ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 642
- ری ایکشن اسکور
- 197
- پوائنٹ
- 77
حنفیہ اور جمہور فقہاء کے نزدیک اختلاف مطالع معتبر نہیں
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اختلافِ مطالع کے مسئلے پر فقہائے کرام کے درمیان طویل بحث رہی ہے، اور اس سلسلے میں حنفیہ اور جمہور فقہاء کا موقف واضح اور مستحکم ہے کہ اختلافِ مطالع معتبر نہیں، بلکہ ایک جگہ چاند دیکھے جانے کے بعد دوسرے علاقوں پر بھی اس کی پیروی لازم ہوتی ہے۔ اس مؤقف کی تائید متعدد اکابرینِ فقہ نے کی ہے۔
علامہ علاء الدین الحصکفی الحنفی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب الدر المختار میں فرماتے ہیں:
(واختلاف المطالع) ورؤيته نهارا قبل الزوال وبعده (غير معتبر على) ظاهر (المذهب) وعليه أكثر المشايخ، وعليه الفتوى. بحر عن الخلاصة (فيلزم أهل المشرق برؤية أهل المغرب) إذا ثبت عندهم رؤية أولئك بطريق موجب.
اور مطالع کا اختلاف اور دن کے وقت زوال سے پہلے یا زوال کے بعد اس کی رویت (دیکھنا) ظاہر مذہب کے مطابق معتبر نہیں۔ اسی پر اکثر مشائخ ہیں اور اسی پر فتویٰ ہے۔ اور 'بحر' میں 'الخلاصة' سے مروی ہے۔ اور اہلِ مغرب کے چاند دیکھنے سے اہلِ مشرق پر روزہ رکھنا واجب ہو جائے گا جب اہلِ مشرق کے نزدیک اہلِ مغرب کی رویت ایسے طریقہ پر ثابت ہو جو ان پر روزہ رکھنے کو واجب کردے۔
[الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار - الحصفكي، ص: ١٤٥]
پس واضح ہوا کہ اختلافِ مطالع کی کوئی حیثیت نہیں اور ایک جگہ چاند نظر آنے کے بعد سب مسلمانوں پر روزہ رکھنا لازم ہو جائے گا۔
علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ اس مسئلہ میں تین اقوال نقل کر کے دوسرے قول کو صحیح قرار دیتے ہیں:
لا يعتبر اختلافها بل يجب العمل بالأسبق رؤية حتى لو رئي في المشرق ليلة الجمعة، وفي المغرب ليلة السبت وجب على أهل المغرب العمل بما رآه أهل المشرق . . . وظاهر الرواية الثاني وهو المعتمد عندنا وعند المالكية والحنابلة لتعلق الخطاب عملا بمطلق الرؤية في حديث «صوموا لرؤيته» بخلاف أوقات الصلوات، وتمام تقريره في رسالتنا المذكورة.
مطالع کے اختلاف کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ رویت میں جو سبقت لے جائے اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ یہاں تک کہ اگر مشرق میں جمعہ کی رات چاند دیکھا جائے اور مغرب میں ہفتہ کی رات چاند دیکھا جائے تو اہلِ مغرب پر واجب ہوگا کہ وہ اس کے مطابق عمل کریں جو اہل مشرق نے دیکھا ہے۔ ۔ ۔ ظاہر روایت دوسرا قول ہے اور وہی قول ہمارے نزدیک، مالکیہ کے نزدیک اور حنابلہ کے نزدیک معتمد ہے۔ کیونکہ حدیث میں خطاب مطلق رویت کے متعلق ہے جبکہ خطاب عام ہے: «صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ» (چاند دیکھ کر روزہ رکھو)۔ تاہم نماز کے اوقات کا معاملہ مختلف ہے اور اس کی مکمل وضاحت ہمارے مذکورہ رسالہ میں ہے۔
[حاشية ابن عابدين: «رد المحتار» ج : ٢، ص : ٣٩٣]
حدیثِ نبوی «صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ» میں کسی جگہ کی تخصیص نہیں بلکہ عمومی خطاب ہے۔ علامہ ابن عابدین کے بیان کے مطابق، حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک مطالع کا اختلاف قابلِ اعتبار نہیں ہے، اور یہی قول معتمد ہے۔ اس کے برعکس اختلافِ مطالع کو معتبر ماننے والے ایک محدود رائے رکھتے ہیں، جو جمہور کے موقف سے متصادم ہے۔
اگر اختلافِ مطالع کو معتبر مان لیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ دنیا میں ایک ہی دن مختلف جگہوں پر چاند کی رویت مختلف ہوگی، جس سے روزوں اور عید کے ایام میں شدید اختلاف پیدا ہو جائے گا، جبکہ شریعت کا مزاج اجتماعیت کو قائم رکھنے پر زور دیتا ہے۔
اخبرني محمد بن إسماعيل، حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا إسحاق بن جعفر بن محمد، حدثني عبد الله بن جعفر، عن عثمان بن محمد الاخنسي، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الصوم يوم تصومون والفطر يوم تفطرون والاضحى يوم تضحون ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صیام کا دن وہی ہے جس دن تم سب روزہ رکھتے ہو اور افطار کا دن وہی ہے جب سب عید الفطر مناتے ہو اور اضحٰی کا دن وہی ہے جب سب عید مناتے ہو“۔
قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وفسر بعض اهل العلم هذا الحديث، فقال: إنما معنى هذا ان الصوم والفطر مع الجماعة وعظم الناس.
امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے اور بعض اہل علم نے اس حدیث کی تشریح یوں کی ہے کہ صوم اور عید الفطر اجتماعیت اور سواد اعظم کے ساتھ ہونا چاہیئے۔
[سنن ترمذي، كتاب الصيام، حدیث: ٦٩٧]
مذکورہ دلائل کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ اختلافِ مطالع کو معتبر ماننے کا موقف کمزور اور غیر مستند ہے۔ جمہور فقہاء بشمول حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کا متفقہ فیصلہ یہی ہے کہ چاند ایک جگہ نظر آ جائے تو وہ تمام مسلمانوں کے لیے حجت ہوتا ہے، بشرطیکہ اس کی رویت معتبر شرعی ذرائع سے ثابت ہو جائے۔ لہٰذا، امتِ مسلمہ کو اس مسئلے میں جمہور کے معتمد اور مستند فقہی موقف کو اختیار کرنا چاہیے تاکہ روزے اور عید کے اوقات میں یکجہتی برقرار رہے۔