• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(حصہ:2)آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت طبیہ کا جشن ؟! (ولادت نبوی پر انداز خوشی اور مروجہ میلاد کی تاریخ آغاز)

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
308
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت طبیہ کا جشن ؟! (حصہ:2)

حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ،دارالمعارف لاہور

ولادت نبوی پر انداز خوشی اور مروجہ میلاد کی تاریخ آغاز


کتب سیر و تاریخ میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے پرمسرت موقع پر منائی جانے والی خوشی کا تذکرہ اسی قدر ہی ملتا ہے ، جسے عام طور پر اس معاشرے میں کسی کی ولادت پر اختیار کیا جاتا تھا۔ ایسی رسومات سیۂ جن کا تعلق عقائد بد سے تھا ، ان سے باری تعالیٰ نے آپ کو محفوظ و ممنوع رکھا۔

عام معمول سے ہٹ کر آپ کی ولادت پر کوئی خاص امتیازی اہتمام کیا گیا ہو ، اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا، کیونکہ کسی کو کوئی معلوم نہ تھا کہ یہی دُر یتیم مستقبل میں یتیموں کا ملجا و ماویٰ اور خاتم النبیین ہوگا۔

رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت پر انداز خوشی یہ تھا کہ آپ کا نام محمد رکھا گیا۔ بیت اللہ میں لے جا کر اللہ تعالیٰ سے خیر وبرکت کی دعا کی گئی، ختنہ کیا گیا اور دعوت عقیقہ کی گئی، جس میں شرفائے مکہ کو مدعو کیا گیا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر بالکل عام معمول کے مطابق اور رائج الوقت وہی خوشی منائی گئی ، جو اُس وقت کسی کی بھی ولادت پر منائی جاتی تھی۔

فی زمانہ مروجہ میلاد جیسے کسی اہتمام کا کہیں کوئی نام و نشان تک نہیں ملتا، بلکہ اس بدعت شنیعہ کا آغاز کئی صدیوں بعد ہوا۔ سب سے پہلے اس کا آغاز فاطمی خلفاء نے چوتھی صدی ہجری میں کیا۔ انہوں نے میلاد علی، میلاد فاطمہ، میلاد حسن و حسین جیسے کئی ایک میلادوں کی ابتداء کی، جن میں ایک مروجہ میلاد النبی بھی تھا۔(القلقشندی، صبح الأعشی فی صناعۃ الانشاء: 576/3)

لیکن اس وقت میلاد النبی کو کوئی خاص پذیرائی حاصل نہ ہوئی۔ اسی طرح دو صدیاں بیت گئیں، چھٹی صدی ہجری میں شاہ اربل مظفر الدین ابو سعید کو کبوری نے باقاعدہ بڑی دھوم دھام سے میلاد مصطفی آغاز کیا۔ بغداد، موصل، جزیرہ، سنجار اور دیگر اردگرد سے لوگوں کا تانتا بندھ جاتا۔

شاہ اربل کے ہاں بڑے بڑے شعراء، واعظین، صوفیاء اور گوئیے آلات موسیقی، طنبورے اور باجے گاجے لیے محرم ہی سے آنا شروع ہوجاتے۔ ان ماہرین فن اور دیگر زائرین کے لیے خیموں اور قبوں کو طرح طرح کے خوبصورت قالینوں اور رنگا رنگ کے پارچہ جات سے خوب سجادیا جاتا۔

ان خیموں میں گلوکار دن بھر طرب و نشاط کے ہنگامے برپا رکھتے۔ جن سے شاہاربل بھی لطف اندوز ہوتا۔ ربیع الاول آنے تک اسی طرح دن رات بڑے زور و شور سے ڈھولک بجتے اور فسق و فجور کے بازار گرم رہتے۔ جب ربیع الاول آتا تو میلاد کا انعقاد کیا جاتا اور حاضرین میلاد کی ضیافت کے لیے لاتعداد اونٹ، گائے اور بکریاں ذبح کی جاتیں اور طرح طرح کے کھانے پکائے جاتے۔

رات کو ناچ گانے کی محفلیں سجائی جاتیں، شمعیں روشن کی جاتیں۔ حاضرین کو مال و دولت سے نوازا جاتا اور دین کے نام پر ان تمام بدعات و خرافات کے جواز فراہم کیے جاتے جن کا دین سے قطعاً کوئی تعلق نہ تھا۔(خلکان، وفیات الاعیان 117/4- 119وابن العماد الحنبلی، شذرات الذھب: 149،140/5)

مروجہ میلاد کو پروان چڑھانے والے شاہ اربل کی اپنی حالت زار تو یہ تھی کہ وہ رقص و سرور کی محفلوں میں رقص کرنے والوں کے ہمراہ خود بھی رقص کیا کرتا تھا۔(ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ: 137/13وجلال الدین السیوطی، الحاوی للفتاوی: 252/1)

اِدھر شاہ اربل نے محافل میلاد کا بڑے تزک و احتشام سے اہتمام کرنے کا آغاز کیا ، اُدھر سے شاہ اربل کی مخالفت و اصلاح کی بجائے خود غرض حاشیہ بردار ابن دحیہ نے اس کی ان میلادی محافل کی تائید میں کتاب لکھ ماری ، جس پر خوش ہوکر شاہ اربل نے اسے ہزار دینار بطور انعام کے دئیے(ابن خلکان، وفیات الاعیان:199/4)

ابن دحیہ کا کامل نام، عمر بن حسن ابو خطاب بن دحیہ اندلسی تھا۔ ابن دحیہ کی اپنی دینی حالت انتہائی پریشان کن تھی۔ مذہب ظاہری کا حامل تھا، ائمہ دین اور اسلاف کی شان میں بے حد بدزبانی کیا کرتا، غیبت اور ہجو کا عادی تھا۔ اول درجے کا احمق اور متکبر تھا، امور شرعیہ کے متعلق بہت کم فہم اور کوتاہ بین بھی تھا اور جاہل مرکب اور کذب بیانی میں لاثانی تھا۔(الذھبی میزان الاعتدال:186/3و ابن حجر، لسان المیزان:296/4)

ابن دحیہ علم روایت، فہم حدیث اور علوم دینیہ سے بالکل کورا تھا، دعوے بڑے بڑے کیا کرتا لیکن اپنے دعوؤں میں بالکل ہی جھوٹا ہوتا۔(ابن حجر ،لسان المیزان:294/4 والذھبی،میزان الاعتدال:188/3)

ابن دحیہ دنیاوی مرتبہ و مقام کے حصول کے لیے اور امراء کی حاشیہ برداری کے لیے جھوٹ بولنے میں کسی طرح کا کوئی عار تک محسوس نہ کیا کرتا۔ بلکہ جھوٹی شہرت کے حصول کے لیے دوسروں کو بھی جھوٹ بولنے کی ترغیب دیا کرتا۔(ابن حجر ،لسان المیزان 295/4)

امام سیوطی رحمہ اللہ نے جھوٹی احادیث گھڑنے والوں کی اقسام اور ان کے نام شمار کرواتے ہوئے ان میں ابن دحیہ کو بھی شمار کیا ہے ، کیوں کہ یہ بھی دنیا طلبی کے لیے جھوٹی حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔(السیوطی، تدریب الراوی :156/1)

بلکہ ابن نجار تو ابن دحیہ کے متعلق فرماتے ہیں: ”رَأَیْتُ النَّاسِ مُجْتَمِعِیْنَ علٰی کِذْبِہِ وَضَعْفِہِ وَادِّعَاءِہِ بِسَمَاعِ مَالَمْ یَسْمَعْہُ وَلِقَاءِ مَنْ لَمْ یَلْقَہُ“(ابن حجر ،لسان المیزان: 295/4 )”میں نے تمام لوگوں کو ابن دحیہ کے دروغ گو اور ضعیف ہونے پر متفق پایا۔ یہ شخص ایسی خبروں کے سننے کا دعویٰ کیا کرتا تھا جو اس نے سنی ہی نہیں ہوتی تھیں۔ اور یہ ایسے لوگوں سے ملاقات کا دعویٰ بھی کیا کرتا تھا جن سے اس کی کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی ہوتی۔“

یہ ہے بانئی میلاد النبی اور اس کے حامیان کی دینی و اخلاقی حالت اور میلاد النبی کے نام پر رچائی جانے والی محافل میں رب کی نافرمانی والے کیے جانے والے اعمال کی سادہ سی نقشہ کشی۔
 
Top