• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ سعید سے ایک مکالمہ

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
حافظ سعید سے ایک مکالمہ
روزنامہ پاکستان، 17 جنوری 2016
کالم: مزمل سہروردی

پٹھانکوٹ کے بعد ملک میں بھارت کے حوالہ سے ایک عجیب سی فضا ہے۔ کیا ٹھیک ہے۔ کیا غلط ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ مبہم اطلاعات و معلومات نے سب کچھ دھندلا دیا ہے۔ ایسے میں جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کے ساتھ ایک طویل نشست کا موقع ملا۔ جس میں ان سے پاک بھارت تعلقات، کشمیر اور ملک کے مجموعی حالات پر کھل کر گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ میرا خیال تھا کہ پٹھانکوٹ کے واقعہ کے بعد حافظ سعید پریشان ہو نگے ۔ کیونکہ ممبئی کے بعد ان پر اور ان کی جماعت پر کافی سخت وقت آیا تھا۔ اور اب پٹھانکوٹ کے بعد ان پر پھر دوبارہ مزید سختی آسکتی ہے۔ لیکن وہ تو خوش تھے۔ مسکرا رہے تھے۔ اور ان پر کسی بھی قسم کا کوئی دباؤ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔


حافظ سعید سے بات شروع ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ کسی طرح میرا وزیر اعظم میاں نواز شریف تک یہ مشورہ پہنچا دیں کہ وہ بھارت کے معاملے پر اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں۔ ہم بھارت پر آنکھیں بند کر کے اعتبار نہیں کر سکتے۔ ہمیں بھارت کے حوالہ سے 1971 کو یاد رکھنا ہو گا۔ اور یہ نہیں بھولنا ہو گا کہ بھارت نے آج بھی 1971 کی پالیسی ترک نہیں کی۔ 1971 میں بھارت مشرقی پاکستان میں پاکستان کے خلاف سازش کر رہا تھا اور آج بلوچستان میں کر رہا ہے۔ لہذا بھارت کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت سے پہلے وہ فوج اور حساس اداروں سے ضرور مشاور ت کریں۔ اسی میں پاکستان کا مفاد ہے۔ میاں نواز شریف بھی ایک محب وطن سیاستدان اور پاکستان کی فوج بھی ایک محب وطن ادارہ ہے۔ اس لئے بھارت اور کشمیر پر پالیسی کے لئے دونوں کو ایک پیج پر ہونا چاہئے۔ میں نے کہا کہ یہ دونوں ایک پیج پر نہیں ہیں۔ وہ کہنے لگے ایک پیج پر ہیں۔ اور انہیں ایک پیج پر ہی رہنا چاہئے۔ بھارت کی پالیسی بغل میں چھری منہ میں رام رام کی ہے۔ جس کو پاک فوج سمجھتی ہے۔ ایسے میں پاک بھارت دوستی مجھے چلتی نظر نہیں آتی۔ اس کا بھارت کو بھی پتہ ہے۔


میں نے سوچا کافی ادھر اٗدھر کی بات ہو گئی ۔ لہذا میں نے کہا کہ پٹھانکوٹ پر آپ کا کیا رد عمل ہے۔ وہ کہنے لگے میں تو خاموش ہوں۔ نہ میں میاں نواز شریف اور نہ ہی کسی اور کے لئے کوئی مشکل پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ میں کچھ کہتا ہوں تو شور مچ جاتا ہے۔ ویسے بھی مجھ پر میڈیا میں پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ متحدہ جہاد کونسل اور حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلا ح الدین نے اس واقع کی خود ذمہ داری قبول کر کے پاکستان کے لئے معاملہ بہت آسان کر دیا ہے۔ اسی طرح شیخ جمیل الرحمٰن سیکر ٹری جنرل متحدہ جہاد کونسل نے بھی سید صلاح الدین کی تائید کر کے معاملہ مزید وا ضح کر دیا ہے ۔ اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اس ذمہ داری کو قبول کرنے میں جہاد کونسل میں کوئی اختلاف نہیں۔


میں نے کہا لیکن سید صلاح الدین کی ذمہ داری قبول کرنے کو بھارت نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ بھارت تو جیش محمد اور مولانا مسعود اظہر پر الزام لگا رہا ہے۔ حافظ سعید نے کہا کہ یہی تو بھارتی سازش ہے۔ بھارت کا اپنا ایجنڈہ ہے ۔ وہ کیسے سید صلاح الدین کی ذمہ داری قبول کرنے کو قبول کر سکتا ہے۔ اگر بھارت یہ مان لے کہ یہ کارروائی کشمیری تنظیموں کی ہے تو عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر ہو تا ہے۔ یہ سوال پیدا ہو جا تا ہے کہ بھارت کو اس قسم کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہئے۔ پھر اس کے ساتھ جب یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ کارروائی مقبوضہ کشمیر کی اندر کی تنظیموں نے کی ہے تو پاکستان آسانی سے بھارت کو کہہ سکتا ہے کہ یہ آپ کا اندر کا معاملہ ہے۔ اور بھارت کو اس بات کی سمجھ ہے کہ اگر وہ یہ مان لے کہ یہ کاروائی سید صلاح الدین کی ہے تو بھارت عالمی سطح پردفاعی پوزیشن پر چلا جا تا ہے۔ اس لئے بھارت سید صلاح الدین کے ذمہ داری قبول کرنے کو نہیں مان رہا۔ بھارت جیش محمد اور مولانا مسعود اظہر پر الزام اسی لئے لگا رہا ہے کہ پاکستان کو دباؤ میں لا سکے۔آپ نے ممبئی کے بعد اتنا کچھ کیا لیکن بھارت مُطمئن نہیں ہوا۔ حالانکہ وہ تمام اقدامات انصاف کے اصولوں کے مطابق نہیں تھے۔ اسی طرح پٹھانکوٹ کے بعد بھی آپ جو مرضی کر لیں بھارت خوش نہیں ہو گا۔


پاکستان اور بالخصوص میاں نواز شریف کو بھارت پر واضح کر دینا چاہئے کہ ہماری تحقیقات کے تحت یہ کارروائی مقبوضہ کشمیر کی جہادی تنظیموں نے کی ہے۔ اور بھارتی الزمات کو رد کر دینا چاہئے۔ سید صلاح الدین نے ذمہ داری قبول کر کے پاکستان کی نہ صرف مدد کی ہے بلکہ معاملہ آسان کر کے اس میں سے ابہام ختم کر دیا ہے۔


جب میں حافظ سعید سے بات کر رہا تھا تو وہ مجھے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے فلاحی کاموں کے بارے میں تفصیل سے بتا رہے تھے۔ ان کو گلہ تھا کہ ان کی تنظیم اتنے زیادہ فلاحی کام کر رہی ہے لیکن میڈیا ان سے چشم پوشی کرتا ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ ابھی چترال میں ان کی تنظیم نے کتنا بڑا فلاحی آپریشن کیا ہے۔ زلزلہ میں کام کیا۔ سیلاب میں کام کیا۔ لیکن کوئی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا نام ہی نہیں لیتا۔ انہیں میڈیا کی ایسی خبروں پر بھی افسوس تھا جن میں فلاح انسانیت فاؤنڈ یشن پر پابندی کی بات کی گئی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ جب آپ عوام کی فلاح کرنے پر بھی پابندی لگا دیں گے تو اس سے معاشرہ میں کوئی بہتری نہیں ہو گی۔


اسی طرح ان کو یہ بھی گلہ ہے کہ داعش کے جو لوگ پنجاب سے گرفتار ہوئے ان کے بارے میں میڈیا جھوٹا پراپیگنڈا کر رہا ہے کہ ان کا جماعت الدعوۃ سے کبھی تعلق رہا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ لوگ کبھی جماعت الدعوۃ سے منسلک نہیں رہے۔ انہیں اس بات پر بھی افسوس تھا کہ پیمرا نے میڈیا پر ان پر ناجائز پابندیاں لگا دی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اور ان کی جماعت اب میڈیا میں اپنی وضاحت بھی پیش نہیں کر سکتی۔ ان کا موقف تھا کہ یک طرفہ جھوٹا پراپیگنڈا ملک کے مفاد میں بھی نہیں۔
 
Top