بنتِ تسنيم
رکن
- شمولیت
- مئی 20، 2017
- پیغامات
- 269
- ری ایکشن اسکور
- 36
- پوائنٹ
- 66
حجاب گالا:
امیرِ ما و حبیبِ ما حکیم الامت شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ، جہادی عمل سے متعلق عمومی ہدایات میں فرماتے ہیں کہ
’’اہلِ دین سے ہمارا تعامل برادرانہ اور خیر خواہی پر مبنی ہونا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی چھپی خطاؤں پر انہیں مخفی انداز میں نصیحت کریں اور اعلانیہ خطاؤں پر اعلانیہ انداز سے نصیحت کی جائے‘‘۔
اللہ پاک سے ڈرتے ڈرتے اس موضوع پر کچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
ہماری ایک سیاسی مذہبی جماعت کے زیرِ انتظام ، صوبۂ پنجاب کے صدر مقام لاہور میں واقع پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں’ حجاب گالا ‘ کا اہتمام کیا گیا۔ اس حجاب گالا میں مختلف شخصیات نے حجاب اور اس سے متعلقہ امور پر اظہارِ خیال کیا، بلکہ مرد حضرات نے بھی براہِ راست خواتین کے سامنے کھڑے ہو کر خطابات کیے پردے کے خصوصی انتظام کے بغیر۔ حالانکہ اس سیاسی مذہبی جماعت کے یہاں ماضی میں اس بات کا اہتمام کیا جاتا تھا کہ اگر مرد خطیب کو خواتین سے خطاب کرنا ہوتا تو یا تو مرد حضرات کی جگہ ہی علیحدہ رکھتے یا پھر کم از کم کپڑے کا ایک پردہ درمیان میں ضرور لٹکایا جاتا تھا۔
اس کے بعد ہال کے سٹیج پر نو عمر بچیوں نے مختلف قسم کے سکارف اور عبایوں کو اوڑھے ہوئے چکر لگایا، جسے ’ٹیبلو‘ کا عنوان دیا گیا۔
بندہ یہ لکھتے ہوئے نہایت عار محسوس کر رہا ہے کہ بچیوں کو رنگا رنگ سکارف اور عبایے اوڑھائے گئے تھے۔ ہر بچی کے ہاتھ میں ایک کتبہ تھا جس پر اس ملک کا نام درج ہوتا جس میں اس خاص طریقِ ’حجاب کا فیشن' ہے، مثلاً کویتی، مصری، سوڈانی، سعودی، عمانی، اماراتی، پاکستانی وغیرہ۔
نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ ان نو عمر بیٹیوں کو سٹیج پر ’کیٹ واک؍cat walk ‘سے ملتے جلتے انداز سے چلایا گیا گویا ریمپ؍ ramp پر چل رہی ہوں اور پھر ایک جگہ کھڑے ہو کر گول گھوم کر نقطۂ آغاز کی طرف واپس لوٹایا گیا۔
تقریب کے اختتام پر شرکا نے’قومی‘ ترانہ بجنے پر اپنے سینوں پر ہاتھ رکھے جس طرح کے مغرب سے روایت آئی ہے۔
صرف ایک مثال کہ حجاب گالا انتظامیہ کی مدارالمہام فخریہ انداز میں جتلا رہی تھیں کہ
’’ہماری اناؤنسرز نے بالکل پروفیشنل انداز میں پروگرام کنڈکٹ کیا اورٹی وی شوز ہوسٹس کی طرح اناؤنسنگ کی‘‘۔
یہ سب ’’فروغِ حجاب‘‘ کے نام پر حجاب کے لیے گالی ہے۔ پردہ کیا ہے اور احکاماتِ پردہ کیا ہیں ‘پر علمائے کرام نے خوب بحث فرمائی ہے۔ خود قرآنِ عظیم الشان اس حوالے سے رہ نمائی کرتا ہے۔
بلاشبہ کل تک فحش لباس میں گھومنے والی کے لیے نیلا پیلا سکارف اوڑھ لینا ایک بہتری کی جانب قدم ہے لیکن دین و اسلام کے علم برداروں کے لیے اسی پیلے پیلے، اودے اودے، نیلے نیلے پیرہنوں کی طرف رہ نمائی درست قدم نہیں بلکہ ایک قبیح روایت ہے۔
گزارش ہے کہ ان اعمال کا جائزہ و محاسبہ کریں اور علمائے کرام سے رہ نمائی لیں۔ ہماری فوز و فلاح دین و شریعت کی کامل اتباع میں ہے نہ کہ رینڈ کارپوریشن کے مطابق ماڈریٹ اور مغرب سے امپورٹڈ اسلام میں۔
قرآن سے رہ نمائی لیجیے کہ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ اور وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّة ِاولیٰ کے احکامات خواتینِ اسلام سے کس امر کے متقاضی ہیں۔
کتبِ سیرت اٹھائیے اور جانیئے کہ خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیسے پردہ فرماتی تھیں۔ خدیجہ و عائشہ اور حفصہ و زینب، مریم و آسیہ اور سارہ و ہاجرہ رضی اللہ عنہن کا اسوہ کیا تھا۔
امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے حقیقی اُسوے کی طرف دعوت دینے کوآپ چاہے تو ’’تاریک خیالی ‘‘قراردیجیے، ’’دقیانوس ذہنیت‘‘ کی عکاسی کہیے، ’’رجعت پسندی ‘‘ کہہ کر گزر جائیے یا ’’کٹھ ملائیت‘‘ گردانیے…لیکن ہم پھر بھی پورے شرح صدر سے یہی عرض کریں گے کہ
؎طاقِ دل میں اجالا اگر چاہیے،
تو پرانے چراغوں سے ہی پیار کر!
منقول.
امیرِ ما و حبیبِ ما حکیم الامت شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ، جہادی عمل سے متعلق عمومی ہدایات میں فرماتے ہیں کہ
’’اہلِ دین سے ہمارا تعامل برادرانہ اور خیر خواہی پر مبنی ہونا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی چھپی خطاؤں پر انہیں مخفی انداز میں نصیحت کریں اور اعلانیہ خطاؤں پر اعلانیہ انداز سے نصیحت کی جائے‘‘۔
اللہ پاک سے ڈرتے ڈرتے اس موضوع پر کچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
ہماری ایک سیاسی مذہبی جماعت کے زیرِ انتظام ، صوبۂ پنجاب کے صدر مقام لاہور میں واقع پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں’ حجاب گالا ‘ کا اہتمام کیا گیا۔ اس حجاب گالا میں مختلف شخصیات نے حجاب اور اس سے متعلقہ امور پر اظہارِ خیال کیا، بلکہ مرد حضرات نے بھی براہِ راست خواتین کے سامنے کھڑے ہو کر خطابات کیے پردے کے خصوصی انتظام کے بغیر۔ حالانکہ اس سیاسی مذہبی جماعت کے یہاں ماضی میں اس بات کا اہتمام کیا جاتا تھا کہ اگر مرد خطیب کو خواتین سے خطاب کرنا ہوتا تو یا تو مرد حضرات کی جگہ ہی علیحدہ رکھتے یا پھر کم از کم کپڑے کا ایک پردہ درمیان میں ضرور لٹکایا جاتا تھا۔
اس کے بعد ہال کے سٹیج پر نو عمر بچیوں نے مختلف قسم کے سکارف اور عبایوں کو اوڑھے ہوئے چکر لگایا، جسے ’ٹیبلو‘ کا عنوان دیا گیا۔
بندہ یہ لکھتے ہوئے نہایت عار محسوس کر رہا ہے کہ بچیوں کو رنگا رنگ سکارف اور عبایے اوڑھائے گئے تھے۔ ہر بچی کے ہاتھ میں ایک کتبہ تھا جس پر اس ملک کا نام درج ہوتا جس میں اس خاص طریقِ ’حجاب کا فیشن' ہے، مثلاً کویتی، مصری، سوڈانی، سعودی، عمانی، اماراتی، پاکستانی وغیرہ۔
نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ ان نو عمر بیٹیوں کو سٹیج پر ’کیٹ واک؍cat walk ‘سے ملتے جلتے انداز سے چلایا گیا گویا ریمپ؍ ramp پر چل رہی ہوں اور پھر ایک جگہ کھڑے ہو کر گول گھوم کر نقطۂ آغاز کی طرف واپس لوٹایا گیا۔
تقریب کے اختتام پر شرکا نے’قومی‘ ترانہ بجنے پر اپنے سینوں پر ہاتھ رکھے جس طرح کے مغرب سے روایت آئی ہے۔
صرف ایک مثال کہ حجاب گالا انتظامیہ کی مدارالمہام فخریہ انداز میں جتلا رہی تھیں کہ
’’ہماری اناؤنسرز نے بالکل پروفیشنل انداز میں پروگرام کنڈکٹ کیا اورٹی وی شوز ہوسٹس کی طرح اناؤنسنگ کی‘‘۔
یہ سب ’’فروغِ حجاب‘‘ کے نام پر حجاب کے لیے گالی ہے۔ پردہ کیا ہے اور احکاماتِ پردہ کیا ہیں ‘پر علمائے کرام نے خوب بحث فرمائی ہے۔ خود قرآنِ عظیم الشان اس حوالے سے رہ نمائی کرتا ہے۔
بلاشبہ کل تک فحش لباس میں گھومنے والی کے لیے نیلا پیلا سکارف اوڑھ لینا ایک بہتری کی جانب قدم ہے لیکن دین و اسلام کے علم برداروں کے لیے اسی پیلے پیلے، اودے اودے، نیلے نیلے پیرہنوں کی طرف رہ نمائی درست قدم نہیں بلکہ ایک قبیح روایت ہے۔
گزارش ہے کہ ان اعمال کا جائزہ و محاسبہ کریں اور علمائے کرام سے رہ نمائی لیں۔ ہماری فوز و فلاح دین و شریعت کی کامل اتباع میں ہے نہ کہ رینڈ کارپوریشن کے مطابق ماڈریٹ اور مغرب سے امپورٹڈ اسلام میں۔
قرآن سے رہ نمائی لیجیے کہ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ اور وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّة ِاولیٰ کے احکامات خواتینِ اسلام سے کس امر کے متقاضی ہیں۔
کتبِ سیرت اٹھائیے اور جانیئے کہ خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیسے پردہ فرماتی تھیں۔ خدیجہ و عائشہ اور حفصہ و زینب، مریم و آسیہ اور سارہ و ہاجرہ رضی اللہ عنہن کا اسوہ کیا تھا۔
امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے حقیقی اُسوے کی طرف دعوت دینے کوآپ چاہے تو ’’تاریک خیالی ‘‘قراردیجیے، ’’دقیانوس ذہنیت‘‘ کی عکاسی کہیے، ’’رجعت پسندی ‘‘ کہہ کر گزر جائیے یا ’’کٹھ ملائیت‘‘ گردانیے…لیکن ہم پھر بھی پورے شرح صدر سے یہی عرض کریں گے کہ
؎طاقِ دل میں اجالا اگر چاہیے،
تو پرانے چراغوں سے ہی پیار کر!
منقول.