- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
حقیقی خاندانی منصوبہ بندی کیجئے
ایک چینی کہاوت ہے کہ تجربہ ایک ایسی کنگھی ہے، جو انسان کو اس وقت ملتی ہے جب وہ گنجا ہوچکا ہوتا ہے۔ شادی بیاہ ہی کے معاملہ کو لے لیجئے۔ والدین جب تک شادی کے نشیب و فراز سے بخوبی آگاہ یعنی تجربہ کار ہوتے ہیں، وہ ذاتی طور پر شادی سے بے نیاز ہوچکے ہوتے ہیں۔ عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ تجربہ کی اس کنگھی کو ضائع کرنے کی بجائے اپنے بچوں کی زندگی کے زلفِ پریشاں کو سنوارنے میں استعمال کریں ۔ واضح رہے کہ بچے شادی وغیرہ کے معاملات میں ذاتی طور پر کوئی تجربہ نہیں رکھتے اور اُن کی جملہ معلومات دیکھنے، سننے اور پڑھنے کی حد تک محدود ہوتی ہیں، جو تجربہ کا کبھی بھی نعم البدل نہیں ہوسکتیں۔ بچے اگر والدین کی انگلی پکڑ کر شاہراہِ حیات پر چلنے کا آغاز کریں تو اس دشوار گذار راستے کے نشیب و فراز کی ٹھوکروں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔بچوں کونئی نئی خود مختاری ملتے ہی انہیں والدین کی ضرورت سے بے نیاز ہونے کا احساس دلانے والی معاشرہ کی منفی قوتیں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں۔ لہٰذا آپ کو یہ منصوبہ بندی کرنی چاہئے کہ آپ کا بچہ جونہی بالغ ہو جائے، اس کی دوسری بنیادی ضرورت احسن طریقہ سے پوری کر دی جائے اور وہ آپ کے زیر سایہ شاہراہِ حیات پر چلنے کی کچھ مشق بھی کرلے تاکہ وہ خودمختار زندگی کے خطرات و حادثات سے محفوظ رہنا سیکھ لے۔میٹرک کرتے کرتے آپ کے بچے کی عمرسولہ سال کے لگ بھگ ہو چکی ہوتی ہے، جسے سویٹ سکس ٹین بھی کہتے ہیں۔ امنگیں نئی نئی جوان ہوتی ہیں۔ آگے کا منظر صاف نظر آنے لگتا ہے کہ بچے نے کیا کرنا ہے، کیا پڑھنا ہے اور کہاں تک پڑھنا ہے۔ اگر بچے کا محض سادہ گریجویشن کا ارادہ ہو تو لڑکی کی صورت میں انٹر میں ہی رشتے کی تلاش شروع کردیں اور زیادہ سے زیادہ گریجویشن کے فورا بعد لازماً شادی کردیں۔ البتہ شادی کی راہ میں کوئی حقیقی رکاوٹ موجود ہو تو ماسٹرز تک کی تعلیم کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔ ویسے تعلیم کو شادی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔ جب دیگر سارے امورِ اندگی دورانِ تعلیم سر انجام دئے جاسکتے ہیں تو شادی کیوں نہیں۔ شادی کے بعد اعلیٰ تعلیم کی راہ میں کوئی حقیقی رکاوٹ نہیں ہوتی بلکہ اس طرح ایک نوجوان زیادہ سکون کے ساتھ تعلیمی مدارج طے کرتا ہے۔ تعلیم کی تکمیل اورحصولِ روزگار میں خود کفالت کے بعد شادی کا فلسفہ غیر اسلامی معاشرہ سے درآمد کردہ ہے، جہاں انسان کی دوسری بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے حصار نکاح لازمی نہیں ہے۔ مسلم معاشرہ کو اس فلسفہ پر عمل درآمد کے منفی اثرات سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ آج کل کے حساب سے لڑکی کی شادی زیادہ سے زیادہ 18 سال کی عمر میں اور لڑکے کی شادی زیادہ سے زیادہ 20 سال کی عمر میں کردینی چاہئے، خواہ اس کی تعلیم اپنے آخری مراحل میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس عمر میں شادی کے بہت سے سماجی فوائد ہیں۔ اس عمر میں لڑکا مالی طور پر اپنے والدین کے زیر کفالت ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ شادی کے جملہ مراحل میں فطری طور پراپنے والدین کی مرضی کا پابندہوگا۔ ایسی صورت میں والدین کوچونکہ ایک سے زائد بچوں کی شادیاں اپنی ہی آمدنی سے کرنی ہوں گی لہٰذا وہ ہر شادی کو سادگی سے سر انجام دیں گے۔ یہی اسلام کا تقاضہ بھی ہے۔
بیس سال کی عمر میں شادی کرنے کی صورت میں شادی کے چار پانچ سال تک بیٹے اور اس کے بیوی بچوں کے نان نفقہ کی ذمہ داری بھی والدین پر ہوگی۔یوں نوجوان جوڑا یہ عرصہ اپنے والدین کے زیر سایہ، ان ہی کی کفالت میں، بے فکری سے شادی کو انجوئے کرتے ہوئے تعلیم کو مکمل کرے گا اور حصول روزگار کی جانب قدم بڑھائے گا۔سادہ گریجویشن 20 سال میں اور پیشہ ورانہ تعلیم بائیس تئیس سال تک مکمل ہوجاتی ہے۔ سادہ گریجویٹ عام طور سے 5 سال کے اندر اندر اور پروفیشنل گریجویٹ تین سال کے اندر اندر ملازمت یا کاروبار کے ذریعہ معاشی طور پر خودکفیل ہوجاتا ہے۔ معاشی خودکفالت کے حصول کے ایک دو سال کے اندر اندر اس کا پہلا بچہ بھی پانچ چھ سال کا ہوکر اسکول جانے کے قابل ہوجاتا ہے۔ یوں پانچ سال تک اپنے والدین کی سرپرستی ، ہدایات اور نگرانی میں ازدواجی زندگی کی خوشیاں گزارتے ہوئے وہ ایک درست راہ پر گامزن ہوچکا ہوگا۔ 25 سال کی عمر میں وہ ایک فیملی کا ذمہ دار شخص بن چکا ہوگا اور اس کا بڑا بچہ اپنی رسمی تعلیم کا آغازکر چکا ہو گا۔ اور جب وہ خود 40 سال کا کڑیل جوان اور اپنے پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے عروج پر ہوگا، اس کی اولاد 20 برس کی ہوچکی ہوگی۔ آپ اس شخص کا تصور کریں جو ابھی صرف 40 سال کا ہے، اس کی ملازمت میں بشرط زندگی ابھی کم از کم 20 سال باقی ہیں،اس کی پہلوٹھی کی اولاد سادہ گریجویشن کرچکی ہے یا پیشہ ورانہ گریجویشن کے آخری مراحل میں ہے۔ ایسے میں اس کے لئے کیا مشکل ہوگی کہ اپنی اولاد کی شادی باری باری کرنا شروع کردے اور بیٹے کی شادی کی صورت میں اس کے بیوی بچوں کا مالی بار بھی اگلے پانچ سال تک اٹھاتا رہے۔ ابھی یہ شخص ریٹائرمنٹ کی رسمی عمر ساٹھ سال کو پہنچا بھی نہ ہوگا کہ اس کے سارے بچے شادی کرکے اپنا اپنا گھر بار الگ سنبھال چکے ہوں گے اور اس کے پوتوں اور نواسوں کی شادی بھی سر پر آن کھڑی ہوگی۔ اور ایسا شخص مالی اعتبار سے ابھی بھی اپنے بچوں میں سے کسی کا محتاج بھی نہ ہوگا۔ریٹائر منٹ سے قبل تک وہ اپنے چند ایک نواسوں،نواسیوں، پوتوں اور پوتیوں کی شادی بھی اپنی نگرانی میں کروانے کا اہل ہوگا۔ ضرورت پڑنے پر وہ اپنے نسبتاً غریب اولاد کی مالی مدد کا بھی اہل ہوگا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اسے کچھ نہ کچھ جمع پونجی بھی ملے گی۔ تھورا بہت وہ اپنے اور اپنی بیوی کے لئے بھی رکھ سکتا ہے۔ یعنی ساٹھ سال کی عمر میں عضو معطل بننے سے قبل تک اپنی تیسری نسل کی شادیوں میں بھی فعال کردار ادا کرنے کے قابل ہوگا اور یوں تین نسلیں ایک دوسرے سے جڑی رہیں گی۔ جب خاندانی نظام اس قدرمضبوط اور جڑا ہوا ہوگا تو سماجی برائیاں از خود کم سے کم ہوتی چلی جائیں گی۔ جن بستیوں کے مکین خاندانی ہوتے ہیں اور نسل در نسل ایک دوسرے سے جڑے اور مضبوط ہوتے ہیں، ان بستیوں میں جملہ اقسام کے جرائم کی شرح خاصی حد تک کم پائی جاتی ہے۔حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا خرچ کم سے کم ہو۔ (شعب الایمان للبیہقی)
سورة روم آیت ۔21 میں ارشاد ربانی ہے:اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاںہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ذرا سوچئے کہ اٹھارہ اور بیس سال کی عمر میں بچوں کی شادیاں کرتے رہنے کے فوائد خاندان سے معاشرے کو کس طرح منتقل ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ ’حقیقی خاندانی منصوبہ بندی ‘ہے، جسے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:نکاح میری سنت ہے۔ (ابن ماجہ)
تم میں سے جوبیوی کے حقوق ادا کرنے کی طاقت رکھے تو نکاح کر لے کیوں کہ یہ نظر کو جھکاتا اور شرمگاہ کو محفوظ رکھتا ہے۔( ابو داؤد)
جب بندہ شادی کرتا ہے تو اسکا آدھا دین مکمل ہو جاتا ہے اور شادی کرنے کے بعد بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے ۔ فقہا کا کہنا ہے کہ غلبہ شہوت کی وجہ سے زنا میں مبتلا ہوجانے کا خوف ہو تو نکاح فرض ہوجاتا ہے۔ البتہ غلبہ شہوت اس قدر نہ ہو اور بیوی کی کفالت کر سکتا ہو تویہ سنت ہے۔ اسی طرح بیوی کے لیے اخراجات نہ ہونے کے سبب بیوی پر ظلم کا اندیشہ ہو تو مکروہ ہے۔ اور اگر کوئی نا مکمل مرد بیوی کے حقوق زوجیت ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو اسے نکاح کرنا جائز نہیں۔(بیہقی)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ نکلے۔ ہم جوان تھے لیکن نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جوانو! تمہارے لیے نکاح بہت ضروری ہے۔ کیونکہ یہ آنکھوں کو نیچا رکھتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شادی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے اس لیے کہ روزوں سے شہوت ختم ہو جاتی ہے۔ (ترمذی)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون کو ترک نکاح کی اجازت نہیں دی ورنہ ہم خصی ہو جاتے۔
دو محبت کرنے والوں کے لیے نکاح سے بہتر کچھ نہیں یعنی جب کوئی لڑکا لڑکی محبت کرتے ہوں تو ان کے والدین کو ان کا نکاح کر دینا چاہیے۔( ابن ماجہ)
مومن اللہ سے ڈرنے کے بعد جو اپنے لیے بہتر تلاش کرتا ہے وہ نیک بیوی ہے۔(ابن ماجہ)
جب تمہیں ایسا شخص تمہاری بہن بیٹی کے لئے نکاح کا پیغام دے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو اگر ایسا نہ کرو گے تو زمیں میں بہت بڑا فتنہ پیدا ہو گا۔ (ترمذی )
عورتوں سے ان کے حسن کی وجہ سے شادی نہ کرو ہو سکتا ہے ان کا حسن تمہیں برباد کر دے، نہ ان سے ان کے مال کی وجہ سے شادی کرو ہوسکتا ہے اس کا مال تمہیں گناہوں میں مبتلا کر دے بلکہ عورت سے اس کی دین داری کی وجہ سے شادی کرو (ابن ماجہ)۔
دنیا کے سامان میں نیک بیوی سے زیادہ کوئی اچھی چیز نہیں ( ابن ماجہ) ۔
کوئی اپنے بھائی کے پیغام ِنکاح پر پیغام نہ بھیجے۔ ( ترمذی)
اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیاں انصاف اور عدل نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اس کے بدن کا آدھا حصہ مفلوج ہوگا(ترمذی)۔
کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر اور بیوہ کا نکاح اس کی منشا کے بغیر نہ کیا جائے۔ (بخاری )
جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے اگر وہ اسے دیکھنا چاہے تو دیکھ لے۔ (ابو داؤد )
کوئی عورت اپنا نکاح خود نہ کرے بلکہ نکاح میں والدین کی مرضی بھی شامل کرے۔ (ابن ماجہ)
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ (ترمذی )
عورت کو چاہیے مردِ دین دار ،خوش خلق ،کفالت کے قابل مالدار سخی سے نکاح کرے۔ فاسق بدکار سے نکاح نہ کرے اور نہ کسی بوڑھے سے نکاح کرے (ردالمختار)
نوجوانی میں جلد شادی سے آبادی میں اضا فہ اور رزق کی کمی جیسے سوالات اچھے خاصے پڑھے لکھے اور دین دار گھرانوں میں بھی سوچ و فکر کا باعث بنتا ہے۔ حالانکہ قرآن و حدیث کی تعلیمات تو یہ ہے کہ اس دنیا میں آنے والے تمام انسانوں کو ہر حال میں آنا ہی ہے۔ کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی تمام انسانی روحوں کو اس دنیا میں آنے سے نہیں روک سکتی کیونکہ وہ عالمِ ارواح میں پہلے سے موجود ہیں۔”اور اے نبیﷺ! لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ”کیا میں تمہارارب نہیں ہوں“؟ انہوں نے کہا ”ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں“۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ”ہم تو اس بات سے بے خبر تھے“ (الاعراف ۔ 173)۔
ایک زمانہ تھا جب کسی بستی یا قبیلہ میں زیادہ بچوں والا گھرانہ زیادہ طاقتور اور زیادہ خوشحال تصور کیا جاتا تھا کہ ہر آنے والا کھانے کے لئے ایک منہ کے ساتھ حصول ِرزق کے لئے دو ہاتھ بھی لے کر پیداہوتا ہے۔ مگر جب سے نام نہادجدید تہذیب و تعلیم نے ’کم بچے خوشحال گھرانا‘ کے گمراہ کن نعرہ کو فروغ دینا شروع کیا ہے، تب سے اس تعلیم سے بہرہ ور صاحب حیثیت اور مالدار مگرخود غرض انسانوں نے اپنے اپنے گھروں میں بچوں کی آمد کو روکنا شروع کردیا اور یوںسوسائٹی میں آبادی کا تناسب’ غیر متوازن‘ ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان کی غرض سے حاصل شدہ ’خود مختاری‘ کے اس غلط استعمال کے نتیجہ میں صاحب حیثیت اور مالدار گھرانوں اور معاشروں میں بچوں کی تعداد کم اور غریب و کم پڑھے لکھے لوگوں کے گھروں، بستیوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہونے لگی ہے۔ اس عمل کے ارتقاءکے نتیجہ میں زیادہ مالی وسائل والے ملکوں میں آبادی کم سے کم اور غریب ملکوں میں آبادی کا دباو¿ زیادہ ہونا شروع ہوگیا۔ اس بات کو اس مثال سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی ریلوے پلیٹ فارم پر موجود چند ہزار مسافر وں نے ایک ہی ٹرین پر سوار ہو کر ایک ہی منزل پر جانا ہے اور ٹرین کے آنے پر طاقتور اور صاحب حیثیت لوگ اپنی جسمانی، مالی اور اقتدارکے طاقت کے بل بوتے پر ٹرین کے ڈبوں میں داخل ہوکر ٹرین کے کھڑکی دروازے بند کرنا شروع کردیں تاکہ ان کے ڈبے میں زیادہ لوگ سوارنہ ہوں اور وہ آرام و آسائش کے ساتھ اپنا سفر کر سکیں تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کے نچلے درجوں، غیر بکنگ والی بوگیوں کے اندربلکہ چھتوں پر بھی مسافروں کا رش خطرناک حد تک بڑھ جائے گا۔ لیکن اگر تمام ڈبے مسافروں کی آمد کے لئے یکساں طور پر کھلے رہیں تو تمام مسافر ایک توازن کے ساتھ ہر ڈبے میں سما جائیں گے۔ اسی طرح اگردنیا میں بچوں کی پیدائش کے قدرتی نظام کو مصنوعی طریقوں سے غیر متوازن نہ کیا جائے بلکہ زیادہ وسائل والے انسان زیادہ سے زیادہ بچوں کی پرورش پر آمادہ ہوجائیں تو غریب گھر انوں اور ملکوں میں آبادی کا دباو¿ خود بخودکم ہوجائے گا۔ اسلام ویسے بھی یہ تلقین کرتا ہے کہ زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت سے شادی کی جائے تاکہ دنیا میں بھی امت مسلمہ کی تعداد میں اضافہ ہو اور آخرت میں بھی۔
جہاں تک رزق کی کمی بیشی کا تعلق ہے تو کیا ہمیں یہ معلوم نہیں کہ مال و دولت کی حقیقت چند روزہ سامانِ زندگی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اللہ کا فرمان ہے:لوگوں کے لیے مرغوبات نفس_ عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر،گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ (آلِ عمران۔14)
ہمیں اس بات سے بھی آگاہ ر ہنا چاہئے کہ ہمیں مفلسی سے ڈرانے والا اصل میں کون ہے؟: شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی اُمید دلاتاہے۔ (البقرة ۔ 26)
چنانچہ نہ تو ہمیں افلاس کے ڈر سے شاد ی میں تاخیر کرنی چاہئے نہ ہی شادی کے بعد کم سے کم بچوں والی ’خاندانی منصوبہ بندی‘ کو اپنانا چاہئے کہ ہمیں بھی اور انہیں بھی رزق دینے والا اللہ ہی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ ( بنی اسرائیل۔31)
اپنے بچوں کے رازق ہم نہیں بلکہ ہمارا رب ہے:زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسانہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو ۔(سورة ھود ۔ 6)
اسی طرح شادی کی راہ میں غربت یا مال کی کمی کو رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے کیونکہ خود اللہ اس بات کی ضمانت د ے رہا ہے کہ اگر غریب اللہ پر بھر وسہ کرتے ہوئے نکاح کرے تو اللہ اسے غنی کر دیتا ہے:تم میںسے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے۔(النور۔32)
ایک مومن کو تو ویسے ہی اپنے رزق کے بارے میں پریشان نہیں ہونا چاہئے کہ اس کی پیدائش سے قبل ہی اس کے رزق اور عمر کا تعین ہوچکا ہوتا ہے:سیدنا عبداﷲ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اﷲﷺ نے بیان فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں تمام کی جاتی ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتو ں کے لکھنے کاحکم دیا جاتا ہے۔ اس کاعمل، اس کا رزق، اس کی عمر اور اس کی خوش بختی یا بدبختی۔ (کتاب بدءالخلق، بخاری)۔
ہمارا یہ بھی ایمان ہونا چاہئے کہ ہم اپنا رزق پورا کئے بغیر مر نہیں سکتے: حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا : کوئی متنفس اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اپنا رزق پورا نہ کرلے۔ (شرح السنة، بیہقی)
اللہ نے رزق کے بارے میں قرآن میں بار بار مختلف انداز میں یاد دہانی کروائی ہے جیسے:کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ ان کو رزق دیتا ہے۔ اور تمہارا رازق بھی وہی ہے،وہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔(العنکبوت ۔ 60 )۔
اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ (الروم ۔ 40)
اور کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے؟ اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ (سورة الزُمر۔52)