حقیقی چار میم
شیخ مقصود الحسن فیضی
عَنْ فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالْمُؤْمِنِ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ الْخَطَايَا وَالذَّنُوبَ۔ مسلم:1955
ترجمہ : حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا : کیا میں تمہیں حقیقی مومن کے بارے میں نہ خبر دوں ؟ مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے مال و جان کے بارے میں مطمئن رہیں ، اور حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں، حقیقی مجاہد وہ ہے جو اللہ کی طاعت کے بارے میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور حقیقی مہاجر وہ ہے جو گناہوں اور نافرمانی کے کاموں کو ترک کردے ۔
تشریح : مسلم ، مومن ،مہاجر اور مجاہد یہ چار شرعی مصطلحات ہیں ، جن کے معروف معنی بالترتیب یہ ہیں :
مسلم : یعنی مسلمان وہ شخص ہے جو ارکان اسلام کی ظاہرا و باطنا ً پابندی کرے ، مومن: وہ بندہ ہے جو ارکان ایمان پر ایمان لائے ، مہاجر : وہ شخص ہے جو اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے اپنا ملک اور شہر چھوڑ کر کسی ایسی جگہ منتقل ہوجائےجہاں اسے اللہ کی عبادت کا موقعہ ملے اور مجاہد : وہ ہے جو اللہ تعالی کے راستے میں اپنی جان و مال سے جہاد کرے، ان کلمات کے یہی معانی معروف و متعارف ہیں، لیکن لغت و شرع کے لحاظ سے یہ الفاظ ایک خاص معانی پر دلالت کرتے ہیں جو مذکورہ معانی کے خلاف تو نہیں ہیں البتہ اصلی اسلام ، ایمان اور حقیقی ہجرت و جہاد کے حصول کے لئے ان کا لحاظ ضروری ہے ، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے ۔
[۱] مسلم : بنا ہے سلم سے جس کے معنی حفاظت، سلامتی اور عافیت کے ہے، چونکہ اسلام کو مان لینے اور اس پر عمل کرلینے کے بعد بندہ اللہ تعالی کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے اس لئے اسے مسلم کہتے ہیں، اسی طرح اسلام کے معنی میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ تعالی کے احکام کی پابندی کرنے والا اللہ تعالی کی مخلوق اور خاص کر اشرف المخلوقات یعنی لوگوں کو اور بالاخص اپنے بھائی کواپنے شر سے محفوظ رکھے، خاص کر اپنی زبان سے نہ انہیں گالی دے، نہ ان کی غیبت و چغلی کرے، نہ ان پر الزام تراشی کرے اور نہ ہی ان کی ناجائز شکایتیں حاکم و ذمہ دار تک پہنچاتا پھرے۔
[۲] مومن : بنا ہے امن سے، امن کا معنی ہے بے خوفی اور دل کی تصدیق، چونکہ مومن ارکان ایمان کی تصدیق کرتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی کے عذاب سے محفوظ اور بے خوف ہوتا ہے، اسی لئے اسے مومن کہتے ہیں ۔اسی طرح ضروری ہے کہ حقیقی مومن سے اللہ کی مخلوق امن میں رہے، نہ ہی اس سے کسی مومن کواپنے مال کی چوری کا خوف ہو ، نہ ہی اس میں خیانت سے کام لینےکا ڈر ہو اور نہ ہی اپنی جان اور عزت کا خطرہ ہو ۔
[۳] مہاجر : ہجرت یہ ہے کہ ایک مومن بندہ اپنے دین کی حفاظت کے لئے اپنا ملک یا شہر چھوڑ دے ، گویا ہجرت کی اصل حکمت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی کی اطاعت و عبادت بلاکسی رکاوٹ کے کرسکے اور ایسے لوگوں کی صحبت سے دور رہے جو برے اخلاق و اطوار کے داعی اور پھیلانے والے ہوتے ہیں ۔اگر کوئی شخص ہجرت تو کرتا ہے لیکن گناہ کے کام نہیں چھوڑتا ، واجبات کو ترک کرتا ہے ، فواحش ومنکرات کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ مہاجر کہلانے کا حقدار نہیں ہے بلکہ حقیقی مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالی کی رضا کے لئے ہر چھوٹے بڑے گناہوں کو ترک کردے ، یہ ایسی عام ہجرت ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے ، جب کہ پہلی ہجرت کا موقعہ کسی کسی کو ملتا ہے ۔
[۴] مجاہد : مجاہد کہتے ہیں اللہ تعالی کے راستے میں جان ، مال اور زبان و قلم سے جہاد کرنے والے کو، اس میں سب سے اونچا مقام یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے لڑائی و قتال کی جائے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ جہاد کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ انسان اپنے نفس سے جہاد کرے ،اس طرح کہ اپنے آپ کو عبادت کے کاموں کا پابند بنائے ، برائیوں اور نافرمانی کے کاموں سےدور رکھے،اور اس کام جو تکلیف پہنچے اسے برداشت کرے، پہلا جہاد تو انسان کو وقتا فوقتا پیش آتا ہے البتہ یہ ایساجہاد ہے جس کی ضرورت انسان کو ہر وقت اور ہر لمحہ ہے۔
شیخ مقصود الحسن فیضی
عَنْ فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالْمُؤْمِنِ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ الْخَطَايَا وَالذَّنُوبَ۔ مسلم:1955
ترجمہ : حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا : کیا میں تمہیں حقیقی مومن کے بارے میں نہ خبر دوں ؟ مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے مال و جان کے بارے میں مطمئن رہیں ، اور حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں، حقیقی مجاہد وہ ہے جو اللہ کی طاعت کے بارے میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور حقیقی مہاجر وہ ہے جو گناہوں اور نافرمانی کے کاموں کو ترک کردے ۔
تشریح : مسلم ، مومن ،مہاجر اور مجاہد یہ چار شرعی مصطلحات ہیں ، جن کے معروف معنی بالترتیب یہ ہیں :
مسلم : یعنی مسلمان وہ شخص ہے جو ارکان اسلام کی ظاہرا و باطنا ً پابندی کرے ، مومن: وہ بندہ ہے جو ارکان ایمان پر ایمان لائے ، مہاجر : وہ شخص ہے جو اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے اپنا ملک اور شہر چھوڑ کر کسی ایسی جگہ منتقل ہوجائےجہاں اسے اللہ کی عبادت کا موقعہ ملے اور مجاہد : وہ ہے جو اللہ تعالی کے راستے میں اپنی جان و مال سے جہاد کرے، ان کلمات کے یہی معانی معروف و متعارف ہیں، لیکن لغت و شرع کے لحاظ سے یہ الفاظ ایک خاص معانی پر دلالت کرتے ہیں جو مذکورہ معانی کے خلاف تو نہیں ہیں البتہ اصلی اسلام ، ایمان اور حقیقی ہجرت و جہاد کے حصول کے لئے ان کا لحاظ ضروری ہے ، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے ۔
[۱] مسلم : بنا ہے سلم سے جس کے معنی حفاظت، سلامتی اور عافیت کے ہے، چونکہ اسلام کو مان لینے اور اس پر عمل کرلینے کے بعد بندہ اللہ تعالی کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے اس لئے اسے مسلم کہتے ہیں، اسی طرح اسلام کے معنی میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ تعالی کے احکام کی پابندی کرنے والا اللہ تعالی کی مخلوق اور خاص کر اشرف المخلوقات یعنی لوگوں کو اور بالاخص اپنے بھائی کواپنے شر سے محفوظ رکھے، خاص کر اپنی زبان سے نہ انہیں گالی دے، نہ ان کی غیبت و چغلی کرے، نہ ان پر الزام تراشی کرے اور نہ ہی ان کی ناجائز شکایتیں حاکم و ذمہ دار تک پہنچاتا پھرے۔
[۲] مومن : بنا ہے امن سے، امن کا معنی ہے بے خوفی اور دل کی تصدیق، چونکہ مومن ارکان ایمان کی تصدیق کرتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی کے عذاب سے محفوظ اور بے خوف ہوتا ہے، اسی لئے اسے مومن کہتے ہیں ۔اسی طرح ضروری ہے کہ حقیقی مومن سے اللہ کی مخلوق امن میں رہے، نہ ہی اس سے کسی مومن کواپنے مال کی چوری کا خوف ہو ، نہ ہی اس میں خیانت سے کام لینےکا ڈر ہو اور نہ ہی اپنی جان اور عزت کا خطرہ ہو ۔
[۳] مہاجر : ہجرت یہ ہے کہ ایک مومن بندہ اپنے دین کی حفاظت کے لئے اپنا ملک یا شہر چھوڑ دے ، گویا ہجرت کی اصل حکمت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی کی اطاعت و عبادت بلاکسی رکاوٹ کے کرسکے اور ایسے لوگوں کی صحبت سے دور رہے جو برے اخلاق و اطوار کے داعی اور پھیلانے والے ہوتے ہیں ۔اگر کوئی شخص ہجرت تو کرتا ہے لیکن گناہ کے کام نہیں چھوڑتا ، واجبات کو ترک کرتا ہے ، فواحش ومنکرات کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ مہاجر کہلانے کا حقدار نہیں ہے بلکہ حقیقی مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالی کی رضا کے لئے ہر چھوٹے بڑے گناہوں کو ترک کردے ، یہ ایسی عام ہجرت ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے ، جب کہ پہلی ہجرت کا موقعہ کسی کسی کو ملتا ہے ۔
[۴] مجاہد : مجاہد کہتے ہیں اللہ تعالی کے راستے میں جان ، مال اور زبان و قلم سے جہاد کرنے والے کو، اس میں سب سے اونچا مقام یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے لڑائی و قتال کی جائے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ جہاد کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ انسان اپنے نفس سے جہاد کرے ،اس طرح کہ اپنے آپ کو عبادت کے کاموں کا پابند بنائے ، برائیوں اور نافرمانی کے کاموں سےدور رکھے،اور اس کام جو تکلیف پہنچے اسے برداشت کرے، پہلا جہاد تو انسان کو وقتا فوقتا پیش آتا ہے البتہ یہ ایساجہاد ہے جس کی ضرورت انسان کو ہر وقت اور ہر لمحہ ہے۔