• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکام کی ظلم و زیادتی پر صبر ، اہل سنت کے اصول میں سے ہے !

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

حمد و ثنا کے بعد!

صبر : لغوی معنی : روکنا
اصطلاحی معنی : نفس کو پریشانی اور ناراضگی کے اظہار زبان کو شکوہ و شکایت اور اعضاء بدن کو گھبراہٹ کے اظہار سے روکنا۔
صبر کی تین اقسام ہیں :
1۔ اللہ تعالی کی اطاعت پر صبر
2۔ اللہ تعالی کی نافرمانی سے بچنے پر صبر
3۔ اللہ تعالی کے فیصلوں پر صبر
پہلی اقسام انسانی قدرت و اختیار میں جبکہ تیسری قسم میں بندے کا اپنا اختیار نہیں ہوتا ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں : جب بھی مجھ پر کوئی مصیبت آئی، میں نے اس میں تین نعمتیں پائیں :
1۔ وہ مصیبت ( آفت ) میرے دین میں نہیں آئی
2۔ وہ پہلی پریشانی سے بڑی نہیں تھی
3۔ بے شک اللہ تعالی اس پر بڑا اجر و ثواب عطا کریں گے ۔
پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ ١٥٥؁ۙالَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ١٥٦؁ۭ
اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دے ، وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لئے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدائت پانے والے ہیں ۔ ح(البقرہ:155-156)
حکمرانوں کے ظلم و ستم پر صبر کرنا ان سے جنگ نہ کرنا اور ان کی جماعت کا لزوم ، اہل السنۃ و الجماعۃ کے بنیادی اصول میں سے ہے اور یہ پہلی قسم کا صبر ہے اس لئے کہ اللہ تعالی اور اسکے نبی ﷺ نے اس کا حکم دیا ہے ۔ آپ کوئی سنت کا مصنف اور مؤلف ایسا نہیں دیکھیں گے جو اس بنیادی اصول کی تائید نہ کرتا ہو،اور اس کی ترغیب نہ دیتا ہو ، اور اس بارے میں أحادیث تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہیں ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ؎جو شخص اپنے امیر کی کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تو اس پر صبر کرے پس بے شک جس نے ایک بالشت بھی جماعت کو چھوڑا ( مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوا) پھر اسی حالت میں مر گیا تو یہ جاہلیت کی موت مرے گا (متفق علیہ)
أسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک انصاری رسول اللہ ﷺ کو خلوت میں لے گیا اور کہا: جس طرح آپ نے فلاں شخص کو کام پر لگا یا ہے مجھے بھی کسی کام پر لگا دیں ( مجھ سے کوئی کام لیں )
آپ ﷺ نے فرمایا : میرے بعد تم ترجیح دیکھو گے پس صبر کرنا یہاں تک کہ حوض پر تم مجھ سے آ ملو ۔ ( متفق علیہ )
عمر بن یزید رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے حسن بصری رحمہ اللہ سے سنا، یزید بن مہلب کے ( ظلم و ستم کے ) ایام میں ، جب ان کے پاس ایک جماعت آئی ، آپ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے گھروں کو لازم پکڑیں اور اپنے اوپر گھروں کے دروازے بند کر لیں ، پھر فرمایا : اللہ کی قسم ! بے شک اگر لوگ اپنے سلطان ( حکمران ) کی طرف سے آزمائش میں ڈالے جانے پر صبر کریں تو اللہ تعالی جلد ہی ان سے وہ آزمائش ختم کر دیتا ہے ، اور یہ ( پریشانی ) اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ تلوار کی طرف ( گھبرا کر ) لپکتے ہیں تو اس ( تلوار ) کے سپرد کر دئیے جاتے ہیں ، اللہ کی قسم ! یہ لوگ کوئی خیر کا دن نہیں لاتے ۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی :
وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا ۭ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ بِمَا صَبَرُوْا ۭوَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ ١٣٧؁
اور تیرے رب کی بہترین بات بنی اسرائیل پر پوری ہو گئی ، اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور ہم نے برباد کر دیا جو کچھ فرعون اور اسکے لوگ بناتے تھے اور جو عمارتیں وہ بلند کرتے تھے ۔ (الأعراف ۔137)
فقہاء بغداد عباسی خلیفہ الواثق کے دور میں ابو عبداللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس آئے اور کہا معاملہ سخت ہو چکا اور پھیل چکا ( عام ہو چکا ہے )۔ وہ چاہتے تھے خلق قرآن کے عقیدے کا اظہار کر دیں ، اور اس کے سوانہ ہم اسکی امارت اور نہ اسکی حکمرانی پر راضی ہیں ۔
آپ نے اس میں ان سے مناظرہ کیا اور فرمایا : تم اپنے دلوں میں اس کا انکار کرو ، اور اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچو مسلمانوں کی لاٹھی ( قوت ) کو نہ توڑو ، اپنااور اپنے ساتھ مسلمانوں کا خون نہ بہاؤ ، اپنے انجام پر نظر رکھو ، صبر کرو یہاں تک کہ نیک لوگ راحت پائیں ، اور فاجر و بدکار سے جان چھوٹ جائے اور فرمایا: خلیفہ کی اطاعت سے انکار اور ہاتھ کھنچنا درست نہیں ہے یہ طریقہ آثار ( صحابہ و تابعین کے أقوال و آراء ) کے خلاف ہے ۔
الآ داب الشرعیہ ، لا بن مفلح ( 76/1 ) الخلال فی ’’ السنۃ‘‘ ( ص133)

بشکریہ: ٹرو منہج ڈاٹ کام
 
Top