• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حامد میر پر حملہ اصل لڑائی کیا ہے؟

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
معروف اینکر پرسن حامد میر پرکراچی میں قاتلانہ حملے اور اس کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ اور ملک کے سب سے طاقتور انٹیلی جنس ادارے کے درمیان شروع ہونے والی جنگ تاحال جاری ہے اور ہر روز اس تہہ در تہہ معاملے کی نت نئی تہیں کھل رہی ہیں اور نئی سے نئی پرتیں سامنے آرہی ہیں۔ اس حملے کے فوری بعد حامدمیر کے بھائی عامر میر کی جانب سے خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ جنرل ظہیرالاسلام کو براہِ راست اس حملے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے الزامات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اسے جیو ٹی وی نے 8 گھنٹے تک کسی خوف کے بغیر آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیرالاسلام کی تصویر کے ساتھ اتنے تواتر سے چلایا کہ ناظرین بھی تھک گئے۔ اگرچہ اب اس مہم میں کچھ کمی آگئی ہے لیکن یہ مہم اب بھی ایک نئے انداز میں جاری ضرور ہے۔
عامر میر جو ایک ثقہ صحافی اور لاہور پریس کلب کے سابق صدر ہیں، شروع ہی سے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے کے عادی ہیں۔ وہ سابق صدر پرویزمشرف سے اے پی این ایس ایوارڈ لینے سے انکار کرچکے ہیں۔ جس زمانے میں وہ انڈی پینڈنٹ نامی میگزین کے ایڈیٹر تھے انہوں نے آئی ایس آئی اور فوج کے بارے میں اپنے نام سے ایک بہت حساس اسٹوری شائع کی تھی جس پر اُس وقت کے فوجی اور سول حکمران ان سے ناخوش بھی ہوئے تھے۔ ستمبر 2013ء میں جب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا، وہ ان مذاکرات کے مخالف تھے، چنانچہ وہ تواتر سے ایسی خبریں شائع کرتے رہے جن سے مذاکرات کے عمل کے متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔
حامد میر پر حملے اور آئی ایس آئی اور جیو کی لڑائی میں اب حامد میر کے بیان، بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو اور جنگ میں شائع ہونے والے ان کے کالم نے اس معاملے کی مزید تہیں کھول دی ہیں۔ دوسری جانب جیو انتظامیہ کی بظاہر پسپائی مگر مختلف شہروں میں جنگ اور جیو کی ممکنہ بندش کے خلاف منظم کیے جانے والے مظاہروں نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ ایک جانب چودھری اعتزاز احسن اور حاصل بزنجو حامد میر کی عیادت کے بعد میڈیا کو کہہ رہے ہیں کہ حامد میر کا علاج کے لیے بیرون ملک جانا ناگزیر ہے، حالانکہ یہ دونوں افراد سیاستدان ہیں ڈاکٹر نہیں۔ جبکہ دوسری جانب حامد میر حملے کے بعد اپنا پہلا انٹرویو پشتی بان ادارے جیو کو نہیں دے رہے بلکہ بی بی سی کو دے رہے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے، یا تو جیو انتظامیہ نے حامد میر کا انٹرویو لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، یا پھر حامد میر نے عالمی سطح پر اپنا پیغام پہنچانے کے لیے بی بی سی کا چینل استعمال کیا۔ جیو انتظامیہ کی جانب سے یہ کام پہلی بار نہیں ہوا۔ جیو گروپ ہی کے انگریزی اخبار 'دی نیوز' کے ایڈیٹر جناب شاہین صہبائی نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے مالیاتی اسیکنڈل کی خبر اپنے اخبار میں نہیں لگائی، بلکہ یہ خبر انہوں نے سوشل میڈیا پر دی جس کے بعد جیو گروپ نے اس پر پروگرام شروع کر دیے، مگر جیسے ہی افتخار چودھری نے سخت رویہ اپنایا ، جیو گروپ اپنا پہلا مؤقف چھوڑ کر ملک ریاض کے پیچھے پڑ گیا۔
اب ایک طرف حامد میر اور جیو گروپ پسپائی اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے تو دوسری جانب مختلف شہروں میں آزادیٔ صحافت اور جنگ اور جیو کی ممکنہ بندش کے خلاف احتجاج کروایا جا رہا ہے۔ اگلے چند روز میں پاکستان بھر کے پریس کلبوں کا لاہور میں کنونشن اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ برنا گروپ کے تین روزہ اجلاس کی بھی سرپرستی کی جارہی ہے، لیکن دوسری جانب آئی ایس آئی کے حامی بھی سرگرم ہوگئے ہیں اور وہ ملک بھر میں آئی ایس آئی کی حمایت میں مظاہرے کررہے ہیں اور حامد میر پر حملے کی لفظی مذمت کے ساتھ ساتھ جیو کی مبینہ ملک دشمنی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
اس معاملے کے بعد بہت سے سوالات نے سر اٹھایا ہے جن کا جواب پاکستان کے تمام شہری اور خاص طور پر صحافی حلقے چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حامد میر پر حملہ پاکستان کے کسی صحافی پر پہلا حملہ ہے جس پر جیو نے اس قدر جارحانہ انداز اختیار کیا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے، کیونکہ چند روز قبل ایکسپریس نیوز کے اینکر رضا رومی پر حملے اور اس سے قبل ایکسپریس پر حملے میں اس ٹی وی چینل کے تین افراد کی ہلاکت کی تو جیو نے کئی گھنٹے تک خبر بھی نہیں چلائی۔ جب مجبوراً خبر چلائی تو وہ ایک نجی چینل سے منسوب کی گئی، اور مدعیوں کے الزامات اور خدشات کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہ دی گئی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا حامد پر حملہ جنگ اور جیو گروپ کے کسی صحافی یا کارکن پر پہلا حملہ ہے؟ تو اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ 1982ء میں جنگ گجرات کے نمائندے نیاز خان نیازی پر قاتلانہ حملہ ہوا تو خود جنگ اخبار میں مختصر خبر اس طرح شائع کی گئی کہ گجرات میں ایک اخبار کے نمائندے قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئے۔ اس حملے کا الزام چودھری برادران پر تھا مگر اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد یہ معاملہ دب گیا، یہاں تک کہ تقریباً چار ماہ بعد نیاز خان نیازی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے تو جنگ نے ان کی دوسری اور آخری خبر شائع کردی اور اس معاملے کو آگے بڑھایا اور نہ اس کو اتنی اہمیت دی۔ جنگ اور جیو انتظامیہ کا یہ کہنا ہے کہ اِس بار ایک تو اینکر بہت بڑا تھا، دوسرے جس ایجنسی پر الزام تھا وہ بہت طاقتور تھی۔ غالباً 1986ء میں جنگ لاہور کے ایک صحافی نے اُس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو سے متعلق ایک خبر میں کوئی قابلِ اعتراض بات لکھ دی۔ اُس وقت کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر اور مرکزی محکمہ اطلاعات کے دباؤ ڈالنے پر نہ صرف اس صحافی کو بری طرح ذلیل کیا گیا بلکہ اس کی تصویر فرنٹ پیج پر شائع کرکے اسے ادارے سے نکالنے کا اعلان کرکے اس کی ذلت کا مزید سامان کیا گیا۔ غالباً 1983ء میں نیشنل فین والے محمد دین مرحوم کے بیٹوں پر ایک فوجی عدالت میں لینڈ فراڈ کا مقدمہ چلا۔ انہیں سزائیں ہوئیں مگر بعد میں اُس وقت کے ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹراور گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی نے اپنے اختیارات استعمال کر تے ہوئے ان کی سزائیں ختم کردیں۔ یہ خبر روزنامہ جنگ کے شرق پور کے نمائندے نے فراہم کی۔ خبر شائع ہوئی تو گورنر مرحوم اور بعض دوسرے حلقوں کی جانب سے دباؤ ڈالا گیا، جس پر جنگ لاہور کی انتظامیہ نے اس غریب نامہ نگار کو اس کے گھرسے اٹھایا اور حکام کے حوالے کردیا۔ محترمہ کلثوم نوازشریف کی شکایت پر جنگ کے سینئر رپورٹر امتیاز راشد کو نکال دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ اب جنگ اور جیو انتظامیہ اتنے بڑے ادارے کے سامنے کیسے ڈٹ گئی ہے؟ گزشتہ دو تین سالوں کے دوران جنگ کے کئی نامہ نگار دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں جن میں ہدایت اللہ موسیٰ خیل اور کئی دوسرے صحافی شامل ہیں۔ ان کا کیس تو اتنی شدت سے نہیں اٹھایا گیا۔ ولی خان بابر کا کیس جیو نے زندہ ضرور رکھا لیکن اس کے قاتلوںکا (خود جنگ کے لوگ جن پر شک کرتے ہیں) نہ تو کبھی نام لیا گیا اور نہ تصویریں چلائی گئیں۔
اس وقت لاہور میں پریس کلب کے سامنے جیو کے حق میں جو مظاہرہ روزانہ کیا جارہا ہے اس میں جنگ اور جیو کے ملازمین کی دلچسپی کا یہ حال ہے کہ لاہور میں اس گروپ کے تحت جنگ، جیو، دی نیوز، آواز، انقلاب، وقت، پاکستان ٹائمز چل رہے ہیں جن کے ملازمین کی تعداد 800 سے 1000تک ہے، جبکہ مظاہرے میں شرکا کی تعداد تیس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ان میں بھی 10سے 12 افراد پریس کلب سے آتے ہیں، جبکہ جیو گروپ کے مظاہرے میں شرکت کرنے والے افراد میں نوکریوں اور ترقیوں کے ہاتھوں مجبور افسر نظر آتے ہیں یا بے بس چپڑاسی اور چھوٹے اہلکار۔ اپنی نجی گفتگو میں جنگ اور جیو سے وابستہ اعلیٰ اور باخبر افراد کچھ اور ہی کہانیاں سناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لڑائی دراصل جیو اور آئی ایس آئی کی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی اور عسکری قیادت کی لڑائی ہے۔ ان کی رائے میں نواز حکومت رخصت ہونے والی ہے جس کی وجہ عسکری قیادت کے بہت سے تحفظات ہیں۔ اس وقت جنگ اور جیو گروپ سول حکومت کی فرنٹ ڈیفنس لائن ہے۔ اگر یہ گر گئی تو نواز حکومت کا جانا لازم ہوجائے گا۔
اس سیاق وسباق کے ساتھ یہ بات بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ جو ادارہ اپنے کارکنوں کو مسلسل نظرانداز کرتا رہا ہے، جو کسی بھی طاقتور شخص یا ادارے کے ساتھ لڑائی کا متحمل نہیں رہا وہ اپنے ایک کارکن کے لیے اچانک اتنا جذباتی کیوں ہوگیا؟ جس سے وہ اس کے کیرئیر کے آغاز پر کام تو لیتا رہا مگر کئی ماہ تک تنخواہ بھی ادا نہیں کی اور پھر اِس بار اتنے بڑے ادارے کے سامنے اس طرح خم ٹھونک کر کیسے اور کیوں آ گیا؟ نیز اب اچانک پسپائی پر کیوں اتر آیا ہے ؟ اس کے علاوہ بھی اس مسئلہ پر بہت سے سوالات ہیں جن کا ہم اِن شااللہ اگلی قسط میں جائزہ لیں گے۔
(جاری ہے)
سید تاثیر مصطفی
عبدالقیوم
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
گذشتہ قسط میں ہم یہ سوال اٹھا چکے ہیں کہ ملک بھر کے صحافیوں کو نظر انداز بلکہ ان کی توہین کرنے والا اور اپنے کارکنوں اور صحافیوں کا استحصال کرنے والا ادارہ اب حامد میر کے معاملے میں کیوں ڈٹ گیا ہے۔ اور چھوٹے چھوٹے افراد اور طاقتور گروپوں کے سامنے لیٹ جانے والے ادارے میں اچانک اس قدر جرأت کیسے آ گئی۔
یہیں سے یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ کہیں یہ کوئی سازشی کھیل تو نہیں؟ اور اچانک صحافیوں کی ہمدردی میں اور فوج کے خلاف ڈٹ جانے کے پیچھے کوئی غیر ملکی ایجنڈا تو نہیں ہے۔ کیونکہ ماضی میں یہی جنگ اور جیوکا ادارہ تمام فوجی آمروں کا پشت پناہ رہا ہے۔ ان سے بھر پور تعاون کے ساتھ مراعات بھی لیتا رہا ہے اور اس طاقت کے بل پر وہ دوسرے حریف اداروں کو نیچا دکھاتا رہا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں اس میڈیا گروپ کے بارے میں یہ بات عام تھی کہ اس میں بہت سے صحافی تو براہ راست آئی ایس آئی کے بھیجے ہوئے بیٹھے ہیں اور بہت سوں نے بعد میں اس طاقت ور خفیہ ادارے سے اپنے روابط مضبوط کر لیے ہیں۔ صحافتی حلقوں میں اس گروپ کے اخبارات اور چینلز کے بہت سے سربراہوں کے بارے میں یہ باتیں عام تھیں کہ انہیں محض اس وجہ سے یہ عہدے دیے گئے ہیں کہ ان کے خفیہ اداروں کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔
خود یہ میڈیا گروپ فوج اور خصوصا آئی ایس آئی بلکہ آئی ایس پی آر تک کے بارے میں اس قد محتاط ، حساس اور فکر مند تھا کہ نہ صرف ہمیشہ ان کی ستائش میں رطب اللسان رہا بلکہ ان کو ناراض کرنے کا تصور تک نہیں کرتا تھا۔ 1983میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران جن دس صحافیوں نے فوجی حکومت کے خلاف محضر نامہ پر دستخط کیے اور اس کے نتیجے میں وہ بے روزگار ہو گئے ان میں سے کسی ایک کو بھی اس بڑے میڈیا گروپ نے اپنے اخبارات و جرائد میں جگہ نہیں دی۔
اسی گروپ سے وابستہ بعض صحافیوں کے بارے میں کسی بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے ایڈیٹر کو یہ اختیار نہیں رہا کہ وہ ان کی خبروں میں کسی قسم کی قطع وبرید یا ایڈیٹنگ کر سکیں۔ حالانکہ انہیں تنخواہ ہی اس کام کی دی جا تی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ یہ صحافی بڑے مؤثر اور خفیہ اداروں سے رابطے میں ہیں۔ ضیاء الحق دور میں جنگ لاہور کے ایک رپورٹر نے ریفرنڈم کی خبر دی۔ یہ خبر شائع ہوئی تو فوجی حکومت غصے میں آ گئی۔ چنانچہ اس رپوٹر کو پکڑ کر اس وقت کے وزیر اطلاعات کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ اس دباؤ کے بعد رپورٹر کو تو نوکری سے نکال دیا گیا مگر اخبار ریفرنڈم کا اعلان ہونے پر 'جنگ کا اعزاز' کی سرخی کے تحت یہ خبر بار بار شائع کرتا رہا۔
جب 1990میں بے نظیر بٹھو نے کہا کہ انہیں انتخابی شکست آئی جی آئی نے نہیں بلکہ آئی ایس آئی نے دی ہے تو یہ میڈیا گروپ بے نظیر کے ساتھ نہیں تھا۔ جب جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن اور فوجی قیامت کے درمیان ایک تنازع پیدا ہوا تو یہ میڈیا گروپ منور حسن کے ساتھ تو نہیں تھا البتہ ان کی تذلیل وتحقیر کرنے کے تمام حربے اختیار کر رہا تھا۔ یہی مصلحت پسند اور کاروباری مزاج کا میڈیا گروپ اس بار ملک کے سب سے طاقتور ادارے کو چیلنج کر رہا ہے لیکن کیوں؟
کچھ لوگوں کا خدشہ ہے کہ یہ بھی آئی ایس آئی کے کسی ایجنڈے کا حصہ نہ ہو۔ کچھ کا خیال ہے کہ اس بار یہ میڈیا گروپ کسی غیر ملکی ایجنڈے پر ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ محض بریکنگ نیوز کے شوق میں اس سے ایک غلطی ہو گئی جسے وہ مجبوراً تاحال نبھائے جا رہا ہے۔ اسی لیے وہ کبھی پسپائی اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے اور کبھی جارحیت کے موڈ میں نظر آتا ہے۔ کبھی قانونی جنگ کی دھمکی دیتا ہے اور کبھی صفائیاں پیش کرنے لگتا ہے۔ لیکن واقفان حال کہتے ہیں کہ اس بار غلط اندازے کے باعث وہ اپنی کاروباری بقا (صحافتی بقا نہیں) کی جنگ لڑ رہا ہے اور بیک وقت سارے حربے استعمال کر رہا ہے۔
اس میڈیا گروپ کے اندر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت کی بقا کے لیے ڈٹے ہیں کیونکہ فوجی اور سیاسی قیادت میں اختلافات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی حکومت نے امریکہ کے ساتھ بعض ایسے وعدے کر لیے ہیں جو فوج کو پسند نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوجی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر طالبان سے مذاکرات شروع کر دیے گئے ۔ سعودی عرب اور شام کے ساتھ سیاسی حکومت کے معاملات پر بھی فوج کو تحفظات ہیں۔ جبکہ پرویز مشرف کے معاملے میں سیاسی حکومت کا رویہ انصاف پر مبنی نہیں بلکہ انتقام اور تذلیل و تحقیر کا ایجنڈا ہے۔ اس لیے عسکری قیادت سیاسی حکومت کونیچا دکھانا چاہتی ہے اور ہم جمہوریت کی بقا کے لیے سیاسی قیادت کا ساتھ دے رہے ہیں ۔
شاید اس غیر اعلانیہ باہمی تعاون کی وجہ سے ہی وزیر اعظم بنفس نفیس کراچی میں حامد میر کی عیادت کے لیے پہنچ گئے۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ وزیر اطلاعات پرویز ر شید نے وزیر اعظم کو اس پر آمادہ کیا ۔ سیاسی و صحافتی حلقوں بلکہ خود مسلم لیگ کے اندر کے لوگوں کا خیال ہے کہ پرویز رشید اپنی وزارت صرف جیو اور جنگ گروپ کے سر پر چلا رہے ہیں۔ وہ نہ صرف جنگ اور جیو پر بے پناہ انحصار کرتے ہیں بلکہ اس گروپ کے علاوہ کسی میڈیا گروپ کو گھاس نہیں ڈالتے۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر وہ دوسرے میڈیا گروپس اور صحافیوں کے درمیان کوئی پسندیدہ شخص نہیں ہیں۔ (جاری ہے)
عبدالقیوم
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
وزیر اطلاعات پرویز رشیدکے جنگ گروپ پر انحصارکا یہ عالم ہے کہ 11ماہ کی وزارت کے دوران انہوں نے ابھی تک اپنے زیر انتظام اداروں پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان، اے پی پی اور پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کا انتظامی دورہ تک نہیں کیا۔ اگر کہیں ان اداروں میں گئے بھی ہیں تو بطور مہمان۔
جنگ اور جیو کے اندر باخبر لوگ اس لڑائی کی ایک اور وجہ بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان میں بہت بڑی تیاریوں کے ساتھ ، جدید سہولیات سے آراستہ اور بہت زیادہ مالی وسائل کے ساتھ ''بول'' نامی میڈیا گروپ آ رہا ہے اور ان کا خیال ہے کہ اس گروپ کے پیچھے آئی ایس آئی ہے۔ اس انجانے خوف نے جیو گروپ کے مالکان اور ان کے کم فہم مشیروں کو پریشان کر رکھا ہے چنانچہ اسی خوف کی وجہ سے جیسے ہی انہیں حامد میر پر حملہ میں آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اس موقع کو سنہری موقعہ جانا اور اس کے اثرات پر غور کیے بغیر آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کے خلاف مہم شروع کر دی۔
در اصل جیو گروپ کو اس معاملے کو پوری طرح سمجھنے میں شدید غلطی ہوئی۔ اس کے اندازے غلط نکلے۔ اس کا خیال تھا کہ حامد میر بڑا اینکر اور آزادی صحافت اور آزادی اظہار کا عملبر دار ہے۔ اس پر حملے کے بعد تمام سیاسی جماعتیں مجبوراً ہمارے ساتھ ہوں گی ۔ کیونکہ ہم ماضی میں انہیں بے پناہ کوریج دیتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی وہ ہماری محتاج ہیں۔ جیو چونکہ سب سے بڑا میڈیا گروپ ہے اس لیے تمام میڈیا گروپس اور چینلز اس کی تقلید شروع کر دیں گے اور آزادی صحافت کے نام پر ہمارے ساتھ ہوں گے۔ جیو گروپ کے ملازمین تو ہمارے ہی ہیں اور ان کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ یہ باہر نکلیں گے تو باقی صحافی برادری بھی ان کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جائے گی۔ بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔
سیاسی جماعتوں نے حامدمیر حملے کی تو مذمت کی لیکن آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی زیادہ شدت سے مخالفت و مزاحمت کی۔ جو اب تک جاری ہے۔ خود جیو کے پروگراموں میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے جیو گروپ کی کھل کر مخالفت کی۔ میڈیا گروپس جو پہلے ہی جیو اور جنگ سے تنگ تھے کہ ایک تو کاروباری رقابت تھی دوسرے جیو جنگ گروپ اور اس کے ملازمین معمول کی مجلسوں میں دوسرے میڈیا گروپس کی توہین کرتے ہیں اور دوسرے گروپوں سے وابستہ صحافیوں کو کم تر اور حقیر جانتے ہیں۔ چنانچہ اتنے بڑے واقعہ اور جیو کے طوفان اٹھا دینے کے باوجود معاصر میڈیا گروپس جیو کی حمایت میں نہیں نکلے۔ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے بھی جیو کی حمایت سے گریز کیا۔ بلکہ سیاسی جماعتیں تو خم ٹھونک کر آئی ایس آئی کی حمایت میں نکل آئیں۔ جماعت اہل سنت اور جماعت الدعوۃ کے بعد مسلم لیگ ق نے آئی ایس آئی کی حمایت میں ملک بھر میں جلوس نکالے، معاصر میڈیا گروپس نے جیو کے خلاف پروگرام شروع کئے۔ اور ملازم صحافی باہم تقسیم ہو گئے اور ان کی غالب اکثریت جنگ جیو کی مخالفت کر رہی تھی۔
ابتداء میں مختلف شہروں کے پریس کلبوں نے حامد میر کی حمایت میں چھوٹے چھوٹے مظاہرے کیے لیکن تین دن بعد صرف لاہور پریس کلب میں احتجاجی کیمپ قائم رہ سکا۔ جو سسکتا اور دم توڑتا ہوا اب تک جاری ہے۔ اس کی وجہ لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری ہیں۔ وہ طویل عرصہ جنگ لاہور میں رہ چکے ہیں اور ان کے بڑے بھائی رئیس انصاری جیو کے ڈائریکٹر ہیں۔ لاہور پریس کلب کے حالیہ انتخابات میں ارشد انصاری کو اپنی انتخابی مہم کے دوران جنگ اور جیو کے دفاتر کے اندر داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ جنگ جیو دفاتر میں ان کا داخلہ میر شکیل الرحمن نے روکا تھا یا جنگ اور جیو کے اعلیٰ افسران نے یہ عقدہ اب کھل جانا چاہیے۔ شاید اب ارشد انصاری اپنے بڑے بھائی کی وجہ سے یہ کڑوا گھونٹ پی رہے ہیں۔ لیکن کیفیت یہ ہے کہ 2000ارکان پر مشتمل لاہور پریس کلب میں لگے ہوئے اس کیمپ میں احتجاج کے وقت 30سے 35افراد شامل ہوتے ہیں۔ یا مقامی این جی اوز کے چند افراد ۔
اس مایوس کن صورت حال کا یہ حل نکالا گیا کہ 30اپریل کو لاہور میں آل پاکستان پریس کلب کنونشن بلایا لیا گیا۔ یہ اب تک ایک کاغذی تنظیم تھی۔ یکم مئی کو ویمن جرنلٹس کنونشن بلایا گیا ۔ جبکہ دو تین اور چار مئی کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ برنا گروپ کے ایک دھڑے افضل بٹ گروپ اور آل پاکستان نیوز پیپر ایمپلائز کنفڈریشن (صبیح الدین اشرف گروپ) کی مجالس عاملہ کے اجلاس طلب کر لیے گئے ۔ان تینوں پروگراموں کے لیے سینکڑوں صحافیوں اور اخباری کارکنوں کو ملک بھر سے بلایا گیا۔ انہیں لاہور کے قیمتی ہوٹلوں میں تین سے پانچ دن تک ٹھہرایا گیا۔ خواہش یہ تھی کہ وہ جیو گروپ کی حمایت کا اعلان کریں۔ اس دوران لاہور پریس کلب میں یہ افواہ مسلسل گردش کرتی رہی کہ ان پروگراموں کے لیے جیو گروپ نے55لاکھ روپے دیے ہیں۔ جبکہ پرویز رشید نے سرکاری وسائل بڑے پیمانے سے فراہم کیے ہیں۔ لیکن اس تمام کوشش سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کیے جا سکے۔
آل پاکستان پریس کلب ایسوسی ایشن کا اجلاس لاہور پریس کلب کے نثار عثمانی آڈیٹوریم میں شروع ہوا تو پہلے مقرر نے ہی یہ سوال اٹھا دیا کہ منتظمین وضاحت کریں کہ انہوں نے کس مقصد کے لیے ہمیں اکٹھا کیاہے۔ ان کا ایجنڈا کیا ہے؟ کیا ہم نے حامد میر کی حمایت کرنی ہے۔ یا ہم جیو گروپ کی حمایت کرنے کے لیے بلائے گئے ہیں یا ہمیں آئی ایس آئی یا فوج کی مخالفت کے لیے بلایا گیا ہے۔ اس کے بعد بیشتر مقررین نے حامد میر کی حمایت کی مگر ساتھ جنگ جیو مالکان کی حمایت سے انکار کیا۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے صدر شہر یار، کراچی پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عامر لطیف اور کوئٹہ پریس کلب کے صدر کے علاوہ دیگر متعدد مندوبین نے واضح طور پر کہا کہ مالکان اخبارات و چینلز صحافیوں کا استحصال کرتے رہے ہیں۔ یہ اپنے مقاصد کے لیے صحافیوں کی حمایت چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم مالکان کی حمایت کرنے کو تیار نہیں۔ البتہ جنگ یا جیو کی بندش کی مخالفت کریں گے۔
ایک مقرر نے تو یہاں تک کہا کہ جنگ اور جیو کو کوئی بند نہیں کر رہا لیکن جیو ٹی وی اور جنگ اخبار نے یہ حصے حذف کر دیے اور حامد میر کی حمایت اور جنگ جیو کی بندش کے معاملے کو نشر اور شائع کیا ۔جس پر شرکاء یہ کہتے پائے گئے کہ جنگ جیو کی آزادی صحافت تو یہیں پر ننگی ہو گئی ہے۔ اس دوران وہاڑی پریس کلب کے صدر نوید اقبال قریشی نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی جاوید اقبال قریشی جو جنگ لاہور کے نمائندے تھے انہیں 1983ء میں ایک مقامی مافیا گروپ نے شدید فائرنگ کر کے زخمی کر دیا وہ تقریبا ایک سال تک بستر پر رہے۔ لیکن جنگ مالکان اور انتظامیہ نے ان کی خبر تک نہ لی۔ جب انہوں نے اس کی شکایت کی تو انہیں ڈانٹ کر خاموش کرا دیا گیا۔
اس دوران پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے رانا عظیم گروپ نے بھی ایوان لاہور میں یوم آزادی صحافت کے نام پر ایک شو کر ڈالا جہاں جیو لاہور کے بیوروچیف نے تقریر کرتے ہوئے جوش جذبات میں ایک میڈیا گروپ کے سربراہ کے لیے حرامزادے تک کا لفظ استعمال کر ڈالا۔ جنگ اور جیو کے لوگ اس سے پہلے بھی ایسا کرتے رہے ہیں جبکہ مالکان جنگ گروپ اپنے حریف اخبارات و چینلز کو بند کرانے کے تمام حربے استعمال میں لاتے رہے ہیں۔ (جاری ہے)
عبدالقیوم
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
ایکایک میڈیا گروپ کے مالک کو ''حرامزادہ'' قرار دینے والے جیو کے بیورو چیف چند روز قبل بھی وزیر اطلاعات کی موجودگی میں سٹیج پر بیٹھے ہوئے تین اخباری مالکان کی بے عزتی کر چکے ہیں۔ ایسے میں یہ مالکان جیو گروپ کی کیوں مدد کریں گے؟
اخبارات اور ٹی وی چینلز سے حکومتوں کو ہمیشہ شکایات رہتی ہیں کہ آزاد صحافت حکومتوں کی خرابیوں ، کرپشن بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کو عوام کے سامنے لاتی ہے۔ لیکن جنگ اور جیو گروپ شاید دنیا کا واحد میڈیا گروپ ہے جس سے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں، دینی حلقوں، سماجی تنظیموں، علمی شخصیات، اور تحقیقی اداروں کو ہمیشہ سے بے پناہ شکایات رہی ہیں اور وقتاً فوقتاً اس پر وہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
یہ شکایات اتنی بے جا بھی نہیں تھیں۔ 1981ء میں لاہور سے جنگ کی اشاعت کے فوری بعد ممتاز عالم دین اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سربراہ علامہ احسان الٰہی ظہیر کی خفیہ شادی کی خبر نمایاں انداز میں جنگ میں شائع کی گئی۔ یہ خبر نہ صرف غلط تھی بلکہ علامہ صاحب کے ایک مخالف نے فراہم کی تھی۔ اس خبر کی اشاعت پر علامہ احسان الٰہی ظہیر نے روزنامہ جنگ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کیا۔ ان کے حامیوں نے شدید احتجاج کیا اور عرصہ تک علامہ صاحب اور ان کی جماعت مرکزی جمعیت اہل حدیث جنگ سے شدید نالاں رہے۔
1981ء ہی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے اس وقت کے ناظم اعلیٰ (غالباً معراج الدین) کے بارے میں طیارہ اغوا کرنے کی جھوٹی خبر لیڈ سٹوری کے طور پر شائع کی گئی۔ جس پر اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں نے جنگ لاہور کے دفاتر آ کر احتجاج کیا اور شدید توڑ پھوڑ کی۔ نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو ان کی طلبہ تنظیم مسلم سٹوڈنٹنس فیڈریشن کو اس میڈیا گروپ کے ساتھ اس قدر شکایات پیدا ہوئیں کہ انہوں نے ارشد امین چودھری کی قیادت میں جنگ اخبار کے بنڈل جلائے اور اخبار کو مارکیٹ پہنچنے نہ دیا۔ الطاف حسین جن دنوں پاکستان میں ہی تھے۔ انہوں نے جنگ اخبار کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور کئی روز تک روزنامہ جنگ، کراچی، حیدر آباد اور سندھ کے کئی شہروں میں تقسیم نہ ہو سکا۔ غلام حیدر وائیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں جنگ اور اس سے وابستہ صحافیوں پر سنگین الزامات لگائے۔ اور اس وقت کے ایگزیکٹو ایڈیٹر جناب اطہر مسعود کا نام لے کر اپنی شکایات ریکارڈ کرائیں۔
یہ تلخی اور لڑائی کئی ہفتے تک جاری رہی۔ ایک وقت تھا جب نواز شریف اور چیف ایڈیٹر جنگ میر شکیل الرحمن کے درمیان ایسی گاڑھی چھنتی تھی کہ دونوں ایک چھوٹے طیارے میں بیٹھ کر لاہور کے گرد چکر لگاتے ہوئے گھنٹوں خوش گپیاں کرتے تھے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ نواز شریف کے وزیر جناب سیف الرحمان نے جنگ کے خلاف متعدد کیسز بنا ڈالے۔ اخبار کا کاغذی کوٹہ روک لیا اور جنگ بند ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ جس پرجنگ انتظامیہ نواز حکومت کے خلاف سپریم کورٹ تک گئی۔ یہ لڑائی اتنی لمبی ہوئی کہ لاہور اور کراچی میں حکومت کے خلاف جنگ نے احتجاجی کیمپ لگائے۔
اور اب آئی ایس آئی پر الزامات اور اس کے سربراہ کی کردار کشی کے بعد بہت سی چھاؤنیوں اور فوجی علاقوں میں جنگ کا بائیکاٹ ہو رہا ہے۔ جب کہ عمران خان بھی آستینیں چڑھا کر جنگ جیو کے بائیکاٹ کا اعلان کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مئی 2013ء کی انتخابی دھاندلی میں جیو گروپ ملوث ہے۔ یہ شاید دنیا میں کسی میڈیا گروپ پر اپنی نوعیت کا پہلا الزام ہے۔
دنیا بھر میں اخبارات اور چینلز سے سیاسی جماعتوں کو تھوڑی بہت شکایات ہوتی ہیں۔ لیکن جنگ اور جیو پر لگنے والا الزام بڑا منفرد ہے۔ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ جنگ اور جیو مختلف مواقع پر مختلف سیاسی جماعتوں کے خلاف باقاعدہ اور منظم مہم چلا تے رہے ہیں۔ جو کسی صحافتی ادارے کا کام ہے نہ صحافتی اخلاقیات اس کی اجازت دیتی ہیں۔
اس وقت جیو گروپ کھلم کھلا عمران خان کے خلاف باقاعدہ مہم چلا رہا ہے۔ ان کے خلاف خبروں، تبصروں اور ٹاک شوز کے علاوہ باقاعدہ پر وموز اور اشتہارات چلا رہا ہے۔ لیکن کوئی سیاسی جماعت یا میڈیا گروپ اس کی حمایت کر رہا ہے نہ کوئی صحافتی تنظیم اسے پسند کر رہی ہے۔ اس سے قبل یہی جیو گروپ جس انداز میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام کے بارے میں باقاعدہ مہم چلاتا رہا ہے۔ اسے بھی کسی نے پسند نہیں کیا۔ یہی کام اس سے قبل سابق آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا کے خلاف کیا گیا تھا۔
کسی فرد یا ادارے کے خلاف خبر دینا اور بات ہے مگر باقاعدہ مہم چلانا بالکل مختلف بات ہے۔ جنگ اور جیو گروپ تسلسل سے یہی کام کر رہا ہے۔ چند ماہ قبل امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے ایک انٹرویو پر یہ گروپ اپنے چینلز اور اخبارات میں باقاعدہ تندو تیز مہم چلا چکا ہے۔ اس معاملے میں تو اس گروپ نے قائد اعظم اور شاعر مشرق کو بھی نہیں بخشا۔ اس کے اینکر نجم سیٹھی اور کالم نگار یاسر پیرزادہ نے قائد اعظم تک کی کردار کشی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
چند ماہ قبل ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے خلاف جنگ، جیو گروپ نے صرف خبریں ہی نہیں دیں بلکہ باقاعدہ مہم چلائی ہے۔ صدر آصف زرداری کے خلاف تو اس گروپ نے اس قدر منظم مہم چلائی کہ پیپلز پارٹی کے لوگ اب تک خود جیو کے پروگراموں میں اس کی شکایات کرتے ہیں۔ مولانا بخش چانڈیو نے یہاں تک کہا کہ ہمیں یہ گروپ غدار اور سیکیورٹی رسک تک کہتا رہا ہے۔
راولپنڈی کے ضمنی انتخابات میں یہ گروپ شیخ رشید کے خلاف مہم چلانے میں اس قدر سرگرم تھا کہ شیخ رشید اعلانیہ کہتے تھے کہ وہ انتخاب جیت گئے تو جیو کے اینکر کو سبق سکھا دیں گے۔ پرویز مشرف پر آئین کی پامالی کا کیس شروع ہؤا تو جنگ اور جیو نے جو کچھ کیا، وہ رپورٹنگ تھی نہ صحافت۔ وہ کھلی کھلی مہم تھی۔ جسے شاید فوج نے پسند نہ کیا ہو گا۔
جعلی ڈگری کیس والے جمشید دستی ضمنی انتخابات میں دوبارہ امیدوار بنے تو جنگ جیو نے ایسی مہم چلائی کہ ان کے مخالف امیدوار نے بھی ایسی مہم نہ چلائی ہو گی۔ حالانکہ ان ہی دنوں ملک کے 8 حلقوں میں جعلی ڈگری پر دوبارہ انتخابات ہو رہے تھے اور تمام سیاسی جماعتو ں نے سابقہ امیدواروں یا ان کے نامزد افراد ہی کو ٹکٹیں دی تھیں مگر مہم جمشید دستی کے خلاف چلائی گئی۔ مگر جمشید دستی اس ساری مہم کو ناکام بنا کر جیت گئے۔
پرویز مشرف دور میں جب مسلم لیگ (ق) نے اسلام آباد میں اپنا جلسہ کیا جس سے صدر پرویز مشرف نے بھی خطاب کیا۔ اس کی کوریج جیو نے ایک انوکھے انداز سے کی۔ جلسہ تو مسلم لیگ (ق) کا تھا اور جیو کے اینکر جلسہ گاہ کے قریب اپوزیشن کے بعض رہنماؤں کو لے کر پہنچ گئے اور اس طرح مسلم لیگ (ق) کے جلسے کے موقع پر جیو نے اس کے خلاف مخالفانہ فضا بنا دی۔ اور اب مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے لاہور پریس کلب میں کہہ دیا ہے کہ جنگ اور جیو نے گزشتہ انتخابات میں واضح طور پر عمران خان کی مہم چلائی اور ہمیں نقصان پہنچایا۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے اور خواجہ آصف کے خلاف جیو نے تکلیف دہ مہم چلائی۔ انہوں نے اس سلسلے میں کامران خان کا نام بھی لیا۔
سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے خلاف اس طرح کی مخالفانہ اور کردار کشی کی مہم نے جنگ اور جیو کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لیکن اتنے بڑے میڈیا گروپ کو چیلنج کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ اب پہلی بار اس بند مٹھی سے ریت گرنا شروع ہوئی ہے۔ چنانچہ ہر طرف سے اس گروپ کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ خود جیو پر آ کر لوگ اس گروپ سے اپنے دکھڑے بیان کر رہے ہیں۔ اس طرح اب ایک ایسا پنڈورا بکس کھل گیا ہے جو مستقبل کی صحافت کو گھائل کر کے رکھ دے گا۔ جنگ اور جیو سے شکایات لوگوں کو پہلے سے تھیں مگر وہ اس کی طاقت کے سامنے ہمت نہیں کرتے تھے۔ اس بار اس گروپ نے ملک کے مقتدر ادارے سے ٹکرا کر سب کی زبانیں کھول دی ہیں۔ ورنہ ماضی میں بابائے سوشلزم شیخ رشید اور چودھری ظہور الٰہی اپنے بارے میں توہین آمیز، غلط اور پراپیگنڈہ پر مبنی خبریں شائع کرنے پر جنگ کے خلاف ہتک عزت کے کیس جیت چکے ہیں۔
اب ذرا دیکھئے کہ جنگ اور جیو گروپ پرکون لوگ چھائے ہوئے ہیں جو شاید فیصلہ سازی کے عمل میں بھی شریک ہیں۔ ایک صاحب وہ ہیں جن کے بارے میں فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسلم بیگ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ پشاور میں شاید بطور بریگیڈئر تعینات تھے تو انہوں نے جیو اور جنگ گروپ کے اس ستون کو حراست میں لیا تھا۔ ان پر سنگین نوعیت کے ریاست مخالف الزامات تھے جس پر وہ کئی ماہ زیر حراست رہے۔ بعد میں یہی صاحب بلوچستان میں ریاست کے خلاف جاری مسلح جدوجہد میں شریک رہے۔ پھر نواز شریف کے سابقہ دور میں وہ بھارت جا کر ایسی گفتگو فرما تے رہے کہ انہیں واپسی پر حساس اداروں نے کئی ہفتے بلکہ کئی ماہ حراست میں رکھا۔ اب ان کی بیٹی امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل میں کام کرتی ہیں۔
عمومی طور پر ان کی تحریر یں فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف ہوتی ہیں۔ ایک صاحب وہ ہیں جنہیں 1981ء میں حساس اداروں نے بعض مبینہ سرگرمیوں کی بنا پر حراست میں لیا تھا اور کئی ماہ تک حراست میں رکھا تھا۔ ایک صاحب 1970ء میں لاہور میں جماعت اسلامی کے دفتر کو نذر آتش کرنے کا ایک کردار تھے۔ جس میں قرآن پاک کے نسخے اور دینی کتب کی بڑی تعداد کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ بعد میں ان صاحب پر لاہور کے ایک عالم دین کے گھر کا گھیراؤ کر کے وہاں توڑ پھوڑ اورحملہ کرانے کا الزام رہا تھا۔ ایک صاحب بے نظیر کے پہلے دور میں الذوالفقار کے کارکنوں اور طیارہ اغواء کے نتیجے میں بیرون ملک بھیجے گئے۔ 52 افراد کی بحالی اور ان کو حکومت میں حصہ دینے کی تحریک کے لیے کوشاں تھے۔اور اس سلسلے میں بنائی گئی ایک تنظیم میں مبینہ طور پر شامل تھے۔ ایک صاحب جو طویل عرصہ تک اس میڈیا گروپ سے وابستہ رہے وہ بھارت سے دوستی میں ہر حد پھلانگنے کے قائل ہیں۔ انہیں ساری خوبیاں بھارت میں اور تمام خرابیاں پاکستان میں نظر آتی ہیں۔
ان حالات میں یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اس لڑائی کا انجام کیا ہو گا۔ جس میڈیا گروپ کو سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے نہ معاصر میڈیا گروپس کی ۔ جس کی حمایت حکومت بھی واضح طور پر نہیں کر رہی۔ جس کے ہزاروں کارکن اس ساری لڑائی میں مکمل طور پر خاموش تماشائی ہیں۔ جس کی حمایت میں سول سوسائٹی بھی کھل کر سامنے نہیں آئی۔ جس کی حمایت اور مخالفت پر صحافتی حلقے منقسم ہیں، وہ اتنی سخت اور لمبی لڑائی کیسے لڑ رہا ہے۔ یہ لڑائی کس کی مبینہ اشیر باد سے لڑی جا رہی ہے اور اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں۔
ان سوالات کے جوابات ابھی آنا باقی ہیں شاید جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں ان سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔ لیکن سردست یہ بات اہم ہے کہ حامد میر پر حملے کی منصفانہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اور ملزموں کی نشان دہی ہونی چاہئے۔ آئی ایس آئی کے خلاف مہم کیوں چلائی گئی۔ اس کے پیچھے کون اور کیوں تھا۔ اسی طرح مختلف سیاسی جماعتوں کو فوج کی حمایت میں جلوس نکالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ان معاملات کی تحقیقات ہونی چاہئے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی جہاں آئی ایس آئی سیاسی و صحافتی معاملات میں اپنی مداخلت روکے۔ کیونکہ یہ خود اس کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے۔ جنگ اور جیو گروپ بھی اپنے معاملات کا کھلے دل سے جائزہ لے کر ضروری اصلاح کر یں ۔ صحافتی تنظیمیں محض نعروں کے پیچھے نہ بھاگیں بلکہ صحافیوں کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے فیصلے کریں۔ جنگ جیو گروپ اگر واقعی صحافتی آزادی چاہتا ہے تو اپنے کارکنوں اور صحافیوں کو بھی قلم اور معاش کی آزادی دے۔ ان کے حقوق انہیں لوٹائے اور پریس کلبیں یہ معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے جرنلٹس یونیز کے ذریعے ان معاملات کو حل کرائیں اور خود ان کی پشت پر کھڑی ہو جائیں ورنہ دانستہ اور نادانستہ طور پر صحافتی ٹریڈ یونین ختم ہو جائے گی اور صحافیوں کی تقدیر کے فیصلے تفریحی کلبوں کے ہاتھ میں آ جائیں گے۔ جو ایک المیہ سے کم نہیں ہو گا۔
میڈیا گروپس آپس کی سر پھٹول کے بجائے کوئی ضابطہ اخلاق بنائیں اور اس پر کام کریں جب کہ حکومت اداروں کی لڑائی میں تماشائی بننے کی بجائے اپنا آئینی کردار ہوشمندی سے ادا کرے۔ میڈیا گروپ کے مالک کو ''حرامزادہ'' قرار دینے والے جیو کے بیورو چیف چند روز قبل بھی وزیر اطلاعات کی موجودگی میں سٹیج پر بیٹھے ہوئے تین اخباری مالکان کی بے عزتی کر چکے ہیں۔ ایسے میں یہ مالکان جیو گروپ کی کیوں مدد کریں گے؟
اخبارات اور ٹی وی چینلز سے حکومتوں کو ہمیشہ شکایات رہتی ہیں کہ آزاد صحافت حکومتوں کی خرابیوں ، کرپشن بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کو عوام کے سامنے لاتی ہے۔ لیکن جنگ اور جیو گروپ شاید دنیا کا واحد میڈیا گروپ ہے جس سے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں، دینی حلقوں، سماجی تنظیموں، علمی شخصیات، اور تحقیقی اداروں کو ہمیشہ سے بے پناہ شکایات رہی ہیں اور وقتاً فوقتاً اس پر وہ اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
یہ شکایات اتنی بے جا بھی نہیں تھیں۔ 1981ء میں لاہور سے جنگ کی اشاعت کے فوری بعد ممتاز عالم دین اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سربراہ علامہ احسان الٰہی ظہیر کی خفیہ شادی کی خبر نمایاں انداز میں جنگ میں شائع کی گئی۔ یہ خبر نہ صرف غلط تھی بلکہ علامہ صاحب کے ایک مخالف نے فراہم کی تھی۔ اس خبر کی اشاعت پر علامہ احسان الٰہی ظہیر نے روزنامہ جنگ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کیا۔ ان کے حامیوں نے شدید احتجاج کیا اور عرصہ تک علامہ صاحب اور ان کی جماعت مرکزی جمعیت اہل حدیث جنگ سے شدید نالاں رہے۔
1981ء ہی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے اس وقت کے ناظم اعلیٰ (غالباً معراج الدین) کے بارے میں طیارہ اغوا کرنے کی جھوٹی خبر لیڈ سٹوری کے طور پر شائع کی گئی۔ جس پر اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں نے جنگ لاہور کے دفاتر آ کر احتجاج کیا اور شدید توڑ پھوڑ کی۔ نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو ان کی طلبہ تنظیم مسلم سٹوڈنٹنس فیڈریشن کو اس میڈیا گروپ کے ساتھ اس قدر شکایات پیدا ہوئیں کہ انہوں نے ارشد امین چودھری کی قیادت میں جنگ اخبار کے بنڈل جلائے اور اخبار کو مارکیٹ پہنچنے نہ دیا۔ الطاف حسین جن دنوں پاکستان میں ہی تھے۔ انہوں نے جنگ اخبار کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور کئی روز تک روزنامہ جنگ، کراچی، حیدر آباد اور سندھ کے کئی شہروں میں تقسیم نہ ہو سکا۔ غلام حیدر وائیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں جنگ اور اس سے وابستہ صحافیوں پر سنگین الزامات لگائے۔ اور اس وقت کے ایگزیکٹو ایڈیٹر جناب اطہر مسعود کا نام لے کر اپنی شکایات ریکارڈ کرائیں۔
یہ تلخی اور لڑائی کئی ہفتے تک جاری رہی۔ ایک وقت تھا جب نواز شریف اور چیف ایڈیٹر جنگ میر شکیل الرحمن کے درمیان ایسی گاڑھی چھنتی تھی کہ دونوں ایک چھوٹے طیارے میں بیٹھ کر لاہور کے گرد چکر لگاتے ہوئے گھنٹوں خوش گپیاں کرتے تھے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ نواز شریف کے وزیر جناب سیف الرحمان نے جنگ کے خلاف متعدد کیسز بنا ڈالے۔ اخبار کا کاغذی کوٹہ روک لیا اور جنگ بند ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ جس پرجنگ انتظامیہ نواز حکومت کے خلاف سپریم کورٹ تک گئی۔ یہ لڑائی اتنی لمبی ہوئی کہ لاہور اور کراچی میں حکومت کے خلاف جنگ نے احتجاجی کیمپ لگائے۔
اور اب آئی ایس آئی پر الزامات اور اس کے سربراہ کی کردار کشی کے بعد بہت سی چھاؤنیوں اور فوجی علاقوں میں جنگ کا بائیکاٹ ہو رہا ہے۔ جب کہ عمران خان بھی آستینیں چڑھا کر جنگ جیو کے بائیکاٹ کا اعلان کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مئی 2013ء کی انتخابی دھاندلی میں جیو گروپ ملوث ہے۔ یہ شاید دنیا میں کسی میڈیا گروپ پر اپنی نوعیت کا پہلا الزام ہے۔
دنیا بھر میں اخبارات اور چینلز سے سیاسی جماعتوں کو تھوڑی بہت شکایات ہوتی ہیں۔ لیکن جنگ اور جیو پر لگنے والا الزام بڑا منفرد ہے۔ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ جنگ اور جیو مختلف مواقع پر مختلف سیاسی جماعتوں کے خلاف باقاعدہ اور منظم مہم چلا تے رہے ہیں۔ جو کسی صحافتی ادارے کا کام ہے نہ صحافتی اخلاقیات اس کی اجازت دیتی ہیں۔
اس وقت جیو گروپ کھلم کھلا عمران خان کے خلاف باقاعدہ مہم چلا رہا ہے۔ ان کے خلاف خبروں، تبصروں اور ٹاک شوز کے علاوہ باقاعدہ پر وموز اور اشتہارات چلا رہا ہے۔ لیکن کوئی سیاسی جماعت یا میڈیا گروپ اس کی حمایت کر رہا ہے نہ کوئی صحافتی تنظیم اسے پسند کر رہی ہے۔ اس سے قبل یہی جیو گروپ جس انداز میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام کے بارے میں باقاعدہ مہم چلاتا رہا ہے۔ اسے بھی کسی نے پسند نہیں کیا۔ یہی کام اس سے قبل سابق آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا کے خلاف کیا گیا تھا۔
کسی فرد یا ادارے کے خلاف خبر دینا اور بات ہے مگر باقاعدہ مہم چلانا بالکل مختلف بات ہے۔ جنگ اور جیو گروپ تسلسل سے یہی کام کر رہا ہے۔ چند ماہ قبل امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے ایک انٹرویو پر یہ گروپ اپنے چینلز اور اخبارات میں باقاعدہ تندو تیز مہم چلا چکا ہے۔ اس معاملے میں تو اس گروپ نے قائد اعظم اور شاعر مشرق کو بھی نہیں بخشا۔ اس کے اینکر نجم سیٹھی اور کالم نگار یاسر پیرزادہ نے قائد اعظم تک کی کردار کشی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
چند ماہ قبل ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے خلاف جنگ، جیو گروپ نے صرف خبریں ہی نہیں دیں بلکہ باقاعدہ مہم چلائی ہے۔ صدر آصف زرداری کے خلاف تو اس گروپ نے اس قدر منظم مہم چلائی کہ پیپلز پارٹی کے لوگ اب تک خود جیو کے پروگراموں میں اس کی شکایات کرتے ہیں۔ مولانا بخش چانڈیو نے یہاں تک کہا کہ ہمیں یہ گروپ غدار اور سیکیورٹی رسک تک کہتا رہا ہے۔
راولپنڈی کے ضمنی انتخابات میں یہ گروپ شیخ رشید کے خلاف مہم چلانے میں اس قدر سرگرم تھا کہ شیخ رشید اعلانیہ کہتے تھے کہ وہ انتخاب جیت گئے تو جیو کے اینکر کو سبق سکھا دیں گے۔ پرویز مشرف پر آئین کی پامالی کا کیس شروع ہؤا تو جنگ اور جیو نے جو کچھ کیا، وہ رپورٹنگ تھی نہ صحافت۔ وہ کھلی کھلی مہم تھی۔ جسے شاید فوج نے پسند نہ کیا ہو گا۔
جعلی ڈگری کیس والے جمشید دستی ضمنی انتخابات میں دوبارہ امیدوار بنے تو جنگ جیو نے ایسی مہم چلائی کہ ان کے مخالف امیدوار نے بھی ایسی مہم نہ چلائی ہو گی۔ حالانکہ ان ہی دنوں ملک کے 8 حلقوں میں جعلی ڈگری پر دوبارہ انتخابات ہو رہے تھے اور تمام سیاسی جماعتو ں نے سابقہ امیدواروں یا ان کے نامزد افراد ہی کو ٹکٹیں دی تھیں مگر مہم جمشید دستی کے خلاف چلائی گئی۔ مگر جمشید دستی اس ساری مہم کو ناکام بنا کر جیت گئے۔
پرویز مشرف دور میں جب مسلم لیگ (ق) نے اسلام آباد میں اپنا جلسہ کیا جس سے صدر پرویز مشرف نے بھی خطاب کیا۔ اس کی کوریج جیو نے ایک انوکھے انداز سے کی۔ جلسہ تو مسلم لیگ (ق) کا تھا اور جیو کے اینکر جلسہ گاہ کے قریب اپوزیشن کے بعض رہنماؤں کو لے کر پہنچ گئے اور اس طرح مسلم لیگ (ق) کے جلسے کے موقع پر جیو نے اس کے خلاف مخالفانہ فضا بنا دی۔ اور اب مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے لاہور پریس کلب میں کہہ دیا ہے کہ جنگ اور جیو نے گزشتہ انتخابات میں واضح طور پر عمران خان کی مہم چلائی اور ہمیں نقصان پہنچایا۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے اور خواجہ آصف کے خلاف جیو نے تکلیف دہ مہم چلائی۔ انہوں نے اس سلسلے میں کامران خان کا نام بھی لیا۔
سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے خلاف اس طرح کی مخالفانہ اور کردار کشی کی مہم نے جنگ اور جیو کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لیکن اتنے بڑے میڈیا گروپ کو چیلنج کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ اب پہلی بار اس بند مٹھی سے ریت گرنا شروع ہوئی ہے۔ چنانچہ ہر طرف سے اس گروپ کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ خود جیو پر آ کر لوگ اس گروپ سے اپنے دکھڑے بیان کر رہے ہیں۔ اس طرح اب ایک ایسا پنڈورا بکس کھل گیا ہے جو مستقبل کی صحافت کو گھائل کر کے رکھ دے گا۔ جنگ اور جیو سے شکایات لوگوں کو پہلے سے تھیں مگر وہ اس کی طاقت کے سامنے ہمت نہیں کرتے تھے۔ اس بار اس گروپ نے ملک کے مقتدر ادارے سے ٹکرا کر سب کی زبانیں کھول دی ہیں۔ ورنہ ماضی میں بابائے سوشلزم شیخ رشید اور چودھری ظہور الٰہی اپنے بارے میں توہین آمیز، غلط اور پراپیگنڈہ پر مبنی خبریں شائع کرنے پر جنگ کے خلاف ہتک عزت کے کیس جیت چکے ہیں۔
اب ذرا دیکھئے کہ جنگ اور جیو گروپ پرکون لوگ چھائے ہوئے ہیں جو شاید فیصلہ سازی کے عمل میں بھی شریک ہیں۔ ایک صاحب وہ ہیں جن کے بارے میں فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسلم بیگ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ پشاور میں شاید بطور بریگیڈئر تعینات تھے تو انہوں نے جیو اور جنگ گروپ کے اس ستون کو حراست میں لیا تھا۔ ان پر سنگین نوعیت کے ریاست مخالف الزامات تھے جس پر وہ کئی ماہ زیر حراست رہے۔ بعد میں یہی صاحب بلوچستان میں ریاست کے خلاف جاری مسلح جدوجہد میں شریک رہے۔ پھر نواز شریف کے سابقہ دور میں وہ بھارت جا کر ایسی گفتگو فرما تے رہے کہ انہیں واپسی پر حساس اداروں نے کئی ہفتے بلکہ کئی ماہ حراست میں رکھا۔ اب ان کی بیٹی امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل میں کام کرتی ہیں۔
عمومی طور پر ان کی تحریر یں فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف ہوتی ہیں۔ ایک صاحب وہ ہیں جنہیں 1981ء میں حساس اداروں نے بعض مبینہ سرگرمیوں کی بنا پر حراست میں لیا تھا اور کئی ماہ تک حراست میں رکھا تھا۔ ایک صاحب 1970ء میں لاہور میں جماعت اسلامی کے دفتر کو نذر آتش کرنے کا ایک کردار تھے۔ جس میں قرآن پاک کے نسخے اور دینی کتب کی بڑی تعداد کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ بعد میں ان صاحب پر لاہور کے ایک عالم دین کے گھر کا گھیراؤ کر کے وہاں توڑ پھوڑ اورحملہ کرانے کا الزام رہا تھا۔ ایک صاحب بے نظیر کے پہلے دور میں الذوالفقار کے کارکنوں اور طیارہ اغواء کے نتیجے میں بیرون ملک بھیجے گئے۔ 52 افراد کی بحالی اور ان کو حکومت میں حصہ دینے کی تحریک کے لیے کوشاں تھے۔اور اس سلسلے میں بنائی گئی ایک تنظیم میں مبینہ طور پر شامل تھے۔ ایک صاحب جو طویل عرصہ تک اس میڈیا گروپ سے وابستہ رہے وہ بھارت سے دوستی میں ہر حد پھلانگنے کے قائل ہیں۔ انہیں ساری خوبیاں بھارت میں اور تمام خرابیاں پاکستان میں نظر آتی ہیں۔
ان حالات میں یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اس لڑائی کا انجام کیا ہو گا۔ جس میڈیا گروپ کو سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے نہ معاصر میڈیا گروپس کی ۔ جس کی حمایت حکومت بھی واضح طور پر نہیں کر رہی۔ جس کے ہزاروں کارکن اس ساری لڑائی میں مکمل طور پر خاموش تماشائی ہیں۔ جس کی حمایت میں سول سوسائٹی بھی کھل کر سامنے نہیں آئی۔ جس کی حمایت اور مخالفت پر صحافتی حلقے منقسم ہیں، وہ اتنی سخت اور لمبی لڑائی کیسے لڑ رہا ہے۔ یہ لڑائی کس کی مبینہ اشیر باد سے لڑی جا رہی ہے اور اس کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں۔
ان سوالات کے جوابات ابھی آنا باقی ہیں شاید جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں ان سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔ لیکن سردست یہ بات اہم ہے کہ حامد میر پر حملے کی منصفانہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اور ملزموں کی نشان دہی ہونی چاہئے۔ آئی ایس آئی کے خلاف مہم کیوں چلائی گئی۔ اس کے پیچھے کون اور کیوں تھا۔ اسی طرح مختلف سیاسی جماعتوں کو فوج کی حمایت میں جلوس نکالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ان معاملات کی تحقیقات ہونی چاہئے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی جہاں آئی ایس آئی سیاسی و صحافتی معاملات میں اپنی مداخلت روکے۔ کیونکہ یہ خود اس کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے۔ جنگ اور جیو گروپ بھی اپنے معاملات کا کھلے دل سے جائزہ لے کر ضروری اصلاح کر یں ۔ صحافتی تنظیمیں محض نعروں کے پیچھے نہ بھاگیں بلکہ صحافیوں کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے فیصلے کریں۔ جنگ جیو گروپ اگر واقعی صحافتی آزادی چاہتا ہے تو اپنے کارکنوں اور صحافیوں کو بھی قلم اور معاش کی آزادی دے۔ ان کے حقوق انہیں لوٹائے اور پریس کلبیں یہ معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے جرنلٹس یونیز کے ذریعے ان معاملات کو حل کرائیں اور خود ان کی پشت پر کھڑی ہو جائیں ورنہ دانستہ اور نادانستہ طور پر صحافتی ٹریڈ یونین ختم ہو جائے گی اور صحافیوں کی تقدیر کے فیصلے تفریحی کلبوں کے ہاتھ میں آ جائیں گے۔ جو ایک المیہ سے کم نہیں ہو گا۔
میڈیا گروپس آپس کی سر پھٹول کے بجائے کوئی ضابطہ اخلاق بنائیں اور اس پر کام کریں جب کہ حکومت اداروں کی لڑائی میں تماشائی بننے کی بجائے اپنا آئینی کردار ہوشمندی سے ادا کرے۔
سید تاثیر مصطفی
عبدالقیوم صحافی
 
Top