lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
میں نے ایک تھریڈ لکھا تھا جس کا نام تھا
کیا ایسا کرنا ممکن ہے
جس میں ایک عبارت لکھی تھی کہ
وَعَنْ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ اَنَّہٗ کَانَ یَخْتِمُ فِیْ شَہْرِ رَمْضَانَ اِحْدٰی وَسِتِّیْنَ خَتْمَۃً ثَلٰثِیْنَ فِی الْاَیَّامِ وَ ثَلٰثِیْنَ فِی اللَّیَالِیْ وَ وَاحِدَۃً فِی التَّرَاوِیْحِ۔
(فتاوی قاضی خان ج1ص114)
ترجمہ: امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ رمضان مبارک میں اکسٹھ (61) قرآن مجید ختم کرتے تھے، تیس دن میں اور تیس رات میں اورایک تراویح میں۔
لنک یہ ہے
ساتھ ہی صحیح حدیث بھی لکھی تھی صحیح بخاری سے کہ
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ تم روزانہ روزہ رکھتے ہو اور ایک رات میں قرآن پڑھ لیتے ہو ، میں نے کہا یا رسول اللہ یہ سچ ہے اور اس سے مقصول صرف اور صرف نیکی کا حصول ہے آپ صلی اللہ وعلیہ وسلم نے فرمایا داؤد ولیہ السلام والا روزہ رکھو بیشک وہ بندوں میں بڑے عبادت گزار تھےاور مہینہ بھر میں قرآن ختم کیا کرو، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ نے فرمایاتو پھر دس روز میں ختم کر لیا کرو، میں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ! میں تو اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر ایک ہفتے میں ختم کر لیا کرو اور اس سے آگے نہ بڑھو
میرے بھائی جمشید نے اپنے امام کا بھرپور دفاع کیا
الربيع بن سليمان، يقول: كان الشافعي يختم في كل ليلة ختمة فإذا كان شهر رمضان ختم في كل ليلة منها ختمة وفي كل يوم ختمة فكان يختم في شهر رمضانستين ختمة.
أَخْبَرَنَا أبو نعيم الحافظ، قَالَ: حدثنا أبي، قَالَ: حدثنا إبراهيم بن محمد بن الحسن، قَالَ: حدثنا الربيع، قَالَ: كان الشافعي يختم القرآنستين مرة.قلت: في صلاة رمضان؟ قَالَ: نعم.
تاریخ بغداد2/392
کیااس کے بارے میں کیاارشاد فرماتے ہیں علمائے غیرمقلدین۔
امام شافعی تواہلحدیث تھے ۔ وہ کیوں رمضان میں ساٹھ قرآن ختم کرتے تھے اوران کی یہ عادت شریفہ روزانہ ختم قران کرنے کی کیوں تھی؟کیامخالفت حدیث کا الزام صرف امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ والرضوان کیلئے ہی ہے۔کبھی فرصت ملے تو کتب تاریخ ورجال کا جائزہ لیں اوریہ مشکل ہوتو مکتبہ شاملہ میں تراجم وطبقات کومارک کرکے یختم القرآن لکھ کر سرچ کریں ۔ بہت حیرت انگیز انکشاف ہوگا۔ اورشایدآنجناب کی زبان مخالفت حدیث کاالزام لگانے سے قبل کئی مرتبہ سوچ بچار کرے گی۔ ابھی توآنجناب لاعلمی یاجہالت کی وادیوں میں سیر کرتے پھررہے ہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ایک رات میں ختم قرآن کتنے صحابہ کرام ،تابعین عظام اوربعد کے بزرگوں کا معمول رہاہے۔
کچھ اسی قسم کے اورآپ کے ہی برادری کے ایک بزرگ کے انہی بچکانہ اعتراضات کے خلاف مولانا عبدالحی لکھنوی کو ایک کتاب لکھنی پڑی تھی
اقامۃ الحجۃ علی ان الاکثار فی التعبد لیس ببدعۃ
یہ کتاب نیٹ پر دستیاب ہے ۔ڈائون لوڈ کرکے ایک مرتبہ پڑھنے کی زحمت گواراکریں۔ والسلام
جب اس جواب سے کچھ نہ بنا تو پھر یہ جواب دیا
ہم یہ کہیں گے کہ کسی پر اعتراض کرنے سے پہلے اس کا موقف سمجھنے کی کوشش کیجئے اور مولانا عبدالحی کی کتاب کا مطالعہ کیجئے۔جہاں تک آپ کی بات صحابہ کرام سے زیادہ عبادت گزار ہونے کی ہے تواس کی بھی وضاحت کردوں کہ صحابہ کرام بھی ایک رات میں قرآن ختم کیاکرتے تھے۔ یہ رہے کچھ حوالے
تَمِيم بن أَوْس بن خَارِجَة بن مُسَدّد بن جذيمة بن ذِرَاع بن عدي بن الدَّار بن هانىء بن نمارة من لخم الدَّارِيّ لَهُ صُحْبَة من النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم كنيته أَبُو رقية كَانَ يخْتم الْقُرْآن فِي رَكْعَة
رجال صحیح مسلم1/107
امام نووی الاذکار میں لکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے قرآن ایک رکعت میں ختم کیاہے ان میں حضرت عثمان بن عفان بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تابعین عظام کا تو کوئی حد ونہایت ہی نہیں ہے۔
میں ایک بار پھر گزارش کرتاہوں مولاناعبدالحی لکھنوی کی کتاب کو پڑھیں اس کے بعد اپنے اعتراضات کی جولانی دکھائیں۔تاریخ بغداد کا جوحوالہ دکھایاہے۔اس پر ماضی میں بہت بات ہوچکی ہے۔میں نے توتاریخ بغداد کاحوالہ اس لئے دیاتھاکہ آپ کوسند تلاش کرنے میں مشکل نہ ہوتی لیکن آنجناب نے الٹی فہم سے الٹاکام لیا۔اورجھٹ سے ابن ابی دائود کا حوالہ دے دیا
ورنہ یہی بات کہ امام شافعی رمضان وغیرہ میں ساٹھ قرآن ختم کرتے تھے۔ سیر اعلام النبلاء ،تہذیب الکمال اوردیگر کتابوں میں موجود ہے۔
جہاں تک حدیث کے سمجھنے کی بات ہے تویہ بھی سمجھیں کہ ضروری نہیں کہ آپ کی جوسمجھ ہو وہ ہمارے سلف صالحین کی بھی سمجھ ہو۔ سلف صالحین کی ایک معتدبہ تعداد ایک رات میں قرآن ختم کرنے پر عامل رہی ہے۔ یاتوان سب کو بدعتی مان لیں اوریہ غیرمقلدین کے فرقہ سے کوئی بعید بھی نہیں ہے وہ اپنی بات کی پچ اورضد میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں یاپھر یہ سمجھیں کہ اس حدیث کے راوی عبداللہ بن عمرو بن العاص نے جوسمجھاہے یعنی آنحضرت کی یہ بات بطور رخصت کے تھی ۔ اورعزیمت یہ تھاکہ زیادہ سے زیادہ عبادت میں کوشش کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص جواس حدیث کے راوی اول ہیں وہ بوڑھاپے میں کہتے تھے۔
وددت انی قبلت رخصت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
اے کاش میں رسول پاک کی رخصت قبول کرلیتا۔
یعنی انہوں نے بھی سات دن میں قران پاک کو ختم کرنارخصت سمجھاہے عزیمت نہیں سمجھاہے۔اوردوسری بات یہ ہے کہ عظیم محدثین کرام بھی ایک رات میں قرآن ختم کرنے پر عامل تھے مثلا وکیع بن الجراح ۔یحیی بن سعید القطان ایک رات میں قرآن ختم کرتے تھے۔ یاتویہ مان لیں کہ یہ حدیث ان کو پہنچی نہیں یاپھریہ مان لیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر مخالفت کی یاپھر یہ مان لیں کہ انہوں نے اس حدیث وہ سمجھاجولولی آل ٹائم نہیں سمجھ سکے ہیں۔
جوبھی بہترشق لگے مان لیں اوربحث ختم کریں۔
میرے پاس زیادہ فرصت نہیں ہے۔ والسلام
لیکن جمشید صاحب نے لگتا ہے کہ اپنی فقہ شریف کی کتابیں نہیں پڑھی ہوئی ہیں
اس لیے بیچارے کو پتا ہی نہ چلا کہ اپنا ترجمہ کی ہوئی کتاب فتاوی عالمگیری
میں بھی ایک روز میں قرآن ختم کرنے کو مکروہ کہا گیا ہے
اب جمشید صاحب بتایں کہ ہم کس کی مانیں
فتویٰ قاضی خان کی
فتویٰ عالمگیری کی
یا صحیح احادیث کی
اور یہ بھی بتا دیں کہ کیا امام ابو حنیفہ رحم اللہ نے فقہ حنفی کے مطابق مکروہ کام کیا
۔