• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت معاویہ کی مذمت میں اس روایت کی تحقیق درکار ہے۔

شمولیت
اپریل 02، 2019
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
52
السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ۔
روافض آج کل اس روایت کو بڑے زوروشور سے پیش کر رہے ہیں۔
روایت:
وَحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْعَلافِ الْبَصْرِيُّ قَالَ، سَمِعْتُ سَلامًا أَبَا الْمُنْذِرِ يَقُولُ، قَالَ عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ حَدَّثَنِي زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: ”قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا رَأَيْتُمْ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ“۔
(أنساب الأشراف)
اہل علم سے گزارش ہے کہ صرف یہ بتادیں کہ اس کی سند صحیح ہے ضعیف؟ کیا اس روایت کی سند میں کوئی علت ہے؟
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ۔
روافض آج کل اس روایت کو بڑے زوروشور سے پیش کر رہے ہیں۔
روایت:
وَحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْعَلافِ الْبَصْرِيُّ قَالَ، سَمِعْتُ سَلامًا أَبَا الْمُنْذِرِ يَقُولُ، قَالَ عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ حَدَّثَنِي زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: ”قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا رَأَيْتُمْ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ“۔
(أنساب الأشراف)
اہل علم سے گزارش ہے کہ صرف یہ بتادیں کہ اس کی سند صحیح ہے ضعیف؟ کیا اس روایت کی سند میں کوئی علت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس روایت کے متعلق اپنی تحقیق گذشتہ ماہ اس فورم میں پیش کرچکا ہوں ،ملاحظہ فرمائیں ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ روایت بالکل جھوٹی ،خود ساختہ ہے ؛
اس روایت کی حقیقت سمجھنے کیلئے بنیادی طور پر یہ بات سامنے رکھی جائے کہ اگر نبی اکرم ﷺ سیدنا معاویہ کے قتل کا حکم دیتے توصحابہ کرام ہر صورت اس حکم کو بجا لاتے ،اور ان کو قتل کردیتے ۔
اور اگر بفرض محال اگر دوسرے صحابہ اس حکم نبی پر عمل نہ کرتے تو خود نبی مکرم ﷺ کے اکابر صحابہ کرام جیسے سیدنا ابو بکر ،سیدنا عمر ،سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہم اور پیغمبر اکرم کے چچا جناب عباس اور ان کے صاحبزادے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تو اس حکم پیغمبر کو اپنی جان کی بازی لگا کر بجالاتے ، عجیب بات ہے کہ پندرھویں صدی کے لوگوں کو تو سیدنا امیر معاویہ کے قتل کی اتنی فکر ہو اور خود اصحاب محمد ﷺ کو اس حکم کی بجا آوری پرواہ ہی نہ ہو ،بلکہ علم ہی نہ ہو؟
اور اس روایت کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ بات بھی زبردست دلیل ہے کہ نواسہ رسول ﷺ سیدنا حسن بن علی نے سیدنا امیر معاویہ کو قتل کرنے کی بجائے :خود خلافت اسلامیہ سے دستبردار ہوکر انہیں عالم اسلام کا خلیفہ تسلیم کرلیا ،
پھر اس روایت کو جھٹلانے کیلئے یہ بھی کافی ہے کہ نبی مکرم ﷺ ان کو قتل کاحکم تو دیں لیکن ان کا قتل منبر رسول ﷺ پر بیٹھنے سے مشروط کردیں ،
یہ کیا بات ہوئی کہ فلاں بندہ سزائے موت کا سزاوار تو ہے ،لیکن جب تک منبر پر نہ بیٹھے اسے قتل نہ کرنا ؟
انہی اسباب و حقائق کے پیش نظرحدیث و تاریخ کے اکابر علماءِکرام نے اس روایت کو جھوٹا کہا ہے ؛
امام أبو جعفر العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ)

قال عقيلي في الضعفاء الكبير (1/ 259) بعد أن ذكر عدة أحاديث منها هذا الحديث قال :« ولا تصح عن النبي عليه الصلاة والسلام في هذا المتون من وجه يثبت »
اس روایت کی مختلف سندیں بیان کرکے فرماتے ہیں :اس روایت کے یہ الفاظ کسی بھی اسناد سے نبی اکرم ﷺ سے ثابت نہیں ـ

امام ابن حبانؒ اپنی کتاب المجروحین میں اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں :
قال ابن حبان في المجروحين (1/171) ترجمة أحمد بن محمد بن بشر بن فضالة بعد أن ذكر له أحاديث هذا منها قال : « وهذه الأحاديث التي ذكرناها أكثرها مقلوبة ومعمولة ، عملت يداه
۔محمد بن بشر بن فضالہ کے ترجمہ میں اس کی بیان کردہ کئی روایات (جن میں یہ روایت بھی ہے ) نقل کرکے فرماتے ہیں :اس کی یہ تمام روایات جو ہم نے ذکر کی ہیں ان میں سے اکثر اس کی خود ساختہ اور گھڑی ہوئی ہیں ۔
مشہور مورخ اور محدث امام ابن عساكر (المتوفى: 571ھ) اس روایت کی مختلف اسانید نقل کرکے لکھتے ہیں :
وقال ابن عساكر في تاريخ دمشق (59/157) : « وهذه الأسانيد كلها فيها مقال »
یہ ساری اسانید ناکارہ اور خرابیوں سے بھرپور ہیں ،


اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :
وقال شيخ الإسلام ابن تيمية في « منهاج السنة النبوية » (2/259) : « وهذا الحديث ليس في شيء من كتب الإسلام وهو عند الحفاظ كذب وذكره ابن الجوزي في الموضوعات » یہ روایت اسلام کی معتبر کتب و مصادر حدیث میں نہیں پائی جاتی ،اور ائمہ حدیث کے نزدیک یہ روایت سراسر جھوٹ ہے ،اسی لئے علامہ ابن جوزیؒ نے اسے الموضوعات (یعنی جھوٹی روایتوں کے مجموعہ میں درج کیا ہے ۔ .
مشہور محدث امام ذہبیؒ (المتوفی ۷۴۸ھ)لکھتے ہیں :یہ روایت بالکل جھوٹی ہے ـ
وقال الحافظ الذهبي في سير أعلام النبلاء (3/150) : « هذا كذب » .


امام ابوالفدا اسماعیل بن کثیر الدمشقی(المتوفی 774 ھ) اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ :
وقال الحافظ ابن كثير في البداية والنهاية (8/91) : « وهذا الحديث كذب بلا شك ولو كان صحيحا لبادر الصحابة إلى فعل ذلك لأنهم لا تأخذهم في الله لومة لائم »
بلا شبہ یہ بالکل جھوٹی حدیث ہے ، اگر یہ صحیح ہوتی تو نبی مکرم ﷺ کے اصحاب گرامی اس پر بلا تامل عمل کرتے (یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ضرور قتل کردیتے ) کیونکہ اللہ کے دین کے معاملہ میں کسی کی ملامت کا ڈر ،خوف ان کو روک نہ سکتا تھا ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top