- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
حدیث بھی وحی ہے
حدیث رسول کومحض آپ ﷺ کی ایسی بات سمجھنا جیسا کہ عام انسان کرتا ہے یہ عقیدہ اور ایمان سے انحراف کے مترادف ہے۔قرآن کریم جب آپ ﷺ کے خواب، گفتگو اور فکر کی تائید کرتا ہے اور اسے:
{مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی إنْ ہُوَ إلَّا وَحْیٍ یُّوْحٰی}لوگو! تمہارا ساتھی نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے اور وہ خواہش نفس کے مطابق نہیں بولتا بلکہ وہ جو کچھ بولتا ہے وہ سوائے وحی کے کچھ نہیں ہوتا جو اس کی طرف کی جاتی ہے۔
قرار دیتا ہے تو ہم اس نطق کو کیا نام دیں اور کون سی ایسی بات یا حرکت ِرسول ہے جو اس زمرے میں نہیں آتی؟ ان آیات میں ما ینطق میں مَا عام ہے جس سے مراد صرف قرآن کی وحی نہیں بلکہ آپﷺ کے خواب وگفتگو، عمل، الہام والقاء نیز انسانی شکل میں فرشتہ کی آمد وغیرہ کو بھی اللہ تعالیٰ وحی قرار دے رہے ہیں۔مثلاً:
آپ ﷺ کے خواب کی تائید قرآن کریم میں:
{وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ أَرَیْنٰکَ۔۔}میں، آپ ﷺ کے خواب کی تصدیق ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔
{لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤْیَا بِالْحَقِّ}۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا خواب سچا کردکھایا۔اور اہل اسلام مکہ مکرمہ میں کامیاب وسرخرو ہو کر انتہائی امن کی حالت میں داخل ہوئے۔
آپ ﷺ کے عمل کی تائید قرآن کریم میں :
جو کچھ آپ ﷺ کرتے وحی الٰہی اس کی تائید کردیتی۔ آپ ﷺنے یہودیوں کے علاقے میں درخت کاٹے۔ لوگوں نے اعتراض کئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے عمل کا جواب یوں دیا :
{ فَبِإِذْنِ اللّٰہِ} یہ سب اللہ کا حکم تھا۔
آپ ﷺنے خود اپنی احادیث مبارکہ میں وحی کے آنے کی صراحت فرمائی۔
مثلاًیہ ارشاد:
إِنَّ اللّٰہَ أَوْحٰی إِلٰی أَنْْ تَوَاضَعُوْا حَتّٰی لاَ یَفْخَرُ أَحَدٌ عَلَی أَحَدٍ وَلاَ یَبْغِی أَحَدٌ عَلَی أَحَدٍ۔( صحیح مسلم: ۲۸۶۵) اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کی ہے کہ تم آپس میں تواضع اختیار کرو تاکہ کوئی دوسرے پر فخر نہ کرے اور نہ ہی کوئی زیادتی کرے۔
اس وحی خفی میں نماز، زکوۃ، حج اور روزہ کی تفصیلات کے علاوہ ہجرت مدینہ، مسجد نبوی کی تعمیر، مہاجر وانصار میں مواخاۃ اور میثاق مدینہ وغیرہ بھی ہیں۔ جن کا مقابلہ کوئی عقل، خواب ، کشف یا الہام نہیں کرسکتا۔
کبھی القاء ہوتا:
أَنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ نَفَثَ فِی رَوْعِیْ أَنْ لَنْ تَمُوْتَ نَفْسٌ حَتّٰی تَسْتَوْفِیَ رِزْقَہَا وَأَجَلَہَا فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَجْمِلُوا فِی الطَّلَبِ، خُذُوْا مَا حَلَّ وَدَعَوْا مَا حَرَّمَ۔روح القدس نے میرے اندر پھونکاکہ کوئی نفس اپنا رزق اور اپنی عمر پوری کئے بغیر بالکل نہیں مرے گا۔ اللہ سے ڈرو اور اپنی طلب میں حسن وجمال پیدا کرو۔جو حلال ہے اسے لے لو اور جو حرام ہے اسے چھوڑ دو۔(شرح السنہ از بغوی: ۴۱۱۲)
کبھی واقعی وحی نازل ہوتی ۔صفوان کے والد یعلی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ:
أَرِنِیَ النَّبِیَّ ﷺ حِیْنَ یُوْحٰی إِلَیْہِ قَالَ: بَیْنَمَا النَّبِیُّ ﷺ بِالْجِعِرَّانَۃِ وَمَعَہُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِہِ جَائَ ہُ رَجُلٌ فَقَالَ: یَارَسُولَ اللّٰہِ: کَیْفَ تَرَی فِی رَجُلٍ أَحْرَمَ بِعُمْرَۃٍوَہُوَ مُتَضَمِّخٌ بِطِیْبٍ؟فَسَکَتَ النَّبِیُّ ﷺ سَاعَۃً، فَجَائَ ہُ الْوَحْیُ،فَأَشَارَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی یَعْلٰی، فَجَائَ یَعْلٰی وَعَلَی رَسُولِ اللّٰہ ﷺ ثَوْبٌ قَدْ أُظِلَّ بِہِ فَأَدْخَلَ رَأْسَہُ ، فَإِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مُحْمَرُّ الْوَجْہِ یَغِطُّ ثُمَّ سُرِّیَ عَنْہُ، فَقَالَ: أَیْنَ الَّذِیْ سَأَلَ عَنِ الْعُمْرَۃِ؟ فَأُتِیَ بِرَجُلٍ فَقَالَ: اِغْسِلِ الطِّیْبَ الَّذِیْ بِکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، وَانْزَعْ عَنْکَ الْجُبَّۃَ وَاصْنَعْ فِی عُمْرَتِکَ مَا تَصْنَعُ فِی حَجَّتِکَ۔ جب آپ ﷺ پر وحی آئے تومہربانی کرکے مجھے بھی دکھائیے۔صفوان کہتے ہیں کہ آپ ﷺ مقام جعرانہ میں صحابہ کرام کے ساتھ تھے۔ ایک آدمی آیا اور عرض کی: اس محرم کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے اپنے آپ کو خوشبو میں بسایا ہوا ہو؟آپ ﷺتھوڑی دیر خاموش رہے پھر آپ ﷺ کے پاس وحی آنا شروع ہوئی ۔ سیدنا عمر ؓ نے یعلیؓ کی طرف اشارہ کیا ، یعلیؓ آئے تو رسول اکرم ﷺ پر ایک کپڑے کا سایہ دیا گیا تھا یعلیؓ نے اپنا سر اندر داخل کیا۔ اور دیکھا کہ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک انتہائی سرخ ہورہا ہے اور آپ خراٹے لے رہے ہیں۔پھر وحی ختم ہوگئی۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا: عمرہ کے بارے میں وہ سائل کہاں ہے؟ وہ آدمی حاضر کیا گیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: خوشبو کو تین مرتبہ دھو لو اور یہ جبہ بھی ہٹا لو اور اپنا عمرہ ویسا کرو جیساتم اپنے حج میں کرتے ہو۔(صحیح بخاری: ۱۵۳۶)
کبھی جبریل امین خود تشریف لاتے:
آپ ﷺ وادی عقیق میں تھے اپنے صحابہ سے فرمایا: أَتَانِیَ اللَّیْلَۃَ آتٍ مِنْ رَبِّیْ فَقَالَ: صَلِّ فِی ہٰذَا الْوَادِی الْمُبَارَکَ وَقُلْ : عُمْرَۃٌ فِی حَجَّۃٍ۔ میرے رب کی طرف سے آنے والا ایک میرے پاس آیا اور اس نے کہا: کہ آپ ﷺ اس مبارک وادی میں نماز پڑھئے اور یوں تلبیہ کہئے : عمرہ ، حج میں۔( صحیح بخاری: ۱۵۳۴)
کبھی وہ انسانی شکل میں آتے:
جبریل امین آپ ﷺ کے پاس انسانی شکل میں آئے اور کچھ سوالوں کا جواب پا کر چلے گئے۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے خود فرمایا: ذَاکَ جِبْرِیْلُ ، أَتَاکُمْ لِیُعَلِّمَکُمْ دِیْنَکُمْ۔ یہ جبریل علیہ السلام تھے وہ تمہارے پاس اس لئے آئے تاکہ تمہیں تمہارا دین سکھا دیں۔
صحابہ وتابعین کا اتفاق ہے کہ آپ ﷺ کی احادیث، وحی ہیں۔مثلاً:
سیدنا ابوبکر ؓ نے اپنے گورنر بحرین کو لکھا: ہٰذِہِ فَرِیْضَۃُ الصَّدَقَۃِ الَّتِیْ فَرَضَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَالَّتِیْ أَمَرَ اللّٰہُ بِہَا رَسُوْلَہُ۔ یہ صدقہ وزکوۃ کے احکام ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے فرض قرار دیا تھا اور جس کا حکم اللہ نے اپنے رسول کو دیا تھا۔(صحیح بخاری: ۱۴۵۴)
سیدنا عمر فاروقؓ فرماتے ہیں :
یَا أَیُّہَا النَّاسُ : إِنَّ الرَّأیَ إِنَّمَا کَانَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ مُصِیْبًا لِأنَّ اللّٰہَ کَانَ یُرِیْہِ۔ لوگو: رسول اللہ ﷺ کی رائے بالکل درست ہوتی تھی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی انہیں سجھاتا تھا۔(السنن الکبری از بیہقی ۱/ ۱۱۷)
مشہور تابعی حسانؒ بن عطیہ فرماتے ہیں:
کَانَ جِبْرِیْلُ یَنْزِلُ عَلَیْہِ بِالسُّنَّۃِ کَمَا یَنْزِلُ عَلَیْہِ بِالْقُرآنِ، وَیُعَلِّمُہُ إِیَّاہَا کَمَا یُعَلِّمُہُ الْقُرْآنَ۔ جبریل امین آپ ﷺ کے پاس سنت لے کر اس طرح نازل ہوا کرتے جیسا کہ قرآن لے کر نازل ہوتے اور وہ آپ ﷺ کو سنت اس طرح سکھاتے جیسے قرآن سکھاتے تھے۔(مجموع الفتاوی: ۳/۳۶۶)
امام ابن حزم ؒ نے آپ کی احادیث وحی ہونے کا استدلال اس آیت سے لیا ہے کہ: {قُلْ إنَّمَا أَنْذِرُکُمْ بِالْوَحْیِ}۔ میں تمہیں وحی کے ذریعے ہی ڈرا رہا ہوں۔ یہ اللہ کی خود دی ہوئی خبر ہے کہ رسول ﷺکا کلام اور گفتگو ساری کی ساری وحی ہے اور یہ گفتگو دین ہی کے بارے میں تھی اور یہی ذکر ،دین ہے۔(الإحکام: ۱/۹۰)