سلطان کا معنی و مفہوم
جب یہ واضح ہو چکا کہ دونوں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں،اور حدیث میں ایک دوسرے کی جگہ واقع ہوئے ہیں تو جو معنی سلطان کا ہو گا وہی جماعت کا ہو گا۔ اب مسعود صاحب کے قلم سے اس کا معنی و مفہوم ملاحظہ کیجئے۔
۱: مسعود صاحب نے لکھا:
"سلطان کے معنی دلیل، حجت ،اختیار اور قوت کے ہیں"
(امیر کی اطاعت ص ۴ آئینہ دار ص ۲۲۰)
۲: نیز لکھا: "(سلطان / دلیل ،قوت ،بادشاہ)"
(تفسیر قرآن عزیز ج ۵ ص ۴۱۸)
۳: ایک اور مقام پر لکھا :
"اللہ تعالٰی نے رسول اللہﷺ کو ہجرت کا حکم دیا اور اس طرح دعا کرنے کی ہدایت کی (
وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا) اور (اے رسول) اس طرح دعا کیجئے: اے میرے رب مجھے اچھی طرح ہجرت گاہ میں داخل کرنا اور اچھی طرح (اس) بستی سے نکالنا اور اپنے پاس سے قوت و غلبہ کو میرا مددگار بنانا۔رسول اللہﷺ نے جب ہجرت کی تو دعاء کے اثرات پوری طرح ظاہر ہوئے آپ دارالہجرت مدینہ میں داخل ہوئے تو بڑی شان سے داخل ہوئے اور جب مکہ سے نکلے تو بخیر و عافیت نکلے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر اللہ تعالٰی نے آپ کو قوت و غلبہ عطا فرمایا"
(تفسیر قرآن عزیز ج ۶ ص ۱۶۴)
آیت بالا کے متعلق اشتیاق صاحب نے لکھا:
"اللہ تعالٰی رسول اللہﷺ کو ہجرت کے موقع پر ایک دعا بتا رہا ہے کہ .... جب آپ مدینہ منورہ میں داخل ہوں تو اس طرح دعا کرتے رہیے اور آپ دعاٰ کرتے رہے اور اللہ تعالٰی نے مدینہ منورہ میں آپ کی دعاء کی برکت سے حکومت قائم کر دی۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ پھر صاحب اقتدار و حکومت ہو گئے۔اس سے ہمیں کب اختلاف ہے ہم بھی تو یہی کہتے ہیں"
(ایک معترض کی غلط فہمیاں ص ۳۴)
قارئین کرام! غور کیجئے ، آیت میں لفظ "سلطان" وارد ہوا، مسعود صاحب نے تفسیر میں لکھا: "مدینہ پہنچ کر اللہ تعالٰی نے آپ کو قوت و غلبہ عطا فرمایا۔" اس"قوت و غلبہ" سے کیا مراد ہے؟
اشتیاق صاحب نے عام فہم الفاظ میں بتا دیا کہ "اللہ تعالٰی نے مدینہ منورہ میں...... حکومت قائم کر دی پھر آپ صاحب اقتدار و حکومت ہو گئے" گویا قوت و غلبہ سے مراد "حکومت و اقتدار" ہے اور یہ سب لفظ "سلطان " ہی کا مفہوم بیان کیا ہے۔ رجسڑڈ فرقہ کے دونوں اماموں نے۔
۴: مسعود صاحب نے مسئلہ بیان کرتے ہوئے لکھا:
"کوئی شخص دوسرے کی جائے حکومت یا اس کے گھر میں بغیر اس کی اجازت کے امامت نہ کرے"
(صلٰوۃ المسلمین ص ۱۴۸)
پھر بطور دلیل حاشیہ نمبر : ۳ میں یہ حدیث نقل کی:
"
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَوَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ..... إِلَّا بِإِذْنِهِ....
(صحیح مسلم عن ابی مسعود رضی اللہ عنہ)
۵: مسعود صاحب نے اپنی "منہاج " میں اسی حدیث کے تحت مسئلہ اس طرح لکھا:
"کسی دوسرے کی حکومت کی جگہ یا دوسرے کے گھر میں بغیر اجازت کے کوئی شخص امامت نہ کرے"
(منہاج المسلمین ص ۱۴۶)
مسعود صاحب کی ان تحریروں سے معلوم ہوا کہ سلطان کا معنی ہے "جائے حکومت" جسے سلطنت بھی کہتے ہیں۔
۶: اسی طرح اہنی منہاج میں لکھا:
"حکام سے دور رہے، جھوٹ میں ان کی تصدیق نہ کرے"
پھر حاشیہ میں یہ حدیث بھی نقل کی:
"
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَمَنْ أَتَى أَبْوَابَ السُّلْطَانِ افْتَتَنَ (رواہ الترمذی و حسنہ)"
(منہاج ص ۶۷۴)
دیکھئے مسعود صاحب نے "حکام " لکھا اور حدیث وہ نقل کی جس میں "سلطان" کا لفظ ہے ۔ تو سلطان کا معنی "حاکم" بھی ہے اور جس کے پاس اقتدار ہو حکومت ہو وہ حاکم ہی ہوتا ہے۔اقتباسات تو مزید بھی نقل کئے جا سکتے ہیں لیکن اختصار کی خاطر انھیں چند ایک پر اکتفا کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
مسعود صاحب کی تحریرات سے "سلطان" کے مختلف معانی سامنے آتے ہیں جیسے: دلیل، حجت، قوت، اختیار، غلبہ، حکومت، جائے حکومت، بادشاہ اور حکام اور سوائے دلیل و حجت کے باقی تمام معانی یکساں ہیں۔اگرچہ "سلطان "کا معنی دلیل و حجت بھی ہے لیکن حدیث "من خرج من السلطان " میں یہ دلیل و حجت کے معنی میں نہیں۔اگر یہی معنی لئے جائیں تو حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہو گا " جو شخص دلیل یا حجت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہوا وہ جاہلیت کی ایک خصلت پر مرے گا۔"
یہ مفہوم قطعا درست نہیں، چونکہ نصوص سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تمام کے تمام اہل اسلام علماء نہیں ہو سکتے۔(دیکھئے سورۃ توبہ: ۱۲۲،النحل: ۴۳)
تو ایسی صورت میں بہت سے اہل ایمان "دلیل و حجت" سے دور ہو سکتے ہیں ۔عدم علم یا بر وقت استحضار نہ ہونے کے سبب تو کیا ایسی صورت میں اس کی موت جاہلیت کی ہوگی؟ اس کا تو کوئی بھی قائل نہیں،تو سلطان کا معنی حکومت و اقتدار ہی بنتا ہے۔ جب رجسٹرڈ فرقہ کو بھی یہ تسلیم ہے کہ "سلطان اور جماعت ایک ہی چیز ہے" اور سلطان کا معنی حکومت ہے تو جماعت کا معنی بھی حکومت و اقتدار ہی ہے۔ جیسا کہ رجسٹرڈ جماعت کے ایک کتابچہ میں صاف صاف لکھا ہے۔
""الجماعۃ" یعنی منزل من اللہ دین کو قائم کرنے والی اسلامی حکومت موجود نہیں ہے"
(جماعت المسلمین پر اعتراضات اور ان کے جوابات ص ۲ طبع ۱۴۱۶ھ)
یہ تو معلوم و معروف ہے کہ عربی اور اردو زبان میں "یعنی" کہہ کر کسی لفظ کا معنی و مفہوم بیان کیا جاتا ہے۔اور مسعود صاحب کے مرتب کردہ اس کتابچہ میں "یعنی" کہہ کر "الجماعۃ" کا مطلب و مفہوم " دین کو قائم کرنے والی اسلامی حکومت" بیان کیا گیا ہے۔ فللہ الحمد
قارئیں کرام! قرآن مجید ،احادیث صحیحہ اور خود رجسٹرڈ فرقے کی مسلمات کی روشنی میں "جماعت" کا مفہوم آپ کے سامنے ہے۔ ان دلائل کی روشنی میں علی وجہ البصیرت عرض ہے کہ لزوم جماعت والی احادیث میں "جماعت " سے مراد مسلمین کی اسلامی حکومت و اقتدار ہے۔ یہ حکومت واقتدار سے محروم و محکوم لوگوں کی کسی رجسٹرڈ یا غیر رجسٹرڈ پارٹی اور تنظیم کا نام نہیں۔