حقیقۃ التقلیدواقسام المقلدین کا جائزہ
کتاب کا نام اوپر ذکر ہوچکا۔یہ کتاب غیرمقلدعالم امین اللہ پشاوری کی ہے۔ موصوف نے کتاب میں بھی پشاوری یعنی پٹھانی لب ولہجہ بھی برقرار رکھاہے۔اسی کتاب کاجائزہ ہمارے پیش نظرہے۔
واضح کردوں کہ کتاب میں موصوف کی علمیت سے زیادہ جہالت نمایاں ہے ۔موصوف تقلید کے جوش میں مسلمات کا بھی انکار کردیتے ہیں۔ کبھی احناف پر تناقض اورتضاد کا الزام عائد کرتے ہوئے خود شترگربگی کا شکار ہوجاتے ہیں اورکبھی کسی بات کی صحیح حقیقت سمجھے بغیر کفروشرک کی گردان شروع کردیتے ہیں۔اس کتاب کے بغورمطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ موصوف کو فقہ حنفی کی ہی صحیح معلومات نہیں ہیں۔ بعض مقامات پر فقہائے احناف کی مراد کچھ اورہے اورجوش اجتہاد میں انہوں نے مطلب کچھ اورلے لیاہے اوراپنے خودساختہ مطلب پر اپنے کوسنوں کی بنیاد رکھی ہے۔
اصل میں ہمارے پیش نظراس کتاب کا مقدمہ ہے جہاں موصوف نے مقلدین کے شبہات کے جواب دینے کی سعی کی ہے۔ہم اپنے جائزہ میں ان کی اسی سعی کو مدنظررکھیں گے ۔
انہوں نے کتاب کی ابتداء ہی یہاں سے کی ہے کہ بعض علماء نے تقلید کو دوقسم تقلید مذموم اورتقلید ممدوح میں تقسیم کیاہے۔ انہوں نے ا س کی تردید میں بڑازور ماراہے
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تقلید مذموم اورممدوح دونوں ہیں اورہوسکتے ہیں اس کی شہادت اجلہ علمائے کرام نے دی ہے۔اگراس تعلق سے تمام علماء کے نصوص جمع کئے جائیں توایک مقالہ تیار ہوسکتاہے چونکہ موصوف نے بیشترمقامات پر احناف کے خلاف شاہ ولی اللہ کی عبارات کو دلیل بنایاہے اس لئے ہم بھی انہی کی تحریر پیش کرتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ نے عقدالجید میں تقلید پر فاضلانہ بحث کرتے ہوئے اس کو دوحصوں میں تقسیم کیاہے ایک مذموم اورایک ممدوح۔
شاہ ولی اللہ تقلید مذموم اس کو کہتے ہیں کہ کسی ایک فقیہہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھاجائے کہ اس سے غلطی ہوہی نہیں سکتی۔یاپھریہ کہ اگراس کو معلوم ہوجائے کہ دلیل اس کے خلاف قول پر ہے پھربھی اسی قول سے چمٹارہے گا۔یہ تقلید مذموم ہے
لیکن یہ بات کہ چونکہ ہم شریعت کا علم نہیں رکھتے توکسی اعلم وافقہ کی باتوں کو قبول کرلیں اس میں کوئی حرج نہیں اورنہ ہی اس سے کوئی فرق پڑتاہے کہ ہمیشہ کسی ایک کی بات مانی جائے یاآج اس کی اورکل اس کی مانی جائے۔
فيمن يكون عاميا ويقلد رجلا من الْفُقَهَاء بِعَيْنِه يرى أَنه يمْتَنع من مثله الْخَطَأ وَأَن مَا قَالَه هُوَ الصَّوَاب الْبَتَّةَ وأضمر فِي قلبه أَن لَا يتْرك تَقْلِيده وَإِن ظهر الدَّلِيل على خِلَافه وَذَلِكَ مَا رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ عَن عدي بن حَاتِم أَنه قَالَ سَمِعت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يقْرَأ {اتَّخذُوا أَحْبَارهم وَرُهْبَانهمْ أَرْبَابًا من دون الله} قَالَ إِنَّهُم لم يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ وَلَكنهُمْ كَانُوا إِذا أحلُّوا لَهُم شَيْئا اسْتَحَلُّوهُ وَإِذا حرمُوا عَلَيْهِم شَيْئا حرمُوهُ وفيمن لَا يجوز أَن يستفتي الْحَنَفِيّ مثلا فَقِيها شافعيا وَبِالْعَكْسِ وَلَا يجوز أَن يَقْتَدِي الْحَنَفِيّ بِإِمَام شَافِعِيّ مثلا فَإِن هَذَا قد خَالف إِجْمَاع الْقُرُون الأولى وناقض الصَّحَابَة وَالتَّابِعِينَ وَلَيْسَ مَحَله فِيمَن لَا يدين إِلَّا بقول النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَلَا يعْتَقد حَلَالا إِلَّا مَا أحله الله وَرَسُوله وَلَا حَرَامًا إِلَّا مَا حرمه الله وَرَسُوله لَكِن لما لم يكن لَهُ علم بِمَا قَالَ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَلَا بطرِيق الْجمع بَين المختلفات من كَلَامه وَلَا بطرِيق الإستنباط من كَلَامه اتبع عَالما راشدا على أَنه مُصِيب فِيمَا يَقُول ويفتي ظَاهرا مُتبع سنة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَإِن ظهر خلاف مَا يَظُنّهُ أقلع من سَاعَته من غير جِدَال وَلَا إِصْرَار فَهَذَا كَيفَ يُنكره أحد مَعَ أَن الإستفتاء لم يزل بَين الْمُسلمين من عهد النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَلَا فرق بَين أَن يستفتي هَذَا دَائِما أَو يستفتي هَذَا حينا بعد أَن يكون مجمعا على مَا ذَكرْنَاهُ كَيفَ لَا وَلم نؤمن بفقيه أيا كَانَ أَنه أوحى الله إِلَيْهِ الْفِقْه وَفرض علينا طَاعَته وَأَنه مَعْصُوم فَإِن اقتدينا بِوَاحِد مِنْهُم فَذَلِك لعلمنا أَنه عَالم بِكِتَاب الله وَسنة رَسُوله فَلَا يَخْلُو قَوْله إِمَّا أَن يكون من صَرِيح الْكتاب وَالسّنة أَو مستنبطا مِنْهُمَا بِنَحْوِ من الإستنباط أَو عرف بالقرائن أَن الحكم فِي صُورَة مَا مَنُوط بعلة كَذَا وَاطْمَأَنَّ قلبه بِتِلْكَ الْمعرفَة فقاس غير الْمَنْصُوص على الْمَنْصُوص فَكَأَنَّهُ يَقُول ظَنَنْت أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ كلما وجدت هَذِه الْعلَّة فَالْحكم ثمَّة هَكَذَا والمقيس مندرج فِي هَذَا الْعُمُوم فَهَذَا أَيْضا معزو إِلَى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَلَكِن فِي طَرِيقه ظنون وَلَوْلَا ذَلِك لما قلد مُؤمن لمجتهد
(عقدالجیدص16)
موصوف کہتے ہیں کہ تقلید بدعت ہے اوروجہ یہ ہے کہ
جواباعرض ہے کہ خیرالقرون میں امین اللہ پشاوری نامی کسی بزرگ کابھی وجود نہیں تھا وہ کیوں سراپابدعت نہیں ہوتے؟ویسے یہ ہی سرے سے بے اصل ہے کہ خیرالقرون میں تقلید کا وجود نہیں تھا۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں۔خیرالقرون میں اس کا کوئی نام ونشان نہیں تھا
ان الناس لم یزالو من زمن الصحابۃ رضی اللہ عنھم الی ان ظھرات المذاہب الاربعۃ یقلدون من اتفق من العلماء من غیرنکیر من احد یعتبر انکارہ ولوکان ذلک باطلالانکروہ۔(عقدالجید ص33)
ائمہ اربعہ کے مذاہب کے ظہور سے پہلے حضرات صحابہ کرام کے زمانہ سے لوگوں کا طریقہ کار یہ تھاکہ وہ علماء کی بلاتعین تقلید کیاکرتے تھے اوراس پر کسی نے بھی- جس کا اعتبار ہو-نکیر نہیں کی۔اوراگریہ امر(تقلید)باطل ہوتا توحضرات صحابہ کرام اورتابعین عظام اس پر نکیر کرتے۔
موصوف نے اس کے بعد تقلید کے دلائل پر بحث کیاہے۔ انہوں نے مقلدین کی جانب سے تقلید پر قرآن سے دودلیل پیش کرکے اس کی تردید کی ہے۔
ایک تویہ آیت ہے ومایعقلھاالاالعالمون اوردوسری آیت ہے کہ وجعلنامنھم ائمۃ یھدون بامرناالخ
اوروہ آیت جو تقلید کے موضوع پر نہایت واضح ہے اس کا موصوف نے کوئی ذکر ہی نہیں کیا
فاسئلوااہل الذکر ان کنتم لاتعلمون
اگراسی طرح اپنی جی اورمطلب سے تقلید کے دلائل کے خلاف ورد کرناتھاتویہ کوئی بھی کرسکتاہے۔ علماء اسلام اس آیت کو تقلید کی دلیل میں پیش کرتے رہے ہیں حافظ ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم وفضلہ میں تقلید پر طویل بحث کرنے کے بعد آخر میں عوام الناس کیلئے تقلید کے جواز کا اثبات کیاہے اوراسی آیت سے دلیل اخذ کی ہے۔
لیکن موصوف نے اسی آیت کوذکر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔دلاورفگارنے ایسے ہی موقعہ کیلئے کہاہے۔
جومطلب کی عبارت تھی اسے پنجوں سے گھس ڈالا
کبوترلے کے آیاہے میرے خط کا جواب آدھا
کبوترلے کے آیاہے میرے خط کا جواب آدھا
موصوف کے عقل وفہم کا اندازہ کیجئے
ومایعقلھاالاالعالمون کی آیت سے تقلید کے استدلال کی تردید کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئے کہ جوش میں فرمادیا
یہ نرالااستدلال کسی کوان سے قبل بھی سوجھاتھاکہ کسی کی تقلید کیلئے ضروری ہے کہ اس نے اپنی کتاب لکھی ہو۔کتابوں مین اگرکسی کے اقوال درج ہیں تووہ کافی نہیں ۔کتاب کالکھناضروری ہے؟پھریہ غیرمقلدین جوکہتے رہتے ہیں کہ فلاں صحابی کی تقلید کرناچاہئے کیونکہ وہ زیادہ اعلم وافقہ تھے توکیاحضرات صحابہ کرام نے اپنی یادگارکوئی کتاب چھوڑی ہے؟اگراس سے مراد زندہ علماء کرام ہیں توامام ابوحنیفہ کی تقلید کے اثبات کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا اوراگروہ علماء مراد ہیں جووفات پاچکے ہیں توتب بھی امام ابوحنیفہ کی تقلید ناممکن ہے کیونکہ ان سات براعظموں پر محیط اس کرہ ارض پرامام ابوحنیفہ کی کسی بھی کتاب کا وجود نہیں ہے۔(حقیقۃ التقلید واقسام المقلدین ص27)
موصوف کی ایک اورگلفشانی ملاحظہ ہو۔
المصدرالسابق )یہ بات توبالاتفاق تمام علماء جانتے ہیں کہ فقہ کی تائید کیلئے قرآن وحدیث سے دلائل لئے جاتے ہیں لیکن قرآن وحدیث اپنامعنی ومقصود بتانے میں کسی فقہ کے محتاج نہیں
حقیقت یہ ہے کہ موصوف نے دنیاسے الگ اورنرالی سوچ اوراندازفکرپایاہے۔
فقہ قرآن وحدیث سے مستنبط ہے توفرماتے ہیں کہ قرآن وحدیث سے دلائل لئے جاتے ہیں یعنی فقہ کوئی علیحدہ شے ہے اورکچھ زیب وزینت کیلئے قران وحدیث سے جھاڑفانوس کا کام لیاجاتاہے۔
آگے ان کا یہ جملہ کہ
یہ بھی نہایت عجیب وغریب جملہ ہے جوکہ جہالت کی آغوش سے نکلاہوالگتاہے۔اگرقرآن وحدیث کا معنی اتناہی واضح ہے توپھرتمام عربوں کو مجتہد ہوناچاہئے کیوں خواہ مخواہ دیگر علوم وفنون کے سیکھنے میں برسوں عمر عزیز ضائع کیاجاتاہے اورلوگ ماجستیراوردکتوراہ کی سند کے حصول کیلئے عمرکھپاتے ہیں۔قرآن وحدیث اپنامعنی ومقصود بتانے میں کسی فقہ کے محتاج نہیں
یہ بات متحقق ہے کہ علم جرح وتعدیل کا بڑاحصہ اجتہادی ہے کیونکہ رواۃ پر حکم ائمہ جرح وتعدیل نے اپنے اجتہاد سے ہی لگایاہے جس کی وضاحت علماء نے اپنی کتابوں میں اتنی بار کی ہے کہ اگراسی کوجمع کیاجائے توبلامبالغہ ایک ضخیم مقالہ تیار ہوجائے گا۔راقم الحروف نے بھی اس تعلق سے کچھ عرض کیاہے
علم جرح وتعدیل اجتہادی اورظنی ہے
اس کے بعد دیکھئے موصوف کیافرماتے ہیں۔
قارئین بالخصوص علم حدیث سے اشتغال رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ موصوف کی یہ بات کتنی ناقابل التفات اورغیرذمہ داری سے کہی گئی ہے بلکہ ہم تویہاں تک کہہ سکتے ہیں کہ موصوف کی اس جملہ سے ان کی علم حدیث بالخصوص علم اسماء الرجال سےجہالت ٹپک رہی ہے۔اسی طرح جب کوئی عالم کسی راوی حدیث پر جرح یاتعدیل کرتاہے اوراس کی اطلاع آگے امت کو دیتاہے تویہ اس کی رائے نہیں بلکہ اسکا مشاہدہ ہوتاہے کیونکہ وہ اس راوی کے کذب اورکمزوری کو بالمشاہدہ محسوس کرتاہے ۔پھراس کی اطلاع مسلمانوں کودیتاہے اوردین میں مسلمان کا مشاہدہ قبول کرنالازمی ہے۔(ص40)
اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے موصوف نے ایک عدددلیل بھی ارشاد فرمارکھاہے۔ دیکھئے۔
مقلدین کو حدیث سے عدم اشتغال کا طعنہ دینے والے یہ غیرمقلدعلم حدیث سے کتنااشتغال رکھتے ہیں اس جملہ سے بخوبی واضح ہورہاہے؟۔ جرح مبہم اورجرح مفسر کی بحث کو صحیح سے سمجھے بغیر موصوف نے یہ سمجھ لیاکہ جرح مفسر جارح کے مشاہدہ پر مبنی ہوتاہے ۔سبحان اللہ قاسم العقولاگرمقلدین کو فقہ پڑھنے سے فرصت ملی ہو اوراصول حدیث کا مطالعہ کیاہوتویقیناجرح وتعدیل کایہ قاعدہ ان کومل گیاہوگا کہ کسی جارح کی جرح مبہمہ اس وقت تک ناقابل قبول ہوگی جب تک اس پرمشاہدہ کی واضح دلیل پیش نہ کی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگرموصوف کو مقلدین کو کوسنے دینے سے فرصت ملتی اورقرآن وحدیث کا مطالعہ کیاہوتاتوایسی بات نہ کہتے جس پر اعجوبہ اورمضحکہ خیزی کا گمان گزرتاہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔