• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(حصہ:3)آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت طبیہ کا جشن ؟! (جشن میلاد اور بدعت حسنہ ! ! ! )

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
308
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت طبیہ کا جشن ؟! (حصہ:3)

حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ،دارالمعارف لاہور

جشن میلاد اور بدعت حسنہ ! ! !


خوشنما بدعت میلاد کا ثبوت نہ تو کسی آیت قرآنی سے ہے اور نہ کوئی صحیح، صریح اور مرفوع حدیث نبوی اس کی تائید کرتی ہے۔ اس کی مثال نہ تو خود رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے عہد میں ملتی ہے اور نہ ہی خلفائے اربعہ کے دورِ زریں میں۔

بلکہ ائمہ اربعہ کا دور بھی اس بدعت سے پاک نظر آتا ہے۔ جبکہ اہل ایمان کے لیے کسی بھی عمل کے لیے قرآن و حدیث سے دلیل شرعی کا ہونا ضروری ہے وگرنہ وہ عمل بے کار اور بے وقعت ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیعُوا اللّٰہَ وَاَطِیعُوا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْا اَعْمَالَکُمْ)(محمد: 33/47)”اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو، اپنے اعمال کو برباد نہ کرو“۔

عمل کی قبولیت کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے دائرہ کار میں رہنا لازمی ہے۔ جس عمل کے لیے قرآن و سنت سے دلیل موجود نہیں وہ عمل بے وزن و بے اہمیت ہے اور شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں وہ بدعت ہے۔

بدعت کے متعلق واضح حدیث نبوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ)) (صحیح مسلم: 4493/1718) ”جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کی ہماری طرف سے اجازت نہیں تو وہ مردود ہے“۔

اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہاکی حدیث ہے، بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَنْ أَحَدَثَ فِیْ أْمْرِنَا ھٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ)) (صحیح البخاری: 2697) وصحیح مسلم:4492/1718 )”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی چیز ایجاد کی جو اس سے نہیں تو وہ رد ہے۔“

مروجہ میلاد مصطفی بھی انھی بدعات و خرافات میں سے ایک بدعت ہے ، جسے بدعت حسنہ کے خوشنما نام سے خوش فہمی کا شکار لوگ اختیار کیے ہوئے ہے۔ حالانکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے۔ اور درج ذیل حدیث نبوی بھی اپنے عموم کی وجہ سے تمام طرح کی بدعات کو شامل ہے۔

رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:((کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٍ))(صحیح مسلم: 126)”ہر بدعت سراسر گمراہی ہے“۔

رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو چھوڑ کر کیا جانے والا ہر عمل ہی تو بدعت کہلاتا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ بدعت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”مَا أُحْدِثَ یُخَالِفُ کِتَاباً أَوْسُنَّۃً أَؤ اِجْمَاعاً أَؤأَثَراً فَھَذِہِ الْبِدْعَۃُ الضَّلاَلَۃُ“(عزت علی عطیہ، البدعۃ تحدیدھا وموقف الاسلام منھا، ص: 160) ”ہر ایسا نیا عمل گمراہ کن بدعت ہے جو کتاب و سنت کے بھی خلاف اور اجماع امت اور آثار صحابہ کے بھی برعکس ہو“۔

مروجہ میلادالنبی بھی اسی قسم کا ایک بے بنیاد عمل ہے۔امام شاطبی رحمہ اللہ بدعت کی تعریف رقم کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اَلْبِدْعَۃُ: طَرِیْقَۃٌ فِی الْدِّیْنِ مُخْتَرَعَۃٌ تُضَاہِی الشَّرْعِیَّۃَ، یُقْصَدُ بُالسَّلُوْکِ عَلیْھَا مَا یُقْصَدُ بِالطَّرِیْقَۃِ الشَّرعِیَّۃِ“ (عزت علی عطیہ، البدعۃ، ص: 164)”بدعت دین میں ایسے نئے طریقہ کی ایجاد کو کہا جاتا ہے جو شرعی طریقہ کے مدمقابل ہو اور اسے اختیار کرنے سے وہی مقصود ہو جو شرعی طریقہ سے مطلوب ہوتا ہے“۔

نبوی ہدایات سے واضح ہوتا ہے کہ ہر ایسا نیا عمل جس کی کتاب و سنت اور تعامل صحابی سے دلیل نہ ہو اور اس پر چلنے سے مقصود بھی وہی ہو جو ایک شرعی عمل سے ہوتا ہے یعنی حصول ثواب و رضائے الٰہی تو وہ عمل بدعت ہے۔

نماز تراویح کے حوالہ سے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ سے قول منقول ہے”نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہِ“(صحیح البخاری: 2010)
”یہ اچھی بدعت ہے“

اس قول صحابی کو بدعت حسنہ اور بدعت سیۂ کی تقسیم کیلئے دلیل قرار دینا چنداں قابل قبول نہیں ، کیونکہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے اس قول سے مراد لغوی بدعت ہے نہ کہ شرعی۔

انہوں نے جس عمل کے حوالہ سے یہ الفاظ کہے تھے وہ عمل بدعت شرعی تھا ہی نہیں۔ کیونکہ وہ تو ایک مسنون عمل تھا، رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے خود تین روز تک باجماعت نماز تراویح کی ادائیگی فرمائی تھی۔ بعد میں خوفِ فرضیت کی بنا پر باجماعت ادا کرنا ترک کردیا،جس کی روایات میں صراحت موجود ہے (صحیح البخاری:2012 )

جبکہ خود اصحابِ رسول بھی مختلف گروہوں کی شکل میں باجماعت نماز تراویح ادا کیا کرتے تھے۔(صحیح البخاری:2010)

حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے صرف اسی قدر کیا کہ ان صحابہ کی مختلف جماعتوں کو ختم کرکے صرف ایک امام کی امامت میں جمع کردیا ، جس کو بعد میں انہوں نے ”اچھی بدعت“ کہا ، تو ایسا عمل بدعت شرعی کیسے ہوسکتا ہے ، جس پر خود رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا ہو اور اصحاب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی اس پر عمل۔کیا ہو۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ نماز تراویح بدعت شرعیہ نہیں ہے، بلکہ یہ سنت ہے ، کیونکہ اسے خود رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی ادا فرمایا ہے اور حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے قول ”اچھی بدعت ہے“ سے مراد لغوی بدعت ہے ناکہ شرعی بدعت۔(ابن تیمیہ، اقتضاء الصراط المستقیم، ص: 255، 256 )

اس لیے بدعت حسنہ اور بدعت سیۂ کی تقسیم کرکے مروجہ بدعت میلاد کو جائز قرار دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں اور ہی یہ حقیقی اہل ایمان اور محبان رسول کے شایان شان ہے ، ایمان اور بدعت دو متضاد چیزیں ہیں ،


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ کا تو قول ذی شان ہے :”کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٍ، وَإِنْ رَآھَا النَّاسُ حَسَنَۃً“۔( أبو القاسم الالکلائی، شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ :29/1 رقم:126)”ہر بدعت ہی گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسے اچھا ہی جانیں“۔
 
Top