معروف اینکر پرسن حامد میر پرکراچی میں قاتلانہ حملے اور اس کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ اور ملک کے سب سے طاقتور انٹیلی جنس ادارے کے درمیان شروع ہونے والی جنگ تاحال جاری ہے اور ہر روز اس تہہ در تہہ معاملے کی نت نئی تہیں کھل رہی ہیں اور نئی سے نئی پرتیں سامنے آرہی ہیں۔ اس حملے کے فوری بعد حامدمیر کے بھائی عامر میر کی جانب سے خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ جنرل ظہیرالاسلام کو براہِ راست اس حملے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے الزامات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اسے جیو ٹی وی نے 8 گھنٹے تک کسی خوف کے بغیر آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیرالاسلام کی تصویر کے ساتھ اتنے تواتر سے چلایا کہ ناظرین بھی تھک گئے۔ اگرچہ اب اس مہم میں کچھ کمی آگئی ہے لیکن یہ مہم اب بھی ایک نئے انداز میں جاری ضرور ہے۔
عامر میر جو ایک ثقہ صحافی اور لاہور پریس کلب کے سابق صدر ہیں، شروع ہی سے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے کے عادی ہیں۔ وہ سابق صدر پرویزمشرف سے اے پی این ایس ایوارڈ لینے سے انکار کرچکے ہیں۔ جس زمانے میں وہ انڈی پینڈنٹ نامی میگزین کے ایڈیٹر تھے انہوں نے آئی ایس آئی اور فوج کے بارے میں اپنے نام سے ایک بہت حساس اسٹوری شائع کی تھی جس پر اُس وقت کے فوجی اور سول حکمران ان سے ناخوش بھی ہوئے تھے۔ ستمبر 2013ء میں جب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا، وہ ان مذاکرات کے مخالف تھے، چنانچہ وہ تواتر سے ایسی خبریں شائع کرتے رہے جن سے مذاکرات کے عمل کے متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔
حامد میر پر حملے اور آئی ایس آئی اور جیو کی لڑائی میں اب حامد میر کے بیان، بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو اور جنگ میں شائع ہونے والے ان کے کالم نے اس معاملے کی مزید تہیں کھول دی ہیں۔ دوسری جانب جیو انتظامیہ کی بظاہر پسپائی مگر مختلف شہروں میں جنگ اور جیو کی ممکنہ بندش کے خلاف منظم کیے جانے والے مظاہروں نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ ایک جانب چودھری اعتزاز احسن اور حاصل بزنجو حامد میر کی عیادت کے بعد میڈیا کو کہہ رہے ہیں کہ حامد میر کا علاج کے لیے بیرون ملک جانا ناگزیر ہے، حالانکہ یہ دونوں افراد سیاستدان ہیں ڈاکٹر نہیں۔ جبکہ دوسری جانب حامد میر حملے کے بعد اپنا پہلا انٹرویو پشتی بان ادارے جیو کو نہیں دے رہے بلکہ بی بی سی کو دے رہے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے، یا تو جیو انتظامیہ نے حامد میر کا انٹرویو لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، یا پھر حامد میر نے عالمی سطح پر اپنا پیغام پہنچانے کے لیے بی بی سی کا چینل استعمال کیا۔ جیو انتظامیہ کی جانب سے یہ کام پہلی بار نہیں ہوا۔ جیو گروپ ہی کے انگریزی اخبار 'دی نیوز' کے ایڈیٹر جناب شاہین صہبائی نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے مالیاتی اسیکنڈل کی خبر اپنے اخبار میں نہیں لگائی، بلکہ یہ خبر انہوں نے سوشل میڈیا پر دی جس کے بعد جیو گروپ نے اس پر پروگرام شروع کر دیے، مگر جیسے ہی افتخار چودھری نے سخت رویہ اپنایا ، جیو گروپ اپنا پہلا مؤقف چھوڑ کر ملک ریاض کے پیچھے پڑ گیا۔
اب ایک طرف حامد میر اور جیو گروپ پسپائی اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے تو دوسری جانب مختلف شہروں میں آزادیٔ صحافت اور جنگ اور جیو کی ممکنہ بندش کے خلاف احتجاج کروایا جا رہا ہے۔ اگلے چند روز میں پاکستان بھر کے پریس کلبوں کا لاہور میں کنونشن اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ برنا گروپ کے تین روزہ اجلاس کی بھی سرپرستی کی جارہی ہے، لیکن دوسری جانب آئی ایس آئی کے حامی بھی سرگرم ہوگئے ہیں اور وہ ملک بھر میں آئی ایس آئی کی حمایت میں مظاہرے کررہے ہیں اور حامد میر پر حملے کی لفظی مذمت کے ساتھ ساتھ جیو کی مبینہ ملک دشمنی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
اس معاملے کے بعد بہت سے سوالات نے سر اٹھایا ہے جن کا جواب پاکستان کے تمام شہری اور خاص طور پر صحافی حلقے چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حامد میر پر حملہ پاکستان کے کسی صحافی پر پہلا حملہ ہے جس پر جیو نے اس قدر جارحانہ انداز اختیار کیا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے، کیونکہ چند روز قبل ایکسپریس نیوز کے اینکر رضا رومی پر حملے اور اس سے قبل ایکسپریس پر حملے میں اس ٹی وی چینل کے تین افراد کی ہلاکت کی تو جیو نے کئی گھنٹے تک خبر بھی نہیں چلائی۔ جب مجبوراً خبر چلائی تو وہ ایک نجی چینل سے منسوب کی گئی، اور مدعیوں کے الزامات اور خدشات کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہ دی گئی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا حامد پر حملہ جنگ اور جیو گروپ کے کسی صحافی یا کارکن پر پہلا حملہ ہے؟ تو اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ 1982ء میں جنگ گجرات کے نمائندے نیاز خان نیازی پر قاتلانہ حملہ ہوا تو خود جنگ اخبار میں مختصر خبر اس طرح شائع کی گئی کہ گجرات میں ایک اخبار کے نمائندے قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئے۔ اس حملے کا الزام چودھری برادران پر تھا مگر اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد یہ معاملہ دب گیا، یہاں تک کہ تقریباً چار ماہ بعد نیاز خان نیازی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے تو جنگ نے ان کی دوسری اور آخری خبر شائع کردی اور اس معاملے کو آگے بڑھایا اور نہ اس کو اتنی اہمیت دی۔ جنگ اور جیو انتظامیہ کا یہ کہنا ہے کہ اِس بار ایک تو اینکر بہت بڑا تھا، دوسرے جس ایجنسی پر الزام تھا وہ بہت طاقتور تھی۔ غالباً 1986ء میں جنگ لاہور کے ایک صحافی نے اُس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو سے متعلق ایک خبر میں کوئی قابلِ اعتراض بات لکھ دی۔ اُس وقت کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر اور مرکزی محکمہ اطلاعات کے دباؤ ڈالنے پر نہ صرف اس صحافی کو بری طرح ذلیل کیا گیا بلکہ اس کی تصویر فرنٹ پیج پر شائع کرکے اسے ادارے سے نکالنے کا اعلان کرکے اس کی ذلت کا مزید سامان کیا گیا۔ غالباً 1983ء میں نیشنل فین والے محمد دین مرحوم کے بیٹوں پر ایک فوجی عدالت میں لینڈ فراڈ کا مقدمہ چلا۔ انہیں سزائیں ہوئیں مگر بعد میں اُس وقت کے ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹراور گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی نے اپنے اختیارات استعمال کر تے ہوئے ان کی سزائیں ختم کردیں۔ یہ خبر روزنامہ جنگ کے شرق پور کے نمائندے نے فراہم کی۔ خبر شائع ہوئی تو گورنر مرحوم اور بعض دوسرے حلقوں کی جانب سے دباؤ ڈالا گیا، جس پر جنگ لاہور کی انتظامیہ نے اس غریب نامہ نگار کو اس کے گھرسے اٹھایا اور حکام کے حوالے کردیا۔ محترمہ کلثوم نوازشریف کی شکایت پر جنگ کے سینئر رپورٹر امتیاز راشد کو نکال دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ اب جنگ اور جیو انتظامیہ اتنے بڑے ادارے کے سامنے کیسے ڈٹ گئی ہے؟ گزشتہ دو تین سالوں کے دوران جنگ کے کئی نامہ نگار دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں جن میں ہدایت اللہ موسیٰ خیل اور کئی دوسرے صحافی شامل ہیں۔ ان کا کیس تو اتنی شدت سے نہیں اٹھایا گیا۔ ولی خان بابر کا کیس جیو نے زندہ ضرور رکھا لیکن اس کے قاتلوںکا (خود جنگ کے لوگ جن پر شک کرتے ہیں) نہ تو کبھی نام لیا گیا اور نہ تصویریں چلائی گئیں۔
اس وقت لاہور میں پریس کلب کے سامنے جیو کے حق میں جو مظاہرہ روزانہ کیا جارہا ہے اس میں جنگ اور جیو کے ملازمین کی دلچسپی کا یہ حال ہے کہ لاہور میں اس گروپ کے تحت جنگ، جیو، دی نیوز، آواز، انقلاب، وقت، پاکستان ٹائمز چل رہے ہیں جن کے ملازمین کی تعداد 800 سے 1000تک ہے، جبکہ مظاہرے میں شرکا کی تعداد تیس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ان میں بھی 10سے 12 افراد پریس کلب سے آتے ہیں، جبکہ جیو گروپ کے مظاہرے میں شرکت کرنے والے افراد میں نوکریوں اور ترقیوں کے ہاتھوں مجبور افسر نظر آتے ہیں یا بے بس چپڑاسی اور چھوٹے اہلکار۔ اپنی نجی گفتگو میں جنگ اور جیو سے وابستہ اعلیٰ اور باخبر افراد کچھ اور ہی کہانیاں سناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لڑائی دراصل جیو اور آئی ایس آئی کی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی اور عسکری قیادت کی لڑائی ہے۔ ان کی رائے میں نواز حکومت رخصت ہونے والی ہے جس کی وجہ عسکری قیادت کے بہت سے تحفظات ہیں۔ اس وقت جنگ اور جیو گروپ سول حکومت کی فرنٹ ڈیفنس لائن ہے۔ اگر یہ گر گئی تو نواز حکومت کا جانا لازم ہوجائے گا۔
اس سیاق وسباق کے ساتھ یہ بات بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ جو ادارہ اپنے کارکنوں کو مسلسل نظرانداز کرتا رہا ہے، جو کسی بھی طاقتور شخص یا ادارے کے ساتھ لڑائی کا متحمل نہیں رہا وہ اپنے ایک کارکن کے لیے اچانک اتنا جذباتی کیوں ہوگیا؟ جس سے وہ اس کے کیرئیر کے آغاز پر کام تو لیتا رہا مگر کئی ماہ تک تنخواہ بھی ادا نہیں کی اور پھر اِس بار اتنے بڑے ادارے کے سامنے اس طرح خم ٹھونک کر کیسے اور کیوں آ گیا؟ نیز اب اچانک پسپائی پر کیوں اتر آیا ہے ؟ اس کے علاوہ بھی اس مسئلہ پر بہت سے سوالات ہیں جن کا ہم اِن شااللہ اگلی قسط میں جائزہ لیں گے۔
(جاری ہے)
سید تاثیر مصطفی
عبدالقیوم
عامر میر جو ایک ثقہ صحافی اور لاہور پریس کلب کے سابق صدر ہیں، شروع ہی سے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے کے عادی ہیں۔ وہ سابق صدر پرویزمشرف سے اے پی این ایس ایوارڈ لینے سے انکار کرچکے ہیں۔ جس زمانے میں وہ انڈی پینڈنٹ نامی میگزین کے ایڈیٹر تھے انہوں نے آئی ایس آئی اور فوج کے بارے میں اپنے نام سے ایک بہت حساس اسٹوری شائع کی تھی جس پر اُس وقت کے فوجی اور سول حکمران ان سے ناخوش بھی ہوئے تھے۔ ستمبر 2013ء میں جب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا، وہ ان مذاکرات کے مخالف تھے، چنانچہ وہ تواتر سے ایسی خبریں شائع کرتے رہے جن سے مذاکرات کے عمل کے متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔
حامد میر پر حملے اور آئی ایس آئی اور جیو کی لڑائی میں اب حامد میر کے بیان، بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو اور جنگ میں شائع ہونے والے ان کے کالم نے اس معاملے کی مزید تہیں کھول دی ہیں۔ دوسری جانب جیو انتظامیہ کی بظاہر پسپائی مگر مختلف شہروں میں جنگ اور جیو کی ممکنہ بندش کے خلاف منظم کیے جانے والے مظاہروں نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ ایک جانب چودھری اعتزاز احسن اور حاصل بزنجو حامد میر کی عیادت کے بعد میڈیا کو کہہ رہے ہیں کہ حامد میر کا علاج کے لیے بیرون ملک جانا ناگزیر ہے، حالانکہ یہ دونوں افراد سیاستدان ہیں ڈاکٹر نہیں۔ جبکہ دوسری جانب حامد میر حملے کے بعد اپنا پہلا انٹرویو پشتی بان ادارے جیو کو نہیں دے رہے بلکہ بی بی سی کو دے رہے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے، یا تو جیو انتظامیہ نے حامد میر کا انٹرویو لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، یا پھر حامد میر نے عالمی سطح پر اپنا پیغام پہنچانے کے لیے بی بی سی کا چینل استعمال کیا۔ جیو انتظامیہ کی جانب سے یہ کام پہلی بار نہیں ہوا۔ جیو گروپ ہی کے انگریزی اخبار 'دی نیوز' کے ایڈیٹر جناب شاہین صہبائی نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے مالیاتی اسیکنڈل کی خبر اپنے اخبار میں نہیں لگائی، بلکہ یہ خبر انہوں نے سوشل میڈیا پر دی جس کے بعد جیو گروپ نے اس پر پروگرام شروع کر دیے، مگر جیسے ہی افتخار چودھری نے سخت رویہ اپنایا ، جیو گروپ اپنا پہلا مؤقف چھوڑ کر ملک ریاض کے پیچھے پڑ گیا۔
اب ایک طرف حامد میر اور جیو گروپ پسپائی اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے تو دوسری جانب مختلف شہروں میں آزادیٔ صحافت اور جنگ اور جیو کی ممکنہ بندش کے خلاف احتجاج کروایا جا رہا ہے۔ اگلے چند روز میں پاکستان بھر کے پریس کلبوں کا لاہور میں کنونشن اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ برنا گروپ کے تین روزہ اجلاس کی بھی سرپرستی کی جارہی ہے، لیکن دوسری جانب آئی ایس آئی کے حامی بھی سرگرم ہوگئے ہیں اور وہ ملک بھر میں آئی ایس آئی کی حمایت میں مظاہرے کررہے ہیں اور حامد میر پر حملے کی لفظی مذمت کے ساتھ ساتھ جیو کی مبینہ ملک دشمنی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
اس معاملے کے بعد بہت سے سوالات نے سر اٹھایا ہے جن کا جواب پاکستان کے تمام شہری اور خاص طور پر صحافی حلقے چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حامد میر پر حملہ پاکستان کے کسی صحافی پر پہلا حملہ ہے جس پر جیو نے اس قدر جارحانہ انداز اختیار کیا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے، کیونکہ چند روز قبل ایکسپریس نیوز کے اینکر رضا رومی پر حملے اور اس سے قبل ایکسپریس پر حملے میں اس ٹی وی چینل کے تین افراد کی ہلاکت کی تو جیو نے کئی گھنٹے تک خبر بھی نہیں چلائی۔ جب مجبوراً خبر چلائی تو وہ ایک نجی چینل سے منسوب کی گئی، اور مدعیوں کے الزامات اور خدشات کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہ دی گئی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا حامد پر حملہ جنگ اور جیو گروپ کے کسی صحافی یا کارکن پر پہلا حملہ ہے؟ تو اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ 1982ء میں جنگ گجرات کے نمائندے نیاز خان نیازی پر قاتلانہ حملہ ہوا تو خود جنگ اخبار میں مختصر خبر اس طرح شائع کی گئی کہ گجرات میں ایک اخبار کے نمائندے قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئے۔ اس حملے کا الزام چودھری برادران پر تھا مگر اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد یہ معاملہ دب گیا، یہاں تک کہ تقریباً چار ماہ بعد نیاز خان نیازی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے تو جنگ نے ان کی دوسری اور آخری خبر شائع کردی اور اس معاملے کو آگے بڑھایا اور نہ اس کو اتنی اہمیت دی۔ جنگ اور جیو انتظامیہ کا یہ کہنا ہے کہ اِس بار ایک تو اینکر بہت بڑا تھا، دوسرے جس ایجنسی پر الزام تھا وہ بہت طاقتور تھی۔ غالباً 1986ء میں جنگ لاہور کے ایک صحافی نے اُس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو سے متعلق ایک خبر میں کوئی قابلِ اعتراض بات لکھ دی۔ اُس وقت کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر اور مرکزی محکمہ اطلاعات کے دباؤ ڈالنے پر نہ صرف اس صحافی کو بری طرح ذلیل کیا گیا بلکہ اس کی تصویر فرنٹ پیج پر شائع کرکے اسے ادارے سے نکالنے کا اعلان کرکے اس کی ذلت کا مزید سامان کیا گیا۔ غالباً 1983ء میں نیشنل فین والے محمد دین مرحوم کے بیٹوں پر ایک فوجی عدالت میں لینڈ فراڈ کا مقدمہ چلا۔ انہیں سزائیں ہوئیں مگر بعد میں اُس وقت کے ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹراور گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی نے اپنے اختیارات استعمال کر تے ہوئے ان کی سزائیں ختم کردیں۔ یہ خبر روزنامہ جنگ کے شرق پور کے نمائندے نے فراہم کی۔ خبر شائع ہوئی تو گورنر مرحوم اور بعض دوسرے حلقوں کی جانب سے دباؤ ڈالا گیا، جس پر جنگ لاہور کی انتظامیہ نے اس غریب نامہ نگار کو اس کے گھرسے اٹھایا اور حکام کے حوالے کردیا۔ محترمہ کلثوم نوازشریف کی شکایت پر جنگ کے سینئر رپورٹر امتیاز راشد کو نکال دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ اب جنگ اور جیو انتظامیہ اتنے بڑے ادارے کے سامنے کیسے ڈٹ گئی ہے؟ گزشتہ دو تین سالوں کے دوران جنگ کے کئی نامہ نگار دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں جن میں ہدایت اللہ موسیٰ خیل اور کئی دوسرے صحافی شامل ہیں۔ ان کا کیس تو اتنی شدت سے نہیں اٹھایا گیا۔ ولی خان بابر کا کیس جیو نے زندہ ضرور رکھا لیکن اس کے قاتلوںکا (خود جنگ کے لوگ جن پر شک کرتے ہیں) نہ تو کبھی نام لیا گیا اور نہ تصویریں چلائی گئیں۔
اس وقت لاہور میں پریس کلب کے سامنے جیو کے حق میں جو مظاہرہ روزانہ کیا جارہا ہے اس میں جنگ اور جیو کے ملازمین کی دلچسپی کا یہ حال ہے کہ لاہور میں اس گروپ کے تحت جنگ، جیو، دی نیوز، آواز، انقلاب، وقت، پاکستان ٹائمز چل رہے ہیں جن کے ملازمین کی تعداد 800 سے 1000تک ہے، جبکہ مظاہرے میں شرکا کی تعداد تیس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ان میں بھی 10سے 12 افراد پریس کلب سے آتے ہیں، جبکہ جیو گروپ کے مظاہرے میں شرکت کرنے والے افراد میں نوکریوں اور ترقیوں کے ہاتھوں مجبور افسر نظر آتے ہیں یا بے بس چپڑاسی اور چھوٹے اہلکار۔ اپنی نجی گفتگو میں جنگ اور جیو سے وابستہ اعلیٰ اور باخبر افراد کچھ اور ہی کہانیاں سناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لڑائی دراصل جیو اور آئی ایس آئی کی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی اور عسکری قیادت کی لڑائی ہے۔ ان کی رائے میں نواز حکومت رخصت ہونے والی ہے جس کی وجہ عسکری قیادت کے بہت سے تحفظات ہیں۔ اس وقت جنگ اور جیو گروپ سول حکومت کی فرنٹ ڈیفنس لائن ہے۔ اگر یہ گر گئی تو نواز حکومت کا جانا لازم ہوجائے گا۔
اس سیاق وسباق کے ساتھ یہ بات بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ جو ادارہ اپنے کارکنوں کو مسلسل نظرانداز کرتا رہا ہے، جو کسی بھی طاقتور شخص یا ادارے کے ساتھ لڑائی کا متحمل نہیں رہا وہ اپنے ایک کارکن کے لیے اچانک اتنا جذباتی کیوں ہوگیا؟ جس سے وہ اس کے کیرئیر کے آغاز پر کام تو لیتا رہا مگر کئی ماہ تک تنخواہ بھی ادا نہیں کی اور پھر اِس بار اتنے بڑے ادارے کے سامنے اس طرح خم ٹھونک کر کیسے اور کیوں آ گیا؟ نیز اب اچانک پسپائی پر کیوں اتر آیا ہے ؟ اس کے علاوہ بھی اس مسئلہ پر بہت سے سوالات ہیں جن کا ہم اِن شااللہ اگلی قسط میں جائزہ لیں گے۔
(جاری ہے)
سید تاثیر مصطفی
عبدالقیوم