کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
حضرت مولانا معین ا لدین لکھوی
مولانا عبد الجبار سلفی
اکل حلال، صدقِ مقال، زہدو وَرع، علم و عمل، عبادت و رِیاضت، رُشد و ہدایت، ظاہری اور باطنی اعتبار سے حسین و جمیل اور خوبصورت و خوب سیرت ’گلستانِ لکھویہ‘ کا تعارف تحصیل حاصل ہے جن کا سلسلۂ نسب محمد بن حنفیہ کے توسط سے سیدنا علی سے جاملتا ہے۔اس خاندان کے برصغیر میں اوّلین بزرگ حافظ محمد امین تھے جو بابا ڈھنگ شاہ کے عرف سے مشہور و معروف بزرگ تھے۔ مغل اعظم جہانگیر بادشاہ غازی اُن کی خدمت میں بغرضِ رُشد و ہدایت حاضر ہوئے تھے اور غالباً ہزار بیگہ اراضی ہدیۃً پیش کر گئے تھے۔جب وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے تو اُن کی جگہ اُن کے مایہ ناز سپوت مولانا محی الدین عبد الرحمٰن لکھوی نے لے لی جو روحانیت میں اپنے اَسلاف سے بھی آگے نکل گئے اور سرزمین حجاز میں دعوت و تبلیغ اور درس و تدریس کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے مدینہ منورہ کے بقیع غرقد میں مدفون ہو گئے۔ اُن کے بعد ان کے خاندان کی قیادت ان کے لائق فرزند مولانا محمد علی لکھوی کے ہاتھ میں آئی تو اُنہوں نے اپنے بزرگوں کے مشن کو جاری رکھا اور مدرسہ محمدیہ کو مرکز الاسلام کا نام دے کر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا اور اسی دوران اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ آپ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے مکہ معظّمہ چلے گئے اوروہاں سے مسجدِ نبویؐ کی زیارت کرنے اور ہادی اُمم حضرت رسول مقبولِﷺ پر سلام پڑھنے کی غرض سے مدینہ منورہ گئے تو وہاں کے عرب شیخ کی صاحب زادی سے اُن کا نکاح ہو گیا اورآپ وہاں مسجدِ نبویؐ میں ہی درسِ حدیث دینے لگے اور ساتھ ہی ساتھ صحیح مسلم شریف کی کتابت کرنے لگے۔تقریباً ایک صدی تک محیط صحیح مسلم شریف کا وہ نسخہ جو نور محمد کتب خانہ کراچی سے طبع ہو تا رہا ہے، یہ انہی کی سعئ مشکورہ ہے۔رحمہم اللہ اجمعینجب اُن کی باری ختم ہوئی اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے تو ان کی جگہ اُن کے لائق فرزندانِ گرامی قدر حافظ احمد اور اُن کے بھائی نے لے لی اور وہ بھی اپنے صالح باپ کی طرح لوگوں کو توحید وسنّت، زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت اور توکل وانابت الیٰ اللہ کی تبلیغ کرنے لگے اور اپنے خاندان میں اس روحانی گلستان کی آبیاری کرنے کے لئے اپنی اولاد کی دینی بنیادوں پر تربیت کرنے لگے۔ جب اُن کی باری ختم ہوئی تو ان کی جگہ حافظ بارک اللہ لکھوی نے لے لی اور وہ اپنے دور کے بہت بڑے عالم با عمل اور فقیہ و زاہد ثابت ہوئے۔ جب وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تو ان کی جگہ ان کے لائق فرزند حافظ محمد لکھوی نے لے لی اور اُنہوں نے عربی اور فارسی نظم و نثر میں یکساں قدرت رکھنے کے باوجود پنجابی شاعری میں دین اسلام کی دعوت و تبلیغ شروع کر دی اور’تفسیر محمدی‘، ’احوالِ آخرت‘ اور ’محامدِ اسلام‘ اور’ زینت الاسلام‘ جیسی گراں قدر کتب لکھ کر پنجاب کے گھر گھر کو نورِ ہدایت سے منوّر کر دیا، حالانکہ اس سے قبل آپ سنن ابو داؤد اور مشکوٰۃ شریف کے عربی حواشی لکھ چکے تھے۔
اسی دوران ہندوستان تقسیم ہو گیا تو ان کی جگہ ان کے لائق فرزندانِ گرامی قدر حضرت مولانا محی الدین لکھوی اور مولانامعین الدین لکھوی نے لے لی اور اُن کی خدمات نے دعوتِ دین کے سلسلے کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ بڑے برادرِ گرامی قدر نے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کو شعار بنا لیا اور دنیاوی جاہ و حشمت اور طمطراق کوٹھوکر مار کر پنجاب کے قریہ قریہ اور کُو بکو، گوشہ گوشہ میں دعوتِ دین کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور چھوٹے برادر نے درس و تدریس کی سرپرستی کے ساتھ ’سیاست برائے دین‘ میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا اور اس میدان میں محض اپنی شرافت و صداقت، امانت و دیانت کی بدولت بڑے بڑے سیاست دانوں کو میدانِ سیاست میں چاروں شانے چت کر دیا اور دنیا کو درس دے دیا کہ سیاست محض کذب و دروغ اور دھوکہ فریب سے ہی نہیں بلکہ امانت اور صداقت وشرافت سے بھی ہو سکتی ہے لیکن علم و عمل اور ایمان و حکمت کا سورج (یعنی مولانا محی الدین لکھوی) تو ۱۹۹8ء میں غروب ہو گیا اور فہم و فراست، ذہانت و فطانت، علم و عمل اور حکمت و دانش کا چاند(مولانا معین الدین لکھوی) ۹؍دسمبر۲۰۱۱ء کو زیر زمین چھپ گیا :
مولانا معین الدین لکھوی جیسے علما کی مثال اس دنیا میں اُن ستاروں کی سی تھی جن کے ذریعے ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْر سے نکلنے کے لئے راستے نظر آتے ہیں اور اس طرح کے ستارے نظروں سے اوجھل ہوجائیں تو نجات کے راستوں کا ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لئے تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:شنیدم کہ در روز گار کُہن
شدہ عنصری شاہ صاحب سُخن
چو اورنگ از عنصری شد تہی
بفردوسی آمد کلامہی
چوفردوسی از دور فانی گذشت
نظامی بملک سخن شاہ گشت
نظامی چوجام اجل در کشید
بسرچتر اشعار سعدی رسید
چواورنگ سعدی فروشد زکار
سخن برفرق خسر و نثار
وزاں پس چونوبت بجامی رسید
جہاں سخن راتمامی رسید
آنحضرت ﷺ نے مزید فرمایا:«فَضْلُ الْعَالِمَ عَلىٰ الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ عَلٰى سَائر الْکَوَاکِب» (سنن ابن ماجہ: 219)
’’ عالم باعمل کی فضیلت عابد کے مقابلے میں ایسی ہے جیسی بدرِ تمام کو سارے ستاروں پر ہے۔ ‘‘
کیونکہ ایک عالم ربّانی کے دنیا سے اُٹھ جانے سے علم و حکمت، دانش و فرزانگی، حق گوئی وبے باکی اور ہم دردی و غم گساری کے پہاڑ زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ ایک عربی شاعر نے مذکورہ بالا حقائق کو درج ذیل اشعار میں بیان کیا ہے:«لَئِنْ تَمُوْتُ قَبِیْلَةٌ بأسْرها اَیْسَرُ عَلٰى اللهِ مِنْ مَوْتِ عَالِمٍ» (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ۱؍۲۰۱، ۲۰۲)
’’اگر کوئی قبیلہ اپنے تمام افراد سمیت مر جائے تو اللہ کے ہاں اس کا مرجا نا ایک عالم کے مرجانے سے زیادہ آسان ہے۔‘‘
اس بات میں ذرّہ برابر مبالغہ نہیں کہ مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم اور مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کے بعد دیگر جماعتوں کو بالعموم ...اور جماعت اہل حدیث کو بالخصوص مولانا سید داؤد غزنوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی کے بعد مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ جیسا دانش مند اور معاملہ فہم اور دور اندیش قائد اور سیاست دان میسر نہیں آیا۔لَعَمْرُكَ مَا الرزِّیَّةُ فَقْدُ مَالٍ’’تیری عمر کی قسم مال و زر کا ہاتھ سے جاتے رہنا قابل افسوس مصیبت نہیں ہے اور نہ ہی کسی بکری یا اونٹ کا مر جانا مصیبت سمجھا جاتا ہے۔ اصلی اور حقیقی مصیبت تو کسی عالم کا ہاتھ سے جاتے رہنا ہے کیونکہ اس کی موت سے بہت سی مخلوق مر جاتی ہے۔‘‘
وَلَا شَاةٌ تَمُوْتُ وَلَا بَعِیْرُ
وَلٰکِنْ الرّزِیَّةُ فَقْدُ حِبْرٍ
یَمُوْتُ بِمَوْتهِ خَلْقٌ کَثِیْرٌ
حضرت مولانا عبد القادر حصاروی ایسے علما وفضلا کی وفات پر کہا کرتے تھے:
گُل گئے گُلاب گئے باقی خالی دھتورے رہ گئے
عقلاں والے چلے گئے باقی بے شعورے رہ گئے
حضرت مولانا معین الدین لکھوی، سید نذیر حسین دہلوی شیخ الکل فی الکل کے مشہود لہ بالخیر گھرانے کے فردِ فرید ہونے کے باوجود جب مولانا احمد علی لاہوری کے ہاں دورۂ تفسیر قرآن کے لئے گئے تو اُنہوں نے اُن سے پوچھا: بیٹا پہلے بھی کہیں دورہ تفسیر کیا ہے تو آپ نے حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا نام لیا کہ میں اُن سے بھی اس سلسلے میں فیض یاب ہو چکا ہوں تو حضرت لاہوری نے فرمایا: عقلاں والے چلے گئے باقی بے شعورے رہ گئے
حضرت مولانا معین الدین لکھوی پیدائشی طور پر ہی شاہانہ مزاج رکھتے تھے۔ صاف ستھرا رہنا، پاکیزہ اور صاف ستھرا کھانا،عمدہ لباس پہننا اور باوقار چلنا، باوقار انداز سے بولنا اور دھیمی آواز سے گفتگو کرنا ان کا شعار تھا۔ قرآنِ حکیم کی تفسیر پر عبور حاصل تھا۔ جب وہ درسِ قرآن دیتے تو علم و حکمت کے دریا بہا دیتے اور اس کے بعد وہ درسِ قرآن میں شریک طلبہ جامعہ محمدیہ سے صرفی اور نحوی سوالات کرتے اور اُن کا حل بتاتے۔بیٹا!ان جیسے متبحر عالم کے بعد مجھ جیسے گنہگار کے پاس پڑھنے کی آپ کو کیا ضرورت تھی؟ خیر جب وہاں دورۂ تفسیر مکمل ہوا اور امتحان میں دو طلبا برابر برابر نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب ان دونوں میں سے اوّل کا انتخاب کرنے کے لئے امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی کو منصف مقرر کیا گیا تو آپ نے پیپر دیکھ حضرت مولانا معین الدین لکھوی کو اوّل قرار دیا۔ بعدازاں جب امام انقلاب کا اُن سے تعارف کروایا گیا تو اُنہوں نے فرمایا: اس بچے کو اوّل نمبر پر آنا ہی چاہئے تھا کیونکہ میں خود اس کے خاندان کا ممنون ہوں اور اس کے پردادا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی کی کتاب پڑھ کر ہی میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی تھی اور میں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
راقم الحروف کو ان سے باقاعدہ استفادہ کرنے کا موقعہ ۱۹۷۶ء میں میسّر ہوا، جب ہمارے اُستاذ مولانا محمد یوسف آف راجو وال نے مجھے اپنے بیٹے سمیت وہاں داخل کروایا۔ حضرت مولانا بالخصوص فجر کی نماز خود پڑھایا کرتے تھے اور عموماً سورہ ’قٓ‘ تلاوت کرتے تھے۔ مجھے ان کا اندازِ تلاوت اس قدر پسند آیا کہ میں نے بھی اسی دور میں اُن کی آواز اور ان کے لہجے میں سورہ قٓ زبانی یاد کر لی۔
اللہ نے ان کا مذہبی اور سیاسی قد کاٹھ اتنا شاندار بنایا کہ عموماً افسرانِ بالا اُن کی سفارش ردّ نہیں کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے کسی سائل کو کسی پوسٹ پر ملازمت کے لئے سفارشی خط دیا۔ اتفاقاً اسی پوسٹ کے لئے دیگر اُمیدواران بھی مختلف ایم پی اے اور ایم این اے حضرات کے لیٹر لیکر آئے ہوئے تھے لیکن اس محکمے کے افسر اعلیٰ نے تمام ممبرانِ اسمبلی کی سفارشوں کو بالاے طاق رکھ کر حضرت مولانا کی سفارش لے کر آنے والے کو مشتہر کردہ پوسٹ پر تعینات کر دیا اور کہا کہ حضرت مولانا جیسے لوگ ہمیشہ کے لئے قابل عزت ہیں، خواہ وہ الیکشن میں جیت جائیں یا ہار جائیں۔ ان کو اللہ کے دین کی وجہ سے جو عزت حاصل ہے وہ جیتنے یا ہارنے سے بڑھتی اور گھٹتی نہیں ہے۔ دوسروں کا کیا ہے آج جیتے تو ہیرو، اگلے الیکشن میں ہارے تو زیرو!!حضرت مولانا لکھوی رحمہ اللہ کا معمول یہ تھا کہ آپ روزانہ درسِ قرآن دیتے اور پھر سیر کو نکل جاتے اور چار پانچ میل پیدل سیر کے بعد نہا دھو کر اور ناشتہ کر کے دفتر میں تشریف لاتے اور حاضرین اور ملاقاتیوں کی درخواستیں پڑھ سن کر مناسب ہدایات دیتے اور حکامِ بالا کو فون کرتے اور فونوں کا بل اپنی جیب سے ادا کرتے۔ اتوار کا دن عموماً دم درود اور تعویذات والوں کے لئے مختص ہوتا تھا۔ اس روز کبھی کبھی نماز باجماعت میں تساہل ہو جاتا اور جب آپ اُن سے فارغ ہو کر نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو نہایت خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے۔ آپ ہر طرح کی جلد بازیوں کو بالائے طاق بلکہ بھلا کر اپنے بزرگوں کی نماز کا نقشہ پیش کر دیتے۔ آپ کا ظہر کی نماز باجماعت میں تساہل ۱۹۸۶ء تک رہا لیکن اس سال ان کی اہلیہ محترمہ کے انتقال کے بعد وہ تساہل ختم ہو گیا اور آپ اذان سنتے ہی ہر طرح کی مجلسوں اور میٹنگوں سےاُٹھ کر وضو کر کے پہلی صف میں کھڑے ہو جاتے اور نماز کے بعد بڑی دیر تک ذکر اذکار اور طویل دعا کے بعد سنن رواتب ادا کر کے دفتر تشریف لاتے اور اپنے سیاسی اور مذہبی معاملات پر مشاورت کرتے۔