• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(حصہ:5)( سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل ومناقب ))(حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کا قبول اسلام )

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
((سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ کے حالات زندگی اور فضائل ومناقب))

(حافظ محمد فیاض الیاس الاثری ،دارالمعارف، لاہور)

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے حالات اور فضائل و مناقب (حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کا قبول اسلام )


♻ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کا قبولِ اسلام حق کی تلاش کا نتیجہ تھا۔ اُن کو شروع ہی سے دین حق کی جستجو تھی جو اُن کی فطرت سلیمہ، دور اندیشی اور خرد مندی کی آئینہ دار تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ تجارت کی غرض سے سفر کرتے رہتے تھے اور شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک گھوم پھر چکے تھے۔ ان لوگوں کی باتیں بہت غور سے سنتے تھے جو دین توحید کا َعلم لیے دین حق کی تلاش میں سرگرداں تھے۔

♻ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ خود اپنے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ میں کعبہ کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا اور زید بن عمرو بن نفیل بھی پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ابن ابی صلت کا وہاں سے گزر ہوا، وہ کہنے لگا: اے خیر کے متلاشی! تم نے صبح کیسے کی ہے؟ جواب دیا: خیر کے ساتھ۔ اس نے دوبارہ سوال کیا: تم نے خیر حاصل کر لی ہے؟ جواب ملا: تاحال تو نہیں، لیکن میں نے اس کی جستجو میں کوئی کمی بھی نہیں چھوڑی،پھر کہنے لگے ؎
کُلُّ دِیْنٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِلَّا
مَا قَضَی اللّٰہُ وَ الْحَنِیفَۃَ بُورُ
قیامت کے دن اللہ جو فیصلے فرمائے گا انھیں چھوڑ کر اور دینِ ابراہیمی کو چھوڑ کر دیگر تمام مذاہب ہلاکت ہی ہلاکت ہیں۔
رہی یہ بات کہ جس نبی کے ہم منتظر ہیں وہ تمھارے قبیلے سے ہوگا یا ہمارے قبیلے سے؟ یہ معلوم نہیں!

♻ سیدنا ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس سے پہلے کبھی نبی منتظر کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا، البتہ اس کی بعثت کے بارے میں کچھ باتیں سن رکھی تھیں۔ چنانچہ میں ورقہ بن نوفل کی طرف چل دیا۔ وہ نظریں اٹھا کر بہ کثرت آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو کی بھی کوئی واضح سمجھ نہیں آیا کرتی تھی۔ میں ان سے جا کر ملا اور یہ واقعہ بیان کیا

♻ اس پر ورقہ بن نوفل کہنے لگے: بھتیجے! ہم اہل کتاب ہیں۔ ہم علم رکھتے ہیں۔ خبردار! وہ نبی جن کا انتظار ہو رہا ہے ، وہ عرب کے بہترین نسب میں سے ہوں گے اور میں علم انساب کا ماہر ہوں۔ تمھاری قوم قریش عربوں میں سے سب سے اعلیٰ نسب کی حامل ہے۔ میں نے پوچھا: چچا جان! اُن کی دعوت کیا ہو گی؟انھوں نے جواب دیا: وہ وہی بات کہیں گے جس کے کہنے کا ﷲ حکم دے گا۔ ظلم و زیادتی کا کوئی حرف ان کی طرف منسوب نہیں ہو گا اور وہ باہمی ظلم و تشدد سے بھی روکیں گے۔ چنانچہ رسول ﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بعثت ہو گئی تو میں فوراً ایمان لے آیا اور میں نے آپ کی تصدیق کی،(ابن عساکر، تاریخ دمشق: 23/32)
 
Top