ابو عبداللہ صغیر
رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2011
- پیغامات
- 26
- ری ایکشن اسکور
- 81
- پوائنٹ
- 58
’’حجاب میں خود کو آزاد محسوس کرتی ہوں‘‘
الیاس حامد کا خصوصی کالم
الیاس حامد کا خصوصی کالم
مارخو لائن خان کامپ کا تعلق جرمنی کے شہر فرائی برگ سے ہے۔ نسل کے اعتبار سے ڈچ یعنی ولندیزی خاتون ہے۔ اس کی پیدائش ہالینڈ میں ہوئی۔ وہ عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئی اور عیسائیت کے نظریات لئے جوان ہوئی۔ وہ جب تک عیسائی مذہب سے منسلک رہی اس کے ذہن میں عیسائیت اور تثلیث کے بارے میں کئی طرح کے شکوک و شبہات جنم لیتے رہے۔ ان میں سے ایک سب سے بڑا شبہ یہ تھا کہ انسان من حیث الکل گنہگار کیوں ہے؟ پیدائشی طور پر اس نے کون سا گناہ اور جرم کیا ہے کہ یہ گناہ کا مجسمہ تصور کیا جاتا ہے اور اس بنیاد پر انسان کو جرم دار ٹھہرایا جاتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں اس نے عیسائی لٹریچر کا حتی الوسع مطالعہ کیا، عیسائی مبلغین اور سکالرز سے رابطہ کیا، مگر کوئی چیز اسے مطمئن نہ کر سکی۔ دوسری بات یہ تھی کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے کیوں ہیں، اس سوال کا جواب اسے بے چین کئے رکھتا تھا مگر دل میں اٹھنے والے سوالات کا جواب کہیں سے نہ مل سکا۔ اس نے بدھ مت اور ہندو مت کا بھی مطالعہ کیا مگر یہ دونوں مذاہب بھی اس کو متاثر نہ کر سکے۔ پھر اس نے اسلام کا مطالعہ کرنا شروع کیا، وہ اسلام کا مطالعہ جوں جوں کرتی گئی اسے اپنے تمام سوالات اور اشکالات کا جواب ملتا گیا۔ آخر کار اسلام نے اس کو اتنا متاثر کیا کہ اسے اپنائے بنا رہ نہ سکی۔
اسلام کے گوشۂ عافیت میں آنے کے بعد مارخولائن کو حجاب یعنی پردے سے بہت سکون اور اطمینان میسر ہوا۔ حجاب کرنے کے بعد اس نے جو احساسات بیان کئے، ان کو سن کر ان لوگوں کے اعتراضات کا ایسا مسکت جواب ملتا ہے جو حجاب کو عورت کیلئے قید، بوجھ اور غلامی سے تعبیر کرتے ہیں۔
اہل مغرب نے اسلام سے حسد کرتے ہوئے ہمیشہ یہ پروپیگنڈا کیا کہ حجاب اور پردہ عورت کی آزادی کے منافی ہے، اس سے عورت اس بنیادی حق سے محروم ہو جاتی ہے جو ہر فرد کو آزادانہ زندگی بسر کرنے سے متعلق ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ رجعت پسند، دقیانوسی نظریات کے حامل مردوں کی طرف سے عورت پر لادا ہوا بوجھ ہے، مسلم خواتین مجبوراً خود کو ڈھانپنے پر مجبور ہیں، لیکن خود کو حجاب سے مزین کرتے ہوئے نومسلم خاتون نے سب کو یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ حجاب نے مجھے آزادی دی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام قبول کرنے والی مغربی خواتین جب پردہ کرتی ہیں تو اس میں ان کی خوشی اور اختیار ہوتا ہے اور وہ آزادانہ طور پر حجاب کو اپناتی ہیں۔ یوں حجاب عورت کے لئے محافظ تو تھا ہی، اب آزادی کا باعث بھی ہے۔ یہ تاثر ان مغربی خواتین میں عام ہو رہا ہے۔
پردہ بلاشبہ عورت کے لئے تحفظ کا ضامن ہے، اسی وجہ سے مغربی معاشرے کی خواتین اسے اپنا کر خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں، جہاں جس قدر لباس مختصر ہوتا ہے اسی قدر ہی فیشن تصور کیا جاتا ہے، یوں اس روش نے مغربی عورت کے لباس کو برائے نام ہی کر دیا ہے۔ اب حقیقی طور پر عورت عریاں ہے، مرد اس کے اس ’’آزاد‘‘ جسم کا نظارہ آزادانہ طور پر کرتے ہیں اور اس کے بعد اس معاشرے میں اباحیت نے ایسا جنم لیا ہے کہ انسان اور جانور میں تمیز کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ عورت کو آزادی کے دلفریب نعروں سے بے لباس کر کے بازار کا مارکیٹنگ ٹول بنا دیا گیا ہے۔ حوا کی یہ بیٹی خود کو بے لباس کر کے تصور کرتی ہے کہ اسے تمام حقوق مل گئے، اس پر سے پابندیاں اور جکڑ بندیاں دور ہو چکیں۔ اس کے بعد معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ فطرت سے دوری اور دل آزاری نے خود عورت کو بہت بے آبرو کیا، ان سب نظریات اور تصورات کے باوجود جو مغرب نے آزادی اور فیشن کے نام سے دیئے، اس سے عورت خود کو انتہائی غیر محفوظ تصور کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی مارخولائن مشرف باسلام ہوتی ہے تو وہ برملا اس تحفظ کا اظہار کرتی ہے جو اسلام لانے اور باپردہ ہونے پر اسے حاصل ہوتا ہے۔
چند ایام قبل بھارتی اداکارہ کی عورت کی نام نہاد آزادی اور خودمختاری کے متعلق ایک ویڈیو ریلیز ہوئی جس کا عنوان تھا Its my choice یعنی یہ میری پسند ہے کہ میں کیسے زندگی بسر کروں، میں عریاں لباس پہنوں، مردوں سے آزادانہ جنسی ملاپ رکھوں، شادی سے پہلے یا بعد میں تعلقات استوار کروں، یہ میری چوائس ہے۔ میں آزاد عورت ہوں، مجھے مقید نہ کیا جائے۔ زندگی میں کس طرح، کب اور کہاں فیصلہ کرنا ہے یہ میری چوائس ہے۔
تھوڑا غور کیا جائے تو جو شتربے مہاری اور بے راہ روی کی ترغیب اس ویڈیو میں دی گئی اس سے بھارتی معاشرہ بھی چیخ اٹھا، حتیٰ کہ بالی ووڈ کی اداکارائیں اس پر تنقید کرتی نظر آئیں، جس میں شادی کے بعد بھی جنسی ملاپ رکھنے کی آزادی کی بات کی گئی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مغرب میں عورت کو آزادی اور چوائس کے نام پر کن راہوں پر چلنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس ویڈیو کو مغربی معاشرے میں تو معمولی اور روٹین کی بات سمجھا جا سکتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں ایسی بے راہ روی اور جانوروں جیسی آزادی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ہمارا معاشرہ آج تشویش ناک حد تک مغرب کی نقالی میں آگے بڑھ رہا ہے۔ ان کا کلچر، اطوار اور طرز معاشرت اپنانے میں ایلیٹ کلاس یا اشرافیہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہاں معاملہ یہ ہے کہ خواتین باحجاب ہو کر خود کو محفوظ اور آزاد محسوس کرتی ہیں کیونکہ وہ ایسی آزادی اور بے راہ روی سے تنگ آ چکے ہیں، ان کے روح و قلب میں بے چینی اور اضطراب ہے۔ یہ تمام رنگینی بھی انہیں قلبی سکون پہنچانے سے قاصر ہے۔ اطمینان اور راحت قلبی صرف اور صرف اسلام اور اس کے شعار اپنانے میں ہے۔ کاش ہم بھی اپنا سکون اسی کے اندر تلاش کرنے کی سوچ اور جذبہ پیدا کر لیں۔
ماخذ