• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ اور جنگ جمل کی غیبی خبر

شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
54
امام المومنین عائشه صديقة رضي الله عنها پر وارد اعتراض:
اس اعتراض کے پہلے طریق کی تحقیق.
امام ابوعبد الله الحاکم نے کہا:
8501 - أخبرني : عبد الرحمن بن حمدان الجلاب بهمدان ، ثنا : هلال بن العلاء الرقي ، ثنا : عبد الله جعفر ، ثنا : عبيد الله بن عمرو ، عن زيد بن أبي أنيسة ، عن عمرو بن مرة ، عن خيثمة بن عبد الرحمن ، قال : كنا عند حذيفة (ر) ، فقال بعضنا : حدثنا : يا أبا عبد الله ما سمعت من رسول الله (ص) ، قال : لو فعلت لرجمتموني ، قال : قلنا سبحان الله أنحن نفعل ذلك ، قال : أرأيتكم لو حدثتكم أن بعض أمهاتكم تأتيكم في كتيبة كثير عددها شديدا بأسها صدقتم به ، قالوا : سبحان الله ومن يصدق بهذا ، ثم قال حذيفة : أتتكم الحميراء في كتيبة يسوقها أعلاجها حيث تسوء وجوهكم ثم قام فدخل مخدعا ، هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ، ولم يخرجاه.
ترجمه:
خیثمہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ ہم حذیفه رضی الله عنه کے پاس تھے ، ہم میں سے بعض نے کہا: اے ابو عبد الله ! آپ نے رسول الله ﷺ سے جو سنا ہے وہ ہمیں بھی بیان کریں ، حذیفه نے کہا: اگر میں نے ایسا کیا تو تم مجھے سنگسار کر دو گے، راوی کہتا ہے کہ ہم نے کہا: سبحان الله ، بھلا ہم ایسا کر سکتے ہیں ؟! حذیفه نے کہا: اگر میں تمہیں کہوں کہ تمہاری امہات میں سے بعض مائیں ایک بڑی تعداد پر مشتمل سخت اور شدت پسند فوجی دستہ کے ہمراہ تم سے جنگ لڑنے آئے گی تو کیا تم سمجھتے ہو کہ تم لوگ باور کر لو گے؟!انہوں نے کہا: سبحان الله ، کون ہے جو اس بات کی تصدیق کرے ؟! پھر حذیفه نے کہا: حمیراء ایک ایسے فوجی دستے کے ساتھ تمہارے پاس آئیں گی جس کی قیادت ان کے کفار کر رہے ہوں گے ، اس طرح کے وہ تمہارے چہروں پر ناگواری برپا کر دیں گے۔ یہ کہہ کر حذیفہ اٹھے اور اپنے گھر میں چلے گئے۔
[المستدرك للحاكم :جزء4/ صفحه471]. منقطع بين خيثمة وحذيفة بن اليمان
.
تبصرہ:
یہ سند خَيثَمة بن عبد الرحمن اور حذيفة رضی الله عنه کے درمیان منقطع ہے، کیونکہ جنہوں نے خَيثَمة بن عبد الرحمن کا ترجمہ بیان کیا ہے، انہوں نے اس کے شیوخ میں حذيفة رضی الله عنہ کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ اہل علم کے نزدیک یہ معلوم ہے کہ خَيثَمة، حذيفة بن اليمان سے واسطے سے روایت کرتے ہیں، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے:
(صحيح مسلم)، قال: "حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ أَبِي حُذَيْفَةَ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ______الخ
تو یہ ان قرائن میں سے ہے جو خَيثَمة کے حذيفة سے سماع نہ کرنے پر دلالت کرتی ہیں، حتیٰ کہ امام مسلم کے سماع کے اصول کے مطابق بھی۔ چنانچہ شیخ خالد الدریس فرماتے ہیں: "اور امام مسلم کا وہ موقف کہ اگر کوئی محدث اپنے معاصر سے روایت کرے—جبکہ ان کے درمیان ملاقات ثابت نہ ہو—اور بعض طرق میں ایک یا زیادہ واسطے کا اضافہ ہو، تو یہ واضح دلیل ہوتی ہے کہ سماع اور ملاقات نہیں ہوئی، جیسا کہ یہ جلیل القدر ائمہ نقد (حدیث کے ناقدین) کا موقف ہے۔"
بلکہ ان قرائن میں سے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ خَيثَمة نے یہ حدیث براہِ راست حذيفة بن اليمان سے نہیں سنی، یہ ہے کہ انہوں نے اسے واسطے سے روایت کیا ہے، غور کریں یہاں.
حَدَّثَنَا هِلالُ بْنُ الْعَلاءِ، ثنا أَبِي، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالا: ثنا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ خَيْثَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ فُلْفُلَةَ الْجُعْفِيِّ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ حُذَيْفَةَ_____الخ
[الخامس من حديث زيد بن أبي أنيسة، هلال الرقي، مخطوط، (ص 12]

غور طلب یہ ھے کہ المستدرك کی سند وہی ہے جو جزء الرقي کی سند ہے، ھلال بن العلاء سے شروع ہو کر، مگر فرق یہ ہے کہ ھلال بن العلاء نے اسے اپنے والد اور عبید الله بن جعفر دونوں سے روایت کیا ہے۔
وقد قال الإمام النسائي عن هلال بن العلاء أنه يروي المناكير عن أبيه. قال النسائي: "روى أحاديث منكرة عَن أبيه، فلا أدري الريب منه أو من أبيه"
اور امام نسائی نے هلال بن العلاء کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنے والد سے منکر روایات بیان کرتا ہے۔ نسائی نے کہا: "اس نے اپنے والد سے منکر احادیث روایت کی ہیں، پس میں نہیں جانتا کہ یہ خلل اس کی طرف سے ہے یا اس کے والد کی طرف سے۔"
بہرحال، مقصود یہ ہے کہ اسی سند میں خَيثَمة بن عبد الرحمن اور حذيفة کے درمیان ایک واسطہ موجود ہے۔ اور یہ معلوم ہے کہ خَيثَمة ، براہ راست حذیفه سے نہیں بلکہ فلفلة کےواسطے سے یا ابی حذیفة کے واسطے سے حذیفه بن ایمان سے روایت کرتے ہیں، جیسا کہ حافظ المزي نے فرمایا:
قال الحافظ المزي:
"فلفلة بن عَبد اللَّهِ الجعفي الكوفي. رَوَى عَن: حذيفة بْن اليمان، والحسن بْن علي بْن أَبي طالب، وعبد اللَّه بْن مسعود (س). رَوَى عَنه: خيثمة بْن عَبْدِ الرَّحْمَنِ الجعفي
یعنی
"فلفلة بن عبد الله الجعفي الکوفی، انہوں نے حذيفة بن اليمان، حسن بن علی بن أبی طالب اور عبد الله بن مسعود سے روایت کی۔ اور ان سے خَيثَمة بن عبد الرحمن الجعفي نے روایت کی۔"
.
اور یہ ان قطعی دلائل میں سے ہے جو ثابت کرتی ہیں کہ حاکم کی روایت منقطع ہے، اور اس طرح کی روایت سے حجت قائم نہیں ہو سکتی.
یہ روایت "فلفلة بن عبد الله الجعفي الكوفي" کی وجہ سے بھی معلول ہے، اور حافظ ابن حجر نے اس کے بارے میں فرمایا: "مقبول من الثانية" (یعنی وہ دوسری طبقہ کے راویوں میں سے ہے اور اس کی روایت تب ہی قبول کی جاتی ہے جب اس کا متابع (تائید کرنے والا راوی) ہو)۔
اور یہ درجہ (مقبول) جمہور اہل علم کے نزدیک ضعیف حدیث کے حکم میں آتا ہے، کیونکہ مقبول راوی کی حدیث اصولاً ضعیف شمار کی جاتی ہے، کیونکہ وہ مجہول الحال کے حکم میں ہوتا ہے، اور جمہور محدثین نے ایسے راوی کی حدیث کو رد کیا اور اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ سوائے متابعات کے.
اور یہاں فلفلة اس روایت میں منفرد ہے اور اس کا کوئی متابع (تائید کرنے والا راوی) موجود نہیں، لہذا یہ روایت ساقط (قابل قبول نہیں) ہو گئی.
.
یہ روایت متن کے لحاظ سے بھی منکر معلول ہے، اور اس کی کئی وجوہات ہیں:
پہلی وجہ: روایت کے الفاظ یہ ہیں:
"أَتَتْكُمُ الْحُمَيْرَاءُ فِي كَتِيبَةٍ يَسُوقُهَا أَعْلَاجُهَا..." (تمہارے پاس حمیراء ایک لشکر کے ساتھ آئی ہے جسے اس کے غیر عرب سپاہی لے کر آ رہے ہیں...)، جبکہ حضرت حذیفہ رضی الله عنه، ام المؤمنین عائشه رضی الله عنہا کے سفر سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔
....
.قال ابن عبد البر: "ومات حذيفة سنة ست وثلاثين بعد قتل عثمان في أول خلافة علي، وقيل: توفي سنة خمس وثلاثين، والأول أصح، وكان موته بعد أن أتى نعثى عثمان إلى الكوفة ولم يدرك الجمل
یعنی
ابن عبدالبر فرماتے ہیں: "حذیفه رضی الله عنه کی وفات سنہ 36 هجری میں عثمان رضی الله عنه کے قتل کے بعد، علی رضی الله عنه کی خلافت کے آغاز میں ہوئی۔ اور بعض نے کہا کہ وہ سنه 35 ہجری میں وفات پا گئے، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ ان کی وفات اس وقت ہوئی جب عثمان رضی الله عنه کے قاصد کوفہ پہنچے، اور وہ جنگ جمل کا زمانہ نہیں پا سکے۔"
.
تو پھر حذیفہ رضی الله عنه کیسے کہہ سکتے ہیں: "أتتكم فلانة" (فلاں عورت تمہارے پاس آ چکی ہے)، جبکہ وہ اس وقت تک نکلی ہی نہیں تھی؟!

زیادہ مناسب تو یہ ہوتا کہ وہ کہتے: "تأتيكم" (وہ تمہارے پاس آئے گی) یا "ستأتيكم" (وہ جلدی آئے گی)۔ لیکن ایسا تعبیر اختیار کرنا جو یہ ظاہر کرے کہ وہ بالفعل نکل چکی ہے، یہ کیونکر صحیح ھوگا جبکہ وہ اس وقت تک نکلی ہی نہیں تھیں؟؟؟؟

.
دوسری وجہ:
حذیفہ رضی الله عنه نے ام المؤمنین عائشه رضی الله عنہا کے بارے میں خبر دیتے ہوئے ان کے لیے "أم المؤمنين" (مومنین کی ماں) کا مقام برقرار رکھا۔
پس یا تو تم حذیفه رضی الله عنه کے اس قول کو قبول کرو کہ وہ مومنین کی ماں ہیں، یا پھر ان کی روایت کو مکمل طور پر رد کر دو اور اسے سراسر جھٹلاؤ....
.
تیسری وجہ:
حذیفہ رضی الله عنه کے اثر (قول) سے ام المؤمنین عائشه رضی اللہ عنہا پر طعن مراد نہ لینے کی ایک واضح قرینہ یہ بھی ہے کہ امت کے نزدیک اہلِ جمل سب کے سب مؤمن تھے۔
یہ بات تواتر کے ساتھ حضرت علی رضی الله عنه سے ثابت ہے کہ انہوں نے جنگ جمل میں شریک ہونے والوں کو مؤمن تسلیم کیا۔ اگر اس روایت میں طعن ہوتا، تو حضرت علی رضی الله عنه اور امت کے دیگر اہلِ علم اس کو واضح کرتے، مگر کسی نے بھی اسے اس نظر سے نہیں لیا.
قال الامام البيهقي: "عن عبد خير قال: سئل علي رضي الله عنه عن أهل الجمل، فقال: إخواننا بغوا علينا___الخ
امام البیهقی رحمه اللہ نے روایت کیا ہے کہ:
عبد خیر رحمه الله کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی الله عنه سے اہلِ جمل کے بارے میں سوال کیا گیا، تو انہوں نے فرمایا:
"ہمارے بھائی ہیں، انہوں نے ہم پر بغاوت کی___الخ
.
وفي (المصنف): "عْن شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، أَنَّ عَلِيًّا لَمْ يَسْبِ يَوْمَ الْجَمَلِ وَلَمْ يَقْتُلْ جَرِيحًا.

وعَنْ عَبْدِ خَيْرٍ أَنَّ عَلِيًّا لَمْ يَسْبِ يَوْمَ الْجَمَلِ وَلَمْ يُخَمِّسْ، قَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَلاَ تُخَمِّسُ أَمْوَالَهُمْ، قَالَ: فَقَالَ: هَذِهِ عَائِشَةُ تَسْتَأْمِرُهَا
یعنی
عبد خیر سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی الله عنه نے جنگِ جمل کے دن نہ کسی کو قیدی بنایا اور نہ ہی مالِ غنیمت میں خمس نکالا۔
لوگوں نے کہا: "اے امیر المؤمنین! کیا آپ ان کے اموال میں خمس تقسیم نہیں کریں گے؟"
حضرت علی رضی الله عنه نے فرمایا: "یہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) ہیں، آپس میں مشورہ کرلو.
.
وفي (المستدرك): "عَنْ أَبِي حَبِيبَةَ، مَوْلَى طَلْحَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَلِيٍّ مَعَ عُمَرَ بْنِ طَلْحَةَ بَعْدَمَا فَرَغَ مِنْ أَصْحَابِ الْجَمَلِ، قَالَ: فَرَحَّبَ بِهِ وَأَدْنَاهُ، قَالَ: "إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَنِي اللَّهُ وَأَبَاكَ مِنَ الَّذِينَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ} [سورة الحجر:47]، فَقَالَ: «يَا ابْنَ أَخِي، كَيْفَ فُلَانَةُ كَيْفَ فُلَانَةُ؟» قَالَ: وَسَأَلَهُ عَنْ أُمَّهَاتِ أَوْلَادِ أَبِيهِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: «لَمْ نَقْبِضْ أَرَاضِيَكُمْ هَذِهِ السَّنَةَ إِلَّا مَخَافَةَ أَنْ يَنْتَهِبَهَا النَّاسُ، يَا فُلَانُ انْطَلِقْ مَعَهُ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ، فَمُرْهُ فَلْيُعْطِهِ غَلَّتَهُ هَذِهِ السَّنَةَ، وَيَدْفَعُ إِلَيْهِ أَرْضَهُ»، فَقَالَ رَجُلَانِ جَالِسَانِ إِلَى نَاحِيَةٍ، أَحَدُهُمَا الْحَارِثُ الْأَعْوَرُ: اللَّهُ أَعْدَلُ مِنْ ذَلِكَ أَنْ نَقْتُلَهُمْ وَيَكُونُوا إِخْوَانَنَا فِي الْجَنَّةِ، قَالَ: «قَوْمًا أَبْعَدُ أَرْضِ اللَّهِ وَأَسْحَقُهَا فَمَنْ هُوَ إِذا لَمْ أَكُنْ أَنَا وَطَلْحَةُ يَا ابْنَ أَخِي إِذَا كَانَتْ لَكَ حَاجَةٌ فَأْتِنَا» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ
یعنی
ابو حبیبة، مولیٰ طلحہ کہتے ہیں: میں عمر بن طلحہ کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، جب وہ جنگ جمل کے معاملات سے فارغ ہو چکے تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوش آمدید کہا اور قریب بٹھایا، پھر فرمایا:
"مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے اور تمہارے والد کو ان لوگوں میں شامل کرے گا جن کے بارے میں فرمایا:
{وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ}
(اور ہم ان کے سینوں سے کینہ نکال دیں گے، وہ بھائی بھائی بن کر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے)۔** (سورۃ الحجر: 47)
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اے میرے بھتیجے! فلاں کیسا ہے؟ فلاں کیسا ہے؟" اور ان کے والد (طلحہ رضی اللہ عنہ) کی امہات الاولاد (لونڈیوں) کے بارے میں پوچھا۔
پھر فرمایا: "ہم نے اس سال تمہاری زمینیں صرف اس خوف سے روک لی تھیں کہ لوگ انہیں لوٹ نہ لیں۔ اے فلاں! اس کے ساتھ بنی قریظہ جا، اور کہہ کہ اسے اس سال کی پیداوار دے دیں اور اس کی زمین واپس کر دیں۔"
اس پر دو آدمیوں نے، جو ایک طرف بیٹھے تھے (اور ان میں سے ایک حارث اعور تھا)، کہا:
"اللہ اس سے زیادہ عادل ہے کہ ہم ان کو قتل کریں اور پھر وہ جنت میں ہمارے بھائی ہوں!"
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اگر میں اور طلحہ جنتی نہیں ہیں، تو پھر اور کون ہو سکتا ہے؟"
پھر فرمایا: "اے میرے بھتیجے! اگر تمہیں کوئی ضرورت ہو تو ہمارے پاس آنا۔
[المستدرك على الصحيحين مع تعليق الإمام الذهبي في التلخيص، محمد بن عبد الله الحاكم، (3/424) ، والسنن الكبرى، أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي 8/173]
.
ونقل الإمام ابن أبي شيبة قول الإمام أبو جعفر الباقر في إيمان أهل الجمل، فقال: "حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ يَقُولُ: لَمْ يَكْفُرْ أَهْلُ الْجَمَلِ.
یعنی
ابو جعفر (محمد بن علی الباقر) نے فرمایا: "اہلِ جمل نے کفر نہیں کیا۔

نیز امام طبرانی نے جب اس منفرد سند سے آنے والی اس خبر کی تخریج کی تو سند اس طرح تھی.
امام طبرانی نے کہا:
1154 - حدثنا : أحمد ، قال : حدثنا : عبيد الله ، عن زيد بن أبي أنيسة ، عن عمرو بن مرة ، عن فلفلة الجعفي ، قال : كنا عند حذيفة ، فقال له بعضنا ، حدثنا : يا أبا عبد الله ما سمعت من رسول الله (ص) ، قال : لو فعلت لرجمتموني فقلنا : سبحان الله نحن نفعل ذلك بك ، قال : أرأيتكم لو حدثتكم أن بعض أمهاتكم تأتيكم في كتيبة كثير عددها شديدا بأسها تقاتلكم أكنتم مصدقين ، قالوا : سبحان الله ومن يصدق بها ، فقال حذيفه : أتتكم الحميراء في كتيبة تسوقها أعلاجها من حيث تسوق وجوههم ، ثم قام فدخل مخدعا له.
[المعجم الکبیر للطبراني: جزء2/صفحة53]
°
یہاں ھلال بن العلاء اور اس کا باپ دونوں موجود نہیں ہیں. لیکن امام طبرانی کے شیخ احمد الخشاب مجھول ہیں. اور اس سند میں عمرو بن مرة براہ راست فلفلة الجعفی سے بیان کررھے ہیں اس خبر کو.
یہ بھی قرینہ ہے کہ اس روایت کی سند مضطرب ھے.
خلاصہ:
یہ روایت معلول، مضطرب ، ضعیف ہے، اور اگر بالفرض یہ صحیح بھی ہوتی تو بھی اس میں کسی ملحد کے لیے کوئی طعن یا اعتراض کی گنجائش نہیں.
.
تنبیہ:
اس متن کی دیگر روایات پر بھی تحقیق کرنا باقی ہے. اور اس پر تحقیق فی الحال جاری ہے.
 
Top