• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حقوق نسواں کےنام نہاد علمبرداروں کا حقیقی چہرہ--

ابوحتف

مبتدی
شمولیت
اپریل 04، 2012
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
318
پوائنٹ
0
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ای میل موصول ہوئی”ڈیئر طیبہ! اللہ آپ کو صبر جمیل عطا کرے۔ آپ کی استقامت کو میرا سلام۔ اللہ آپ کی بیٹی کے درجات بلند کرے۔ آپ جیسی ماوں پر ہمیں فخر ہے۔ 30 مارچ کو عافیہ کو گرفتار ہوئے 9برس ہو چکے ہیں۔ ایوانوںمیں شاید کبھی کوئی جاگ اٹھے اور ہماری ماں اپنی بیٹی سے اور عافیہ اپنے بچوں سے مل سکے“ ۔۔۔ ایک ماں کا ہی دوسری ماں درد سمجھ سکتی ہے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے نیویارک کی عدالت کے باہر احتجاج کے لئے جایا کرتی تو میری بیٹی کو میری حفاظت کی فکر لگ جاتی۔ عافیہ کا کیس تعصب اور ظلم کی علامت بن چکا تھا۔ عافیہ کی کہانی میری بیٹی کے دل پر اس قدر اثر انداز ہو چکی تھی کہ اپنی زندگی کا آخری دن اس نے نیویارک کی اس جیل کا وزٹ کرنے میں گزار دیا جس میں عافیہ قید تھی۔ میری بیٹی جب گھر لوٹی تو اس نے بتایا کہ وہ جیل اپنے کسی کیس کے سلسلے میں گئی تھی مگر وہاں اس نے مسلمان قیدیوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل کیں تاکہ مستقبل میں عافیہ مقدمات کی وکالت کر سکے۔ عافیہ صدیقی کے لئے میری بیٹی کے جذبات اکثر میری روح کو چھلنی کر دیتے ہیں۔ میں عافیہ کو اس کے بچوں سے ملانا چاہتی تھی۔ عافیہ کو اس کی ماں سے ملانا چاہتی تھی مگر مجھے یہ علم نہ تھا ایک روز میں خود بھی اپنی بیٹی سے بچھڑ جاوں گی۔ ایک ماں کی اپنی اولاد سے جدائی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ فوزیہ صدیقی کی ای میل میں اس کی ماں کی علالت کا پڑھ کر بے حد مغموم ہوں مگر ایک بے بس ماں دعا کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتی ہے۔ عافیہ کی المناک داستان کے نو سال بعد بھی حساس لوگ مسلسل ای میلز بھیج رہے ہیں۔ پاکستان سے ایک صاحب لکھتے ہیں یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب پاکستان میں ”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ گونج رہا تھا۔ آج سے ٹھیک 9 سال پہلے 30 مارچ 2003 کا ایک اداس دن تھا، جب پاکستان کے چہرے پر کالک مل دی گئی، کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے ایک خاتون اپنے 5 سالہ بیٹے ، ساڑھے 3 سالہ بچی اور چھ ماہ کے شیر خوار بچے کے ہمراہ اسلام آباد جانے کے لئے ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوئی اور راستے ہی میں بچوں کے ہمراہ اغوا کر لی گئی۔ یہ ایک عام خاتون نہیں تھی۔ اسے ملک کے ذہین ترین افراد میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ یہ خاتون دنیا اور امریکہ کے اعلیٰ ترین ادارے کی سند یافتہ تھی۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند کر نے والوں نے پاکستان کی اس بیٹی کو ڈالروں کے عوض بیچ ڈالا۔ عافیہ پر دہشت گر دی کے الزامات بے بنیاد ثابت ہوئے مگر عافیہ کو جیل سے رہائی نہ مل سکی۔ عافیہ کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے نو برس بیت چکے ہیں مگر کسی پتھر میں شگاف پیدا نہیں ہو سکا۔ بلاشبہ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے مقتدر لوگ ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ ہیں، عافیہ کی واپسی کا معاملہ کسی بھی حوالے سے ملک کی سکیورٹی کے لئے رسک نہیں۔ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر عافیہ کی رہائی کا مسئلہ دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب، ترکی اور دیگر دوست ممالک کا تعاون حاصل کر نا پڑے تو وہ بھی کیا جائے، انسانی حقوق کی خاطر کام کر نے والی دنیا کی بہت سی تنظیمیں حکومت پاکستان کے ایک مطالبے پر میدان میں آ سکتی ہیں اور پوری دنیا کے میڈیا کے ذریعے وہائٹ ہاﺅس تک عافیہ کی رہائی کا مطالبہ بھرپور دباﺅ کے ساتھ پہنچایا جا سکتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان، ہمارے مقتدر لوگ، ہمارے رہنما، ہمارے بہت سے قائدین عافیہ کی رہائی میں سنجیدہ نہیں حالانکہ عافیہ کی وطن واپسی سے خودمختاری اور آزادی کے جذبات اور محسوسات سے محروم ہوئی قوم کی رگوں میں توانائی اورطمانیت کی ایک نئی لہر دوڑ جائے گی۔ ملک میں جمہوریت، عوام کے حقوق ، تعلیم اور صحت کے برطرف ملازمین کی بحالی اور قوم کے اتحاد اور یکجہتی کی خاطر جدوجہد کر نے والے تمام طبقات کو ایک نیا حوصلہ، نئی فکر اور نئی ہمت میسر آئے گی۔ عافیہ صدیقی کی واپسی سے پاکستان میں خواتین کے حقوق کی خاطر جدوجہد کر نے والی تنظیموں کو بھی نئی روشنی میسر آ سکے گی جبکہ عمومی طور پر ملک کے مستقبل سے مایوس لوگوں کو بھی نئی امیدیں اور نئی روشنی نظر آنے لگے گی لیکن ہماری بدنصیبی کہ ہم خوف و ہراس کے عالم میں زندگی بسر کر نے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں۔ فطرت ہم سے انتقام لے رہی ہے۔ 30 مارچ 2003 کے بعد سے اب تک ہم پر کتنی ہی قدرتی آفات ٹوٹ چکی ہیں۔ اس سے قبل ہم کبھی ایسے پے درپے بحرانوں، عذابوں اور مسائل کا شکار نہ تھے۔ آج ہم ایک مچھر سے بھی خوفزدہ ہیں۔ یہ سب اس لئے کہ ہم نے ضمیر فروشی ہی نہیں، دختر فروشی بھی کی ہے۔ عافیہ ایک خاندان کا نہیں پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ ہم نے اپنا سب کچھ امریکہ کے سپرد کر دیا کہ کہیں وہ ہمیں پتھر کے زمانے میں نہ دھکیل دے لیکن ہمیں کیا حاصل ہوا؟ آج ملک کی معیشت آخری سانسیں لے رہی ہے۔ ریاست سے لوگوں کا اعتبار اٹھ چکا ہے۔ آخرہمیں اس جنگ سے کیا ملا“ ۔۔۔ قارئین کی ای میلز پڑھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ اس مہذب ملک کی عدالت نے جو سلوک کیا ہے وہ کہیں سے بھی ”انسانوں کی عدالت“ معلوم نہیں ہوتی۔ مشرف کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان کو پتھر کے دور سے جانے سے بچا لیا مگر درندگی کے منہ میں جانے سے نہ بچا سکا۔ آج پورے پاکستان میں لوگ ایک دوسرے کی تکہ بوٹی نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ عافیہ کی والدہ کو بھی ایک روز اس دنیا سے کوچ کر جانا ہے اور عافیہ کی زندہ لاش بھی ایک دن دم توڑ جائے گی مگر ظالموں کو کبھی رہائی نصیب نہ ہو سکے گی۔ نو سالوںکے دوران اس زندہ لاش کو مختلف کال کوٹھریوں میں قید رکھا گیا مگر نو سال گزر جانے کے بعد بھی کسی کو اس کہانی کے آغاز کا علم ہے اور نہ ہی انجام کی خبر ہے۔ عافیہ کی دردناک کہانی، پاکستان کی تاریخ کی ایک ڈراونی حقیقت ہے۔ ظلم کی ایک ایسی داستان، جس کے تصور سے بھی روح کانپ جاتی ہے۔ اُس روز جب حشر ہو گا تو عافیہ اپنے کٹے پھٹے وجود کے ساتھ آقا نامدار ﷺ کی اُمت کی اگلی صف میں چلی آ رہی ہو گی اور جب اس کے ساتھ کئے گئے ظلم کا حساب مانگا جائے گا تو اس روز جو منظر ہو گا، ظالموں نے کبھی اس کا تصور بھی نہ کیا ہو گا۔!
طیبہ ضیاء-نوائےوقت
 
Top