالنسائی باسناد صحیح بمعنی حدیث جویرية"
یعنی امام نسائی نے اپنی سنن کبریٰ (۱۴۵/۲(۲۷۷۳) میں بیان شدہ روایت بطریق ربیع بن سلیمان ثنا وھب ثنی اللیث بن سعد وذکر آخر قبلہ یعنی ابن لهيعة عن یزید بن ابی حبیب عن ابی الخیر عن حذيفة البارقی عن جنادۃ الازدی انھم دخلوا علی رسول اللہﷺ ۔۔۔۔الحدیث" کو حافظ صاحب "صحیح الاسناد"قرارد ے رہے ہیں جبکہ اس کی سند میں حذیفہ البارقی ، جنادۃ الازدی سے روایت کرنے میں متفرد ہے اور اس کی متابعت بھی موجود نہیں۔
حالانکہ حافظ صاحب رحمہ اللہ نے تقریب (۱۵۴/۱) میں اس کو "مقبول من الربعة" فرمایا ہے۔
تو اس دلیل سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حافظ صاحب علیہ الرحمۃ کے نزدیک "مقبول" راوی کی حدیث کا درجہ صحت وحسن کے درمیان گھومنے والا ہے۔
اور حافظ صاحب رحمہ اللہ کی مراد کو سمجھنے کے لیے یہ تین دلائل ہی کافی ہیں، لیکن برسبیل تنزل چند ایک مزید دلائل بھی پیش کیے دیتے ہیں۔
۴۔جن روایات کو امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے تعلیقاً صیغہ ٔ تمریض سے ذکر کیا ہے ان کا حکم بیان کرتے ہوئے ھدی الساری (۱۸/۱) میں حافظ صاحب فرماتے ہیں:"فمنہ ماھو صحیح ولیس علی شرطہ ومنہ ما ھو حسن ومنہ ما ھو ضعیف بنوعیہ منجر ولا جابر لہ۔" اور پھر حسن کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
"ومثال الحسن قولہ فی البیوع ویذکر عن عثمان رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال لہ اذا بعت فکل واذا ابتعت فاکتل؛ وھذا الحدیث قد رواہ الدارقطنی(۸/۳ (۲۳) من طریق عبیداللہ بن المغیرۃ وھو صدوق عن منقذ مولی سراقة وقد وثق عن عثمان بن عفان بہ۔" انتھی۔ تو گویا حافظ صاحب علیہ الرحمہ نے عبیداللہ بن مغیرہ کی حدیث کو حسن حدیث کی مثال کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ جبکہ عبیداللہ بن مغیر بن ابی بردہ الکنانی کے بارہ میں تقریب (۳۷۴/۱) میں "مقبول من الرابعۃ" کہا ہے۔ملحوظہ:۔
اس حدیث کو عبد بن حمید نے (۵۲) ابن المبارک سے ، اور ابن ماجہ نے (۲۲۳۰) ابوعبدالرحمن المقریٔ سے، اور بزار نے حسن بن موسىٰ سے (۳۷۹) ، اور بىہقى نے کبرى (۳۱۵/۵) مىں سعىد بن ابى مرىم سے بطرىق ابن لھىعہ ازموسىٰ بن وردان ، اسى طرح سعىد بن مسىب سے بىان کىا ہے۔ اور ىہ رواىت ابن لھىعہ کى صحىح احادىث مىں سے ہے کىونکہ ىہ عبادلہ ثلاثہ کبراء (۱) ابن مبارک (۲) ابن وھب (۳) اور المقرئ کى مروىات سے ہے۔
ىعنى ا س حدىث کو رواىت کرنے مىں عبىداللہ بن مغىرہ متفرد نہىں بلکہ سعىد بن المسىب رحمہ اللہ ان کى متابعت فرمارہے ہىں اور اسى طرح امام احمد نے بھى(۶۲/۱) نقل فرماىا ہے، اور طحاوى نے شرح المعانى (۱۶/۳) مىں ذکر کىا ہے۔
۵۔حافظ صاحب نے تغلىق التعلىق (۴۳۶/۲) مىں ذکر کىا ہے
"قال ابن ابى شيبة (۲۹۹/۱، (۳۴۲۱) حدثنا ىزىد بن ہارون عن محمد بن عمرو عن ابى عمرو بن حماس عن مالک بن اوس بن الحدثان البصرى عن ابى ذر انہ دخل المسجد فاتى سارية۔۔۔۔ الحدىث۔"
اور پھر فرماىا ہے: "والاسناد حسن"
جبکہ ابو عمروبن حماس اللىثى کے بارہ مىں تقرىب مىں فرماتے ہىں : "مقبول من السادسة"
۶۔الإصابہ فى معرفۃ الصحابۃ (۱۴/۲) مىں فرماتے ہىں:
"حبة ابن عامر الخزاعى وقىل العامرى أخو سواء بن خالد صحابى نزل الکوفة روى حدىثہ ابن ماجہ باسناد حسن من طرىق الاعمش عن ابى شرحبىل عن حبة وسواء ابنى خالد قالا دخلنا على النبى ﷺ وھو ىعالج شىئاً۔۔۔ الحدىث۔"
ىعنى وہ حدىث جس کو ابن ماجہ نے (۴۱۶۵) ، احمد نے (۴۶۹/۳) ، ھناد نے کتاب الزھد (۷۸۹) مىں ، ابن سعد نے الطبقات الکبرى (۳۳/۶) مىں ، بخارى نے الادب المفرد (۴۵۳) مىں مختصراً، ابن ابى عاصم نے الآحاد والمثانى (۱۳۸/۳) مىں، طبرانى نے الکبىر (۷/۴، (۳۴۷۹) اور ۱۳۷/۷، (۶۶۱۰)، (۶۶۱۱) مىں اور مزى نے تہذىب الکمال (۳۵۵/۵، (۳۵۶) مىں بطرىق اعمس از سلام بن شرحبىل ابو شرحبىل از حبۃ وسواء ابنى خالد نکالا ہے۔
اور ىہ حدىث غرىب ہے کىونکہ اس کو حبہ اور سواء ابنى خالد سے ابو شرحبىل سلام بن شرحبىل کے سوا اور کسى نے رواىت نہىں کىا ہے اور ابو شرحبىل سے اس کو رواىت کرنے مىں اعمش متفرد ہے اور حافظ صاحب علىہ الرحمہ نے عدم متابعت اور تفرد کے باوصف اس کو حسن قرار دىا ہے۔
جبکہ ابو شرحبىل سلام بن شراحبىل کے بارہ مىں تقرىب (۲۶۱/۱) مىں فرماتے ہىں: "مقبول من الرابعة"
۷۔فتح البارى (۳۱۳/۱) مىں فرماتے ہىں:"وروى ابوداؤد باسناد حسن عن انس ان النبى ﷺ شرب لبنا فلم ىتمضمض ولم ىتوضأ۔ "
اور اس حدىث کو ابوداؤد نے باىں سند نکالا ہے۔"عثمان بن ابى شىبۃ از زىد بن الحباب ازمطىع بن راشد از توبۃ العنبرى از انس۔۔۔ الحدىث
اور اسى طرح ابن شاہىن نے الناسخ والمنسوخ (۹۳) مىں اور بىہقى نے الکبرى ۱۶۰/۱ اور ضىاء نے الاحادىث المختارہ (۱۵۸۲) مختلف طرق سے از زىب بن الحباب از مطىع بن راشد از توبۃ العنبرى از انس رضى اللہ عنہ بىان کىا ہے۔
ىعنى مطىع بن راشد البصرى اس کو رواىت کرنے مىں متفرد ہے ، جس کو حافظ صاحب تقرىب (۵۳۵/۱) مىں "مقبول من السابعۃ" فرمارہے ہىں اور اس کى حدىث کى تحسىن فرما ر ہے ہىں۔ جس سے حافظ صاحب کے ہاں "مقبول" راوى کے رواىت کا "درجہ" واضح ہوتا ہے۔
۸۔فتح البارى (۱۱۷/۳) مىں فرماتے ہىں:
"وقد کان بعض السلف ىشدد فى ذلک حتى کان حذيفة اذا مات لہ المىت ىقول لا تؤذنو بہ احدا الى اخاف ان ىکون نعىا انى سمعت رسول اللہ ﷺ باذنى ھاتىن ىنھى عن النعى اخرجہ الترمذى وابن ماجہ باسناد حسن"
اور اس حدىث کو امام ترمذى نے اپنى جامع مىں ابواب الجنائز ، باب ماجاء فى کراھىۃ النعى (۹۸۶) مىں باىں سند نکالا ہے،
"حدثنا احمد بن منىع ثنا عبدالقدوس بن بکر بن خنىس ثنا حبىب بن سلىم العبسى عن بلال بن ىحىٰ العبسى عب حذيفة بن الىمان ۔۔۔ الحدىث اور ابن ماجہ نے کتا ب الجنائز، باب النھى عن النعى، (۱۴۷۶) از عمرو بن رافع از عبداللہ ابن مبارک از حبىب بن سلىم العبسى سابقہ سند سے ہى رواىت کىا ہے۔
اور اسى طرح اس کو احمد نے(۳۸۵/۵، ۴۰۶) مىں وکىع اور ىحىٰ بن آدم سےاور بىہقى نے کبرى (۷۴/۴) مىں مسلم بن قتىبہ سے اور مزى نے تہذىب الکمال (۳۷۶/۵) مىں ىحىٰ بن آدم سے اور ان تمام نے حبىب بن سلىم از بلال ابن ىحىٰ از حذىفہ رواىت کىا ہے۔
اور امام ترمذى نے کہا ہے: "ھذا حدىث حسن صحىح۔"
تو ىہ رواىت بھى سابقہ رواىات کى طرح ہے کہ حافظ صاحب نے حبىب بن سلىم العبسى کے تفرد اور عدم متابعت کے باوجود اس رواىت کو فتح البارى مىں امام ترمذى نے اپنی جامع مىں حسن صحىح قرار دىا ہے ۔ جبکہ حبىب بن سلىم کے بارہ مىں حافظ صاحب علىہ الرحمہ تقرىب (۱۵۱/۱) مىں فرماتے ہىں: "مقبول من السابعة"
حافظ صاحب علىہ الرحمہ نخبۃ الفکر (۱/۱) مىں فرماتے ہىں کہ : "فان جمعا (کقول الترمذى حسن صحىح) فللتردد فى الناقل حىث التفرد۔"
ىعنى امام ترمذى رحمہ اللہ جب کسى راوى کے بارہ مىں متردد ہو تے ہىں کہ ىہ تام الضبط ہے ىا خفىف الضبط اور وہ راوى اس کے بىان کرنے مىں متفرد ہو تا ہے تو اس کى حدىث کو "حسن صحىح" فرمادىتے ہىں۔
جىسا کہ اس مثال مىں سے واضح ہو رہا ہے اور مثال نمبر ۴ مىں متفرد "مقبول" کى رواىت کو "صحىح" قرارد ىا ہے جس سے ہمارے مؤقف کى مزىد تائىد ہوتى ہے۔
۹۔الاصابۃ فى معرفۃ الصحابۃ(۳/۲) مىں حازم بن حرملۃ بن مسعود الغفارى رضى اللہ عنہ کے بارہ مىں فرماتے ہىں:
"لہ حدىث فى الاکثار من الحوقلة روى عنہ ابو زىنب مولاہ اخرجہ ابن ماجہ وابن ابى عاصم الوحدان والطبرانى وغىرھم کلھم فى الحاء المھملہ واسنادہ حسن ۔ "
ىعنى وہ حدىث جسے ابن ماجہ نے (کتاب الادب، باب ماجاء فى لا حول ولا قوۃ الا باللہ ،حدىث: ۳۸۲۶) باىں سند نکالا ہے :
"حدثنا ىعقوب بن حمىد المدنى ثنا محمدبن معن ثنا خالد بن سعىد عن ابى زىنب مولى حازم بن حرملة عن حازم بن حرملة قال مررت بالنبى ﷺ فقال لى ىا حازم ! اکثر من قول لا حول ولا قوۃ الا باللہ فانھا من کنوز الجنة۔"
اسى طرح بخارى نے تارىخ کبىر (۱۰۹/۳، (۳۷۰) ، ابن ابى عاصم نے الآحاد والمثانى (۳۷۵/۴)، طبرانى نے کبىر (۳۲/۴، (۳۵۶۵) ، ابو احمد العسکرى نے تصحىفات المحدثىن (۵۳۶/۲)، ابو نعىم نے معرفۃ الصحابہ (۲۰۵۵) اور مزى نے تہذىب الکمال (۳۱۹/۵) مىں مختلف طرق سے از محمد بن معن بن نضلۃ الغفارى از خالد بن سعىد از ابى زىنب مولى حازم بن حرملہ از حازم بن حرمہ رضى اللہ عنہ رواىت کىا ہے۔
اور ىہ مدنى غرىب حدىث ہے اس کو حازم بن حرملہ سے اس کے مولى ابو زىنب کے علاوہ اور کسى نے رواىت نہىں کىا اور ابو زىنب سے رواىت کرنے مىں خالد بن سعىد بن ابى مرىم القرشى التمىمى المدنى مولى جدعان متفرد ہے۔
اور ابن حجر نے اس رواىت کو حسن قرار دىا ہے جبکہ اس کو رواىت کرنے مىں خالد بن سعىد متفرد ہے اور حافظ صاحب نے تقرىب (۱۸۸/۱)مىں اس کو "مقبول من الرابعۃ" کہا ہے۔
۱۰۔الاصابہ فى معرفۃ (۲۹۱/۱) مىں فرماتے ہىں:
"بسر بن جحاش قرشى نزل حمص قال ابن مندہ : اھل العراق ىقولونہ بسر بالمهملة واھل الشام ىقولونہ بالمعجة وقال الدارقطنى وابن زبر: لا ىصح بالمعجمة وکذا ضبطہ بالمهملة ابو على الھجرى فى نوادرہ، وقال مسلم وابن السکن وغىرھما: لم ىرو عنہ باسناد صحىح۔" انتھى
اور اس حدىث کو احمد نے (۲۱۰/۴) باىں سند رواىت کىا ہے:
"حدثنا ابو النضر ثنا حرىز بن عثمان عن عبدالرحمن بن مىسرہ عن جبىر بن نضىر عن بسر بن حجاش القرشى ان النبى ﷺ بصق ىوما فى کفہ فوضع علىھا اصبعہ ثم قال قال اللہ تعالىٰ: ابن آدم۔۔۔ الحدىث
اور اسى طرح اس کو ابن ماجہ نے کتا ب الوصاىا، باب النھى عن الامساک فى الحىاۃ والتبذىر عند الموت (۲۷۰۷) ، ابن سعد نے طبقات (۴۲۷/۷)، ابن ابى عاصم نے الآحاد والمثانى (۱۴۹/۲، (۱۵۰) ، طبرانى نے کبىر (۳۲/۲، (۱۱۹۳،۱۱۹۴) و مسند الشامىن (۴۶۹)، ابن قانع نے معجم الصحابۃ (۷۶/۱) اور حاکم نے (۵۴۵/۲) ، ابو نعىم نے معرفۃ الصحابۃ (۱۱۴۵،۱۱۴۶)، بىہقى نے شعب الاىمان (۲۵۶/۳، (۳۴۷۲) اور علامہ مزى نے تہذىب الکمال (۷۲/۴) مىں مختلف طرق سے از عبدالرحمن بن مىسرۃ از جبىر بن نضىر از بسر بن حجاش اسى طرح رواىت کىا ہے۔
اور ىہ حدىث شامى غرىب ، کىونکہ جبىر بن نضىر کے علاوہ اور کسى نے اس کو بسر بن حجاش سے رواىت نہىں کىا اور جبىر سے رواىت کرنے مىں عبدالرحمن بن مىسرہ الحمصى متفرد ہے۔
اور ىہ حدىث تمام تر احادىث کى نسبت اپنے مفہوم پر زىادہ دلالت کرنے والى کہ حافظ صاحب علىہ الرحمہ نے تفر د عبدالرحمن بن مىسرہ اورعدم متابعت کے باوصف اس کو صحىح قرارد ىا ہے ، جبکہ عبدالرحمن بن مىسرہ ابو سلمہ الحمصى کے بارہ مىں تقرىب (۳۵۱/۱) مىں فرماتے ہىں: "مقبول من الرابعة"ملحوظه
عبدالرحمن بن مىسرہ ابو سلمہ شامى مشہور تابعى ہىں ، ثقہ ہىں اور کثىر الرواىۃ ہىں۔ صحابہ مىں سے ابو امامہ الباھلى ، مقدام بن معدى کرب وغىرہ سے علم حدىث سنا ہے اور ابوداؤد ، عجلى ، ابن حبان اور ذھبى نے انھىں ثقہ قرارد ىا ہے۔تلک عشرۃ کاملۃ
ىہ دس مثالىں اس بات پر دلىل ہىں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدىک مقبول راوى کى رواىت اکثر وبیشتر حسن وصحت کے درمىان ہوتی ہے ، خواہ اس کى متابعت موجود ہوىانہ ہو۔
اور واضع مصطلح ہى اپنى مصطلح کا حقىقى معنى زىادہ بہتر طور پر سمجھتاہے۔ ثم بحمد اللہ ھذا ماعندى والعلم عنداللہ وعلمہ اکمل واتم ورد العلم الىہ اسلم
گزشتہ قسط
گزشتہ قسط میں ہم نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ جس راوی کو "مقبول" قرار دیں ، اگر اس کی متابعت نہ ہو تو اس کی روایت کو آنکھیں بند کرکے ضعیف قرار دینا درست نہیں۔بلکہ بسا اوقات مقبول کی روایت کا درجہ حافظ صاحب کے ہاں حسن و صحیح کے درمیان ہی رہتا ہے۔
ذیل میں ہم صحیحین کے چند ان رواۃ کا تذکرہ کرتے ہیں جن کو حافظ صاحب علیہ الرحمۃ نے "مقبول" قرارد یا ہے۔ اور شیخین نے تفرد اور عدم متابعت کے باوجود ان کی روایات کو اصالۃ ً ذکر کیا فرمایا۔
اور اس سے یہ بات اور زیادہ نکھر کر سامنے آجائے گی کہ حافظ صاحب کا "مقبول" تفرد اور عدم متابعت کے "جرم" میں صرف "ضعیف" ہونے کی "سزا" کا ہی حقدار نہ ہے۔
۱۔عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی ابکر الصدیق التیمی المدنی:۔
امام بخاری رحمہ اللہ الباری کتاب الاشربہ، باب آنیہ الفضۃ (۵۶۳۴) میں فرماتےہیں:
"حدثنا اسماعیل یعنی الاویسی ثنی مالک بن انس عن نافع عن زید بن عبداللہ بن عمر عن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر الصدیق عن ام سلمة ان رسول اللہ ﷺ قال : الذی یشرب فی اناء الفضة انما یجرجر فی بطنہ نار جہنم"
اسی طرح امام مسلم علیہ الرحمہ نے کتاب اللباس والزینۃ، باب تحریم استعمال اوالی الذھب والفضۃ فی الشرب (۲۰۶۵) میں متعدد طرق سے بطریق نافع عن زید بن عبداللہ عن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر اور ایک دوسرے طریق سے از عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر عن خالتہ ام سلمہ اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
تو یہ حدیث ان اوثق الاصول میں سے ہے جن پر شیخین نے اعتماد کیا ہے۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ ہر وہ شخص جس نے اس حدیث الذی یشرب فی انا ء الفضۃ۔۔۔ الحدیث" کو روایت کیا ہے اس کا معتمد اور مرجع عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر التیمی کی حدیث ہے کہ جن کو حافظ صاحب نے "مقبول" قرار دیا ہے ۔ تو تمام لوگ اس حدیث کو روایت کرنے میں نافع مولی ابن عمر کے محتاج ہیں جو کہ اس کو عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر سے روایت کرتے ہیں اور یہ حدیث بھی اسی طریق سے ہی صحیح ہے۔
اور یہ حدیث اس بارے بھی "اصل" کا درجہ رکھتی ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ لفظ "مقبول" بول کر "ثقہ" مراد لیتے ہیں اور اس کی حدیث کو حجت مانتے ہیں اگرچہ وہ متفرد ہی کیوں نہ ہو۔
خود حافظ صاحب فتح الباری (۹۷/۱۰) میں فرماتےہیں:
"عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر الصدیق التمیمی ھو ابن اخت ام سلمة التی روی عنھا ھذا الحدیث امہ قريبة بنت ابی امية بن المغیرۃ المخزومية وھو ثقة مالہ فی البخاری غیر ھذاالحدیث۔"
تو لیجئے حافظ صاحب نے اس نص میں عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر کو خود "ثقہ" قرار دیا ہے۔
اب اسی راوی کے بارہ میں ان کی تقریب [۳۱۰/۱(۳۴۲۵)] کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
"عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر الصدیق التیمی ، مقبول من الثالثة"
تو گویا حافظ صاحب علیہ الرحمۃ قلیل الروایۃ ثقہ راوی کو بھی مقبول کہہ دیتے ہیں، اگرچہ وہ اپنی حدیث میں متفرد ہو اور اس کی متابعت بھی نہ ہو۔
یاد رہے کہ شیخین کے علاوہ اس حدیث کو امام شافعی نے اپنی مسند (۱۰/۱(۲۳) میں ابن وھب نے جامع (۵۹۷)، طیالسی نے مسند (۱۶۰۱)، یحیی بن یحیی نے مؤطا (۱۷۱۷) ، محمد بن الحسن نے مؤطا (۸۸۱)، ابن ابی شیبہ نے (۱۰۳/۵(۲۴۱۳۶)، احمد نے (۳۰۰/۶،۳۰۲،۳۰۴،۳۰۶) اسحاق بن راہویہ نے مسند (۱۲۴،۳۹)، ابو یعلی (۶۹۹۸،۶۹۱۴،۶۸۸۲) ، ابوعوانہ نے مسند (۲۱۶/۵، (۸۴۵۴)، ۲۱۸/۵،(۸۴۶۷)، ابن حبان نے (۵۳41)، طبرانی نے کبیر 23/288، أوسط (3753)، مسند الشامیین (108)، ابن المقرئ نے معجم (1010)، تمام نے الفوائد (1660)، ابن عبدالبر نے التمہید 16/102، ابن حزم نے محلی 2/223، بغوی نے شرح السنۃ (3030)، مزی نے تہذیب الکمال 15/198 میں بطرق متعددہ عن نافع عن زید بن عبداللہ بن عمر عن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر الصدیق عن ام سلمہ روایت کیا ہے۔
نیز یہ کہ علامہ مزی نے تہذیب میں اگرچہ صرف ابن حبان کی توثیق پر ہی اکتفا کیا ہے(15/198،197)لیکن امام العجلی نے معرفۃ الثقات 2/44(۹۲۶)میں بھی اس کو ثقہ قرار دیا ہے۔ اور ابن خلفون نے بھی جیاس کہ اکمال مغلطای 2/288 میں ہے اور امام ذہبی نے الکاشف (1/567 (2816) میں اس کی توثیق کی ہے۔ اسی طرح الحافظ الجھبذعلامہ ابن حجر نےفتح الباری 10/97 میں ان سب سے موافقت کی ہے۔
۲۔معبد بن کعب بن مالک الانصاری السُلمی المدنی:۔
امام بخاری نے کتاب الرقاق (6512) میں بطریق اسماعیل ثنی مالک عن محمد بن عمرو بن حلحلۃ عن معبد بن کعب مالک عن ابی قتادۃ بن ربعی الانصاری اور (6513) بطریق مدد ثنا یحیی عن عبد ربہ بن سعید عن محمد بن عمرو بن حلحلۃ ثنی ابن کعب عن ابی کعب عن ابی قتادۃ اور امام مسلم نے کتاب الجنائز (950) میں بطریق قتیبہ بن سعید عن مالک بن انس عن محمد بن المثنی ثنا یحیی بن سعید (ح) ثنا اسحاق بن ابراہیم انا عبدالرزاق جمیعا عن عبداللہ بن سعید بن ابی ھند عن ممحمد بن عمرو عن ابن ٍ لکعب بن مالک عن ابی قتادۃ۔ حدیث مستریح او مستراح منہ۔۔۔ الحدیث روایت کی ہے۔
اور حافظ صاحب علیہ الرحمہ تقریب 2/199 میں فرماتے ہیں :
"معبد بن کعب بن مالک الانصاری السلمی بفتحتین المدنی مقبول من الثالثة۔"
اگرچہ ابن ابی حاتم نے الجرح والتعدیل میں اس کو ذکر کرنے کے بعد سکوت اختیار کیا ہے (8/279 (1279) لیکن ابن حبان نے اس کو ثقات (5/432 (5569) میں ذکر کیا ہے اور اپنی صحیح میں اس کی روایت کو جگہ دی ہے۔ اسی طرح امام العجلی نے معرفۃ الثقات (2/285 (1753) میں مدنی تابعی ثقہ کہا ہے۔
تو یہ بھی اس بات کا واضح ترین بیان ہے کہ معبد بن کعب الانصاری جس کو ابن حجر علیہ الرحمہ نے "مقبول" قرار دیا ہے اور وہ ابوقتادۃ سے روایت کرنے میں متفرد ہے اور اس کی متابعت بھی موجود نہیں ہے اور اس کو أئمہ حدیث نے ثقہ قراردیا ہے اور اپنی صحیحوں میں درف فرما کر اس امر کی وضاحت فرمائی ہے کہ "مقبول" کی جب متابعت نہ ہو تو بھی بسا اوقات حجت ہوتا ہے اور اس شخص کی تردید کی ہے جو مقبول کی عدم متابعت والی روایت کو رد کرنے پر مصر ہے۔
۳۔عوف بن حارث بن طفیل بن سخبرۃ بن جرثومۃ الازدی :۔
امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے کتاب الادب (6075) میں بطریق
ابوالیمان انا شعیب عن الزھری ثنی عوف بن مالک بن الطفیل ھو ابن الحارث وھو ابن اخی عائشة حدثت ان عبدالزبیر قال بیع او عطاء اعطتہ عائشة واللہ لتنتھین عائشة اولا حجرن علیہا۔۔۔ الحدیث
امام احمد فرماتے ہیں:
"شعیب عن الزھری ثنی عوف بن الحارث بن الطفیل وھو ابن اخی عائشة روج النبی ﷺ لامھا۔۔۔ الحدیث (4/327)
اور (4/327) میں ہی فرماتے ہیں
: الاوزاعی ثنا الزھری عن طفیل بن الحارث وکان رجلا من ازد شنوءۃ وکان اخا عائشة لامھا ام رومان۔۔۔ الحدیث
اسی طرح عبدالرزاق نے (8/444 (15851)، اور اسی سے احمد (4/327) اور ابن حبان نے (5662) معمر سے اور بخاری نے الادب المفرد (397) او رطحاوی نے مشکل الآثار (4240) دونوں نے عبدالرحمن بن خالد بن مسافر اور طبرانی نے کبیر 20/21، 23/24 میں معمر اور عبدالرحمن بن خالد اور عبیداللہ بن ابی زیادالرصافی سے اور بیہقی نے کبری 6/61) میں الرصافی سے تینوں۔ معمر ، ابن مسافر اور رصافی۔ نے زہری از عوف بن حارث بن الطفیل از عائشہ بیان کی ہے۔
یعنی زہری کے اصحاب نے زہری کے شیخ "ازدی" کے نام کے بارہ میں اختلاف کیا ہے اور معمر نے اس کا نام صحیح طور پر ضبط کیا ہے اور وہ زہری کی حدیث میں باقی تمام کی نسبت مقدم ہے۔ اس نے "عوف بن حارث بن طفیل" ہی کہا ہے۔ اور درست بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے۔
بہرحال حافظ ابن حجر علیہ الرحمۃ صحیح بخاری کے اس راوی کے بارہ میں بھی اپنی تقریب میں فرماتے ہیں: "مقبول من الثالثة" (1/433)
اور ذہبی نے "الکاشف" میں کہا ہے : "وُثق" (2/101)
اور بخاری اور ابن حبان کا اس کی روایت کو تفرد وعدم متابعت کے باوجود اپنی صحیح میں ذکر کرنا اس مقبول کی توثیق کے لیے مضبوط دلیل ہے۔
خاتمہ
یہ چند سطور رقم کرنے کا مقصد فقط ان لوگوں کے لیے دلائل مہیا کرنا تھا ۔ جو مقبول رواۃ کی احادیث کو فقط عدم متابعت کی پاداش میں رد کربیٹھے اور دیگر ائمہ ٔ جرح وتعدیل کی تصریحات کی طرف دھیان نہیں دیتے ۔
تو یہ چند حوالہ جات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب تقریب التھذیب میں جن رواۃ کو مقبول کہا گیا ہے وہ بسا اوقات ثقہ ثبت ہوتے ہیں اور حافظ صاحب علیہ الرحمہ فقط قلیل الحدیث ہونے کی وجہ سے ان کو مقبول قراردے دیتے ہیں جبکہ ان کی روایت تفرد و عدم متابعت کے باوصف حسن یا صحیح کے درجہ سے کم نہیں ہوتی ہے۔
ھذا واللہ تعالیٰ اعلم ورد العلم الیہ اسلم والشکر والدعاء لمن نبہ ارشد وقوم​
 
Top