- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
حضرت حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ و متعنا بطول حیاتہ کے فرزند ارجمند ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے والد گرامی مدنی صاحب کے ساتھ ایک نشست کا تذکرہ کیا ہے، اس سلسلے میں ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے متعدد پیغامات واٹس ایپ مجموعہ مجلس التحقیق الاسلامی میں بھیجے تھے ، بطور ریکارڈ یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت مولانا عبد الغفار روپڑی اور مولانا عبد الوہاب روپڑی حفظہما اللہ کی والدہ محترمہ کی وفات کی تعزیت کے لئے والد گرامی دو روز قبل برادر عزیز حافظ حمزہ مدنی اور راقم کے ساتھ مسجد قدس لاہور میں تشریف لے گئے، اس موقع پر تین گھنٹے کی نشست میں روپڑی علما کے حوالے سے بہت سی یاد گار باتیں ہوئیں۔ والد گرامی نے بتایا کہ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی بڑی عمر کے باعث جنات نکالنے کے لئے ان کو بھی بلا لیا کرتے، آخری عمر میں جب والد گرامی کو بلایا تو پہلے محدث روپڑی نے ان پر دعا پڑھی پھر کہا کہ مریض کی دونوں ٹانگیں یا بازو اکٹھے نہ ہونے دینا، وگرنہ جن مار پڑنے پر نکلنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ یہ نکتہ جان کر حافظ عبد الوہاب روپڑی بھی بڑے متعجب ہوئے۔ سو والد گرامی بتاتے ہیں کہ حافظ محدث روپڑی نے مریض کے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور میرا فرض اس کو پیٹنا تھا، جو میں نے خوب نبھایا۔ والد محترم نے ایک اور واقعہ یہ بتایا کہ مولانا سید داود غزنوی رحمہ اللہ کی وفات کی خبر جان پر محدث روپڑی اس قدر غمگین ہوئے کہ گھنٹوں سر نہ اٹھایا، وہ ان کی خدمات کے بہت قدر دان تھے۔ اسی سال مسجد قدس سے وہ اولین تین طلبہ مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب میں تعلیم حاصل کرنے گئے، جن میں شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی، مولانا عبد السلام کیلانی اور والد گرامی شامل تھے، مدینہ منورہ میں اس وقت لالٹین اور چراغوں کا وقت تھا۔ اس وقت مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ ابن باز اور شیخ عبد المحسن عباد مدیر التعلیم تھے۔ ان طلبہ کی روانگی کے موقع پر مسجد قدس میں اس وقت کے ممتاز علما کو جمع کیا گیا جن میں محدث گوندلوی، سید مودودی اور دیگر نامور شخصیات شامل تھیں۔ اس موقع پر محدث گوندلوی رحمہ اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ محدث روپڑی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ہر علم کی تعلیم اس علم کے امام سے حاصل کی ہے۔
والد محترم نے بتایا کہ 1932 میں مولانا شریف گھڑیالوی کی قیادت میں پنجاب میں ’تنظیم اہل حدیث‘ کا قیام عمل میں آیا، جس کا دفتر گوجرانوالہ میں قائم ہوا تھا، اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑی اس دفتر کے ناظم اور اس تنظیم کے رسالے تنظیم اہل حدیث کے مدیر ہوئے۔ یہ تنظیم اہل حدیث سراسر شرعی امارت کے نظام پر قائم تھی، اور اس کے اراکین میں مولانا سید داود غزنوی اور مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہم اللہ شامل تھے۔ یہ چیز ان دونوں بزرگوں کی شرعی نظام امارت سے گہری وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔
والد محترم نے بتایا کہ ان کے عم زاد حافظ عبد القادر روپڑی رحمہ اللہ ان سے پچیس سال بڑے تھے، اور انہوں نے ان کی معیت ورہنمائی میں لمبا عرصہ کام کیا۔ شریعت بل کے معاملے پر 1986ء میں حاقظ عبد القادر روپڑی رحمہ اللہ اور علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ کے مابین مناظرہ طے پایا۔ جس میں جب حضرت علامہ صاحب نے شرکت سے معذرت کرلی تو مولانا روپڑی نے والد محترم کو اس مناظرہ میں اپنی نیابت کے لئے سیالکوٹ بھیجا، جہاں پروفیسر مطیع الرحمن صاحب کی مسجد میں شریعت بل پر یہ مناظرہ والد گرامی اور پروفیسر ساجد میر حفظہم اللہ کے درمیان ہوا۔ اس موقع پر والد گرامی کے ساتھیوں میں ان کے ہمراہی پروفیسر حافظ محمد سعید، پروفیسر ظفر اقبال، حاقظ عبد الوہاب روپڑی اور مولانا خالد سیف شہید وغیرہ شامل تھے۔ اس مباحثے میں 5 6 نکات پر پروفیسر ساجد میر صاحب کامیاب وضاحت نہ کرسکے۔ پھر ان نکات کی تفصیل بھی انہوں نے بیان کی۔(1)
انہوں نے بیان کیا کہ روپڑی خاندان کا آغاز ان کے دادا مولانا روشن دین رحمہ اللہ سے ہوتا ہے چو گوجرانوالہ کے قریب ایمن آباد کے رہائشی تھے، لیکن شاہ اسمعیل کی تحریک مجاہدین سے تعلق کے بعد بچتے بچاتے امرتسر اور روپڑ کو ہجرت کرگئے۔ مولانا روشن دین لکھوی خاندان (غالبا مولانا محمد لکھوی رحمہ اللہ) کے شاگرد تھے۔ پھر مولانا روشن دین کے بیٹے حافظ عبد اللہ روپڑی نے اپنے خاندان میں اس مقدس فرض کو نبھایا اور اپنے بھائی، بھتیجوں کے ہمراہ اس کو پورے خاندان کی روح بنا دیا۔ حافظ محدث روپڑی نے مولانا عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ بتاتے ہیں کہ مسجد قدس میں جمعہ کی ذمہ داری یوں ہوتی کہ حافظ اسمعیل روپڑی، حافظ عبد القادر روپڑی، ان کے والد گرامی حافظ محمد حسین روپڑی، اور پھر سب کی غیر موجودگی میں خود محدث روپڑی... اب اپنے سب عزیزوں کو مناظروں اور مباحثوں میں دلائل فراہم کرتے اور ان کی سرپرستی کیا کرتے۔
یہ بات میں والد محترم سے پوچھ کر بتا سکتا ہوں، تاہم 1932 سے 1944 تک کی تنظیم اہل حدیث کی فائلیں راقم کے پاس محفوظ ہیں جنہیں حافظ محدث روپڑی خود ترتیب دیا کرتے ، ان کی اکثر تحریریں اسی دور میں چپھیں۔ اس کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
اہل حدیث میں سعودی شاہی خاندان سے سب سے قریبی تعلق غزنوی خاندان کے مولانا محمد اسمعیل غزنوی کا تھا، جنہوں نے 1927 میں غلاف کعبہ بنا کر براستہ بمبئی مکہ مکرمہ بھیجا۔ والد محترم نے بتایا کہ مولانا غزنوی کی بہن ملک عبد العزیز کے نکاح میں آئیں، جن سے دو سعودی شہزادے بھی تولد ہوئے۔ مولانا غزنوی چونکہ مولانا روپڑی کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے تھے، وہاں سے یہ تعلقات حاقظ عبد اللہ محدث روپڑی کو ملے۔ حاقظ عبد اللہ روپڑی تصوف کے شدید ناقد تھے، تاہم بیعت کرلیا کرتے۔ جس پر ان کے بھائی حافظ محمد حسین روپڑی ان سے شکوہ کناں رہتے تو کہا کرتے کہ میں اس بنا پر بیعت کرتا ہوں کہ یہ کسی اور کی جا کر بیعت کریں گے، اس لئے مجبوری کی بنا پر کرتا ہوں۔ یہی صورت حال تعویذ کی تھی، جس پر بھی ان کے بھائی محمد حسین متفق نہ تھے۔
حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کے چھوٹے بھائی جو عالم دین تھے، ان کا نام حافظ عبد الرحمن روپڑی تھا۔ انہوں نے ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں 1947 میں مسجد بنائی اور آج بہی انہی کا خاندان (پوتا جواد) اس مسجد کا متولی ہے۔ دوسرے میرے والد محترم حافظ عبد الرحمن ہیں، جو پہلے امرتسری، پھر روپڑی پھر مدینہ یونیورسٹی سے تعلیم کی بنا پر مدنی کہلاتے ہیں۔ والد محترم ان کے چھوٹے بھائی حافظ محمد حسین روپڑی (شیخ الحدیث مدرسہ تقویہ الاسلام) کے بیٹے ہیں۔
اپ آپ دلچسپی لیتے ہیں(2)، تو زیر بحث مسائل بھی عرض کرتا ہوں: ایک سوال یہ پیدا ہوا کہ اصول فقہ کی تعلیم کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اس پر والد گرامی نے کہا کہ اس پر پہلی کتاب امام شافعی کی ہے، پھر ابن حزم کی، پھر مجد بن تیمیہ کی المسودہ، پھر نواب صدیق حسن خاں کی، پھر شاہ اسمعیل شہید کی، پھر مولانا ثناء اللہ امرتسری کی۔ اور حرمت علیکم أمهاتكم ہو یا ربائبکم التی ، ان دونوں کے شرعی مفہوم کو اصول فقہ میں دلالت کے قواعد کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔
ایک سوال یہ پیدا ہوا کہ شریعت بل میں جس شق پر پروفیسر ساجد میر صاحب کا اختلاف تھا، اس کو ان کے قریبی عزیز مولنا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کے دستخط سے پہلے ہی علما کے 22 نکات میں شامل کیا جاچکا تھا۔ والد گرامی نے کہا کہ وہ شق جب وہاں مولانا سیالکوٹی کو منظور ہے تو یہاں درست کیوں نہیں۔ ( والد گرامی نے بتایا کہ درحقیقت علما کے 22 نکات میں مولانا سیالکوٹی کا نام غلط طور پر ہفت روزہ الاسلام لاہور میں شائع کیا گیا تھا، جبکہ درحقیقت وہ دستخط کرنے والوں میں شامل نہیں تھے۔ تاہم جب الاسلام میں موجود تھا، تو اس سے پروفیسر ساجد میر صاحب کیسے گریز کرتے۔ )
جب یہ اور ایسے سوالات کے جوابات پروفیسر صاحب نے بن نہ پڑے تو ان کے سپورٹرز کہنے لگے کہ مسئلہ دلائل کا نہیں، مدارس کے مستند علم کا ہے۔(3)
والد گرامی نے مسجد قدس لاہور کی اس مجلس میں اپنے والد حافظ محمد حسین روپڑی کی اس مسجد کی تعمیر میں عظیم خدمات کا تذکرہ کیا۔ کہنے لگے کہ اس مسجد قدس کا آغاز 1949 میں، اور اس مدرسہ اہل حدیث کا آغاز 1954ء میں ہوا۔ روپڑی ثنائی نزاع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علاقے کے گجر برادری نے اپنا دوسرا اہل حدیث امام کھڑا کردیا اور محدث روپڑی پر تاخیر سے نماز کے لئے آنے کا الزام عائد کیا۔ جس پر حافظ محمد حسین روپڑی کہنے لگے کہ امامت ہم ہی کریں کے، اور میں اس فرض کو بروقت نبھاؤں گا، اگر کسی کو ہمت ہے تو امامت کرکے دکھائے۔ اس موقع پر 1949ء میں ہونے والی شدید لڑائی میں گجر برادری نے دادا مرحوم کے سر میں کلہاڑی مار کران کو بے پناہ زخمی کیا، مقدمہ کے انتظار کی بنا پر ان کا بے پناہ خون بہا، اور یہی خون کا ضیاع ان کی موت پر منتج ہوا۔ پھر ان کی صحت سنبھل نہ سکی۔
روپڑ میں قائم اہل حدیث مسجد کے لئے بھی محدث روپڑی نے دادا محترم کی ذمہ داری لگائی اور اس مسجد کو انہوں نے بریلوی قابضین سے چھڑایا۔ کیونکہ دادا جان ایک مستند عالم اور اصول وقواعد کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ بے پناہ جسمانی طاقت کے مالک تھے، جس کے بہت سے قصے خاندان میں معروف ہیں۔ جب حافظ عبد الغفار روپڑی اور حافظ عبد الوہاب روپڑی کے والد بھویا آصل میں چلے گئے تو وہاں اپنی زمینوں کے حصول کے لئے علاقائیی میو برادری سے دادا جان نے ہی انہیں قبضہ حاصل کرکے دیا۔
روپڑی علما، اپنے بزرگ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کی قیادت میں ایسے متفق ومتحد تھے کہ ان کے علم وفضل اور جلالت شان کے آگے سب بچھ بچھ جاتے۔ والد گرامی نے بتایا کہ محدث روپڑی اپنے جسم اور قد میں چھوٹے تھے، (اور امام بخاری کا قد اور جسامت بھی بڑی نہ تھی) لیکن ان کے علم وفضل کی کوئی انتہا نہ تھی۔ جب موجود ہوتے تو خود ہی نماز پڑھاتے۔ آخری ایام میں والد محترم ان کو اٹھا لایا کرتے(4) اور ان کے جوتے اتارنے میں پہل کرتے۔ ایک بار غلطی سے دایاں جوتا پہلے اتار دیا تو محدث روپڑی منہ سے نہ بولے لیکن بار بار بائیں پاؤں کو آگے کرتے۔ آخرکار والد گرامی کو اپنی ترتیب درست کرنا پڑی۔ کہتے ہیں کہ محدث روپڑی کے اس اصرار نے ہمیشہ اتباع سنت میں ان کی بہت اصلاح کی۔
والد گرامی نے بتایا کہ شیخ الاسلام مولانا امرتسری اور مولانا محدث روپڑی رحمہم اللہ کے مابین بہت سے مسائل میں علمی مباحثے ہوئے تھے، جن کا آغاز دراصل مولانا محمد حسین بٹالوی رح سے ہوا تھا۔ امارات والے مولانا عبد الرؤف کے دادا مولانا اشرف سندھو مسجد قدس میں ہی رہا کرتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بیت اللہ الحرام میں ایک بار محدث روپڑی کو دیکھا کہ مولانا امرتسری کے لئے دعائیں اور زارو قطار التجائیں کر رہے ہیں، تو مولانا سندھو حیران ہو اٹھے کہ آپ نے تو بہت سا وقت ان سے مباحثوں میں گزارا تو پھر یہ کیسے؟ فرمانے لگے: کہ میں انہیں عظیم دینی خدمات انجام دینے والا اپنا مسلمان بھائی سمجھتا ہوں اور وہ میری بہترین دعاؤں کے مستحق ہیں۔ یہ تھے ہمارے اسلاف جو اخلاص کا پیکر تھے۔
محدث روپڑی کی اوائل عمری میں لکھی کتاب ’درایتِ تفسیری‘ کو ہمارے دادا جان بطور نصیحت اپنی اولاد کو کہہ گئے کہ اس کو اپنے اوپر لازم کرلینا۔ ہمارے والد گرامی نے مجھے اور برادر عزیز حافظ حمزہ مدنی کو بارہا کہا کہ اس کتاب کو یوں ترتیب دو کہ اس سے ثنائی روپڑی نزاع نکل جائے اور صرف علمی مسائل ہی باقی رہ جائیں۔ برادر عزیز نے بارہا یہ کتاب سبقا سبقا پڑھائی، ان شاء اللہ وہ وقت بھی آئے گا جب والد گرامی کی اس مبارک خواہش کو پورا کرنے کی اللہ کریم ہم بھائیوں کو توفیق دے گا۔
تین روز پہلے کی مجلس میں والد گرامی نے حنفیہ سے فاتحہ خلف الامام پر ایک بڑے مناظرہ کا حال بھی سنایا جو جامعہ اشرفیہ کے نامور شیخ الحدیث مولانا ادریس کاندھلوی کی زیر صدارت ہوا۔ اس میں سب روپڑی علما اکٹھے تھے۔ حنفیہ کہنے لگے کہ مولانا عبد القادر روپڑی ہم سے مناظرہ نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے پاس مولوی فاضل کی سند نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر دادا جان حافظ محمد حسین آگے بڑھے۔ حنفیہ نے مرکزی شرط یہ رکھی کہ صحاح ستہ سے ہی استدلال ہوگا۔ دادا جان مرحوم بولے: صحاح ستہ سے نہیں بلکہ صرف بخاری شریف سے۔ دادا جان اصول وقواعد کے بہت پختہ عالم تھے اور کڑی گرفت کرتے تھے۔ انہوں نے لا صلاۃ سے یہ ثابت کیا نماز کی کوئی جنس ہی معتبر نہیں، فاتحہ کے بغیر اور اس نکتہ سے حنفیہ کو گھنٹوں آگے نہ جانے دیا اور جواب کا مطالبہ بھی صحیح بخاری سے ہی کیا۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ حنفیہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا، آخر نماز عصر کا وقت ہوگیا تو روپڑی علما نماز کو کھڑے ہوئے پیچھے حنفیہ نے تانگہ منگوا کر کتابیں رکھیں اور اس پر اپنی راہ لی۔
دادا جان حافظ حمد حسین روپڑی علیہ الرحمہ نے لمبی عمر نہ پائی، تمام اولاد چھوٹی تھی کہ دنیا سے تشریف لے گئے۔ صرف والد محترم کو خود پڑھا سکے اور کہا کہ باقی کو تم پڑھا دینا، سو محدث روپڑی ان کی وفات کے بعد اپنے چھوٹے بھائی کے گھر میں باقاعدگی سے صبح آتے اور سب خواتین کو پانچ سال پڑھاتے رہے، پھر وہ بھی وفات پاگئے۔ جب دادا جان کا آخری وقت قریب تھا تو کسی نے ان سے اپنی اولاد کے لئے وصبت کو کہا تو بولے: ’’اگر یہ تیکی کے رستے پر رہے تو اللہ ان کی نگہبانی کو کافی ہے ( واللہ یتولی الصالحین) اور اگر غلط راستے پر چل نکلے تو میرا ان سے کیا رشتہ اور ایسے ظالموں کو میری کیا نصیحت۔‘‘ وہ دینی علم کو ترک کردیتا لا ینال عہدی الظالمین کے تحت اپنی اولاد کے لئے ناجائز اور ظلم سمجھتے تھے۔ بعد میں جب مجھے السیاسۃ الشرعیہ لابن تیمیہ پڑھنے پڑھانے کا اتفاق ہوا تو اس کے پہلے باب میں ہو بہو یہی نصیحت سیدنا عمر بن عبد العزیز کی اپنی اولاد کے نام موجود ہے۔ اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ہمیں ان کے نیک نقش قدم پر چلائے۔
والد گرامی کبھی کبھی مجلسی موڈ میں ہوں تو خود ہی یادیں سنا دیتے ہیں، مطالبہ کرنے پر کبھی کچھ نہیں بتاتے۔(5) اسی لئے جتنی مل گئیں اتنی یہاں محفوظ کررہا ہوں، کل کلاں یہاں سے ہی محفوظ ہوں گی۔ ان شاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) یہاں پر مولانا ابو عمار ظہیر سعیدی صاحب نے یہ تائیدی پیغام بھیجا کہ ’ جب یہ مناظرہ ہوا تھا اس وقت ہم جامعہ رحمانیہ پڑھا کرتے تھے.استاذ مکرم حفظہ اللہ نے ہمیں اس مناظرے کی روئیداد بھی سنائی تھی۔‘
(2) کیونکہ اہل مجموعہ نے سابقہ پیغامات پر اچھے جذبات کا اظہار کیا تھا ۔
(3)یہاں حافظ شاہد محمود صاحب آف گوجرانوالہ نے یہ تبصرہ کیا ’ اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے آپ کی ان تحریروں میں بہت مفید معلومات ہیں لیکن یہ حصہ شائد اس قدر تدقیق سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی دوسرا شخص ان تفصیلات میں فریق ثانی کے بیان و توضیح کی ضرورت بھی محسوس کرے گا تو بات دوسرا رنگ اختیار کر سکتی ہے،اس لیے ان تفصیلات کو ترک کر دیں ‘ ، ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے اس بات سے اتفاق کا اظہار کیا ۔
(4) محدث روپڑی رحمہ اللہ کے آخری ایام کے متعلق یہ بات ہم نے آپ کے ایک اور شاگرد رشید حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ سےبھی سنی ہے ۔ خضر حیات
(5) اس آخری پہرے کی مناسبت ، ڈاکٹر فیض الابرار صاحب کے اس سے پہلے آنے والا پیغام سے سمجھ آئے گی ، انہوں نے کہا تھا :’ بارک اللہ فی علمکم ،اگر روپڑی خاندان کے شجرہ نسب کو مکمل طور پر بیان کر دیا جائے تو بہت مفید معلومات ہوں گی
ویسے روپڑی خاندان کی خدمات کو محفوظ کرنا یہ آپ لوگوں پر قرض ہے اسے جلد از جلد ادا کیجیے تاکہ محفوظ ہو جائے ‘
اسی مناسبت سے اسحاق بھٹی صاحب کی تصنیف ’ روپڑی علمائے حدیث ‘ کا بھی تذکرہ ہوا ، جو کہ مطبوع ہے ، البتہ حسن مدنی صاحب کا کہنا تھا کہ اوپر بیان کردہ اہم یاداشتیں اس کتاب میں نہیں آسکیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت مولانا عبد الغفار روپڑی اور مولانا عبد الوہاب روپڑی حفظہما اللہ کی والدہ محترمہ کی وفات کی تعزیت کے لئے والد گرامی دو روز قبل برادر عزیز حافظ حمزہ مدنی اور راقم کے ساتھ مسجد قدس لاہور میں تشریف لے گئے، اس موقع پر تین گھنٹے کی نشست میں روپڑی علما کے حوالے سے بہت سی یاد گار باتیں ہوئیں۔ والد گرامی نے بتایا کہ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی بڑی عمر کے باعث جنات نکالنے کے لئے ان کو بھی بلا لیا کرتے، آخری عمر میں جب والد گرامی کو بلایا تو پہلے محدث روپڑی نے ان پر دعا پڑھی پھر کہا کہ مریض کی دونوں ٹانگیں یا بازو اکٹھے نہ ہونے دینا، وگرنہ جن مار پڑنے پر نکلنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ یہ نکتہ جان کر حافظ عبد الوہاب روپڑی بھی بڑے متعجب ہوئے۔ سو والد گرامی بتاتے ہیں کہ حافظ محدث روپڑی نے مریض کے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور میرا فرض اس کو پیٹنا تھا، جو میں نے خوب نبھایا۔ والد محترم نے ایک اور واقعہ یہ بتایا کہ مولانا سید داود غزنوی رحمہ اللہ کی وفات کی خبر جان پر محدث روپڑی اس قدر غمگین ہوئے کہ گھنٹوں سر نہ اٹھایا، وہ ان کی خدمات کے بہت قدر دان تھے۔ اسی سال مسجد قدس سے وہ اولین تین طلبہ مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب میں تعلیم حاصل کرنے گئے، جن میں شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی، مولانا عبد السلام کیلانی اور والد گرامی شامل تھے، مدینہ منورہ میں اس وقت لالٹین اور چراغوں کا وقت تھا۔ اس وقت مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ ابن باز اور شیخ عبد المحسن عباد مدیر التعلیم تھے۔ ان طلبہ کی روانگی کے موقع پر مسجد قدس میں اس وقت کے ممتاز علما کو جمع کیا گیا جن میں محدث گوندلوی، سید مودودی اور دیگر نامور شخصیات شامل تھیں۔ اس موقع پر محدث گوندلوی رحمہ اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ محدث روپڑی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ہر علم کی تعلیم اس علم کے امام سے حاصل کی ہے۔
والد محترم نے بتایا کہ 1932 میں مولانا شریف گھڑیالوی کی قیادت میں پنجاب میں ’تنظیم اہل حدیث‘ کا قیام عمل میں آیا، جس کا دفتر گوجرانوالہ میں قائم ہوا تھا، اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑی اس دفتر کے ناظم اور اس تنظیم کے رسالے تنظیم اہل حدیث کے مدیر ہوئے۔ یہ تنظیم اہل حدیث سراسر شرعی امارت کے نظام پر قائم تھی، اور اس کے اراکین میں مولانا سید داود غزنوی اور مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہم اللہ شامل تھے۔ یہ چیز ان دونوں بزرگوں کی شرعی نظام امارت سے گہری وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔
والد محترم نے بتایا کہ ان کے عم زاد حافظ عبد القادر روپڑی رحمہ اللہ ان سے پچیس سال بڑے تھے، اور انہوں نے ان کی معیت ورہنمائی میں لمبا عرصہ کام کیا۔ شریعت بل کے معاملے پر 1986ء میں حاقظ عبد القادر روپڑی رحمہ اللہ اور علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ کے مابین مناظرہ طے پایا۔ جس میں جب حضرت علامہ صاحب نے شرکت سے معذرت کرلی تو مولانا روپڑی نے والد محترم کو اس مناظرہ میں اپنی نیابت کے لئے سیالکوٹ بھیجا، جہاں پروفیسر مطیع الرحمن صاحب کی مسجد میں شریعت بل پر یہ مناظرہ والد گرامی اور پروفیسر ساجد میر حفظہم اللہ کے درمیان ہوا۔ اس موقع پر والد گرامی کے ساتھیوں میں ان کے ہمراہی پروفیسر حافظ محمد سعید، پروفیسر ظفر اقبال، حاقظ عبد الوہاب روپڑی اور مولانا خالد سیف شہید وغیرہ شامل تھے۔ اس مباحثے میں 5 6 نکات پر پروفیسر ساجد میر صاحب کامیاب وضاحت نہ کرسکے۔ پھر ان نکات کی تفصیل بھی انہوں نے بیان کی۔(1)
انہوں نے بیان کیا کہ روپڑی خاندان کا آغاز ان کے دادا مولانا روشن دین رحمہ اللہ سے ہوتا ہے چو گوجرانوالہ کے قریب ایمن آباد کے رہائشی تھے، لیکن شاہ اسمعیل کی تحریک مجاہدین سے تعلق کے بعد بچتے بچاتے امرتسر اور روپڑ کو ہجرت کرگئے۔ مولانا روشن دین لکھوی خاندان (غالبا مولانا محمد لکھوی رحمہ اللہ) کے شاگرد تھے۔ پھر مولانا روشن دین کے بیٹے حافظ عبد اللہ روپڑی نے اپنے خاندان میں اس مقدس فرض کو نبھایا اور اپنے بھائی، بھتیجوں کے ہمراہ اس کو پورے خاندان کی روح بنا دیا۔ حافظ محدث روپڑی نے مولانا عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ بتاتے ہیں کہ مسجد قدس میں جمعہ کی ذمہ داری یوں ہوتی کہ حافظ اسمعیل روپڑی، حافظ عبد القادر روپڑی، ان کے والد گرامی حافظ محمد حسین روپڑی، اور پھر سب کی غیر موجودگی میں خود محدث روپڑی... اب اپنے سب عزیزوں کو مناظروں اور مباحثوں میں دلائل فراہم کرتے اور ان کی سرپرستی کیا کرتے۔
یہ بات میں والد محترم سے پوچھ کر بتا سکتا ہوں، تاہم 1932 سے 1944 تک کی تنظیم اہل حدیث کی فائلیں راقم کے پاس محفوظ ہیں جنہیں حافظ محدث روپڑی خود ترتیب دیا کرتے ، ان کی اکثر تحریریں اسی دور میں چپھیں۔ اس کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
اہل حدیث میں سعودی شاہی خاندان سے سب سے قریبی تعلق غزنوی خاندان کے مولانا محمد اسمعیل غزنوی کا تھا، جنہوں نے 1927 میں غلاف کعبہ بنا کر براستہ بمبئی مکہ مکرمہ بھیجا۔ والد محترم نے بتایا کہ مولانا غزنوی کی بہن ملک عبد العزیز کے نکاح میں آئیں، جن سے دو سعودی شہزادے بھی تولد ہوئے۔ مولانا غزنوی چونکہ مولانا روپڑی کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے تھے، وہاں سے یہ تعلقات حاقظ عبد اللہ محدث روپڑی کو ملے۔ حاقظ عبد اللہ روپڑی تصوف کے شدید ناقد تھے، تاہم بیعت کرلیا کرتے۔ جس پر ان کے بھائی حافظ محمد حسین روپڑی ان سے شکوہ کناں رہتے تو کہا کرتے کہ میں اس بنا پر بیعت کرتا ہوں کہ یہ کسی اور کی جا کر بیعت کریں گے، اس لئے مجبوری کی بنا پر کرتا ہوں۔ یہی صورت حال تعویذ کی تھی، جس پر بھی ان کے بھائی محمد حسین متفق نہ تھے۔
حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کے چھوٹے بھائی جو عالم دین تھے، ان کا نام حافظ عبد الرحمن روپڑی تھا۔ انہوں نے ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں 1947 میں مسجد بنائی اور آج بہی انہی کا خاندان (پوتا جواد) اس مسجد کا متولی ہے۔ دوسرے میرے والد محترم حافظ عبد الرحمن ہیں، جو پہلے امرتسری، پھر روپڑی پھر مدینہ یونیورسٹی سے تعلیم کی بنا پر مدنی کہلاتے ہیں۔ والد محترم ان کے چھوٹے بھائی حافظ محمد حسین روپڑی (شیخ الحدیث مدرسہ تقویہ الاسلام) کے بیٹے ہیں۔
اپ آپ دلچسپی لیتے ہیں(2)، تو زیر بحث مسائل بھی عرض کرتا ہوں: ایک سوال یہ پیدا ہوا کہ اصول فقہ کی تعلیم کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اس پر والد گرامی نے کہا کہ اس پر پہلی کتاب امام شافعی کی ہے، پھر ابن حزم کی، پھر مجد بن تیمیہ کی المسودہ، پھر نواب صدیق حسن خاں کی، پھر شاہ اسمعیل شہید کی، پھر مولانا ثناء اللہ امرتسری کی۔ اور حرمت علیکم أمهاتكم ہو یا ربائبکم التی ، ان دونوں کے شرعی مفہوم کو اصول فقہ میں دلالت کے قواعد کے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا۔
ایک سوال یہ پیدا ہوا کہ شریعت بل میں جس شق پر پروفیسر ساجد میر صاحب کا اختلاف تھا، اس کو ان کے قریبی عزیز مولنا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کے دستخط سے پہلے ہی علما کے 22 نکات میں شامل کیا جاچکا تھا۔ والد گرامی نے کہا کہ وہ شق جب وہاں مولانا سیالکوٹی کو منظور ہے تو یہاں درست کیوں نہیں۔ ( والد گرامی نے بتایا کہ درحقیقت علما کے 22 نکات میں مولانا سیالکوٹی کا نام غلط طور پر ہفت روزہ الاسلام لاہور میں شائع کیا گیا تھا، جبکہ درحقیقت وہ دستخط کرنے والوں میں شامل نہیں تھے۔ تاہم جب الاسلام میں موجود تھا، تو اس سے پروفیسر ساجد میر صاحب کیسے گریز کرتے۔ )
جب یہ اور ایسے سوالات کے جوابات پروفیسر صاحب نے بن نہ پڑے تو ان کے سپورٹرز کہنے لگے کہ مسئلہ دلائل کا نہیں، مدارس کے مستند علم کا ہے۔(3)
والد گرامی نے مسجد قدس لاہور کی اس مجلس میں اپنے والد حافظ محمد حسین روپڑی کی اس مسجد کی تعمیر میں عظیم خدمات کا تذکرہ کیا۔ کہنے لگے کہ اس مسجد قدس کا آغاز 1949 میں، اور اس مدرسہ اہل حدیث کا آغاز 1954ء میں ہوا۔ روپڑی ثنائی نزاع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علاقے کے گجر برادری نے اپنا دوسرا اہل حدیث امام کھڑا کردیا اور محدث روپڑی پر تاخیر سے نماز کے لئے آنے کا الزام عائد کیا۔ جس پر حافظ محمد حسین روپڑی کہنے لگے کہ امامت ہم ہی کریں کے، اور میں اس فرض کو بروقت نبھاؤں گا، اگر کسی کو ہمت ہے تو امامت کرکے دکھائے۔ اس موقع پر 1949ء میں ہونے والی شدید لڑائی میں گجر برادری نے دادا مرحوم کے سر میں کلہاڑی مار کران کو بے پناہ زخمی کیا، مقدمہ کے انتظار کی بنا پر ان کا بے پناہ خون بہا، اور یہی خون کا ضیاع ان کی موت پر منتج ہوا۔ پھر ان کی صحت سنبھل نہ سکی۔
روپڑ میں قائم اہل حدیث مسجد کے لئے بھی محدث روپڑی نے دادا محترم کی ذمہ داری لگائی اور اس مسجد کو انہوں نے بریلوی قابضین سے چھڑایا۔ کیونکہ دادا جان ایک مستند عالم اور اصول وقواعد کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ بے پناہ جسمانی طاقت کے مالک تھے، جس کے بہت سے قصے خاندان میں معروف ہیں۔ جب حافظ عبد الغفار روپڑی اور حافظ عبد الوہاب روپڑی کے والد بھویا آصل میں چلے گئے تو وہاں اپنی زمینوں کے حصول کے لئے علاقائیی میو برادری سے دادا جان نے ہی انہیں قبضہ حاصل کرکے دیا۔
روپڑی علما، اپنے بزرگ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کی قیادت میں ایسے متفق ومتحد تھے کہ ان کے علم وفضل اور جلالت شان کے آگے سب بچھ بچھ جاتے۔ والد گرامی نے بتایا کہ محدث روپڑی اپنے جسم اور قد میں چھوٹے تھے، (اور امام بخاری کا قد اور جسامت بھی بڑی نہ تھی) لیکن ان کے علم وفضل کی کوئی انتہا نہ تھی۔ جب موجود ہوتے تو خود ہی نماز پڑھاتے۔ آخری ایام میں والد محترم ان کو اٹھا لایا کرتے(4) اور ان کے جوتے اتارنے میں پہل کرتے۔ ایک بار غلطی سے دایاں جوتا پہلے اتار دیا تو محدث روپڑی منہ سے نہ بولے لیکن بار بار بائیں پاؤں کو آگے کرتے۔ آخرکار والد گرامی کو اپنی ترتیب درست کرنا پڑی۔ کہتے ہیں کہ محدث روپڑی کے اس اصرار نے ہمیشہ اتباع سنت میں ان کی بہت اصلاح کی۔
والد گرامی نے بتایا کہ شیخ الاسلام مولانا امرتسری اور مولانا محدث روپڑی رحمہم اللہ کے مابین بہت سے مسائل میں علمی مباحثے ہوئے تھے، جن کا آغاز دراصل مولانا محمد حسین بٹالوی رح سے ہوا تھا۔ امارات والے مولانا عبد الرؤف کے دادا مولانا اشرف سندھو مسجد قدس میں ہی رہا کرتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بیت اللہ الحرام میں ایک بار محدث روپڑی کو دیکھا کہ مولانا امرتسری کے لئے دعائیں اور زارو قطار التجائیں کر رہے ہیں، تو مولانا سندھو حیران ہو اٹھے کہ آپ نے تو بہت سا وقت ان سے مباحثوں میں گزارا تو پھر یہ کیسے؟ فرمانے لگے: کہ میں انہیں عظیم دینی خدمات انجام دینے والا اپنا مسلمان بھائی سمجھتا ہوں اور وہ میری بہترین دعاؤں کے مستحق ہیں۔ یہ تھے ہمارے اسلاف جو اخلاص کا پیکر تھے۔
محدث روپڑی کی اوائل عمری میں لکھی کتاب ’درایتِ تفسیری‘ کو ہمارے دادا جان بطور نصیحت اپنی اولاد کو کہہ گئے کہ اس کو اپنے اوپر لازم کرلینا۔ ہمارے والد گرامی نے مجھے اور برادر عزیز حافظ حمزہ مدنی کو بارہا کہا کہ اس کتاب کو یوں ترتیب دو کہ اس سے ثنائی روپڑی نزاع نکل جائے اور صرف علمی مسائل ہی باقی رہ جائیں۔ برادر عزیز نے بارہا یہ کتاب سبقا سبقا پڑھائی، ان شاء اللہ وہ وقت بھی آئے گا جب والد گرامی کی اس مبارک خواہش کو پورا کرنے کی اللہ کریم ہم بھائیوں کو توفیق دے گا۔
تین روز پہلے کی مجلس میں والد گرامی نے حنفیہ سے فاتحہ خلف الامام پر ایک بڑے مناظرہ کا حال بھی سنایا جو جامعہ اشرفیہ کے نامور شیخ الحدیث مولانا ادریس کاندھلوی کی زیر صدارت ہوا۔ اس میں سب روپڑی علما اکٹھے تھے۔ حنفیہ کہنے لگے کہ مولانا عبد القادر روپڑی ہم سے مناظرہ نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے پاس مولوی فاضل کی سند نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر دادا جان حافظ محمد حسین آگے بڑھے۔ حنفیہ نے مرکزی شرط یہ رکھی کہ صحاح ستہ سے ہی استدلال ہوگا۔ دادا جان مرحوم بولے: صحاح ستہ سے نہیں بلکہ صرف بخاری شریف سے۔ دادا جان اصول وقواعد کے بہت پختہ عالم تھے اور کڑی گرفت کرتے تھے۔ انہوں نے لا صلاۃ سے یہ ثابت کیا نماز کی کوئی جنس ہی معتبر نہیں، فاتحہ کے بغیر اور اس نکتہ سے حنفیہ کو گھنٹوں آگے نہ جانے دیا اور جواب کا مطالبہ بھی صحیح بخاری سے ہی کیا۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ حنفیہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا، آخر نماز عصر کا وقت ہوگیا تو روپڑی علما نماز کو کھڑے ہوئے پیچھے حنفیہ نے تانگہ منگوا کر کتابیں رکھیں اور اس پر اپنی راہ لی۔
دادا جان حافظ حمد حسین روپڑی علیہ الرحمہ نے لمبی عمر نہ پائی، تمام اولاد چھوٹی تھی کہ دنیا سے تشریف لے گئے۔ صرف والد محترم کو خود پڑھا سکے اور کہا کہ باقی کو تم پڑھا دینا، سو محدث روپڑی ان کی وفات کے بعد اپنے چھوٹے بھائی کے گھر میں باقاعدگی سے صبح آتے اور سب خواتین کو پانچ سال پڑھاتے رہے، پھر وہ بھی وفات پاگئے۔ جب دادا جان کا آخری وقت قریب تھا تو کسی نے ان سے اپنی اولاد کے لئے وصبت کو کہا تو بولے: ’’اگر یہ تیکی کے رستے پر رہے تو اللہ ان کی نگہبانی کو کافی ہے ( واللہ یتولی الصالحین) اور اگر غلط راستے پر چل نکلے تو میرا ان سے کیا رشتہ اور ایسے ظالموں کو میری کیا نصیحت۔‘‘ وہ دینی علم کو ترک کردیتا لا ینال عہدی الظالمین کے تحت اپنی اولاد کے لئے ناجائز اور ظلم سمجھتے تھے۔ بعد میں جب مجھے السیاسۃ الشرعیہ لابن تیمیہ پڑھنے پڑھانے کا اتفاق ہوا تو اس کے پہلے باب میں ہو بہو یہی نصیحت سیدنا عمر بن عبد العزیز کی اپنی اولاد کے نام موجود ہے۔ اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ہمیں ان کے نیک نقش قدم پر چلائے۔
والد گرامی کبھی کبھی مجلسی موڈ میں ہوں تو خود ہی یادیں سنا دیتے ہیں، مطالبہ کرنے پر کبھی کچھ نہیں بتاتے۔(5) اسی لئے جتنی مل گئیں اتنی یہاں محفوظ کررہا ہوں، کل کلاں یہاں سے ہی محفوظ ہوں گی۔ ان شاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) یہاں پر مولانا ابو عمار ظہیر سعیدی صاحب نے یہ تائیدی پیغام بھیجا کہ ’ جب یہ مناظرہ ہوا تھا اس وقت ہم جامعہ رحمانیہ پڑھا کرتے تھے.استاذ مکرم حفظہ اللہ نے ہمیں اس مناظرے کی روئیداد بھی سنائی تھی۔‘
(2) کیونکہ اہل مجموعہ نے سابقہ پیغامات پر اچھے جذبات کا اظہار کیا تھا ۔
(3)یہاں حافظ شاہد محمود صاحب آف گوجرانوالہ نے یہ تبصرہ کیا ’ اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے آپ کی ان تحریروں میں بہت مفید معلومات ہیں لیکن یہ حصہ شائد اس قدر تدقیق سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی دوسرا شخص ان تفصیلات میں فریق ثانی کے بیان و توضیح کی ضرورت بھی محسوس کرے گا تو بات دوسرا رنگ اختیار کر سکتی ہے،اس لیے ان تفصیلات کو ترک کر دیں ‘ ، ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے اس بات سے اتفاق کا اظہار کیا ۔
(4) محدث روپڑی رحمہ اللہ کے آخری ایام کے متعلق یہ بات ہم نے آپ کے ایک اور شاگرد رشید حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ سےبھی سنی ہے ۔ خضر حیات
(5) اس آخری پہرے کی مناسبت ، ڈاکٹر فیض الابرار صاحب کے اس سے پہلے آنے والا پیغام سے سمجھ آئے گی ، انہوں نے کہا تھا :’ بارک اللہ فی علمکم ،اگر روپڑی خاندان کے شجرہ نسب کو مکمل طور پر بیان کر دیا جائے تو بہت مفید معلومات ہوں گی
ویسے روپڑی خاندان کی خدمات کو محفوظ کرنا یہ آپ لوگوں پر قرض ہے اسے جلد از جلد ادا کیجیے تاکہ محفوظ ہو جائے ‘
اسی مناسبت سے اسحاق بھٹی صاحب کی تصنیف ’ روپڑی علمائے حدیث ‘ کا بھی تذکرہ ہوا ، جو کہ مطبوع ہے ، البتہ حسن مدنی صاحب کا کہنا تھا کہ اوپر بیان کردہ اہم یاداشتیں اس کتاب میں نہیں آسکیں ۔
Last edited: