السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
ہمارے علاقے میں اکثریت ان لوگوں کی ھے جن کا زریعہ معاش حرام کی کمای ھے جھوٹ بول کر پیسہ کمانا ھے مطلب ٹوٹلی زریعہ معاش حرام ھے تو میرا سوال یہ ھے کہ وہ لوگ رمضان المبارک میں اسی حرام کی کمائ سے مساجد میں دعوت افطاری کرواتے ھیں چاول پھل وغیرہ بھی مساجد میں بھیجتے ھیں تو کیا ہمیں ان سے روزہ افطار کرنا چاھیے یا وہ چاول پھل کھجوریں وغیرہ کھانی چاھیے
علماء اس کا تسلی بخش جواب دیں جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
کھانے ،پینے ،صدقہ و زکوٰۃ دینے کے سلسلہ میں بنیادی اور اسلام کی مرکزی ھدایت ہمیشہ یاد رکھیں ،جو پیارے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمائی ہے :
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أيها الناس، إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين، فقال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا، إني بما تعملون عليم} [المؤمنون: 51] وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم} [البقرة: 172] ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر، يمد يديه إلى السماء، يا رب، يا رب، ومطعمه حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك؟ " (صحیح مسلم ،کتاب الزکوٰۃ )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اے لوگو! اللہ تعالیٰ پاک ہے (یعنی صفات حدوث اور سمات نقص و زوال سے) اور نہیں قبول کرتا مگر پاک مال کو (یعنی حلال کو) اور اللہ پاک نے مؤمنوں کو وہی حکم کیا جو مرسلین کو حکم کیا اور فرمایا: اے رسولو! کھاؤ پاکیزہ چیزیں اور نیک عمل کرو میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں۔ اور فرمایا: اے ایمان والو! کھاؤ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو دیں، پھر ذکر کیا ایسے مرد کا جو کہ لمبے لمبے سفر کرتا ہے اور گرد و غبار میں بھرا ہے اور پھر ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے اے رب! اے رب! حالانکہ کھانا اس کا حرام ہے اور پینا اس کا حرام ہے اور لباس اس کا حرام ہے اور غذا اس کی حرام ہے پھر اس کی دعا کیونکر قبول ہو۔“
(صحیح مسلم ،کتاب الزکوٰۃ )
حدیث شریف میں وارد حکم کا مطلب صاف ہے کہ :
انبیاء علیہم السلام سے لے کر عام مومنین کو واضح حکم ہے کہ : صرف پاک اور حلال چیزیں ہی کھاؤ ۔اور ساتھ عمل نیک کرو کے حکم سے قرینہ ہے کہ نیک اعمال اسی شخص کے نتیجہ خیز ہوں گے جو پاک اور حلال کھاتا ہے ،
اور ساتھ ہی بتایا کہ حرام خور کی دیگر عبادت تو درکنار ۔۔ حرم شریف میں دعاء ۔۔ تک قبولیت کا شرف نہیں پاسکتی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور افطار کروانا خود ایک عبادت ہے ، جناب رسول اللہ ﷺ کا واضح ارشاد گرامی ہے ؛
عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُهَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا»
: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اسے بھی اس کے برابر ثواب ملے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں سے ذرا بھی کم کیا جائے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
اور اوپر حدیث میں ارشاد فرمایا :
" أيها الناس، إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا، ( یعنی ”اے لوگو! اللہ تعالیٰ ہر نقص و خرابی سے پاک ہے اور (بندوں کے ) صرف پاک ( مال اور اعمال ) کو ہی قبول کرتا ہے ،
اسلئے جانتے ،بوجھتے نہ تو اللہ کی راہ میں حرام اور خبیث مال خرچ کیا جائے ، اور نہ ہی کھایا جائے ، وگرنہ نیک اعمال اور دعائیں قبول نہ ہونگی ،
ہاں لا علمی میں ایسا ہوجائے تو دوسری بات ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شرعی فتاویٰ کیلئے مستند عربی سائیٹ
(اسلام ویب ) پر اسی سوال کے جواب میں درج ذیل فتویٰ دیا گیا ہے :
السوال
بسم الله الرحمن الرحيم يوجد في مدينتنا أحد التجار المسلمين ويملك مطعما يباع فيه الخمر، وأتى إلى المركز الإسلامي يريد أن يتكفل بإفطار جماعي للصائمين، فهل يجوز لنا أن نوافق على ذلك أم لا؟ حتى نتحرى لصيامنا وجزاكم الله خيرا.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد:
فلا شك أن تفطير الصائم من أعمال البر التي ينبغي للمسلم أن يفعلها ويسعى في تيسيرها على من أراد فعلها من المسلمين.
فقد قال النبي صلى الله عليه وسلم: من فطّر صائما كان له مثل أجره، غير أنه لا ينقص من أجر الصائم شيئا. رواه الترمذي
وأما الموافقة على قبول الإفطار من الرجل المذكور، فإن كان كل ماله حراما أو علم أن ما قدمه من عين الحرام، فلا تجوز.
وأما إن كان ماله مختلطا فيه الحلال والحرام، فلا مانع من قبوله إذا كان الحلال أكثر، ويكره إن كان الحلال أقل.
ولتفاصيل ذلك وأقوال العلماء، نرجو الاطلاع على الفتوى رقم: 6880.
ثم إن عليكم أن تنصحوا هذا التاجر الذي يبدو أن فيه الخير، وأن تستغلوا هذه المناسبة المباركة (مناسبة شهر رمضان) التي تقبل فيها القلوب على الخير وتنشرح الصدور لقبول الحق.
نسأل الله لنا ولكم التوفيق.
والله أعلم.
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
علم ہونے کے باوجود خؒالص حرام مال سے افطار کسی صورت جائز نہیں ،
ہاں اگر افطار کے مال میں زیادہ حلال مال صرف ہوا اور ساتھ ہی کچھ ناجائز مال بھی مختلط ہے تو پھر جواز کی گنجائش نکلتی ہے ،
اور حرام غالب ہے تو کھانا جائز نہیں ، واللہ اعلم
لنک فتوی