- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
الاصلاح
تالیف : فضیلتہ الشیخ امام العصر حافظ
محمد محدث گوند لوی رحمہ اللہ
زیر نگرانی: حافظ محمد شریف حفظہ اللہ
تقدیم:فضیلتہ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
فضیلتہ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن فریوائی حفظہ اللہ
Size:12.1 MB
راقم جب مرکز التربیۃ الاسلامیہ فیصل آباد میں زیر تعلیم تھا آخری سالم ایک مقالہ پیش کرنا ہر طالب علم کے ذمہ ہوتا ہے خواہ وہ کسی موضوع پر بحث ہو یا کسی کتاب کی تحقیق ہو ،اس بحث میں ہر طالب علم اپنی پسند کا موضوع انتخاب کرنا ہوتا ہے اگر وہ موضوع منظور ہو جائے تو اس پر کام کرنا ہوتا ہے تو اسی سلسلے میں راقم الحروف نے الاصلاح کا انتخاب کیا کیونکہ راقم اس کا مطالعہ پہلے کر چکا تھا اور اس کی اہمیت کے پیش نظر اس پر کام کرنے کا انتخاب اساتذہ کرام (شیخ ارشاد الحق اثری،شیخ حافظ مسعود عالم ،شیخ حافظ شریف اور شیخ عبدالرزاق ساجد حفظہم اللہ )کے سامنےن ذکر کیا تو انھوں نے فورا رضا مندی کا اظہار کیا بلکہ انھوں نے فرمایا کہ اس کتاب کی خدمت کرنا ہم پر فرض ہے کیونکہ یہ ہمارے استاد محترم محدث گوندلوی کی کتاب ہے ۔اور نایاب ہو چکی ہے ۔اس کو دوبارہ منظر عام پر آنا چاہئے ۔
جب کام کرنے کی باری آئی تو اساتذہ نے مجھ سے پوچھا کہ اس پر کام کی کیا صورت ہو گی راقم نے کہا کہ یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے اور تینوں حصوں پر کام خود ہی کروں گا ،اس پر اساتذہ کرام نے فرمایا کہ کیوں نہ ہم اس کتاب کو تین ساتھیوں پر تقسیم کر دیں تاکہ کام تسلی بخش ہو جائے راقم نے اس پر رضا مندی کا اظہار کیا تو تقسیم کے وقت حافظ عبدالروف کے حصے میں پہلا حصہ آیا ،حافظ فیاض آسی کے حصے میں تیسرا اور راقم کے حصے میں دوسرا آیا ۔تقسیم کرتے ہی کام شروع کرنا تھا لیکن کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑامثلا
١:الاصلاح کا دوسرا حصہ پہلے سے ہی مرکز التربیۃ الاسلامیہ کی لائبریری میں کوجود تھا دوسرا بھی تتبع کرنے سے فیصل آباد سے ہی مل گیا لیکن کتاب کا پہلا حصہ کہیں سے بھی نہیں مل رہا تھا تو اس سلسلے میں حافظ محد گوندلوی رحمہ اللہ کے بیٹوں سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ہاں اس کا پہلا حصہ پمارے ہاں محفوظ ہے تو اس کے لئے محترم حافظ عبدالروف بن یعقوب گوجرانوالہ پہنچے پہلا حصہ کی فوٹو کاپی لے کر مرکز واپس پہنچے ۔والحمدللہ
٢:کتاب میں جن کتب کے حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے حوالے دئیے تھے ان سے مراجعت کرنا ضروری تھا اب یہ مشکل آئی کہ وہ کتب ہی نہیں مل رہیں ،مراجعت کیسے کی جائے ،تو س کے متعلق مشورہ یہ ہوا کہ جو مراجع و مصادر مرکز کی لائبریری میں موجود ہیں پہلے وہ کام مکمل کیا جائے پھر آپ جہاں کوئی کتاب ملے گی وہاں جا کر اس کی مراجعت کی جائے گی ۔
اکثر کام مرکز التربیۃ میں کیا لیکن جب ادھر سے مراجع وغیر ہ کی کتب دستیاب نہ ہو سکیں تو مختلف مکتبوں اور لائبریریوں میں رابطے کئے جہاں کوئی کتاب ملی وہاں جا کر اس سے مراجعہ کیا اس سلسلے میں راقم نے پہلے لاہور میں استاد محترم شیخ مبشر احمد ربانی رحفظہ اللہ کی لائبریری کا انتخآب کیا تقریبا چار یا پانچ دن لائبریری میں تو اکثر مراجع مل گئے اور محٹرم شیخ مبشر ربانی صاحب نے بہت زیادہ تعاون کیا فجزاہ اللہ خیرا ۔
پھر کچھ کتب ادھر سے بھی نہیں مل رہی تھیں اور وہ لاھور کی دیگر لائبریریوں سے بھی نہیں ملیں تو راقم نے شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ سے رابطہ کیا کہ فلاں فلاں کتب آپ کے پاس ہیں تو شیخ صاحب نے کہا کہ بالکل میرے پاس ہیں ۔یہاں یہ وضاحت فائدہ سے خالی نہیں راقم کا محترم شیخ صاحب سے یہ پہلا رابطہ نہیں تھا بلکہ راقم جامعہ لاہور الاسلامیہ املعروف جامعہ رحمانیہ کے درجہ رابعہ میں تھا سنن نسائی پر کچھ کام کر رہا تھا تو اس سلسلے میں پہلا فون پر رابطہ کیا اس وقت شیخ صاحب دارالسلام لاہور میں کام کرتے تھے ۔
پھر شیخ صاحب کی پاس حضرو میں چار دن قیام کیا اور مراجعت مکمل کر کے پشاور پہنچا اس دوران شیخ صاحب سے استفادہ کیا فجزاہ اللہ خیرا
پھر شیخ غلام اللہ رحمتی حفظہ اللہ کے پاس گیا افسوس کہ وہ ان دنوں سعودی عرب کے دورے پر گئے ہوئے تھے پھر شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے پاس چلا گیا ان سے استفادہ کیا پھر جامعہ اثریہ پشاور کی لائبریری میں حاضر ہوا ادہر کچھ دیر قیام کیا یہ دکتور شمس الدین افغانی رحمہ اللہ کی لائبریری تھی اور بہت بڑی لائبریری ہے آگے شیخ عبدالسلام رستمی حفظہ اللہ کے پاس جانے کا ارادہ تھا لیکن دکتور شمس الدین افغانی رحمہ اللہ کے بیٹوں محمد ،عبدالرحیم نے کہا کہ آگےسفر کچھ مشکل اور لمبا ہے آپ اکیلے نہ جائیں پھر میں آگے نہ گیا ۔
اس طرح الاصلاح کی تخریج و تحقیق اور مراجعت کا کام مکمل ہوا ۔والحمدللہ ۔
اس کو اصل کرکے پیش کیا تو مقالہ مقبول ہو گیا ۔
مرکز سے فارغ ہوئے تقریبا چھ سال بعد ٢٠١٠ میں معلوم ہوا کہ الاصلاح پر کام مکمل ہو گیا ہے اب بس پریس بھیجنی ہے ۔یہ خبر سن کر بڑی خوشی ہوئی لیکن اس میں تاخیر ہوتی گئی اسی دوران مجھ سے حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ مدیر ام القری پبلیکیشنز فتو منڈ گوجرانوالا نے رابطہ کیا اور پوچھا کہ الاصلاح پر کیا تم نے کام کیا ہے ؟
راقم نے کہا :جی ۔
حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ :کام کی نوعیت کیا ہے ؟
راقم:تحقیق ،تخریج اور مکمل مراجعت اصل حوالوں سے عبارتوں کا تقابل کیا گیاہے اور پرانی اردو کو نئی اردو کے مطابق ڈھال دیا گیا ہے ۔
حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ :یعنی کام تسلی بخش ہے اور اب شایع کب ہو گا ؟
راقم:سارے کام تو ہو چکے ہیں شایع کرنے میں سستی ہو رہی ہے ؟
حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ :کیا آپ یہ کتاب مجھے لے کر دے سکتے ہیں کیونکہ میں شیخ گوندلوی رحمہ اللہ کی تمام کتب شایع کر رہا ہوں اس لئے وہ بھی مجھے لے دیں تمام اخراجات جو مرکز التربیۃ الاسلامیہ نے کئے ہیں وہ میں ادا کر دیتا ہوں ،اس سلسلے میں ان سے رابطہ کریں ۔
راقم:شیخ میں ابھی شیخ منیر اظہر حفظہ اللہ سے کرتا ہوں کیونکہ شعبہ نشر و اشاعت کے وہ نگران ہیں ۔
حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ :اس کام میں جلدی کریں جزاکم اللہ خیرا ۔
راقم :درست ۔راقم نے شیخ منیر اظہر حفظہ اللہ سے رابطہ کیا تو انھوں نے اسی وقت کہا کہ بس یہ کتاب شایع ہونی شاہئے خواہ کوئی بھی کرئے کیونکہ یہ ایک علمی میراث ہے یہ گھر گھر پہنچنی چاہئے ۔یہ اطلاع اسی وقت راقم حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ کو دی وی بہت خؤش ہوئے اور انھوں نے چند دن میں وہ کتاب فیصل آباد جا کر حاصل کی اور چند ہفتوں میں ہی بہترین انداز میں شایع کی والحمدللہ ۔