محمد زاہد بن فیض
سینئر رکن
- شمولیت
- جون 01، 2011
- پیغامات
- 1,957
- ری ایکشن اسکور
- 5,787
- پوائنٹ
- 354
حدیث نمبر: 3861
حدثني عمرو بن عباس، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا المثنى، عن أبي جمرة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال لما بلغ أبا ذر مبعث النبي صلى الله عليه وسلم قال لأخيه اركب إلى هذا الوادي، فاعلم لي علم هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي، يأتيه الخبر من السماء، واسمع من قوله، ثم ائتني. فانطلق الأخ حتى قدمه وسمع من قوله، ثم رجع إلى أبي ذر، فقال له رأيته يأمر بمكارم الأخلاق، وكلاما ما هو بالشعر. فقال ما شفيتني مما أردت، فتزود وحمل شنة له فيها ماء حتى قدم مكة، فأتى المسجد، فالتمس النبي صلى الله عليه وسلم ولا يعرفه، وكره أن يسأل عنه حتى أدركه بعض الليل، فرآه علي فعرف أنه غريب. فلما رآه تبعه، فلم يسأل واحد منهما صاحبه عن شىء حتى أصبح، ثم احتمل قربته وزاده إلى المسجد، وظل ذلك اليوم ولا يراه النبي صلى الله عليه وسلم حتى أمسى، فعاد إلى مضجعه، فمر به علي فقال أما نال للرجل أن يعلم منزله فأقامه، فذهب به معه لا يسأل واحد منهما صاحبه عن شىء، حتى إذا كان يوم الثالث، فعاد علي مثل ذلك، فأقام معه ثم قال ألا تحدثني ما الذي أقدمك قال إن أعطيتني عهدا وميثاقا لترشدنني فعلت ففعل فأخبره. قال فإنه حق وهو رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا أصبحت فاتبعني، فإني إن رأيت شيئا أخاف عليك قمت كأني أريق الماء، فإن مضيت فاتبعني حتى تدخل مدخلي. ففعل، فانطلق يقفوه حتى دخل على النبي صلى الله عليه وسلم ودخل معه، فسمع من قوله، وأسلم مكانه فقال له النبي صلى الله عليه وسلم " ارجع إلى قومك، فأخبرهم حتى يأتيك أمري ". قال والذي نفسي بيده لأصرخن بها بين ظهرانيهم، فخرج حتى أتى المسجد فنادى بأعلى صوته أشهد أن لا إله إلا الله، وأن محمدا رسول الله. ثم قام القوم فضربوه حتى أضجعوه، وأتى العباس فأكب عليه قال ويلكم ألستم تعلمون أنه من غفار وأن طريق تجاركم إلى الشأم فأنقذه منهم، ثم عاد من الغد لمثلها، فضربوه وثاروا إليه، فأكب العباس عليه.
مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، کہا ہم سے مثنیٰ نے، ان سے ابوجمرہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا مکہ جانے کے لئے سواری تیار کر اور اس شخص کے متعلق جو نبی ہونے کا مدعی ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبرآتی ہے۔ میرے لئے خبریں حاصل کر کے لا۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا اور پھر میرے پاس آنا۔ ان کے بھائی وہاں سے چلے اور مکہ حاضر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں خود سنیں پھر واپس ہو کر انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے، وہ اچھے اخلاق کا لوگوں کوحکم کرتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے۔ اس پر ابو ذررضی اللہ عنہ نے کہا جس مقصد کے لئے میں نے تمہیں بھیجا تھا مجھے اس پر پوری طرح تشفی نہیں ہوئی، آخر انہوں نے خودتوشہ باندھا، پانی سے بھر ا ہوا ایک پر انا مشکیزہ ساتھ لیا اور مکہ آئے، مسجدالحرام میں حاضری دی اور یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہیں تھے اور کسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پو چھنا بھی مناسب نہیں سمجھا، کچھ رات گزرگئی کہ وہ لیٹے ہوئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اس حالت میں دیکھا اور سمجھ گئے کہ کوئی مسافر ہے، علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آپ میرے گھر پر چل کر آرام کیجئے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے لیکن کسی نے ایک دوسرے کے بارے میں بات نہیں کی۔ جب صبح ہوئی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا مشکیزہ اور توشہ اٹھایا اور مسجدالحرام میں آ گئے۔ یہ دن بھی یونہی گزر گیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے۔ شام ہوئی تو سونے کی تیاری کرنے لگے۔ علی رضی اللہ عنہ پھر وہاں سے گزرے اور سمجھ گئے کہ ابھی اپنے ٹھکانے جانے کا وقت اس شخص پر نہیں آیا، وہ انہیں وہاں سے پھر اپنے ساتھ لے آئے اور آج بھی کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی، تیسرا دن جب ہوا اور علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ یہی کام کیا اور اپنے ساتھ لے گئے تو ان سے پوچھا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہاں آنے کا باعث کیا ہے؟ ابوذررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے پختہ وعدہ کر لو کہ میری راہ نمائی کرو گے تو میں تم کو سب کچھ بتا دوں گا۔ علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کر لیا تو انہوں نے اپنے خیالات کی خبر دی۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلاشبہ وہ حق پر ہیں اور اللہ کے سچے رسول ہیں اچھا صبح کو تم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا۔ اگر میں (راستے میں) کوئی ایسی بات دیکھوںگا جس سے مجھے تمہارے بارے میں خطرہ ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا۔ (کسی دیوار کے قریب) گویا مجھے پیشاب کرنا ہے، اس وقت تم میرا انتظار نہ کر نا اور جب میں پھر چلنے لگوں تو میرے پیچھے آ جانا تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں ساتھ ہیں اور اس طرح جس گھر میں، میں داخل ہوں تم بھی داخل ہو جانا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پیچھے پیچھے چلے تاآنکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے، آپ کی باتیں سنیں اور وہیں اسلام لے آئے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اب اپنی قوم غفار میں واپس جاؤ اور انہیں میرا حال بتاؤ تاآنکہ جب ہمارے غلبہ کا علم تم کو ہو جائے (تو پھر ہمارے پاس آ جانا) ابو ذررضی اللہ عنہ نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکا رکر کلمئہ توحید کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہا ں سے واپس وہ مسجدالحرام میں آئے اور بلند آواز سے کہا کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں“۔ یہ سنتے ہی سارا مجمع ان پر ٹوٹ پڑا اور انہیں اتنا مارا کہ زمین پر لٹا دیا اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے اوپر اپنے کو ڈال کر قریش سے کہا افسوس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے اور شام جانے والے تمہارے تاجروں کا راستہ ادھر ہی سے پڑتاہے اس طرح سے ان سے ان کو بچایا۔ پھر ابوذر رضی اللہ عنہ دوسرے دن مسجدالحرام میں آئے اور اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ قو م پھر بری طرح ان پر ٹوٹ پڑی اور مارنے لگی اس دن بھی عباس ان پر اوندھے پڑگئے
کتاب مناقب الانصآر صحیح بخاری
حدثني عمرو بن عباس، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا المثنى، عن أبي جمرة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال لما بلغ أبا ذر مبعث النبي صلى الله عليه وسلم قال لأخيه اركب إلى هذا الوادي، فاعلم لي علم هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي، يأتيه الخبر من السماء، واسمع من قوله، ثم ائتني. فانطلق الأخ حتى قدمه وسمع من قوله، ثم رجع إلى أبي ذر، فقال له رأيته يأمر بمكارم الأخلاق، وكلاما ما هو بالشعر. فقال ما شفيتني مما أردت، فتزود وحمل شنة له فيها ماء حتى قدم مكة، فأتى المسجد، فالتمس النبي صلى الله عليه وسلم ولا يعرفه، وكره أن يسأل عنه حتى أدركه بعض الليل، فرآه علي فعرف أنه غريب. فلما رآه تبعه، فلم يسأل واحد منهما صاحبه عن شىء حتى أصبح، ثم احتمل قربته وزاده إلى المسجد، وظل ذلك اليوم ولا يراه النبي صلى الله عليه وسلم حتى أمسى، فعاد إلى مضجعه، فمر به علي فقال أما نال للرجل أن يعلم منزله فأقامه، فذهب به معه لا يسأل واحد منهما صاحبه عن شىء، حتى إذا كان يوم الثالث، فعاد علي مثل ذلك، فأقام معه ثم قال ألا تحدثني ما الذي أقدمك قال إن أعطيتني عهدا وميثاقا لترشدنني فعلت ففعل فأخبره. قال فإنه حق وهو رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا أصبحت فاتبعني، فإني إن رأيت شيئا أخاف عليك قمت كأني أريق الماء، فإن مضيت فاتبعني حتى تدخل مدخلي. ففعل، فانطلق يقفوه حتى دخل على النبي صلى الله عليه وسلم ودخل معه، فسمع من قوله، وأسلم مكانه فقال له النبي صلى الله عليه وسلم " ارجع إلى قومك، فأخبرهم حتى يأتيك أمري ". قال والذي نفسي بيده لأصرخن بها بين ظهرانيهم، فخرج حتى أتى المسجد فنادى بأعلى صوته أشهد أن لا إله إلا الله، وأن محمدا رسول الله. ثم قام القوم فضربوه حتى أضجعوه، وأتى العباس فأكب عليه قال ويلكم ألستم تعلمون أنه من غفار وأن طريق تجاركم إلى الشأم فأنقذه منهم، ثم عاد من الغد لمثلها، فضربوه وثاروا إليه، فأكب العباس عليه.
مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، کہا ہم سے مثنیٰ نے، ان سے ابوجمرہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا مکہ جانے کے لئے سواری تیار کر اور اس شخص کے متعلق جو نبی ہونے کا مدعی ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبرآتی ہے۔ میرے لئے خبریں حاصل کر کے لا۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا اور پھر میرے پاس آنا۔ ان کے بھائی وہاں سے چلے اور مکہ حاضر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں خود سنیں پھر واپس ہو کر انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے، وہ اچھے اخلاق کا لوگوں کوحکم کرتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے۔ اس پر ابو ذررضی اللہ عنہ نے کہا جس مقصد کے لئے میں نے تمہیں بھیجا تھا مجھے اس پر پوری طرح تشفی نہیں ہوئی، آخر انہوں نے خودتوشہ باندھا، پانی سے بھر ا ہوا ایک پر انا مشکیزہ ساتھ لیا اور مکہ آئے، مسجدالحرام میں حاضری دی اور یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہیں تھے اور کسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پو چھنا بھی مناسب نہیں سمجھا، کچھ رات گزرگئی کہ وہ لیٹے ہوئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اس حالت میں دیکھا اور سمجھ گئے کہ کوئی مسافر ہے، علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آپ میرے گھر پر چل کر آرام کیجئے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے لیکن کسی نے ایک دوسرے کے بارے میں بات نہیں کی۔ جب صبح ہوئی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا مشکیزہ اور توشہ اٹھایا اور مسجدالحرام میں آ گئے۔ یہ دن بھی یونہی گزر گیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے۔ شام ہوئی تو سونے کی تیاری کرنے لگے۔ علی رضی اللہ عنہ پھر وہاں سے گزرے اور سمجھ گئے کہ ابھی اپنے ٹھکانے جانے کا وقت اس شخص پر نہیں آیا، وہ انہیں وہاں سے پھر اپنے ساتھ لے آئے اور آج بھی کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی، تیسرا دن جب ہوا اور علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ یہی کام کیا اور اپنے ساتھ لے گئے تو ان سے پوچھا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہاں آنے کا باعث کیا ہے؟ ابوذررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے پختہ وعدہ کر لو کہ میری راہ نمائی کرو گے تو میں تم کو سب کچھ بتا دوں گا۔ علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کر لیا تو انہوں نے اپنے خیالات کی خبر دی۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلاشبہ وہ حق پر ہیں اور اللہ کے سچے رسول ہیں اچھا صبح کو تم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا۔ اگر میں (راستے میں) کوئی ایسی بات دیکھوںگا جس سے مجھے تمہارے بارے میں خطرہ ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا۔ (کسی دیوار کے قریب) گویا مجھے پیشاب کرنا ہے، اس وقت تم میرا انتظار نہ کر نا اور جب میں پھر چلنے لگوں تو میرے پیچھے آ جانا تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں ساتھ ہیں اور اس طرح جس گھر میں، میں داخل ہوں تم بھی داخل ہو جانا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پیچھے پیچھے چلے تاآنکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے، آپ کی باتیں سنیں اور وہیں اسلام لے آئے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اب اپنی قوم غفار میں واپس جاؤ اور انہیں میرا حال بتاؤ تاآنکہ جب ہمارے غلبہ کا علم تم کو ہو جائے (تو پھر ہمارے پاس آ جانا) ابو ذررضی اللہ عنہ نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکا رکر کلمئہ توحید کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہا ں سے واپس وہ مسجدالحرام میں آئے اور بلند آواز سے کہا کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں“۔ یہ سنتے ہی سارا مجمع ان پر ٹوٹ پڑا اور انہیں اتنا مارا کہ زمین پر لٹا دیا اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے اوپر اپنے کو ڈال کر قریش سے کہا افسوس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے اور شام جانے والے تمہارے تاجروں کا راستہ ادھر ہی سے پڑتاہے اس طرح سے ان سے ان کو بچایا۔ پھر ابوذر رضی اللہ عنہ دوسرے دن مسجدالحرام میں آئے اور اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ قو م پھر بری طرح ان پر ٹوٹ پڑی اور مارنے لگی اس دن بھی عباس ان پر اوندھے پڑگئے
کتاب مناقب الانصآر صحیح بخاری