السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اول تو نکاح خواں کا ہونا شرائط نکاح میں سے نہیں! نکاح خواں دراصل نکاح رجسڑار کا کام کرتا ہے!
اور اس میں کوئی قباحت نہیں!
دوم کہ نکاح خواں یا رجسڑار کا حنفی ، دیوبندی یا بریلوی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا! اگر شرائط نکاح مکمل ہوں!
سوم کہ دیوبندی ہوں یا بریلوی ان کی تکفیر معین نہیں کی جاتی،یعنی کہ جماعت دیوبندیہ یا بریلویہ کی تکفیر نہیں کی جاتی اور نہ ہی ان سے منسوب ہر شخص پر اس جماعت کے مذمومہ عقائد کا قائل قرار دیا جاتا ہے!
رہی بات دیوبندی یا بریلوی کے پیچھے نماز کے نہ ہونے کا مسئلہ تو اس میں بھی تفصیل ہے!
میں اس مسئلہ میں اپنا مؤقف تحریر کر دیتا ہوں:
میں اپنی ذات کے لئے علمائے دیوبند و بریلویہ کی اقتداء میں نماز کا قائل نہیں!
کہ اگر وہ عالم ہیں تو انہیں اپنے عقائد کا علم ہونا چاہیئے! اور جب انہیں علم بھی ہو اور قائل بھی ہو تو میری نماز ان کے پیچھے نہیں ہوتی، کیونکہ مجھے ان عقائد کے کفر ہونے کا علم ہے!
لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ دوسروں کی بھی نہیں ہوتی! کیونکہ دوسروں کو ان کے عقائد کا علم نہ ہو! یا اس پر ان عقائد کا کفر ہونا واضح نہ ہوا ہو!
لہٰذا میں دوسروں کی نماز کے متعلق یہ نہیں کہتا کہ ان کی نماز علمائے دیوبند و بریلویہ کے پیچھے نہیں ہوتی، بلکہ میں اپنے متعلق کہتا ہوں کہ میری نماز علمائے دیوبند و بریلویہ کے پیچھے نہیں ہوتی!
باقی رہے عوام! تو دیوبندی عوام میں تو اکثر ان عقائد کو نہ جانتے ہیں، اور نہ مانتے ہیں، اور نہ ایسے کسے عمل کے قائل و فاعل ہیں!
رہی بریلوی عوام تو ان میں شرکیہ اعمال و عقائد پائے جاتے ہیں، لیکن ان کی جہالت ان کے لئے عذر ہے!
بہر حال بہتر یہی ہے دیوبندی ہو یا بریلوی، ان کے علماء ہوں یا عوام ، انہیں مستقل امام نہ بنایا جائے!
شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کی کتاب
امام صحیح العقیدہ ہونا چاہیئے کا مطالعہ مفید رہے گا!