• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حصول علم افضل ہے یا کفار کے خلاف جہاد؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
650
ری ایکشن اسکور
197
پوائنٹ
77
حصول علم افضل ہے یا کفار کے خلاف جہاد؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شیخ ابو بكر الجصاص رحمہ اللہ (ت ٣٧٠هـ) نے اپنی تفسیر میں ایک نہایت اہم اور اصولی مسئلہ بیان کیا ہے کہ آیا حصولِ علم افضل ہے یا کفار کے خلاف جہاد؟ ان کے بیان کردہ اصول کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو دشمن کے حملے کا خطرہ ہو اور مسلمانوں کی حفاظت کے لیے کوئی موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں جہاد فرضِ عین ہو جاتا ہے، اور اس وقت اس میں مشغول ہونا حصولِ علم سے افضل ہے۔

شیخ ابو بکر الجصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

فَإِنْ قِيلَ: تَعَلُّمُ الْعِلْمِ أَفْضَلُ أَمْ جِهَادُ الْمُشْرِكِينَ؟ قِيلَ لَهُ: إذَا خِيفَ مَعَرَّةُ الْعَدُوِّ وَإِقْدَامُهُمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، وَلَمْ يَكُنْ بِإِزَائِهِ مَنْ يَدْفَعُهُ فَقَدْ تَعَيَّنَ فَرْضُ الْجِهَادِ عَلَى كُلِّ أَحَدٍ، فَالِاشْتِغَالُ فِي هَذِهِ الْحَالِ بِالْجِهَادِ أَفْضَلُ مِنْ تَعَلُّمِ الْعِلْمِ،

اگر یہ پوچھا جائے کہ حصول علم افضل ہے یا کفار کے خلاف جہاد؟ تو میں کہوں گا کہ اگر مسلمانوں کے خلاف دشمن کے حملے کا خوف ہو اور اس حملے کو روکنے اور امت کا دفاع کرنے والا کوئی نہ ہو، تو جہاد ہر مسلمان پر فرضِ عین ہو جاتا ہے۔ پس اس حال میں جہاد کرنا ہی علم حاصل کرنے سے افضل ہے۔

لِأَنَّ ضَرَرَ الْعَدُوِّ إذَا وَقَعَ بِالْمُسْلِمِينَ لَمْ يُمْكِنْ تَلَافِيهِ، وَتَعَلُّمُ الْعِلْمِ مُمْكِنٌ فِي سَائِرِ الْأَحْوَالِ،

ایسی حالت میں جہاد ترک کرنے سے مسلمانوں کو نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا، جبکہ علم ترک کرنے میں یہ اندیشہ نہیں، کیونکہ علم تو بعد میں بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

وَلِأَنَّ تَعَلُّمَ الْعِلْمِ فَرْضٌ عَلَى الْكِفَايَةِ لَا عَلَى كُلِّ أَحَدٍ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ، وَمَتَى لَمْ يَكُنْ بِإِزَاءِ الْعَدُوِّ مَنْ يَدْفَعُهُ عَنْ الْمُسْلِمِينَ فَقَدْ تَعَيَّنَ فَرْضُ الْجِهَادِ عَلَى كُلِّ أَحَدٍ، وَمَا كَانَ فَرْضًا مُعَيَّنًا عَلَى الْإِنْسَانِ غَيْرَ مُوَسَّعٍ عَلَيْهِ فِي التَّأْخِيرِ فَهُوَ أَوْلَى مِنْ الْفَرْضِ الَّذِي قَامَ بِهِ غَيْرُهُ، وَسَقَطَ عَنْهُ بِعَيْنِهِ، وَذَلِكَ مِثْلُ الِاشْتِغَالِ بِصَلَاةِ الظُّهْرِ فِي آخِرِ وَقْتِهَا هُوَ أَوْلَى مِنْ تَعَلُّمِ عِلْمِ الدِّينِ فِي تِلْكَ الْحَالِ إذْ كَانَ الْفَرْضُ قَدْ تَعَيَّنَ عَلَيْهِ فِي هَذَا الْوَقْتِ،

علم حاصل کرنا تو فرض کفایہ ہے، ہر مسلمان پر تعین کے ساتھ فرض نہیں۔ لیکن اگر حملہ آور دشمن کو پچھاڑنے کے لئے مطلوبہ (افرادی و مالی) قوت موجود نہ ہو تو جہاد ہر مسلمان پر فرض عین ہو جاتا ہے۔ پس وہ فرض عین جس کی ادائیگی میں تاخیر کی گنجائش نہ ہو، اس فرض سے افضل ہے جو اس کے علاوہ بھی ادا ہو سکتا ہو۔ مثلاً آخری وقت میں نماز ظہر کی ادائیگی اس وقت علم حاصل کرنے سے افضل ہے کیونکہ نماز ظہر اس وقت فرض عین ہو چکی ہوتی ہے۔

فَإِنْ قَامَ بِفَرْضِ الْجِهَادِ مَنْ فِيهِ كِفَايَةٌ وَغِنًى فَقَدْ عَادَ فَرْضُ الْجِهَادِ إلَى حُكْمِ الْكِفَايَةِ كَتَعَلُّمِ الْعِلْمِ، إلَّا أَنَّ الِاشْتِغَالَ بِالْعِلْمِ فِي هَذِهِ الْحَالِ أَوْلَى، وَأَفْضَلُ مِنْ الْجِهَادِ لِمَا قَدَّمْنَا مِنْ عُلُوِّ مَرْتَبَةِ الْعِلْمِ، عَلَى مَرْتَبَةِ الْجِهَادِ، فَإِنَّ ثَبَاتَ الْجِهَادِ بِثَبَاتِ الْعِلْمِ وَإِنَّهُ فرع له ومبني عليه.

ہاں! اگر مسلمانوں کی جانب سے دفاع کرنے والے کفار کو پچھاڑنے کے لئے کافی ہو جائیں تو پھر جہاد بھی حصول علم کی طرح فرض کفایہ ہو جائے گا، اور اس حال میں علم حاصل کرنا افضل ٹھہرے گا۔ علم کا مرتبہ (عام حالات میں) جہاد کے مرتبے سے بلند تر ہے کیونکہ جہاد پر ثبات علم کے بغیر ممکن نہیں علم اصل ہے اور جہاد اس کی فرع اور جہاد علم ہی کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔


[أحكام القرآن للجصاص، ج : ٣، ص : ١٥٣-١٥٤]

وضاحت:

❁ شیخ الجصاص رحمہ اللہ ایک اہم اصول بیان فرما رہے ہیں کہ جب دشمن کا حملہ متوقع ہو اور دفاع کرنے والے افراد نہ ہوں، تو "فقد تعين فرض الجهاد على كل أحد" جہاد ہر فرد پر فرضِ عین بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ دیگر عبادات یا تعلیمی سرگرمیوں میں مشغول رہے، بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ میدانِ جہاد میں اترے۔

❁ شیخ الجصاص رحمہ اللہ کا صریح فتویٰ ہے کہ "فالاشتغال في هذه الحال بالجهاد أفضل من تعلم العلم " ایسی حالت میں جہاد میں مشغول ہونا علم سیکھنے سے افضل ہے کیونکہ جہاد ہر دوسری عبادت اور مصروفیت سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔

❁ شیخ الجصاص رحمہ اللہ نے عقلی دلیل بھی بیان فرمائی کہ "ضرر العدو إذا وقع بالمسلمين لم يمكن تلافيه، وتعلم العلم ممكن في سائر الأحوال" جہاد کی تاخیر ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے، جب کہ علم کسی بھی دوسرے وقت حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا، جب دشمن کی یلغار کا خطرہ ہو تو ایسے میں جہاد کو فوقیت دینا واجب ہو جاتا ہے۔

❁ شیخ الجصاص رحمہ اللہ نے ایک فقہی اصول بیان کیا کہ "تعلم العلم فرض على الكفاية لا على كل أحد في خاصة نفسه" علم حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے، یعنی اگر کچھ لوگ علم حاصل کرلیں تو باقی لوگوں سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر جہاد فرضِ عین ہو جائے، تو پھر کوئی بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا، فرضِ عین فرضِ کفایہ پر مقدم ہوتا ہے۔

والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام
 
Top