رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
فقہ واجتہاد
مولانا امین اللہ پشاوری
حقوق النبی اور شاتم رسول کی توبہ کا حکم
اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو دنیا وآخرت کی تمام خیرات وبرکات، بھلائیوں اور خوشیوں کے حصول کا سبب بنایا ہے۔ اور یہ بھلائی اور خوشنودی انسان کو نبی ﷺ کے توسط کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ۔ ان بھلائیوں وبرکات میں سرفہرست یہ کہ
1۔آپ ہدایت یافتہ رحمت ہیں ۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ’’آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ إنما أنا رحمة مهداة‘‘[1]
’’ بیشک میں ہدایت یافتہ رحمت ہوں ۔ ‘‘
2۔آپ ﷺباعثِ ہدایت ہیں ۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَ اِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا ’’ اگر ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤگے ۔‘‘
3۔ آپ ﷺ عزت اور کرامت کا باعث ہیں، فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ(المنافقون:8)
’’عزت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور ایمان داروں کے لیے ہے لیکن یہ منافق جانتے نہیں ۔‘‘
4۔ آپ ﷺ وہ واحد سبب ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور مغفرت حاصل ہوتی ہے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (آلِ عمران:31 )
’’(اے پیغمبرلوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کردیگا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
عصر حاضر میں اُٹھنے والے فتنوں میں سب سے بڑا اور عظیم فتنہ جو ہمیں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، یہ کہ شعائر اللہ اور رسول اللہ کی شان کو لوگوں کی نظر وں سے کم کرنے کی کوشش کی جائے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مسلم حلقوں اور اسلام کی دعویدار حکومتوں کی سرزمین میں اللہ کو، اس کے رسول ﷺ کو اور اس کےدین اور کتاب کو گالی دی جارہی ہے ۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کی حرکتوں کی روک تھا م کے لئے جو ایمانی ، اخلاقی ، اور سلطانی قوت ہونی چاہئے، بظاہر اس کا فقدان نظر آتاہے ۔
یہودیوں وعیسائیوں اور دیگر دشمنانانِ اسلام کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اسلام پر طاقت وقوت سے کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر اس میں ناکام ہوجائیں تو پھر ان کی صفوں میں منافقین اور اپنے ایجنٹوں کو داخل کرتے ہیں تاکہ وہ اسلام کی شکل وصورت کو مسخ کرکے رکھ دیں ۔ اور جناب محمد ﷺ کی ذات اور شخصیت سے متعلق بدگمانی کی فضا کو ہموار کریں ۔ ان کے ان مکروہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کےلئے استعمال کیا جانے والا ہتھکنڈا یہ ہے کہ علما اور عوام کے مابین خلیج پیدا کی جائے ۔ ان حالات میں تمام مسلمانوں کا فرض بنتاہے کہ وہ تلوار، قلم اور زبان سے اسلام کا بقدرِ استطاعت دفاع کریں اور کم ازکم دل سے اس دفاع کو لازم بنائیں ۔
نبی کریمﷺ کے حقوق
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے ہم پر کچھ حقوق رکھے ہیں جن کا اَدا کرنا ہر مسلم کا فرض ہے ۔ ان حقوق میں چند مندرجہ ذیل ہیں :
a آپ ﷺ پر ایمان لانا فرض ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
وَ مَنْ لَّمْ يُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ سَعِيْرًا (الفتح:13)
’’اور جو شخص خدا پر اور اس کے پیغمبر پر ایمان نہ لائے تو ہم نے (ایسے) کافروں کے لئے
آگ تیار کر رکھی ہے۔ ‘‘
2 آپ ﷺ کی اطاعت واتباع کرنا فرض قرار دیا گیاہے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ (النور:56)
’’اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ‘‘
قرآنِ مجید میں تقریباً40کے قریب آیات ہیں جن میں آپ ﷺ کی اطاعت کو لازم ٹھہرایا گیاہے ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے میری اطاعت کی گویا اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔‘‘ (صحیح بخاری :2957)
3 آپ ﷺ سے سب سے بڑھ کرمحبت کو فرض قرار دیا گیا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِيْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ا۟قْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ (التوبہ:۲۴)
’’ کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ ‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے بیٹے ، اس کے والد اور جہان کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔ [2]
4 نماز اور نماز کے علاوہ آپ ﷺ پرکثرت سے درود وسلام پڑھنا: فرمان باری ہے :
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ١يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا
’’اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم ( بھی ) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام ( بھی ) بھیجتے رہا کرو۔‘‘ (الاحزاب:56)
5 آپ ﷺ کی تعظیم توقیر اور نیکی کرنا : فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ١ وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا
(الفتح: 8، 9)
’’اور ہم نے (اے محمد) ﷺتم کو حق ظاہر کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا اور خوف دلانے والا (بنا کر) بھیجا ہے۔ تاکہ (مسلمانو!) تم لوگ خدا پر اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اسکو بزرگ سمجھو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو ۔ ‘‘
نیز فرمایا:
يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ
وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۰۰۱ (الحجرات: ا)
’’مؤمنو ! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اسکے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک خدا سنتا جانتا ہے ۔ ‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا١ (النور:63)
’’مؤمنو! پیغمبر کے بلانے کو ایسا خیال نہ کرنا جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو‘‘
آپ ﷺ کی تعظیم وتوقیر میں آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اور آپ کے اصحاب کا احترام وتوقیر بھی شامل ہے ۔ اور آپ ﷺ کی تعظیم توقیر اور نصر ت میں آپ ﷺ کاحیات ِطیبہ میں اور وفات کے بعد آپ کی عزت ،مقام ومرتبہ اورشان کا دفاع کرنا اور آپ کے لئے جان ، مال ، اور اہل وعیال قربان کرنا،اور شاتمین رسول ﷺاور توہین کرنے والوں پر حدود قائم کرنا اور قدر الامکان اِن سے قتل وقتال کرنا بھی شامل ہے ۔
زیر بحث مسائل :
(1)پہلا مسئلہ : مسلمان سے اگر نبی ﷺ کی شان میں توہین یا سب وشتم کا صدور ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب: مسلمان سے اگر نبی ﷺ کی شان میں توہین یا سب وشتم کا صدور ہو تو ایسا شخص کافر اور مرتد ہے اور اس کا حکم قتل ہے، اس مسئلہ پر اُمت کا اجماع ہے ۔ قاضی عیاض ’الشفا‘ میں اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ’الصارم المسلول‘ میں لکھتے ہیں کہ
أجمعت الأمة علی قتل منتقصه من المسلمین وسابه
’’آپ ﷺ کی توہین اور آپ پر سبّ کرنیوالے مسلمان کے قتل پر اُمت کا اِجماع ہے‘‘
اور محمد بن سحنون فرماتے ہیں :
أجمع العلماء علی أن شاتم النبي ﷺ والمنتقص له کافر والوعید جاء علیه بعذاب اللہ له وحکمہ عند الأمة القتل ومن شكّ فی کفرہ وعذابه کفر
’’اُمت کا اِجماع ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو گالی دینے والا اور آپ کی توہین کرنے والا کافر ہے اور ایسے شخص سے متعلق قرآنِ کریم میں سخت عذاب کی وعید آئی ہے ۔ اور اُمت مسلمہ کے نزدیک ایسے شخص کا حکم قتل ہے اور جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرتا ہے، وہ بھی کافر ہوجاتاہے ۔ ‘‘
(2)دوسرا مسئلہ : ذمی اور معاہد سے اگر نبی ﷺ کی شان میں توہین یا سب وشتم کا صدور ہو اور اُنہوں نے اس کا اظہار بھی کیا ہو اور گواہ قائم ہوگئے ہوں ، تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب: ذمی اور معاہد سے اگر نبی ﷺ کی شان میں توہین یا سب وشتم کا صدور ہو تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس کا حکم بھی قتل ہے اور ایسا شخص آپ ﷺ کو گالی دینے اور آپ کی توہین کرنے کے سبب قتل کردیا جائے گا۔ اہل مدینہ اور فقہاے حدیث: امام احمد شافعی، اور اسحق رحمہم اللہ وغیرہ کا یہی قول ہے ۔ اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مخالفت کی ہے اور کہا کہ قتل نہیں ہوگا ، تاہم اُصولِ حنفیہ کی روشنی میں ایسے شخص کو ازروئے سیاسہ شرعیہ قتل کردیا جائے گا۔
(3)تیسرا مسئلہ: کیا ان کی توبہ قبول کی جائے گی ؟
جواب: اس میں تفصیل ہے کہ توہین کرنے اور گالی دینے والے کی توبہ کے دو پہلو ہیں :
اوّل:آخرت کا پہلو دوم :دنیا کا پہلو
اَحکامِ آخرت میں اگر اس شخص کی توبہ نصوحہ اور صادقہ ہوئی تو وہ مقبول ومنظور ہوگی ان شاء اللہ ،کیونکہ قرآن وسنت کے عمومی دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ کفار منافقین اور ملحدین کی توبہ اُخروی احکام میں قبول ومنظور ہوتی ہے ۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے :
اَنَّ اللّٰهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ
’’اور اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت اور شفقت بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ توبہ صادقہ والے کی توبہ مقبول ومنظور کی جائے ۔ ‘‘
جبکہ دنیاوی پہلو کے لحاظ سے احکامِ دنیا میں اس کی توبہ سے متعلق اہل علم کی مختلف آرا میں سے صحیح ترین رائے یہی ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور بطورِ حد ایسا شخص قتل کردیا جائے گا ۔ جیسا کہ شادی شدہ زانی کو رجم کیا جاتاہے اوراسی طرح قذف کے مرتکب کی توبہ اس سے حد ِقذف ساقط نہیں کرتی، اسی طرح توہین رسالت کے مرتکب فرد اور آپ ﷺ کو گالی دینے والے کو بھی بطو رِحد قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔
آپ ﷺ کو اپنی زندگی میں یہ حق حاصل تھا کہ وہ چاہتے تو معاف کر دیتے تھے یا قتل کردیتے تھے ۔اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد چونکہ گالی دینے والے سے چند دیگر حقوق متعلق ہوجاتے ہیں جن میں سے:
١ اللہ تعالیٰ کا حق، کیونکہ اس نے اللہ کے رسول کو گالی دی ہے ۔
٢ رسول اللہ ﷺ کا حق،اب ایسا کوئی نہیں جو آپ ﷺ کی اس حق میں نیابت کرے اور اُسے معاف کرے ۔
٣ تمام اُمت ِاسلامیہ کا حق، کیونکہ کسی مؤمن کے والدین کو اگر گالی دے دی جائے تو اسے اتنی عار اور شرمندگی محسوس نہیں ہوگی جتنا کہ نبی اکرم ﷺ کو گالی دینے سے وہ محسوس کرتاہے ۔اس لئے کہ مؤمن اپنے والدین اوراہل وعیال کو گالی دینے کے مقابلے میں اگر نبی ﷺ کو گالی دی جائے تو زیادہ غم وغصہ کا اظہار کرتاہے ۔ آپ ﷺ کامقام ومرتبہ کسی بھی مسلمان سے ڈھکا چھپا نہیں ۔
(4)چوتھا مسئلہ : کیا اس توبہ سے ان سے حد ساقط ہوگی ؟
گستاخِ رسول کی توبہ اس سے سزا کو ساقط نہیں کرے گی او راسے ہر حال میں سزا مل کر رہے گی، اس سلسلے میں قرآن وسنت میں بہت سے دلائل ہیں جنہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ
رحمہ اللہ نے الصارم المسلول اور اپنے الفتاوٰی میں بھی ذکر کیا ہے، چند ایک کو یہاں بیان کیا جاتا ہے :
1 فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا(الاحزاب:57)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے نہایت رسوا کن عذاب ہے ۔ ‘‘
2 ایسا شخص محاربین کے حکم میں داخل ہےچنانچہ سورہ مائدہ کی آیت ۳۳کی روشنی میں ایسے افراد دنیاوی اُمور میں ناقابل معافی ہیں ۔
3 آپ ﷺ کی جس نے بھی توہین کی، اسے بغیر توبہ کرائے آپ نے قتل کا حکم دیا۔
4 عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے شخص کو قتل کیا جو آپ ﷺ کے فیصلے پر راضی نہیں تھا ۔
5 عبد اللہ بن ابی سرح کے قتل سے متعلق ذکر کردہ حدیث : سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ جب فتح مکہ کا دن تھا کہ رسول اللہ نے سب لوگوں کو امن دیا سواے چار مردوں اور دو عورتوں کے اور ان کا نام لیا،تو ابن ابی سرح حضرت عثمان بن عفان کے پاس چھپ گئے۔ جب رسول اللہ نے لوگوں کو بیعت کے لئے بلایا تو حضرت عثمان نے ابن ابی سرح کو آپ کے سامنے لا کھڑا کیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! عبد اللہ سے بیعت کریں،آپ نے اپنا سر اُٹھاکر اس کی طرف دیکھا اور بیعت نہ کی،تین بار ایسا ہی کیا ۔تین بار کے بعد بیعت کرلی پھر اپنے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ کیا تم میں کوئی بھی عقلمند نہیں ہے جو اُٹھتا اوراس کو مار دیتاکہ جب اس نے مجھے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ اس کی بیعت سے کھینچ لیا اور بیعت نہ کی۔صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول !ہمیں آپ کے دل کا حال معلوم نہیں تھا،اگر آپ آنکھ سے اشارہ کر دیتے (تو ہم مار دیتے)۔ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ رسول کے لئے لائق نہیں کہ وہ چورآنکھوں
سے اشارہ کرے۔[3]
6 آپ ﷺ نےاپنی کی شان میں ہجوگوئی کرنے والی عورتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اُنہیں امان سے مستثنیٰ رکھا، حالانکہ آپ نے فتح مکہ پر تمام اہل مکہ کو عام امان دی تھی مگر گستاخی کے مرتکبین کوامان نہیں دی گئی اور حکم دیا کہ اگر یہ لوگ غلافِ کعبہ سے بھی چمٹے ہوئے مل جائیں تو اُنہیں قتل کردیا جائے ۔
7 توہین رسالت کے مرتکب کے قتل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسا شخص اس مکروہ فعل سے دین ودنیا، عباد و بلاد میں فساد کے رواج کا باعث بنتاہے ۔ لہٰذا اس کے قتل میں دو مصلحتیں ہیں :
پہلی مصلحت:اس سزا سے آئندہ کوئی اور اس طرح کے کام کی جرأت نہیں کرے گا۔
دوسری مصلحت:گالی دینے والے کے لئے بھی یہاں مصلحت ہے کہ اگر اس نے توبہ نصوحہ وصادقہ کر لی تو یہ حد اس کے لئے کفارہ کا باعث بنے گی جیسا کہ ماعز بن مالک اور غامدیہ پر حد قائم ہوئی جو اُن کے لئے کفارہ بن گئی ۔
1۔آپ ہدایت یافتہ رحمت ہیں ۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ’’آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ إنما أنا رحمة مهداة‘‘[1]
’’ بیشک میں ہدایت یافتہ رحمت ہوں ۔ ‘‘
2۔آپ ﷺباعثِ ہدایت ہیں ۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَ اِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا ’’ اگر ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤگے ۔‘‘
3۔ آپ ﷺ عزت اور کرامت کا باعث ہیں، فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ(المنافقون:8)
’’عزت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور ایمان داروں کے لیے ہے لیکن یہ منافق جانتے نہیں ۔‘‘
4۔ آپ ﷺ وہ واحد سبب ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور مغفرت حاصل ہوتی ہے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (آلِ عمران:31 )
’’(اے پیغمبرلوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کردیگا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
عصر حاضر میں اُٹھنے والے فتنوں میں سب سے بڑا اور عظیم فتنہ جو ہمیں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، یہ کہ شعائر اللہ اور رسول اللہ کی شان کو لوگوں کی نظر وں سے کم کرنے کی کوشش کی جائے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مسلم حلقوں اور اسلام کی دعویدار حکومتوں کی سرزمین میں اللہ کو، اس کے رسول ﷺ کو اور اس کےدین اور کتاب کو گالی دی جارہی ہے ۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کی حرکتوں کی روک تھا م کے لئے جو ایمانی ، اخلاقی ، اور سلطانی قوت ہونی چاہئے، بظاہر اس کا فقدان نظر آتاہے ۔
یہودیوں وعیسائیوں اور دیگر دشمنانانِ اسلام کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اسلام پر طاقت وقوت سے کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر اس میں ناکام ہوجائیں تو پھر ان کی صفوں میں منافقین اور اپنے ایجنٹوں کو داخل کرتے ہیں تاکہ وہ اسلام کی شکل وصورت کو مسخ کرکے رکھ دیں ۔ اور جناب محمد ﷺ کی ذات اور شخصیت سے متعلق بدگمانی کی فضا کو ہموار کریں ۔ ان کے ان مکروہ عزائم کو عملی جامہ پہنانے کےلئے استعمال کیا جانے والا ہتھکنڈا یہ ہے کہ علما اور عوام کے مابین خلیج پیدا کی جائے ۔ ان حالات میں تمام مسلمانوں کا فرض بنتاہے کہ وہ تلوار، قلم اور زبان سے اسلام کا بقدرِ استطاعت دفاع کریں اور کم ازکم دل سے اس دفاع کو لازم بنائیں ۔
نبی کریمﷺ کے حقوق
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے ہم پر کچھ حقوق رکھے ہیں جن کا اَدا کرنا ہر مسلم کا فرض ہے ۔ ان حقوق میں چند مندرجہ ذیل ہیں :
a آپ ﷺ پر ایمان لانا فرض ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
وَ مَنْ لَّمْ يُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ سَعِيْرًا (الفتح:13)
’’اور جو شخص خدا پر اور اس کے پیغمبر پر ایمان نہ لائے تو ہم نے (ایسے) کافروں کے لئے
آگ تیار کر رکھی ہے۔ ‘‘
2 آپ ﷺ کی اطاعت واتباع کرنا فرض قرار دیا گیاہے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ (النور:56)
’’اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ ‘‘
قرآنِ مجید میں تقریباً40کے قریب آیات ہیں جن میں آپ ﷺ کی اطاعت کو لازم ٹھہرایا گیاہے ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے میری اطاعت کی گویا اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔‘‘ (صحیح بخاری :2957)
3 آپ ﷺ سے سب سے بڑھ کرمحبت کو فرض قرار دیا گیا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِيْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ا۟قْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ (التوبہ:۲۴)
’’ کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ ‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے بیٹے ، اس کے والد اور جہان کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔ [2]
4 نماز اور نماز کے علاوہ آپ ﷺ پرکثرت سے درود وسلام پڑھنا: فرمان باری ہے :
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ١يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا
’’اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم ( بھی ) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام ( بھی ) بھیجتے رہا کرو۔‘‘ (الاحزاب:56)
5 آپ ﷺ کی تعظیم توقیر اور نیکی کرنا : فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ١ وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا
(الفتح: 8، 9)
’’اور ہم نے (اے محمد) ﷺتم کو حق ظاہر کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا اور خوف دلانے والا (بنا کر) بھیجا ہے۔ تاکہ (مسلمانو!) تم لوگ خدا پر اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اسکو بزرگ سمجھو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو ۔ ‘‘
نیز فرمایا:
يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ
وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۰۰۱ (الحجرات: ا)
’’مؤمنو ! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اسکے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک خدا سنتا جانتا ہے ۔ ‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا١ (النور:63)
’’مؤمنو! پیغمبر کے بلانے کو ایسا خیال نہ کرنا جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو‘‘
آپ ﷺ کی تعظیم وتوقیر میں آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اور آپ کے اصحاب کا احترام وتوقیر بھی شامل ہے ۔ اور آپ ﷺ کی تعظیم توقیر اور نصر ت میں آپ ﷺ کاحیات ِطیبہ میں اور وفات کے بعد آپ کی عزت ،مقام ومرتبہ اورشان کا دفاع کرنا اور آپ کے لئے جان ، مال ، اور اہل وعیال قربان کرنا،اور شاتمین رسول ﷺاور توہین کرنے والوں پر حدود قائم کرنا اور قدر الامکان اِن سے قتل وقتال کرنا بھی شامل ہے ۔
زیر بحث مسائل :
(1)پہلا مسئلہ : مسلمان سے اگر نبی ﷺ کی شان میں توہین یا سب وشتم کا صدور ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب: مسلمان سے اگر نبی ﷺ کی شان میں توہین یا سب وشتم کا صدور ہو تو ایسا شخص کافر اور مرتد ہے اور اس کا حکم قتل ہے، اس مسئلہ پر اُمت کا اجماع ہے ۔ قاضی عیاض ’الشفا‘ میں اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ’الصارم المسلول‘ میں لکھتے ہیں کہ
أجمعت الأمة علی قتل منتقصه من المسلمین وسابه
’’آپ ﷺ کی توہین اور آپ پر سبّ کرنیوالے مسلمان کے قتل پر اُمت کا اِجماع ہے‘‘
اور محمد بن سحنون فرماتے ہیں :
أجمع العلماء علی أن شاتم النبي ﷺ والمنتقص له کافر والوعید جاء علیه بعذاب اللہ له وحکمہ عند الأمة القتل ومن شكّ فی کفرہ وعذابه کفر
’’اُمت کا اِجماع ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو گالی دینے والا اور آپ کی توہین کرنے والا کافر ہے اور ایسے شخص سے متعلق قرآنِ کریم میں سخت عذاب کی وعید آئی ہے ۔ اور اُمت مسلمہ کے نزدیک ایسے شخص کا حکم قتل ہے اور جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرتا ہے، وہ بھی کافر ہوجاتاہے ۔ ‘‘
(2)دوسرا مسئلہ : ذمی اور معاہد سے اگر نبی ﷺ کی شان میں توہین یا سب وشتم کا صدور ہو اور اُنہوں نے اس کا اظہار بھی کیا ہو اور گواہ قائم ہوگئے ہوں ، تو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب: ذمی اور معاہد سے اگر نبی ﷺ کی شان میں توہین یا سب وشتم کا صدور ہو تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس کا حکم بھی قتل ہے اور ایسا شخص آپ ﷺ کو گالی دینے اور آپ کی توہین کرنے کے سبب قتل کردیا جائے گا۔ اہل مدینہ اور فقہاے حدیث: امام احمد شافعی، اور اسحق رحمہم اللہ وغیرہ کا یہی قول ہے ۔ اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مخالفت کی ہے اور کہا کہ قتل نہیں ہوگا ، تاہم اُصولِ حنفیہ کی روشنی میں ایسے شخص کو ازروئے سیاسہ شرعیہ قتل کردیا جائے گا۔
(3)تیسرا مسئلہ: کیا ان کی توبہ قبول کی جائے گی ؟
جواب: اس میں تفصیل ہے کہ توہین کرنے اور گالی دینے والے کی توبہ کے دو پہلو ہیں :
اوّل:آخرت کا پہلو دوم :دنیا کا پہلو
اَحکامِ آخرت میں اگر اس شخص کی توبہ نصوحہ اور صادقہ ہوئی تو وہ مقبول ومنظور ہوگی ان شاء اللہ ،کیونکہ قرآن وسنت کے عمومی دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ کفار منافقین اور ملحدین کی توبہ اُخروی احکام میں قبول ومنظور ہوتی ہے ۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے :
اَنَّ اللّٰهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ
’’اور اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت اور شفقت بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ توبہ صادقہ والے کی توبہ مقبول ومنظور کی جائے ۔ ‘‘
جبکہ دنیاوی پہلو کے لحاظ سے احکامِ دنیا میں اس کی توبہ سے متعلق اہل علم کی مختلف آرا میں سے صحیح ترین رائے یہی ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور بطورِ حد ایسا شخص قتل کردیا جائے گا ۔ جیسا کہ شادی شدہ زانی کو رجم کیا جاتاہے اوراسی طرح قذف کے مرتکب کی توبہ اس سے حد ِقذف ساقط نہیں کرتی، اسی طرح توہین رسالت کے مرتکب فرد اور آپ ﷺ کو گالی دینے والے کو بھی بطو رِحد قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔
آپ ﷺ کو اپنی زندگی میں یہ حق حاصل تھا کہ وہ چاہتے تو معاف کر دیتے تھے یا قتل کردیتے تھے ۔اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد چونکہ گالی دینے والے سے چند دیگر حقوق متعلق ہوجاتے ہیں جن میں سے:
١ اللہ تعالیٰ کا حق، کیونکہ اس نے اللہ کے رسول کو گالی دی ہے ۔
٢ رسول اللہ ﷺ کا حق،اب ایسا کوئی نہیں جو آپ ﷺ کی اس حق میں نیابت کرے اور اُسے معاف کرے ۔
٣ تمام اُمت ِاسلامیہ کا حق، کیونکہ کسی مؤمن کے والدین کو اگر گالی دے دی جائے تو اسے اتنی عار اور شرمندگی محسوس نہیں ہوگی جتنا کہ نبی اکرم ﷺ کو گالی دینے سے وہ محسوس کرتاہے ۔اس لئے کہ مؤمن اپنے والدین اوراہل وعیال کو گالی دینے کے مقابلے میں اگر نبی ﷺ کو گالی دی جائے تو زیادہ غم وغصہ کا اظہار کرتاہے ۔ آپ ﷺ کامقام ومرتبہ کسی بھی مسلمان سے ڈھکا چھپا نہیں ۔
(4)چوتھا مسئلہ : کیا اس توبہ سے ان سے حد ساقط ہوگی ؟
گستاخِ رسول کی توبہ اس سے سزا کو ساقط نہیں کرے گی او راسے ہر حال میں سزا مل کر رہے گی، اس سلسلے میں قرآن وسنت میں بہت سے دلائل ہیں جنہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ
رحمہ اللہ نے الصارم المسلول اور اپنے الفتاوٰی میں بھی ذکر کیا ہے، چند ایک کو یہاں بیان کیا جاتا ہے :
1 فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا(الاحزاب:57)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے نہایت رسوا کن عذاب ہے ۔ ‘‘
2 ایسا شخص محاربین کے حکم میں داخل ہےچنانچہ سورہ مائدہ کی آیت ۳۳کی روشنی میں ایسے افراد دنیاوی اُمور میں ناقابل معافی ہیں ۔
3 آپ ﷺ کی جس نے بھی توہین کی، اسے بغیر توبہ کرائے آپ نے قتل کا حکم دیا۔
4 عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے شخص کو قتل کیا جو آپ ﷺ کے فیصلے پر راضی نہیں تھا ۔
5 عبد اللہ بن ابی سرح کے قتل سے متعلق ذکر کردہ حدیث : سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ جب فتح مکہ کا دن تھا کہ رسول اللہ نے سب لوگوں کو امن دیا سواے چار مردوں اور دو عورتوں کے اور ان کا نام لیا،تو ابن ابی سرح حضرت عثمان بن عفان کے پاس چھپ گئے۔ جب رسول اللہ نے لوگوں کو بیعت کے لئے بلایا تو حضرت عثمان نے ابن ابی سرح کو آپ کے سامنے لا کھڑا کیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! عبد اللہ سے بیعت کریں،آپ نے اپنا سر اُٹھاکر اس کی طرف دیکھا اور بیعت نہ کی،تین بار ایسا ہی کیا ۔تین بار کے بعد بیعت کرلی پھر اپنے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ کیا تم میں کوئی بھی عقلمند نہیں ہے جو اُٹھتا اوراس کو مار دیتاکہ جب اس نے مجھے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ اس کی بیعت سے کھینچ لیا اور بیعت نہ کی۔صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول !ہمیں آپ کے دل کا حال معلوم نہیں تھا،اگر آپ آنکھ سے اشارہ کر دیتے (تو ہم مار دیتے)۔ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ رسول کے لئے لائق نہیں کہ وہ چورآنکھوں
سے اشارہ کرے۔[3]
6 آپ ﷺ نےاپنی کی شان میں ہجوگوئی کرنے والی عورتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اُنہیں امان سے مستثنیٰ رکھا، حالانکہ آپ نے فتح مکہ پر تمام اہل مکہ کو عام امان دی تھی مگر گستاخی کے مرتکبین کوامان نہیں دی گئی اور حکم دیا کہ اگر یہ لوگ غلافِ کعبہ سے بھی چمٹے ہوئے مل جائیں تو اُنہیں قتل کردیا جائے ۔
7 توہین رسالت کے مرتکب کے قتل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسا شخص اس مکروہ فعل سے دین ودنیا، عباد و بلاد میں فساد کے رواج کا باعث بنتاہے ۔ لہٰذا اس کے قتل میں دو مصلحتیں ہیں :
پہلی مصلحت:اس سزا سے آئندہ کوئی اور اس طرح کے کام کی جرأت نہیں کرے گا۔
دوسری مصلحت:گالی دینے والے کے لئے بھی یہاں مصلحت ہے کہ اگر اس نے توبہ نصوحہ وصادقہ کر لی تو یہ حد اس کے لئے کفارہ کا باعث بنے گی جیسا کہ ماعز بن مالک اور غامدیہ پر حد قائم ہوئی جو اُن کے لئے کفارہ بن گئی ۔
گستاخِ رسول کی توبہ کی عدم قبولیت کے متعلق مذاہب ِاربعہ کا فیصلہ
کویت کی جامع مسجد خالد بن ولید کے خطیب شیخ مہران ماہر عثمان نور نے مذاہب ِاربعہ ودیگر سے18 کے قریب ایسی عبارتیں نقل کی ہیں جن میں توبہ کے باوجود شاتم رسول ﷺ کےقتل کاحکم ہے۔اِن میں سے ہم بطور اختصارِ چند ایک عبارتیں یہاں نقل کرتے ہیں :
مالکیہ کا موقف
امام قرطبی اپنی مایہ ناز تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’امام مالک اس ذمی سے متعلق فرماتے ہیں جس نے نبی ﷺ کو گالی دی ہو تو فرماتے ہیں کہ اس سے توبہ کرائی جائے گی اور اس کی توبہ اسلام قبول کرنا ہے ۔ اور ایک بار فرمایا:
اسے مسلم کی طرح قتل کیا جائے گا اور توبہ نہیں کرائی جائے گی ۔‘‘[4]
یہ اس لئے آپ ﷺ کو گالی دینا کفر عظیم ہے ۔ جیسا کہ امام جصاص رحمہ اللہ نے احکام القرآن ج 4؍ ص276 میں بیان کیا ہے ۔کیونکہ صحیحین کی روایت کے مطابق آپ ﷺ کا ابن خطل کو غلافِ کعبہ سے چمٹے ہونے کے باوجود قتل کرنے کا حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان (توبہ کے باوجود)اس سزا کا زیادہ مستحق ہے ۔
علامہ ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ابن منذر نے فرمایا کہ عام اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی ﷺ کو گالی دیتاہے ، اس کی حد قتل کرنا ہے اور اسی بات کو امام مالک ، امام لیث ، امام احمد ، امام اسحٰق نے بھی اختیار فرمایا ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ اور مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت علی کی مجلس میں یہ کہہ دیا کہ کعب بن اشرف تو محض دھوکے سے قتل ہوا ہے ۔ تو حضرت علی نے اس کی گردن مارنے کا حکم دیا ۔ اور معاویہ کی مجلس میں بھی ایک شخص نے یہ کلمات ادا کئے تو محمد بن مسلمہ غصہ سے کھڑے ہوگئے اور معاویہ سے کہنے لگے کہ تمہاری مجلس میں ایسا کہا جا رہاہے اور تم خاموش ہو ۔ اللہ کی قسم! میں کبھی بھی ایک چھت کے نیچے تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا۔ اور میں نے اگر اس شخص کو علیحدگی میں پالیا تو ضرور اُسے قتل کردوں گا ۔ ہمارے علما کا بیان ہے کہ ایسا شخص بغیر توبہ کرائے قتل کردیا جائے گا کیونکہ اس نے پیغمبر ﷺ کی طرف دھوکے کی نسبت کی ہے ۔ حضرت علی اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہما نے بھی اس قائل کی بات سے یہی سمجھا تھا اور یہ کہ اس طرح کی بات کرنا زندقہ کے زمرے میں آتاہے۔ ‘‘[5]
امام ذہبی سیر أعلام النبلاء پر امام مالک کا مذہب بیان کرتے ہیں:
قال مالك:لا يُستتاب من سبَّ النبيَّ ﷺ من الكفار والمسلمين
’’مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : نبی ﷺ کو گالی دینے والے سے توبہ نہیں کرائی جائے گی چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر ۔‘‘[6]
ابن عبدالبر الكافي میں لکھتے ہیں :
كل من سبَّ النبي ﷺ قُتل مسلماً كان أو ذمياً على كل حالٍ
’’جس نے بھی نبی ﷺ کو گالی دی، وہ ہر حال میں قتل کیا جائے گا چاہے ذمی ہو یا مسلمان۔‘‘[7]
فقہ مالکی کی معروف کتاب بلغة السالك لأقرب المسالك إلى مذهب الإمام مالك للصاوي میں ہے کہ
فَمَن سبّ النبي يُقتل مطلقًا[8]
’’جس نے بھی نبی اکرم ﷺ کو گالی دی اسے مطلقا قتل کردیا جائے گا۔ ‘‘
حنابلہ کا موقف
حنبلی مذہب کی معروف فقہی کتاب الإنصاف للمرداوي میں ہے کہ
قال الشارح: وقال بعض أصحابنا فيمن سب النبيَّ ﷺ: يُقتل بكل حال، وذكر أن أحمد نصّ عليه[9]
’’شارح فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض اصحاب کا قول ہے کہ جو شخص نبی ﷺ کو گالی دے، اسے ہر حال میں قتل کردیا جائے ۔ اور بیان کیا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اسی قول کی صراحت کی ہے ۔ ‘‘
حنبلی مذہب ہی کی ایک اور کتاب منار السبيل میں ہے کہ
قال أحمد: لا تُقبل توبة من سب النبي ﷺ وكذا من قذف نبيًّا أو أمَّه؛ لما في ذلك من التعرض للقدح في النبوة الموجب للكفر[10]
’’امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کو گالی دینے والے کی توبہ قبول نہیں کی
جائے گی ۔ اور اسی طرح جس نے کسی نبی یا اس کی ماں پر تہمت لگائی ، کیونکہ اس کے باعث شانِ نبوت مجروح ہوتی ہےاور پیغمبر کی مذمت کا پہلو نکلتاہے جوموجب ِکفر ہے ۔ ‘‘
شوافع کا موقف
صحیح بخاری کی مایہ ناز شرح فتح الباري میں ہے :
ونقل أبو بكر أحد أئمة الشافعية في كتاب الإجماع أن من سب النبي ﷺ مما هو قذف صريح كفر باتفاق العلماء، فلو تاب لم يَسقط عنه القتل؛ لأن حدَّ قذفه القتل، وحد القذف لايسقط بالتوبة ... فقال الخطابي لا أعلم خلافًا في وجوب قتله إذا كان مسلمًا[11]
’’ائمہ شافعیہ کے ایک امام ابوبکر نے کتاب الاجماع میں نقل کیا ہے کہ جس نے نبی ﷺ کو گالی دی جس سے صریح تہمت ظاہرہوتی تھی تو ایسا شخص اجماعِ علماء کی رو سے کافر قرار پائے گا ۔ اگر توبہ بھی کرلے تو اس سے قتل ساقط نہیں ہوگا ۔ کیونکہ اس کی اس تہمت کی حد قتل ہے ۔ اور تہمت یعنی قذف کی حد توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ۔ خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر وہ مسلم ہے تو اس کے واجب القتل ہونے میں مجھے کوئی مخالف نظر نہیں آیا ۔ ‘‘
حنفیہ کا موقف
أحكام القرآن از امام ابو بکر جصاص حنفی میں ہے کہ
وقال الليث في المسلم يسب النبي ﷺ إنه لا يُناظر ولايُستتاب ويُقتل مكانه[12]
’’لیث رحمہ اللہ نے آپ ﷺ کو گالی دینے والے مسلم سے متعلق فرمایا کہ اس سے مناظرہ ومباحثہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا بلکہ اسے اسی جگہ قتل
کردیا جائے گا ۔ ‘‘
ابن ہمام حنفی فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ
ساب بطریق أولیٰ ، ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبکل من أبغض رسول ﷺ بقلبه کان مرتدًا ، فالل توبته في استحقاق القتل
’’جس شخص نے بھی رسول اللہ ﷺ سے دلی طور پر بغض رکھا، وہ مرتد ہوجاتاہے ، تو گالی دینےوالا تو بالاولیٰ مرتد ہوگا ۔ اور پھر ایسا شخص ہمارے نزدیک بطورِ حد قتل کیا جائے گا اور قتل کے بارے میں اس کی کوئی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔ ‘‘
معاصر علماے کرام کے فتاویٰ
a سعودی عرب کے ممتاز عالم دین شیخ عبد اللہ غنیمان سے سوال کیا گیا کہ آپ کے نزدیک رسولِ اکرم ﷺ کو گالی دینے والے کی توبہ کی صحت کے متعلق راجح قول کیا ہے؟ آیا یہ توبہ نفاذ ِحد پر اثر انداز ہوگی یا نہیں ؟ اس پر شیخ عبد اللہ کا جواب تھا :
’’دنیا میں اس شخص کی کوئی توبہ نہیں۔ وہ واجب القتل ہے ، البتہ آخرت کا معاملہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے مابین ہے۔ اگر اس کی توبہ صادقہ ہوئی تو کوئی اس کے اور توبہ کے مابین حائل نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ کو گالی دینے والے شخص کے متعلق بھی یہی حکم ہے ۔‘‘
سعودی عرب کے ایک او رمعروف عالم جناب صالح المنجد سے بھی شاتم رسول کی توبہ سے متعلق پوچھا گیا تو اُنہوں نے علماء کی اس مسئلہ میں تفصیل ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’خلاصہ کلام یہ کہ آپ ﷺ کو گالی دینا محرمات میں سب سے عظیم ترین گناہ ہے اور علما کا اِجماع ہے کہ ایسا کرنےوالاکافر اور مرتد ہوجاتاہے۔ چاہے اس نے یہ کام سنجیدگی سے کیا ہو یا مذاق اور مزاح میں ۔اور ایسا کام کرنے والے کی سزا ، چاہے وہ مسلم ہو یا کافر، قتل ہے چاہے وہ تائب ہی کیوں نہ ہوجائے ۔ البتہ اگر اس نے سچے دل سے توبہ نصوحہ کی ہوگی اور اپنے کئے پر پشیمان ہوا ہوگا تو یہ توبہ اسے روزِ قیامت فائدہ دے گی اور اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادے گا،لیکن دنیا میں وہ ہر حال قتل ہوگا۔ ‘‘ (الاسلام: سوال وجواب )
[HR][/HR][1] سنن الدارمي:1/17
[2] بخاری :15ومسلم:44
[3] سنن ابو داؤد:۲۳۳۴
[4] 2/ 49 مطبوعہ دار الشعب قاہرہ
[5] تفسیر قرطبی: 8/82
[6] ۸/۱۰۳
[7] 1/585
[8] 4/241
[9] 4/257
[10] 2/360
[11] 12/281
[12] 4/275
نوٹ: یہ مضمون PDF فارمیٹ میں یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں
مالکیہ کا موقف
امام قرطبی اپنی مایہ ناز تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’امام مالک اس ذمی سے متعلق فرماتے ہیں جس نے نبی ﷺ کو گالی دی ہو تو فرماتے ہیں کہ اس سے توبہ کرائی جائے گی اور اس کی توبہ اسلام قبول کرنا ہے ۔ اور ایک بار فرمایا:
اسے مسلم کی طرح قتل کیا جائے گا اور توبہ نہیں کرائی جائے گی ۔‘‘[4]
یہ اس لئے آپ ﷺ کو گالی دینا کفر عظیم ہے ۔ جیسا کہ امام جصاص رحمہ اللہ نے احکام القرآن ج 4؍ ص276 میں بیان کیا ہے ۔کیونکہ صحیحین کی روایت کے مطابق آپ ﷺ کا ابن خطل کو غلافِ کعبہ سے چمٹے ہونے کے باوجود قتل کرنے کا حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان (توبہ کے باوجود)اس سزا کا زیادہ مستحق ہے ۔
علامہ ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ابن منذر نے فرمایا کہ عام اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی ﷺ کو گالی دیتاہے ، اس کی حد قتل کرنا ہے اور اسی بات کو امام مالک ، امام لیث ، امام احمد ، امام اسحٰق نے بھی اختیار فرمایا ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ اور مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت علی کی مجلس میں یہ کہہ دیا کہ کعب بن اشرف تو محض دھوکے سے قتل ہوا ہے ۔ تو حضرت علی نے اس کی گردن مارنے کا حکم دیا ۔ اور معاویہ کی مجلس میں بھی ایک شخص نے یہ کلمات ادا کئے تو محمد بن مسلمہ غصہ سے کھڑے ہوگئے اور معاویہ سے کہنے لگے کہ تمہاری مجلس میں ایسا کہا جا رہاہے اور تم خاموش ہو ۔ اللہ کی قسم! میں کبھی بھی ایک چھت کے نیچے تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا۔ اور میں نے اگر اس شخص کو علیحدگی میں پالیا تو ضرور اُسے قتل کردوں گا ۔ ہمارے علما کا بیان ہے کہ ایسا شخص بغیر توبہ کرائے قتل کردیا جائے گا کیونکہ اس نے پیغمبر ﷺ کی طرف دھوکے کی نسبت کی ہے ۔ حضرت علی اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہما نے بھی اس قائل کی بات سے یہی سمجھا تھا اور یہ کہ اس طرح کی بات کرنا زندقہ کے زمرے میں آتاہے۔ ‘‘[5]
امام ذہبی سیر أعلام النبلاء پر امام مالک کا مذہب بیان کرتے ہیں:
قال مالك:لا يُستتاب من سبَّ النبيَّ ﷺ من الكفار والمسلمين
’’مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : نبی ﷺ کو گالی دینے والے سے توبہ نہیں کرائی جائے گی چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر ۔‘‘[6]
ابن عبدالبر الكافي میں لکھتے ہیں :
كل من سبَّ النبي ﷺ قُتل مسلماً كان أو ذمياً على كل حالٍ
’’جس نے بھی نبی ﷺ کو گالی دی، وہ ہر حال میں قتل کیا جائے گا چاہے ذمی ہو یا مسلمان۔‘‘[7]
فقہ مالکی کی معروف کتاب بلغة السالك لأقرب المسالك إلى مذهب الإمام مالك للصاوي میں ہے کہ
فَمَن سبّ النبي يُقتل مطلقًا[8]
’’جس نے بھی نبی اکرم ﷺ کو گالی دی اسے مطلقا قتل کردیا جائے گا۔ ‘‘
حنابلہ کا موقف
حنبلی مذہب کی معروف فقہی کتاب الإنصاف للمرداوي میں ہے کہ
قال الشارح: وقال بعض أصحابنا فيمن سب النبيَّ ﷺ: يُقتل بكل حال، وذكر أن أحمد نصّ عليه[9]
’’شارح فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض اصحاب کا قول ہے کہ جو شخص نبی ﷺ کو گالی دے، اسے ہر حال میں قتل کردیا جائے ۔ اور بیان کیا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اسی قول کی صراحت کی ہے ۔ ‘‘
حنبلی مذہب ہی کی ایک اور کتاب منار السبيل میں ہے کہ
قال أحمد: لا تُقبل توبة من سب النبي ﷺ وكذا من قذف نبيًّا أو أمَّه؛ لما في ذلك من التعرض للقدح في النبوة الموجب للكفر[10]
’’امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کو گالی دینے والے کی توبہ قبول نہیں کی
جائے گی ۔ اور اسی طرح جس نے کسی نبی یا اس کی ماں پر تہمت لگائی ، کیونکہ اس کے باعث شانِ نبوت مجروح ہوتی ہےاور پیغمبر کی مذمت کا پہلو نکلتاہے جوموجب ِکفر ہے ۔ ‘‘
شوافع کا موقف
صحیح بخاری کی مایہ ناز شرح فتح الباري میں ہے :
ونقل أبو بكر أحد أئمة الشافعية في كتاب الإجماع أن من سب النبي ﷺ مما هو قذف صريح كفر باتفاق العلماء، فلو تاب لم يَسقط عنه القتل؛ لأن حدَّ قذفه القتل، وحد القذف لايسقط بالتوبة ... فقال الخطابي لا أعلم خلافًا في وجوب قتله إذا كان مسلمًا[11]
’’ائمہ شافعیہ کے ایک امام ابوبکر نے کتاب الاجماع میں نقل کیا ہے کہ جس نے نبی ﷺ کو گالی دی جس سے صریح تہمت ظاہرہوتی تھی تو ایسا شخص اجماعِ علماء کی رو سے کافر قرار پائے گا ۔ اگر توبہ بھی کرلے تو اس سے قتل ساقط نہیں ہوگا ۔ کیونکہ اس کی اس تہمت کی حد قتل ہے ۔ اور تہمت یعنی قذف کی حد توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ۔ خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر وہ مسلم ہے تو اس کے واجب القتل ہونے میں مجھے کوئی مخالف نظر نہیں آیا ۔ ‘‘
حنفیہ کا موقف
أحكام القرآن از امام ابو بکر جصاص حنفی میں ہے کہ
وقال الليث في المسلم يسب النبي ﷺ إنه لا يُناظر ولايُستتاب ويُقتل مكانه[12]
’’لیث رحمہ اللہ نے آپ ﷺ کو گالی دینے والے مسلم سے متعلق فرمایا کہ اس سے مناظرہ ومباحثہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا بلکہ اسے اسی جگہ قتل
کردیا جائے گا ۔ ‘‘
ابن ہمام حنفی فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ
ساب بطریق أولیٰ ، ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبکل من أبغض رسول ﷺ بقلبه کان مرتدًا ، فالل توبته في استحقاق القتل
’’جس شخص نے بھی رسول اللہ ﷺ سے دلی طور پر بغض رکھا، وہ مرتد ہوجاتاہے ، تو گالی دینےوالا تو بالاولیٰ مرتد ہوگا ۔ اور پھر ایسا شخص ہمارے نزدیک بطورِ حد قتل کیا جائے گا اور قتل کے بارے میں اس کی کوئی توبہ قبول نہیں ہوگی ۔ ‘‘
معاصر علماے کرام کے فتاویٰ
a سعودی عرب کے ممتاز عالم دین شیخ عبد اللہ غنیمان سے سوال کیا گیا کہ آپ کے نزدیک رسولِ اکرم ﷺ کو گالی دینے والے کی توبہ کی صحت کے متعلق راجح قول کیا ہے؟ آیا یہ توبہ نفاذ ِحد پر اثر انداز ہوگی یا نہیں ؟ اس پر شیخ عبد اللہ کا جواب تھا :
’’دنیا میں اس شخص کی کوئی توبہ نہیں۔ وہ واجب القتل ہے ، البتہ آخرت کا معاملہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے مابین ہے۔ اگر اس کی توبہ صادقہ ہوئی تو کوئی اس کے اور توبہ کے مابین حائل نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ کو گالی دینے والے شخص کے متعلق بھی یہی حکم ہے ۔‘‘
سعودی عرب کے ایک او رمعروف عالم جناب صالح المنجد سے بھی شاتم رسول کی توبہ سے متعلق پوچھا گیا تو اُنہوں نے علماء کی اس مسئلہ میں تفصیل ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’خلاصہ کلام یہ کہ آپ ﷺ کو گالی دینا محرمات میں سب سے عظیم ترین گناہ ہے اور علما کا اِجماع ہے کہ ایسا کرنےوالاکافر اور مرتد ہوجاتاہے۔ چاہے اس نے یہ کام سنجیدگی سے کیا ہو یا مذاق اور مزاح میں ۔اور ایسا کام کرنے والے کی سزا ، چاہے وہ مسلم ہو یا کافر، قتل ہے چاہے وہ تائب ہی کیوں نہ ہوجائے ۔ البتہ اگر اس نے سچے دل سے توبہ نصوحہ کی ہوگی اور اپنے کئے پر پشیمان ہوا ہوگا تو یہ توبہ اسے روزِ قیامت فائدہ دے گی اور اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادے گا،لیکن دنیا میں وہ ہر حال قتل ہوگا۔ ‘‘ (الاسلام: سوال وجواب )
[HR][/HR][1] سنن الدارمي:1/17
[2] بخاری :15ومسلم:44
[3] سنن ابو داؤد:۲۳۳۴
[4] 2/ 49 مطبوعہ دار الشعب قاہرہ
[5] تفسیر قرطبی: 8/82
[6] ۸/۱۰۳
[7] 1/585
[8] 4/241
[9] 4/257
[10] 2/360
[11] 12/281
[12] 4/275
نوٹ: یہ مضمون PDF فارمیٹ میں یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں