کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
حافظ عبدالجبار شاکر
حافظ عبدالجبار شاکر صاحب پاکستان کے ان چند علما میں شمار ہوتے ہیں جو جہاد اور طاغوت کو کھل کر بیان کرتے ہیں آپ نے اپنی دینی تعلیم سعودی عرب مدینہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد سعودی عرب سے ہی اپنی دعوت کا آغاز کیا۔ اور سعودی عرب میں جہاد اور طاغوت کو بلا کسی خوف خطر کھل کر بیان کیا۔ لیکن ایسی دعوت سعودی حکومت کیسے برداشت کرتی فورا ہی سعودی حکومت نے الشیخ صاحب کو پابند سلاسل کر کے اذیت کا نشانہ بنایا پھر کچھ مدت بعد سعودی عرب سے نکال دیا گیا۔
الشیخ صاحب نے پاکستان آ کر جماعت الدعوہ کے پلیٹ فارم کو چنا اور پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں جہاد کی دعوت کو عام کرنے لگے لیکن جلد ہی ان کو احساس ہو گیا کہ وہ اس جماعت میں کام کرر ہے ہیں جو ان کے منہج کے بالکل خلاف ہے اور طاغوت کی غلام جماعت ہے۔ اور ان کا جہاد فی سبیل اللہ نہیں بلکہ جہاد فی سبیل الطاغوت ہے۔ یہ حقیقت واضح ہوتے ہی الشیخ صاحب نے جماعت الدعوہ کو چھوڑ دیا اور انفرادی طور پر سیالکوٹ میں ہی رہ کر اپنی دعوت کو آگے بڑھانے لگے جس پر سینکڑوں لوگوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا، آہستہ آہستہ یہ تعداد ہزاروں میں بدل گئی لوگ جماعت الدعوہ کو چھوڑ چھوڑ کر الشیخ کی دعوت پر لبیک کہ رہے تھے۔ جہاد فی سبیل اللہ اور طاغوت کے بارے میں ایسی آگہی جماعت الدعوہ کو کیسے گوارا ہو سکتی تھی؟
نتیجتاً جماعت الدعوہ کی مدد سے پاکستان کی خفیہ ایجنسیز نے الشیخ صاحب کو اغوا کر لیا اور بہت زیادہ تشدد کیا گیا اور حق بیان کرنے سے منع کیا گیا۔ لیکن یہ سب دیکھ کر الشیخ صاحب کے جیالے کیسے خاموش رہ سکتے تھے سینکڑوں نوجوان سیالکوٹ تھانہ میں پہنچ گئے اور تھانے کا گھیراؤ کر لیا اور عبدالجبار شاکر صاحب کی رہائی کے کیلیے اپنی جانیں دینے تک کے عہد کیے اور پھر انتظامیہ ان کے جذبات دیکھتے ہوے شدید دباو میں آ گئی۔ جس پر انتظامیہ نے ان نوجوانوں کو ایک دو دن میں الشیخ صاحب کو رہا کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ جس پر سب جوان واپس آگئے اور ان کی محنت رنگ لے آئی اور عوامی جنون کو دیکھتے ہوئے حکومت کو الشیخ صاحب کو رہا کرنا پڑا اور الحمدللہ الشیخ صاحب ایک مرتبہ پھر آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے تھے۔ الشیخ صاحب آرام سے بیٹھنے والے کہاں تھے آتے ہی اپنے اوپر کیئے گئے تشدد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دعوت کا کام پھر سے شروع کر دیا اور جماعت الدعوہ کو منہ کی کھانا پڑی۔
وقت گزرتا گیا اور جماعت الدعوہ الشیخ کے خلاف مختلف پروپیگنڈے کرتی رہی کبھی تکفیری کا لیبل تو کبھی خارجی کا لیبل لیکن الشیخ صاحب ایسے لیبلز سے گھبرانے والے نہیں تھے انہوں نے پورے شہر میں کانفرنسز شروع کر دیں اور اپنی دعوت کے کام کو اور تیز کر دیا شہر کے تاجروں نے کھل کر الشیخ صاحب کی ہر ممکن مدد کی ان تاجروں میں حافظ محمد وقاص سرفہرست ہے۔
اسی دوران تاجروں نے آپ کے عمرہ کرنے کا انتظام کیا اور کاغذی کاروائی مکمل کر لی۔ لیکن سعودی حکومت اللہ کے اس شیر سے اتنا خائف تھی کہ اپنے ملک میں آنے سے روک دیا اور پاکستانی حکام سے کہا کہ الشیخ صاحب کو اپنے ملک میں آنے کی ہر گز اجازت نہیں دے سکتے اور حکومت نے جماعت الدعوتہ کے پڑوپوگینڈے کی بدولت شیح صاحب کا نام ecl میں ڈال دیا۔ اس سب کا مقصد ایک ہی تھا کہ شیخ صاحب کو اتنا دباو ڈالا جاے کہ یہ منہج بیان ہی نہ کر سکیں۔ صورتحال دیکھتے ہوئے الشیخ صاحب نے عمرہ کا ارادہ ترک کیا اور اپنے دعوتی مشن کو جاری رکھا۔
وقت گزرتا گیا اور جماعت الدعوہ کی شر انگیزیاں اپنے عروج کو پہنچنے لگیں وہ الشیخ صاحب کی اس دعوت کو روکنے کے لیئے ہر ممکن طریقہ استعمال کرنا چاہتے تھے انہوں نے الشیخ صاحب کے قریبی ساتھیوں کو دھمکی آمیز پیغامات ارسال کرنا شروع کر دیئے جس میں ایجنسیز کو پکڑوانے کی دھمکیاں تو سر فہرست تھیں لیکن الشیخ صاحب کے لوگ ایسی دھمکیوں سے کہاں ڈرنے والے تھے؟ دو تین بار تو جماعت الدعوہ کے ساتھ الشیخ کے ساتھیوں کی جھڑپیں بھی ہوئیں جس پر جماعت الدعوہ نے حق کو روکنے کے لیئے ایک نئی فورس بنا ڈالی جس کا نام جرار فورس تھا جس کا کام اھل حق کی مخبریاں کرنا اور ان کو مختلف طریقوں سے تنگ کرنا تھا۔ لیکن یہ بھی الشیخ کی دعوت کو روکنے میں ناکام ہی رہی۔
جب جماعت الدعوہ کو سب حربے ناکام ہوتے نظر آئے تو ان کے پاس اب ایک ہی حربہ رہ گیا تھا وہ تھا '' پاکستان کی خفیہ ایجنسیز''
خود خفیہ ایجنسیز کو الشیخ کی دعوت بہت چبھتی تھی اب انکے پاس ایک ہی راستہ تھا وہ یہ کہ الشیخ کو کسی طریقے سے انڈیا کا ایجنٹ اور دہشت گرد ثابت کر کے غائب کر دیا جائے اور ان کے دعوتی پروگرامز ختم کر دئے جائیں
چنانچہ انہوں نے اپنے اس فارمولے کو عملی جامہ پہنا ہی دیا اور الشیخ کو ان کے ایک تاجر ساتھی حافظ محمد وقاص سمیت اغوا کر لیا۔
ح
تین اہلحدیث علماء ابھی تک لاپتہ
جماعۃ الدعوۃ کا اجتماع