• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(حصہ:1)آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت طبیہ کا جشن ؟! (دور جاہلیت میں بچے کی ولادت پر انجام دیے جانے والے اعمال)

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
308
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت طبیہ کا جشن ؟! (حصہ:1)

حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ،دارالمعارف لاہور

دور جاہلیت میں بچے کی ولادت پر انجام دیے جانے والے اعمال


پہلے اس سے کہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر منائی جانے والی خوشی اور انداز فرحت کا تذکرہ کیا جائے، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت عرب میں ولادت کے موقع پر کیے جانے والے اعمال اور رسوم و رواج کا پتہ لگایا جائے،

تاکہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت پر کی جانے والی خوشی کا صحیح اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ عام رواج کے مطابق انجام دی گئی تھی ، یا اس میں کوئی خصوصی جشن منایا گیا تھا۔

دورِ جاہلیت میں ولادت کی مناسبت سے کیے جانے والے اعمال کو جاننے کے لیے کتب سیرت و تاریخ اور ادب و انشا کی ورق گردانی کے بعد مختلف رسومات دیکھنے کو ملتی ہیں، جس کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔

قریش کا معمول تھا کہ بچہ رات کو جنم لیتا ، تو دیکھے بغیر ہی اسے کسی برتن کے نیچے چھپا دیا جاتا اور سپیدۂ صبح طلوع ہونے پر اس نومولود کو پہلی بار دیکھا جاتا،(ابن کثیر، السیرۃ النبویۃ:210/1)

نوزائیدہ بچے کو گھُٹی دی جاتی ، جس کے لیے اس کے منہ میں شہد لگایا جاتا ، یا کوئی معزز آدمی اپنے منہ میں کھجور چبا کر اس بچے کے منہ میں ڈال دیتا ، اس گھُٹی کے لیے کسی بھی ایسی میٹھی چیز کا انتخاب کیا جاسکتا تھا ، جسے آگ نے نہ چھوا ہو۔(جواد علی ، المفصل: 487/12 وابن منظور الافریقی ،لسان العرب: 416/10)

یوم ولادت ایک دعوت عام کا اہتمام کیا جاتا، جس میں جانور ذبح کیا جاتا ،اس کے لیے عزیز و اقارب اور قرب و جوار کے معزز لوگوں کو مدعو کیا جاتا، اس روز برپا کی جانے والی دعوت کو ”طعام خُرس“ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا،(ابن عبدربہ، العقد الفرید:282/6)

عرب قوم کیونکہ اپنی جہالت کی وجہ سے بت پرستی کے ساتھ ساتھ انتہائی زیادہ توہم پرست بھی تھی ، اس لیے غیر مرئی مخلوقات کے ضرر سے بچاؤ کے لیے نومولود کے تکیے کے نیچے آہنی استرہ وغیرہ بھی رکھ دیا جاتا تھا،(البخاری ،الأدب المفرد: 912)

وقت زواج عورت کو حق مہر کی صورت میں ملنے والے مال کی وجہ سے کیونکہ اس کے بڑوں کے اموال میں اضافہ ہوتا تھا۔اس لیے اگر کسی کے ہاں بچی پیدا ہوتی تو اسے بطور طعنہ ”ھَنِیْاً لَکَ النَّافِجَۃُ“ کہہ کہ مبارک بات دیتے یعنی تجھے تیرے مال میں اضافہ کا سبب بننے والی کی آمد پر مبارک ہو۔(ابن منظور الافریقی،لسان العرب: 372/2 )

بچے کی بہ نسبت بچی کی ولادت کیونکہ باعث عاروننگ سمجھی جاتی تھی ، اس لیے اس کے وقت ولادت ہی اس کے اہل خانہ گھر کے دروازہ پر کھڑے ہوکر یوں صدا بلند کرتے جیسے کسی قابل فروخت چیز کی بولی لگائی جاتی ہے ، بچی کی پرورش کی کوئی حامی بھرتا ، تو اس بچی کو زندہ رہنے کا حق دیا جاتا ، وگرنہ اسے جیتے جی زندہ دفن کردیا جاتا۔(ابن الأثیر، الکامل: 211/12 )

اگرچہ یہ بعد کا معمول ذکر ہوا ہے ، لیکن بعید ازقیاس نہیں کہ قبل از اسلام بھی ایسے ہی ہوتا ہو۔ زندہ درگور کیے جانے کا تو قبل از اسلام رواج تھاہی۔ اگرچہ کچھ قبائل ہی میں تھا۔

عرب قوم کیونکہ باہمی جنگ و جدال ہی میں زندگی گزارنے کو اپنا معمول بنائے ہوئے تھی اور اسی میں خاندان کے خاندان لقمہ اجل بنتے چلے جاتے تھے، تو اس کشت و خون کی وجہ سے بچے کی ولادت کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ،

کیونکہ اس نے کل کلاں کو اپنے بڑوں کا زورِ بازو اور وارث بننا ہوتا تھا۔ اس لیے جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو اسے یوں مبارک بات دی جاتی: ”لِیَھْنِکَ الْفَارِسُ“(راغب الاصفہانی، محاضرات الأدباء: 669/2) ”تجھے شاہسوار کی آمد مبارک ہو“۔

اس لیے بچے کی ولادت پر ہر طرف خوشی کا سما اور مختلف تقریبات کا انعقاد ہوتا، ایک تو جیسے کہ گزر چکا ہے کہ یوم ولادت ہی جانور ذبح کیا جاتا جسے ”طعام خُرس“ کہا جاتا تھا، اسی طرح ساتویں روز عقیقہ کیا جاتا۔

عقیقہ اصل میں ان بالوں کو کہا جاتا ہے جو وقت ولادت بچے کے سر پر ہوتے ہیں، بچے کو ان سے پاک کرنے کیلئے باقاعدہ تقریب کا انعقاد ہوتا جس میں جانور ذبح کرکے کھانے کا اہتمام کیا جاتا اور اسی جانور کے خون کو نومولود کے سر پر مل دیا جاتا،(ابن عبد ربہ ،العقد الفرید: 282/6 وجواد علی،المفصل: 486/4 و سنن ابی داؤد: 2843)

اسی پر بس نہ تھی بلکہ اس نومولود کے ختنہ کے موقع پر بھی دعوت عام کا انعقاد ہوتا، جسے ”طعام إعذار“ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اس عمل ختنہ کے لیے کسی عمر کی کوئی قید نہ تھی بلکہ جب مناسب سمجھا جاتا ، اس رسم کا انعقاد کیا جاتا۔ عرب میں ختنہ اس لیے کیا جاتا تھا کیونکہ خون بہا کو تقرب کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا ، جسے بصورت ختنہ سرانجام دیا جاتا۔

جبکہ اس کے برعکس غیر مختون کو ناقص تصور کیا جاتا اور اسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ایسے افراد کو ”اقلف، اغلف اور اغرل“ جیسے برے القاب سے مطعون ٹھہرایا جاتا۔ چاندنی راتوں میں پیدا ہونے والے بچہ کا ختنہ نہیں کیا جاتا تھا ،

کیونکہ عربوں کے خیال کے مطابق ان راتوں میں پیدا ہونے والے بچے کا قلفہ خود ہی سخت ہوجاتا جس وجہ سے وہ مثل مختون ہی ہوتا ہے۔( ابن عبد ربہ ، العقد الفرید : 282/6 وجواد علی ،المفصل : 487/4 ومرتضی الزبیدی ، تاج العروس: 443/12)

عرب کیونکہ ایک جنگجو قوم تھی ، اس لیے نوزائیدہ بچے کے نام کے حوالہ سے یہی مدنظر ہوتا کہ نام ایسا ہو ، جس سے مخالف پر رعب ودہشت طاری ہو، یا پھر جس میں وفاداری کے اوصاف حمیدہ پنہاں ہوں۔

اس لیے وہ اپنے بچوں کے نام حیوانات، نبابات، حشرات اور جمادات کے ناموں پر تفاؤلاً رکھ لیتے تھے۔ بچے کی ولادت کے بعد جو آواز بھی سب سے پہلے کان میں پڑتی یا جس چیز، آدمی یا جانور وغیرہ پر سب سے پہلے نظر پڑتی اسی پر نومولود کا نام تجویز کردیا جاتا۔

وائل بن قاسط نے اپنے بیٹوں: عَنز، بَکر، تغلب اور شُخَیص کے نام اسی طرح رکھے تھے، نیزہ پر نظر پڑیتو عنز نام تجویز کیا، جوان اونٹ کو دیکھا تو بکر نام رکھا، دو آدمیوں کو باہم جھگڑتے دیکھا تو تغلب اسم ٹھہرایا اور دُور سے ایک آنے والا چھوٹا دکھائی دیا تو شخیص نام پسند کیا،(السہیلی ،الروض الأنف: 294/1)

اسی طرح تفاؤلاً کلب، حمار، حَجر، جُعَل، حنظلہ، قِرد اور ذئب و اسد جیسے بھی نام رکھ لیے جاتے تھے۔(الجاحظ، کتاب الحیوان : 211/1 )

اسی طرح بچوں اور بچیوں کے لیے درج ذیل اسماء بھی منتخب کرلیا کرتے تھے جیسے: غُراب، صُرد، یمامہ، شاہین، فاختہ، حمامہ، عقاب، قطاۃ، قُطیہ، دجاجہ، عصفور، نقّاز، حجل، صعْوہ، سمامہ، جناح، صقر، طاؤس اور حذیفہ وغیرہ۔ یہ سب نام تفاؤلاً رکھے جاتے تھے، جن سے مقصود شجاعت و بہادری اور خصال حمیدہ ہوتی تھیں۔(الجاحظ، کتاب الحیوان: 599/2وجواد علی، المفصل: 489/4)

یہ سب کچھ وہ ہے ، جو دورِ جاہلیت میں کسی کی ولادت پر کیا جاتا تھا۔
 
Top